کرپشن کا خاتمہ ایک مسلسل پراسس ہوتا ہے۔ مہذب معاشروں میں کرپشن کا خاتمہ ایک ٹارگٹ نہیں ہوتا۔کیونکہ معاشرتی قدروں کو ایک مسلسل پراسس کے ذریعے ہی بدلا جاسکتا ہے۔ عمومی تاثر بنایا گیا تھا کہ 2008سے 2018تک جمہوری حکومتوں کے دوران ریکارڈ کرپشن کی گئی۔حالانکہ عوامی رائے کا کوئی سروے اٹھا کر دیکھ لیں،2018سے 2022تک قائم ہابرڈ رجیم میںکی جانے والی کرپشن گزشتہ 75سالوں کی سب سے بڑی کرپشن تھی۔پس ثابت ہوا کہ کبھی جمہوریت کرپشن کا باعث نہیں بنتی اور نہ ہی جمہوریت کو ختم کرکے کرپشن کوختم کیا جاسکتا ہے۔تمام ترقی یافتہ ممالک نے جمہوریت کے تسلسل کے ذریعے ہی کرپشن کو کم کیا ہے۔عدلیہ و دیگر ادارو ں کو استعمال کرکے 2017میں جس طرح جمہوری حکومت اور منتخب وزیراعظم کو کرپشن کے نام پر نااہل کروایا گیا،پاکستان دوبارہ ٹریک پر نہیں چڑھ سکا۔بلکہ گزشتہ چار سالوں کے دوران کرپشن کے خاتمے کے نام پر عمران خان صاحب نے معیشت کاجو حشر کیا ہے۔آنے والی کئی حکومتیں اس کا خمیازہ ادا کرتی رہیں گی۔عمران خان حکومت نے معاشی بنیادوں پراتنا نقصان پہنچایا ہے جس کا کوئی اندازہ بھی نہیں لگاسکتا۔
آج میاں شہباز شریف مسلم لیگ ن کے وزیراعظم ہیں۔مسلم لیگ ن پاکستان کی مقبول ترین سیاسی جماعتوں کی فہرست میں شامل ہے۔پنجاب کے عوا م کی اکثریت کی ہمدردی اس جماعت کے ساتھ رہی ہے۔عوام نے پیپلزپارٹی و دیگر جماعتوں کے مقابلے میں ہمیشہ مسلم لیگ ن کو اس لئے ووٹ دیا کہ مسلم لیگ ن ہمیشہ بہتر گورننس کا مظاہرہ کرتی رہی اور کرپشن کی شکایات بھی بہت کم رہیں۔آج شہباز صاحب کی کابینہ میں شامل تمام وزراء کی اچھی اور بری کارکردگی کا کریڈٹ شہباز شریف کے حصے میں آنا ہے۔اتحادی حکومت کی بہت مجبوریا ں ہوتی ہیں مگر کسی بھی اتحادی جماعت کے وزراء کو بے لگام نہیں چھوڑا جاسکتا۔مولانا فضل الرحمان ایک زیرک اور دانا سیاستدان ہیں۔ہمیشہ شرافت و دیانت داری سے زندگی بسر کی ہے۔ان کی نئی نسل کی بھی ذمہ داری ہے کہ اپنے بزرگوں کی تقلید کریں۔بلکہ مولانافضل الرحمان صاحب کو خود اپنی جماعت کی وزارتوں کی کارکردگی و کارگزاری پر نظر رکھنی چائیے۔اسی طرح شہباز صاحب کو بھی اپنی جماعت کے کچھ وزراء کی کڑی نگرانی کرنی چائیے۔ملک کی مستند ترین انٹیلی جنس ان کے ماتحت ہے۔جن وزراء کی شکایات وزیراعظم تک پہنچ رہی ہیں،آزادانہ انٹیلی جنس رپورٹ منگوا کر نہ صرف اس کا جائزہ لیں بلکہ کرپشن کی شکایات پر وزراء کو برطرف کریں۔گزشتہ 12سالوں سے شہباز شریف کو بہت قریب سے جانتا ہوں۔اگر کوئی ایک بندہ ان کے قریب نہیں رہ سکتا تو وہ کرپٹ آدمی ہے۔ذاتی طور پر کئی معاملات کا شاہد ہوں کہ کرپشن شہبازشریف کے قریب سے بھی نہیں گزری،مگر شاید اتحادی حکومت کی مجبوریاں اور معیشت کی وجہ سے آپ اتنے پریشر میں ہیں کہ ان چیزوں پر نظر نہیں رکھ پارہے۔
آپ کو ان معاملات پر باقاعدہ توجہ دینا ہوگی۔ دن بدن شکایات بڑھتی جارہی ہیں۔یہ نہ ہو کہ یہ شکایات کسی بڑے اسکینڈل کا روپ دھاریں۔ ان کابروقت سدباب اشدضروری ہے۔ اسی طریقے سے معیشت کو درست ٹریک پر ڈالنا ایک بڑا چیلنج بن چکا ہے۔ملک کی کارباری برادری کو اکٹھا کریں اور مشکل فیصلے لیں۔بڑے کاروباری افراد کے مشوروں سے معاشی پالیسیاں ترتیب دیں۔عوام ظاہری نتیجے پر یقین رکھتے ہیں۔بہتر ہوگا کہ آج سے معاملات کو درست کرنے کا آغاز کریں،سلمان شہباز کی واپسی آپکی فیملی کے لئے ایک نیک شگون ہے۔معیشت کو بہتر بنانے کے حوالے سے ایک تھنک ٹینک تشکیل دیں،جس میں انہیں بھی شامل کریں اور ان کے زرخیز مشوروں سے استفادہ کریں۔آپکا میڈیا کا شعبہ بہت کمزور ہے۔ گزشتہ 9ماہ کے دوران آپکی میڈیا ٹیم کی کارکردگی ایک سوالیہ نشان بنی رہی ہے۔آپکی میڈیا ٹیم کسی معاملے پر کوئی مضبوط بیانیہ نہیں بنا سکی۔نہ ہی عمران حکومت کی ناکامیوں کے حوالے سے کوئی جاندار بیانیہ سامنے آسکا اور نہ آپکی کارکردگی و بہترین سفارتکاری کو صحیح معنی میں اجاگر کیا جاسکا۔آپ ذاتی طور پر بھی اپنی میڈیا ٹیم کی کارکردگی کے حوالے سے آزادانہ رپورٹ منگوا کر جائزہ لے سکتے ہیں۔اب وقت ہے کہ اپنی میڈیا ٹیم میں تبدیلی لے کر آئیں۔ کیونکہ آپکا مخالف جس نے کرپشن کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی،معیشت کا بیڑا غرق کردیا،آج بھی اس کا بیانیہ سر چڑھ کر بول رہا ہے۔وجہ صرف ایک ہے کہ اسکے پاس میڈیا مینجمنٹ اور قابل لوگوں کی ٹیم ہے ۔پرنٹ،الیکٹرانک اورڈیجیٹل میڈیا ٹیم میںبہتری لائے بغیر اپنے حریف کا مقابلہ کرنا بہت مشکل ہوگا۔بہتر ہوگا کہ وقت سے پہلے وقت کی نبض پر اپنی گرفت مضبوط کرلیں۔وگرنہ داستاں بھی نہ ہوگی داستانوں میں۔۔۔
کچھ ایسے بھی اٹھ جائیں گے اس بزم سے جن کو
تم ڈھونڈنے نکلو گے مگر پا نہ سکو گے۔۔۔۔