وہ ۱۹؍جنوری ۲۰۱۰ء کی ایک انتہائی سرد اور کہر زد ہ شام تھی جب ہم لاہور کے ہوائی اڈے پر اترے۔ ہمارے قافلے میں سب سے نمایاں پروفیسر ڈاکٹر اسلم فرخی صاحب تھے۔ ان کے علاوہ پروفیسر سحر انصاری، ڈاکٹر آصف فرخی اور مبین مرزا بھی تھے۔ یہ عاجز’’ شامل باجا‘‘ تھا۔
دراصل ڈاکٹرتحسین فراقی صاحب نے پنجاب یونی ورسٹی کے شعبہ ٔ اردو میں محمد حسین آزاد کی صد سالہ برسی منانے کا انصرام اس طرح کیا تھا کہ ٹھیک سو سال بعد یعنی ۲۰؍ جنوری ۲۰۱۰ء کو دو روزہ آزاد سیمینار شروع ہورہا تھا اور ہم لوگ بھی مقالے پڑھنے کے لیے کراچی سے مدعو کیے گئے تھے۔ ہوائی اڈے کی عمارت سے باہر آتے ہی لاہور کی کٹیلی اور نکیلی سرد ہوا نے ’’گرم جوشی‘‘ سے استقبال کیا۔ ڈاکٹر ضیاء الحسن ہوائی اڈے پر موجود تھے۔
وہ ہمیں لے کر جب گاڑی کی طرف جانے لگے تو ہم سب موسم پر خوش مزاجی سے تبصرے کرنے لگے۔ لیکن اسلم فرخی صاحب خاموش تھے۔ بس ہماری فقرے بازی پر ذرا سا مسکرا دیتے۔ اس وقت ذرا تشویش بھی ہوئی کہ شدید سردی کراچی والوں کے لیے لاہور کو کرۂ زمہریر بنارہی تھی، اور ڈاکٹر صاحب کی عمر اس وقت پچاسی(۸۵) برس کے لگ بھگ تھی۔ خاصے نحیف ہوچکے تھے۔
گاڑی میں بیٹھتے ہی ڈاکٹر صاحب کی نظر گاڑی کی کھڑکی کے شیشوں پر پڑی جو سردی شدت کی وجہ سے نم آلود ہوکر دھندلے ہوچکے تھے۔ ڈاکٹر صاحب نے ایک مصرع پڑھا۔ مصرع یاد نہیں لیکن دل کے’’ آئینے کے مکدر‘‘ ہونے کا ذکر تھا۔ مصرع پڑھ کر ڈاکٹر صاحب نے سحر انصاری صاحب کو مخاطب کیا اور کہا ’’سحرصاحب، گرہ لگایئے‘‘۔
سحر بھائی نے چند لمحے توقف کیا اور ایسا مصرع لگایا کہ ہم سب واہ وا ہ اور سبحان اللہ کرتے رہ گئے۔ فرخی صاحب کے چہرے پر مسرت کی لہر دوڑ گئی۔ یہ سوچ کر اطمینان ہوا کہ اس عمر میں بھی ڈاکٹر صاحب ذہنی اور جسمانی طور پر چاق و چوبند ہیں۔
خیر صاحب سیمینار کا آغاز ہوا۔ پاکستان اور ہندوستان بلکہ کئی ملکوں کے نامور محقق اور اہلِ قلم موجود تھے۔ اسلم فرخی صاحب کو کلیدی مقالہ پیش کرنا تھا۔ یہ انتخاب ہر لحاظ سے موزوں تھا۔ ظاہر ہے اس وقت ان سے بڑا آزاد شناس کوئی تھا بھی نہیں۔ اسلم فرخی صاحب نے مقالہ پڑھنا شروع کیا اور سماں باندھ دیا۔
ایک تو آزاد کا ذکر، پھر فرخی صاحب کی خوب صورت نثر۔ حاضرین ان کے مقالے اور زبان میں محو تھے۔ بعض لوگ بعض جملوں پر ہلکی آواز میں داد بھی دے رہے تھے۔ پچھلی نشستوں پر کئی طالب علم بھی موجود تھے۔ ان میں سے کسی نے سرگوشی میں کوئی بات کسی سے کہنی چاہی ، معروف شاعر ناصر زیدی ساتھ ہی بیٹھے تھے۔
بگڑ گئے اور دبی آواز میں اس طالب علم کو تنبیہ کی کہ ’’خاموشی سے سنو۔ یہ باتیں پھر سننے کو نہیں ملیں گی۔ اور ایک دن تم لوگ خود پر فخر کروگے کہ ہم نے اسلم فرخی صاحب کو بولتے ہوئے سنا ہے‘‘۔ اس جملے کی معنویت آج، جب فرخی صاحب ہم میں نہیں رہے، زیادہ گہری ہوگئی ہے۔ واقعی مجھ طالب علم کو فخر ہے کہ میں نے اسلم فرخی صاحب کو بولتے ہوئے سنا ہے۔
پروفیسرڈاکٹر اسلم فرخی صاحب سے ملاقاتیں تو تھیں لیکن ربط ضبط اس وقت ذرا بڑھا تھا جب یہ خاکسار اردو لغت بورڈ کا مدیر اعلیٰ ہوا اور کچھ عرصے بعد ہم اپنے ایسے دو بیرونی ماہرین کی رہنمائی سے محروم ہوگئے جن کی خدمت میں لغت کا مسودہ نظرِ ثانی کے لیے بھیجا جاتا تھا۔
ڈاکٹر اکبر قریشی کا انتقال ہوگیا اور محمد سلیم الرحمٰن نے بوجوہ نظرِ ثانی کے کام سے معذرت کرلی۔ کم ہی ماہرین رہ گئے تھے جو ہماری لغت پر صحیح معنوں میں نظرِ ثانی کرسکتے تھے اور لغت پر کام کی ر فتار متاثر ہونے کا خطرہ پیدا ہوگیا۔
جب اپنی پریشانی کا ذکر بورڈ کے صدر فرمان فتح پوری صاحب سے کیا تو انھوں نے کہا کہ بھئی اب زبان و لغت پر عبور رکھنے والے چند ہی لوگ رہ گئے ہیں۔ اسلم فرخی صاحب ان میں سے ایک ہیں۔ میں ان سے بات کرتا ہوں، شاید مان جائیں۔ فرخی صاحب فرمان صاحب سے بہت قریب بلکہ بے تکلف تھے۔
دونوں نے برسوں جامعۂ کراچی کے شعبۂ اردو میں ساتھ پڑھایا تھا اور دونوں میں کئی باتیں مشترک بھی تھیں۔ ایک تو دونوں عالم، محقق، نقاد، زباں داں اور عروض کے ماہر۔ دونوں نے غضب کا حافظہ پایا تھا اور بلا مبالغہ اردو اور فارسی کے ہزاروں اشعار دونوں کو ازبر تھے۔ دونوں مصرع سنتے ہی یا پڑھتے ہی بتا دیتے کہ بحر میں ہے یا وزن سے گرگیا ہے۔
اگلے ہی دن اسلم فرخی صاحب بورڈ کے دفتر میں موجود تھے۔ شاید فرمان صاحب نے انھیں فون کردیا تھا۔ لیکن فرخی صاحب پہلے سیدھے اس فقیر کے کمرے میں آئے۔ نہ کوئی پھوں پھاں نہ اپنی علمیت اور بڑائی کا کوئی احساس۔بڑے انکسار سے آکر سلام کیا۔ انھیں سامنے پاکر میں گڑبڑا سا گیا اور نشست سے اٹھ کر ان سے دعا سلام کی، کہا کہ آئیے فرمان صاحب کے کمرے میں چلتے ہیں۔
فرمان صاحب کے کمرے میں پہنچے تو فرخی صاحب کے انداز میں دوستانہ بے تکلفی آگئی اور فرمان صاحب سے کہنے لگے ’’کیا اتنی سردی میں پنکھا چلا کر بیٹھے ہو‘‘۔ فرمان صاحب ہنسے اور جوابی فقرہ اچھالا۔ غرض دونوں پرانے دوستوں نے متین ظرافت شروع کردی اور میں ازراہِ احتیاط چائے منگوانے کے بہانے سے باہر آگیا۔
مختصراًیہ کہ فرخی صاحب نے لغت کے مسودے پر نظرِ ثانی کی ہامی بھرلی۔واپسی میں پھر اس عاجز کے کمرے میں آئے۔ دراصل ان کے پاس ہماری لغت کا مکمل سیٹ نہیں تھا۔ کچھ جلدیں کم تھیں جو وہ لینا چاہتے تھے۔ میں نے کہا کہ آپ کو بھجوا دی جائیں گی۔ چیک بک نکالی اور کہا کہ کتنے پیسے لگیں گے۔ میں نے عرض کی ’’سر! کیوں شرمندہ کرتے ہیں، لغت کے ماہرین کو تو ہم ویسے بھی یہ اعزازی طور پر فراہم کرتے ہیں‘‘۔
لیکن اس چھوٹی سی بات سے فرخی صاحب کی اصول پسندی اور دیانت داری کا اندازہ ہوا۔ بورڈ کے کام کے لیے بھی انھیں بورڈ کی لغت کی کوئی جلد مفت لینا گوراہ نہ تھا۔ اتنے میں فرمان صاحب بھی اپنے کمرے سے اٹھ کر آگئے۔ آخر فرمان صاحب نے اپنے بے تکلفانہ انداز میں انھیں قائل کیا کہ جلدیں خاصی وزنی ہیں آپ کے گھر پر پہنچادی جائیں گی اور لغت کا مسودہ بھی ۔ غرض فرّخی صاحب بڑی مشکل سے قائل ہوئے۔
جلدیں تو انھیں بھجوادیں لیکن مجھے گوارہ نہ ہوا کہ مسودہ ڈاک سے یا چپراسی کے ہاتھ بھجواؤں ، لہٰذا خود لے کران کے گھر گیا۔ گھنٹی بجائی تو خود ہی دروازے پر آئے اور کہا کہ آپ نے کیوں زحمت کی۔ کسی کے ہاتھ بھیج دیتے۔ ویسے بے شک آئیے لیکن اب یہ تکلف نہ کیجیے گا۔ پھر اصرار کیا کہ ایک پیالی چائے پی کر جائیے۔ معذرت کی کہ دفتر چھوڑ کر آیا ہوں۔
پھر کبھی سہی۔ ان کی شرافت اور شفقت کا تاثر گہرا ہوگیا۔ اس کے بعد چند ایک بار اس محفل میں حاضر ہونے کا بھی موقع ملا جو ان کے گھر چھٹی والے دن صبح ہوتی تھی اور اس میں اہلِ علم شریک ہوتے تھے۔
لغت کا جو مسودہ انھیں بھیجا جاتا اسے فرخی صاحب بڑی دل جمعی سے دیکھتے۔ ڈاکٹر اکبر قریشی، ڈاکٹر یونس حسنی اور محمد احسن خان کی طرح اسلم فرخی بھی لغت کے مسودے پر گہری نظر ڈالتے تھے۔ ان صاحبان کی تصحیحات کی طرح فرخی صاحب کی بھی تنقیدی نظر ان کے تاثرات اور اصلاحات میں جھلکتی تھی۔
پروف کی غلطی سے کوئی لفظ رہ جاتا یا شعر میں غلط کمپوز ہوجاتا تو اسلم فرخی صاحب خاص طور پر نشان دہی کرتے اور لکھتے کہ وزن سے گرگیا ہے، تصحیح کرایئے۔ ہزاروں اشعار اردو اور فارسی کے نوکِ زباں تھے۔ کبھی مسودے پر بطور سند لکھ بھی دیتے تھے اور حافظے کے زور پر۔
ایک واقعہ یاد آرہا ہے جس سے ان کے حافظے کا اندازہ ہوتا ہے۔ ایک بارانھوں نے بورڈ کے دفتر میں فون کیا اور کہا کہ فارسی کے فلاں لفظ کی شعری سند چاہیے۔ پھر کہا کہ مجھے یاد پڑتا ہے کہ میں نے فرہنگِ آنند راج میں یہ لفظ دیکھا تھا اور اس کی سند میں یہ شعر بھی تھا۔ پھر فارسی کا شعر سنایااور کہاکہ جانے کیوں شبہ ہورہا ہے(شاید انھیں اپنے ذاتی کتب خانے میں کتاب تلاش کرنے میں دشواری ہوئی ہوگی)۔
میں نے کہا کہ ابھی تھوڑی دیر میں معلوم کرکے بتاتا ہوں۔بورڈ کے کتب خانے سے فرہنگِ آنند راج کی متعلقہ جلد منگوائی اور لفظ و معنی دیکھے، سند دیکھی۔ سرِ مُو فرق نہ تھا۔ میں نے فون کرکے بتایا کہ لفظ، معنی اور سند تینوں اسی طرح ہو بہو درج ہیں جیسے آپ نے بتایا تھا۔ بہت خوش ہوئے اور ہنستے ہوئے کہا مجھے ذرا سا شبہ تھا۔ پھر’’ زحمت ‘‘کی معذرت کرکے شکریہ ادا کیا۔ میں نے کہا کہ یہ زحمت نہیں رحمت تھی ۔اسی بہانے اس طالب علم نے بھی کچھ سیکھ لیا۔
اسلم فرخی استاد، محقق، خاکہ نگار، براڈ کاسٹر، شاعر، نقاد اور صاحبِ طرز نثر نگار تھے۔ بچوں کے لیے بھی لکھا۔ لیکن ان کی سب سے بڑی پہچان ان کی نثر اور خاکہ نگاری بنی۔ فرخی صاحب کا شمار ان لکھنے والوں میں ہوتا ہے جن کا اسلوب ان کی شناخت بنا۔
ان کی نثر کا ایک خاص انداز ہے ، یہ انداز خود اپنی پہچان کرادیتا ہے۔ ایسی نثر لکھنا آسان نہیں جسے پڑھ کر قاری کہے کہ یہ تو فلاں کا انداز معلوم ہوتا ہے۔ اسی کو صاحب ِ طرز نثر نگار کہتے ہیں۔ فرخی صاحب کے خاکے لکھے ہوئے پڑھیے، آپ کو احساس ہوگا کہ کیسی دل کش، رواں اور نمایاں طور پر مختلف نثر ہے۔
دراصل اسلم فرخی صاحب محمد حسین آزاد سے بہت متاثر تھے۔ آزاد پر پی ایچ ڈی کی ۔ آزاد کی کتابیں مرتب بھی کیں۔ شعوری یا غیر شعوری طور پر انھوں نے آزاد کی نثر کا انداز اپنالیا۔ آزاد کی نثر کی نمایاں خصوصیت ان کا اسلوب ہے جس میں قدیم و جدید کی آمیزش ہے۔ آزاد زبان اور محاورے کا بہت خیال رکھتے ہیں اور تشبیہات اور استعارات سے بیان میں رنگینی اور زور پیدا کردیتے ہیں۔
بلکہ آزاد کی نثر جدید دور کی نثر کی طرح رواں اور اور آسان بھی ہے لیکن زبان کا چٹخارا اور اسلوب کی رنگینی بھی موجود ہے۔ گویا آزاد نے مفہوم کے ابلاغ اور زبان کے حسن دونوں کو یکساں اہمیت دی۔ اس طرح آزاد کی نثر ایک عجیب دل کشی لیے ہوئے ہے۔
بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ آزاد کی نثر ان کی شاعری سے زیادہ شاعرانہ ہے ۔اسلم فرخی صاحب کی نثر میں بھی یہی خوبی ہے کہ آسان اور رواں ہے لیکن محاورے اور زبان کا لطف بھی ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ اردو کے محاورے اور روزمرہ پر دست رس ، گہرا مشاہدہ، باریک تفصیلات کو کاغذ پر منتقل کرنے کی مہارت اور خلوص و دل سوزی وہ عناصر ہیں جن کی آمیزش سے انھوں نے اپنی خاکہ نگاری کو خاصے کی چیز بنادیا۔ اسلم فرخی کا شمار اردو کے دور ِ حاضر کے بہترین خاکہ نگاروں میں ہوتا ہے۔
اسلم فرخی کا آبائی وطن فتح گڑھ ، فرُّخ آباد( یوپی) ہے لیکن وہ لکھنؤ میں پیدا ہوئے ۔ فرخی صاحب کے نانا ادیب تھے، ان کے والد بھی شاعر اور ادیب تھے۔ غرض ان کے خاندان اور گھر میں علم وادب و شعر کا چرچا تھا ۔ حتیٰ کہ خاندان کی خواتین بھی شاعری کرتی تھیں۔
پاکستان بننے سے قبل فرخی صاحب نے مسلم لیگ کے لیے کام کیا اورپاکستان بننے کے بعد کراچی آگئے۔ اردو کالج اور کراچی یونی ورسٹی سے تعلیم حاصل کی اور اردو میں ایم اے اور پی ایچ ڈی کی اسناد حاصل کیں۔ ملازمت کا آغاز ریڈیو پاکستان سے کیا جہاں اسکرپٹ رائٹر رہے۔
پھر شعبۂ تدریس سے وابستہ ہوگئے اور ایس ایم کالج میں استاد ہوگئے۔گورنمنٹ کالج ناظم آباد اور سنٹرل کالج میں بھی پڑھایا۔ بعد میں جامعۂ کراچی کے شعبۂ اردو سے وابستہ ہوگئے اور یہاں پروفیسر کے درجے تک پہنچ کر وظیفہ یاب ہوئے۔ جامعہ کراچی کے مُسجِّل یعنی رجسٹرار بھی رہے ۔ انجمن ترقیٔ اردو میں طویل عرصے تک مشیرِ ادبی کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔
اسلم فرخی نے لکھنے کا آغاز بچوں کے معروف رسالے ’’پھول‘‘ سے کیا۔ فی البدیہہ لکھنے میں مہارت رکھتے تھے۔ اردو اورفارسی پر عبور تھا۔ انگریزی پر بھی اچھی نظر رکھتے تھے۔ شاعر بھی تھے لیکن اس کا کبھی اظہار نہیں کرتے تھے۔
اپنے استاد حضرت ڈاکٹر غلام مصطفی خاں صاحب سے بھی اسلم فرخی صاحب بہت متاثر تھے اور ان ہی کے سبب تصوف سے گہری دل چسپی پیدا ہوگئی۔ لہٰذا حضرت نظام الدین اولیا پر فرخی صاحب نے چھے (۶) کتابیں لکھیں یا مرتب کیں۔
ڈاکٹر اسلم فرخی کا ۱۵؍ جون ۲۰۱۶ء کو کراچی میں انتقال ہوا۔