• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حکومت کی توجہ ایکسپورٹ پالیسی بنانے کی بجائے ڈیوٹی لگاکر اکٹھا کرنے پر ہے، مقررین

کراچی (جنگ فورم) بجٹ میں عوام اور صنعت کاروں کے لیے کوئی سہولت نہیں، لیدر، ٹیکسٹائل اور سرجیکل آلات سمیت دیگر صنعتوں کو زیرو ریٹڈ کرنا قابلِ تعریف ہے، مگر حکومت کی توجہ ایکسپورٹ پالیسی بنانے کے بجائے ڈیوٹی لگا کر ریونیو اکٹھا کرنے پر ہے۔ حکومت نے مجبوری کے تحت بجٹ میں زراعت کے حوالے سے بہتر پالیسیوں کا اعلان کیا، چھ سال پہلے کے اور موجودہ بجٹ میں کوئی فرق نہیں، بجٹ میں عوام کی بنیادی سہولتوں تعلیم، صحت اور امن و امان کو نظر انداز کیا گیا۔ ان خیالات کا اظہار گزشتہ دنوں انڈس یونیورسٹی میں پوسٹ بجٹ کے تحت ’’بجٹ کس کا؟‘‘ کے زیرِ عنوان ہونے والے جنگ فورم میں شامل مقررین نے کیا۔ مقررین میں انڈس یونیورسٹی کے چانسلر، خالد امین، ایف پی سی سی آئی کے سابق نائب صدر، وسیم وہرہ، چیئرمین ٹیسوری گروپ اور سابق چیئرمین، جیم اینڈ جیولرز ایسوسی ایشن، اختر ٹیسوری، ایف پی سی سی آئی کے سابق صدر، زکر یا عثمان اور ’’کاٹی‘‘ کے سابق چیئرمین، حسیب خان شامل تھے۔ فورم کی میزبانی جنگ فورم کراچی کے ایڈیٹر اکرم خان نے کی۔ اس موقع پر خالد امین کا کہنا تھا کہ ایسا لگتا ہے کہ ایک خاص طبقہ بجٹ تیار کرتا ہے، وہی اس کی تعریف کرتا ہے اور ایک خاص طبقہ ہی بجٹ کی مخالفت کرتا ہے، جبکہ عوام کا بجٹ سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے۔ عوام کو بجٹ سے کوئی امید نہیں۔ عوام پانی، صحت اور بجلی جیسی بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں۔ اختر ٹیسوری نے کہا کہ لیدر، ٹیکسٹائل اور سرجیکل آلات سمیت دیگر صنعتوں کو زیرو ریٹڈ کرنا قابلِ تعریف ہے، مگر ایکسپورٹ پالیسی کو ڈیفائن نہیں کیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری مجموعی برآمدات یعنی 25بلین ڈالرز کے مساوی صرف بھارت کی جیولری کی ایکسپورٹ ہے۔ حکومت کی توجہ ایکسپورٹ پالیسی بنانے کے بجائے ڈیوٹی لگا کر ریونیو اکٹھا کرنے پر ہے۔ وسیم وہرہ نے کہا کہ مشینری کو زیر و ریٹڈ کرنے کے حوالے سے حکومت نے ہماری بعض تجاویز قبول کی ہیں، مگر صنعت کاروں کی ٹیکس تجاویز پر پوری طرح عمل نہیں کیا۔  اسے ایک متوازن بجٹ کہا جا سکتا ہے۔ زکریا عثمان کا کہنا تھا کہ بجٹ میں حکومت کا ویژن نظر نہیں آتا۔ ہمیشہ کی طرح روایتی اعدادوشمار پر اکتفا کیا گیا۔
تازہ ترین