کوئی دو ماہ قبل بذریعۂ ڈاک ایک کتاب ہم تک پہنچی، کھول کر دیکھا تو یہ عارف شفیق کی کتاب ’’یقین‘‘ تھی، جو اُنہوں نے اپنے دستخط کے ساتھ ہمارے مطالعے کے لیے بھیجی تھی، ہم اُن کی اس عنایتِ خسروانہ سے متاثر تو بہت ہوئے، لیکن جب ہم نے اس شعری مجموعے کے اوراق پلٹ کر دیکھے تو معلوم ہوا کہ ساڑھے پانچ سو صفحات پر محیط یہ مجموعہ، عزیزی عارف شفیق کی پانچ سو غزلوں پر مشتمل ہے تو ہم نے یہ کتاب اٹھا کر فرصت کے بہتر اوقات میں مطالعے کے لیے الگ سے رکھ دی، ظاہر ہے کہ بھاگ دوڑ اور مصروفیت کی اس زندگی میں اور اس عمر میں پانچ سو غزلوں کی مار سہنے کی ہمت ہم میں نہیں تھی۔
یہ بات بھی نہیں ہے کہ ہم جوش ملیح آبادی کی طرح، صنفِ غزل کے مخالف ہیں۔ جوش ملیح آبادی، اپنی اس مخالفت کا اظہار یہ واقع بیان کرکے کیا کرتے تھے کہ فانی بدایونی سے ایک بار اُن کی ملاقات ہوئی، فانی صاحب نے اُن سے حال احوال پوچھا تو بقول اُن کے جوش صاحب نے کہا ’’میرے جوتے میں کیل نکل آیا ہے، آٹا مہنگا ہو گیا ہے، گرمی اور حبس کی شدت میں اضافہ ہو رہا ہے‘‘۔ جب فانی نے پوچھا کہ کیا بک رہے ہو تو جوش نے جواب دیا، غزل عرض کر رہا ہوں، اُن کا اشارہ غزل کے ہر شعر کے الگ الگ مضمون ہونے کی طرف تھا۔ ہماری سوچ ہرگز یہ نہیں ہے کہ ہم تو میر، سودا، غالب، ناصر کاظمی، فیض اور فراز کی غزلوں کے شیدائی ہیں۔
اس کے باوجود 500 غزلوں کے مجموعہ پڑھنے کی ہمت نہ ہونے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ بقول گوپی چند نارنگ، غزلیہ اشعار کے فقط بارہ پندرہ موضوعات ہیں، شعراء حضرات صدیوں سے انہی پر طبع آزمائی کررہے ہیں۔ گزشتہ چند برسوں میں البتہ غیر روایتی اشعار بھی پڑھنے کو ملے، ظفر اقبال نے اس سلسلے میں بہت کام کیا ہے، تاہم غزل گو شعراء کی اکثریت روایتی موضوعات تک ہی محدود چلی آرہی ہے، اس لیے ہم عارف شفیق کے مجموعے ’’یقین‘‘ کے مطالعے کے لیے اپنے آپ کو تقریباً دو ماہ بعد آمادہ کرسکے ’’یقین‘‘ کا جب ہم نے مطالعہ کیا تو تنگنائے غزل میں وسعتیں پیدا کرنے کی اس کوشش سے ہمیں بہت خوشگوار قسم کی حیرت ہوئی، عارف شفیق کی تمام شاعری غزل کے غیر روایتی اشعار سے بھری پڑی ہے، اگرچہ کہیں کہیں اُن کے ہاں بھی روایتی قسم کے اشعار موجود ہیں، مثلاً؎
وہ بے وفا تھا تو میں کب تلک وفا کرتا
بھلا نہ دیتا اُسے میں تو اور کیا کرتا
لیکن پورے مجموعے میں ایسے اشعار گنتی کے ہی ہیں اور غور سے دیکھا جائے تو یہ موضوع یا لہجہ بھی کوئی اتنا روایتی نہیں ہے، باقی تو ساری غزلیں غیرروایتی اشعار سے بھری پڑی ہیں، اپنے ایک شعر کے ذریعے اس نے اپنی زندگی اور غزل گوئی کا مقصد بھی متعین کردیا ہے، وہ شعر ہے؎
ہر ایک ہاتھ میں ہتھیار ہوں جہاں عارف
مجھے قلم سے وہاں انقلاب لانا ہے
شعر گوئی میں اپنی الگ راہ نکالنے کا اظہار اس کے اس شعر سے بھی ہوتا ہے؎
سرہانے یوں تو میں بھی میر کا دیوان رکھتا ہوں
مگر شعروں میں اپنی اک الگ پہچان رکھتا ہوں
اپنے طویل اظہاریے میں شاعر نے اپنا منشور، جن الفاظ میں پیش کیا ہے، اس سے اس کی واضح سوچ کا اظہار ہوتا ہے، وہ لکھتا ہے ’’میں سچ بولوں گا، سچ لکھوں گا، میرا ایک سچ میرے بعد آنے والی نسلوں کو گمراہی کے عذاب سے بچا سکتا ہے، اگر میں اس زمین پر درندوں کی بجائے انسان کا راج دیکھنا چاہتا ہوں تو مجھے سچ لکھنا ہو گا، بس اس طرح میں اپنے جرم کا ازالہ کرسکتا ہوں۔ ہم مجرم ہیں انسانیت کے قاتل ہیں، ہماری ساری زندگی ایک دوسرے سے جنگ کرتے گزر گئی۔
ہمارے ایٹمی ہتھیاروں نے اس مقدس زمین کو انسان کے لہو سے نہلادیا۔ ہمیں اس زمین کی بددعا ہے، یہ زمین جو کبھی جنت تھی، ہم نے اسے جہنم بنادیا۔ مجھے آنے والی نسلوں کو اس جہنم میں جلنے سے بچانا ہے‘‘۔ عارف شفیق کے اس عزم کی بازگشت اس کے اشعار میں جگہ جگہ ملتی ہے، افسوس ہے کہ اس مختصر مضمون میں زیادہ اشعار بطور نمونہ پیش کرنے کی گنجائش نہیں، تاہم دوچار اشعار ہی سے اندازہ ہوجائے گا کہ متذکرہ مجموعہ اردو غزل کا نیا آہنگ ہے؎۔
جسے دیکھا وہ اپنی ذات کے زنداں کا قیدی تھا
یہ سارا شہر ہی اپنا حوالاتی لگا مجھ کو
……٭……٭……
میں شاعر تھا، دنیا سے مرا اک رشتہ تھا، جو سچّا تھا
کہیں آگ لگی، کہیں خون بہا تو میں نے شعر لکھا
……٭……٭……
مذہب کو بنیاد بنا کر شب خوں مارنے والے دیکھ
آگ اور خون میں ڈوبے ہوئے ہیں، گھر بھی اور مساجد بھی
……٭……٭……
جدا ہے مذہب زباں جدا ہے جدا ہے رنگت
پھر ایک جیسا ہر ایک انساں کا خوں ہے کیسے
……٭……٭……
مصلحت اوڑھے ہوئے چپ ہیں مرے دانش ور
سچ کا اظہار، سرِدار کروں گا میں ہی
ایسے سیکڑوں اشعار اس مجموعے میں موجود ہیں، جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ غزل میں بھی آج کے دور کے معاملات و مسائل بیان کیے جا سکتے ہیں اور لکھنے والا اگر دل درد مند رکھتا ہو تو اس کی بات اثر بھی رکھتی ہے۔
معزز قارئین! آپ سے کچھ کہنا ہے
ہماری بھرپور کوشش ہے کہ میگزین کا ہر صفحہ تازہ ترین موضوعات پر مبنی ہو، ساتھ اُن میں آپ کی دل چسپی کے وہ تمام موضوعات اور جو کچھ آپ پڑھنا چاہتے ہیں، شامل اشاعت ہوں، خواہ وہ عالمی منظر نامہ ہو یا سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، رپورٹ ہو یا فیچر، قرطاس ادب ہو یا ماحولیات، فن و فن کار ہو یا بچوں کا جنگ، نصف سے زیادہ ہو یا جرم و سزا۔ لیکن ان صفحات کو اپنا سمجھتے ہوئے آپ بھی کچھ لکہیں اور اپنے مشوروں سے نوازیں بھی۔ خوب سے خوب تر کی طرف ہمارا سفر جاری ہے۔
ہمیں خوشی ہے کہ آج جب پڑھنے کا رجحان کم ہوگیا ہے، آپ ہمارے صفحات پڑھتے ہیں اور وقتاً فوقتاً اپنی رائے کا اظہار بھی کرتے رہتے ہیں۔ لیکن اب ان صفحات کو مزید بہتر بنانے کے لیے اپنی رائے بھی دیں اور تجاویز بھی، تاکہ ان صفحات کو ہم آپ کی سوچ کے مطابق مرتب کرسکیں۔ ہمارے لیے آپ کی تعریف اور تنقید دونوں انعام کا درجہ رکھتے ہیں۔ تنقید کیجیے، تجاویز دیجیے۔ اور لکہیں بھی۔ نصف سے زیادہ، بچوں کا جنگ، ماحولیات وغیرہ یہ سب آپ ہی کے صفحات ہیں۔ ہم آپ کی تحریروں اور مشوروں کے منتظر رہیں گے۔ قارئین کے پرزور اصرار پر نیا سلسلہ میری پسندیدہ کتاب شروع کیا ہےآپ بھی اس میں شریک ہوسکتے ہیں ، ہمارا پتا ہے:
رضیہ فرید۔ میگزین ایڈیٹر
روزنامہ جنگ، اخبار منزل،آئی آئی چندیگر روڈ، کراچی