• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
چند نامور شعراء کا دلچسپ اظہار
چند نامور شعراء کا دلچسپ اظہار

شمشیر حسن

ہم ٹیکنالوجی کے چکر میں پڑ کر کتابوں کے اس لمس اور خوشبو سے دور ہوتے جا رہے ہیں جو کبھی ہمارے اندر ایک لطیف احساس پیدا کرنے میں معاون و مددگار تھے۔ مگر انٹرنیٹ اور موبائل فون کے اس جدید دور میں کتاب سے انسان کی دوری سے بہت سی لائبریریاں بھی بند ہوگئیں۔

ویسے بھی جس معاشرے میں کتب فٹ پاتھوں پر فروخت ہوں اور جوتے شیشے کی الماریوں میں سجا کر بیچے جائیں وہاں کتاب دوستی کا جذبہ مفقود ہونا ہی بنتا ہے پھر کمر توڑ مہنگائی نے کتاب دوست افراد کو بھی کتب سے دور کر دیا ہے۔ کتابوں سے عشق کی آخری صدی میں انسانیت اپنی بھوک مٹائے، فکر کام و دہن کرے یا کتب سے دوستی نبھائے؟

منو بھائی
منو بھائی

کتاب کو تو چھوڑیئے اس دور ناگوار میں تو انسانیت اور اخلاقیات اس قدر مردہ ہو چکے ہیں کہ ہم آج اپنے بزرگوں کی موجودگی و مداخلت کو بھی برداشت نہیں کرنا چاہتے۔ اور وہ بزرگ کہ جنہوں نے اپنی تمام تر زندگی ہماری بہتری کے لیے کوشش کرنے میں صرف کر دی آج روتے ہوئے یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ۔۔

مجھ کو اذیتوں نے جو گھیرے میں لے لیا

کہنے لگے کہ بوڑھا تو مر بھی نہیں رہا

سو اس قسم کے معاشرے میں رہنے والے افراد نے اگر کتاب سے دوری اختیار کر لی ہے تو تعجب کیسا؟ کسی شاعر نے بالکل صحیح کہا تھا کہ۔۔

زندگی بھوک مٹائے کہ ہوا سے کھیلے

مطمئن پیٹ نہیں ہے تو وفا کیسی ہے

زیرنظر مضمون میں چند نامور شعراء کا کتابوں کے حوالے سے دلچسپ اظہار ملاحظہ کریں۔

……٭٭……٭٭……

جاں نثار اختر نے کہا تھا…

جاں نثار اختر
جاں نثار اختر

یہ علم کا سودا، یہ کتابیں، یہ رسالے

اک شخص کی یادوں کو بھلانے کے لیے ہیں

جب کہ جون ایلیا کی یہ نظم تو زبان زد خاص و عام ہے جس میں وہ کہتے ہیں۔۔۔

تم جب آؤ گی تو کھویا ہوا پاؤ گی مجھے

میری تنہائی میں خوابوں کے سوا کچھ بھی نہیں

میرے کمرے کو سجانے کی تمنا ہے تمہیں

میرے کمرے میں کتابوں کے سوا کچھ بھی نہیں

اور کتابوں سے عشق کی وجہ کو اعتبار ساجد نے کچھ اس طرح بیان کیا تھا کہ۔۔۔

جون ایلیا
جون ایلیا

یہ اداس اداس پھرنا یہ کسی سے بھی نہ ملنا

یہ یونہی نہیں ہے سب کچھ کوئی سانحہ تو ہوگا

اور بقول احمد فراز یہ کتابوں سے محبت یونہی بے سبب نہیں ہوتی بلکہ…

یہ جو سرگشتہ سے پھرتے ہیں کتابوں والے

ان سے مت مل کہ انھیں روگ ہیں خوابوں والے

بشیر بدر
بشیر بدر

جبکہ بقول ڈاکٹر بشیر بدر۔۔۔

وہی لکھنے پڑھنے کا شوق تھا، وہی لکھنے پڑھنے کا شوق ہے

ترا نام لکھنا کتاب پر، ترا نام پڑھنا کتاب میں

اگرچہ…

نہ محبت نہ دوستی کے لیے

وقت رکتا نہیں کسی کے لیے

پروین شاکر
پروین شاکر

کے مصداق پیار عشق چاہت کے کھیل میں شامل تمام کردار وقت کے ساتھ ساتھ قصہء پارینہ بن کر کتاب ماضی میں اس طرح گم ہو جاتے ہیں کہ پروین شاکر جیسی شاعرہ بےاختیار کہہ اٹھتی ہے۔

یاد تو ہوں گی وہ باتیں تجھے اب بھی لیکن

شیلف میں رکھی ہوئی بند کتابوں کی طرح

لیکن ایک نہ ایک دن یہ سب کچھ اچانک رگ جاں میں یاد کی لہر بن کر لہو میں مدو جذر پیدا کرتا ہے اور ایک ہیجان برپا کردیتا ہے کیونکہ بقول غالب۔۔

حسن رضوی
حسن رضوی

پاتے نہیں جب راہ تو چڑھ جاتے ہیں نالے

رُکتی ہے مری طبع تو ہوتی ہے رواں اور

اور یوں جب طویل خاموشی کے بعد طوفان اٹھتا ہے تو حسن رضوی جیسا شاعر چیخ اٹھتا ہے۔

کبھی کتابوں میں پھول رکھنا، کبھی درختوں پہ نام لکھنا

ہمیں بھی ہے یاد آج تک وہ، نظر سے حرف سلام لکھنا

وصی شاہ
وصی شاہ

اور کبھی وصی شاہ یوں آواز دیتا نظر آتا ہے۔۔

ہر ایک شب مری تازہ عذاب میں گزری

تمہارے بعد تمہارے ہی خواب میں گزری

میں ایک پھول ہوں وہ مجھ کو رکھ کے بھول گیا

تمام عمر اسی کی کتاب میں گزری

جبکہ ماضی کے ان یادگار لمحات کو محفوظ رکھنے کی تگ و دو میں محسن نقوی جیسا شاعر بھی ناصحانہ انداز اپناتے ہوئے کہہ اٹھتا ہے۔

محسن نقوی
محسن نقوی

یادوں کے حاشیے بھی بہت اہم ہیں محسن

دیمک لگی کتاب کو آہستہ کھولیے

چنانچہ یہ سرگشتہ سے پھرنے والے، کتابوں میں ڈوبے، روز و شب سانس کے زیرو بم پر رقصاں دیوانے، کتابیں چاٹتے، کتابیں چباتے، کتابیں اوڑھتے اور کتابیں سنبھالتے نظر آتے ہیں۔ منصور نے انالحق کا دعوٰی کیا تھا جبکہ یہ دیوانے اعجاز توکل کی زبان میں یہ دعوٰی کرتے نظر آتے ہیں۔

قبروں میں نہیں ہم کو کتابوں میں اتارو

ہم لوگ محبت کی کہانی میں مرے ہیں

سعداللہ شاہ
سعداللہ شاہ

خوش قسمتی سے ہمارا کتاب سے تعارف ہوش سنبھالتے ہی شروع ہوگیا تھا۔ بڑے بھائیوں کے ذوق لطیف نے گھر پر کتابوں کا اچھا خاصا ذخیرہ بہم پہنچایا اور یوں ایک ایسا سلسلہ تیشہ گری شروع ہوا جو اگرچہ کوئی جوئے شیر تو نہ لا سکا تاہم بقول محسن:

سانسوں کے اس ہنر کو نہ آساں خیال کر

زندہ ہوں ساعتوں کو میں صدیوں میں ڈھال کر

کے مصداق اس قابل ضرور بنا گیا کہ جسے سعداللہ شاہ سعد کی زبان میں یوں بیان کیا جا سکتا ہے۔

ابن انشاء
ابن انشاء 

بڑھا دیتی ہیں عمروں کو نہ جانے یہ کتابیں کیوں

میں چھوٹا تھا مگر سر پر کئی صدیوں کا سایہ تھا

اگرچہ بارہا یہ کہہ کر اس شوق کی حوصلہ شکنی بھی کی گئی کہ:

افسانوں کی دنیا میں سب جھوٹ نہیں ہوتا

دل اور بھی الجھے گا پڑھیے نہ کتابوں کو

مگر بقول آتش۔۔۔

تھکیں جو پاؤں تو چل سر کے بل نہ ٹھیر آتش

گل مراد ہے منزل پہ خار راہ میں ہے

اور…

اڑتا ہے شوق راحت منزل سے اسپِ عمر

مہمیز کہتے ہیں کسے اور تازیانہ کیا

کے مصداق یہ سلسلہ دراز سے دراز تر ہوتا چلا گیا۔ ناصحان من کے پند و نصائح بھی جاری رہے اور یہ مشق سخن بھی جاری و ساری رہی۔

گویا بقول غلام محمد قاصر ۔۔۔

شوق برہنہ پا چلتا تھا اور رستے پتھریلے تھے

گھستے گھستے گھس گئے آخر کنکر جو نوکیلے تھے