• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
علامہ اقبال نے حضرت امام حسینؓ کو ملت ِ اسلامیہ کے روشن استعارے کے طور پر پیش کیا ہے
علامہ اقبال نے حضرت امام حسینؓ کو ملت ِ اسلامیہ کے روشن استعارے کے طور پر پیش کیا ہے

کلام اقبال میں ’’شبیریت‘‘ اور ’’یزیدیت‘‘ بطور اصطلاحات و علامات دو الگ الگ مکتبہ ہائے فکر کی نمائندگی کے طور پر آئے ہیں۔ اہل نظر جانتے ہیں کہ یہ اقبالؔکا خاص انداز ہے کہ وہ حق و باطل کی آویزش پر مبنی تاریخی واقعات کی وساطت سے انقلاب آفریں نکات اخذ کرتے ہیں۔

واقعہ کربلا بھی ان کی شاعری میں اسی حوالے سے خاص اہمیت و معنویت کا حامل ہے اور اس سے منسلک اشخاص و وقائع کی علامتی حیثیت ان کے ہاں ایک منفرد طرزفکر کی علم بردار ہے۔ علامہ نے تاریخ اسلام کی جن شخصیات کو اعلائے کلمتہ الحق کی نمائندہ علامت کے طور پر اپنے کلام میں ایک فعال کردار کے طور پر مستعار لیا، ان میں سیدنا امام حسین ؓ کی انقلابی شخصیت ممتاز ہے۔ اقبالؔ نے انھیں ملت ِ اسلامیہ کے روشن استعارے کے طور پر پیش کیا۔ 

وہ اس تربیت خاص کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں، جو حضرت امام حسین ؓ کو سیدنا حضرت علی ؓ اور سیدۃ النساء حضرت فاطمہ ؓ کے طفیل حاصل ہوئی جس نے حقانیت و حریت جیسے جذباتِ عالیہ سے ان کے قلب و ذہن کو تطہیر بخشی اور شخصی و عملی طور پر انھیں ایک ایسے صالح کردار میں ڈھال دیا جو مسلم اُمّہ کی تاریخ میں حریت و شہادت کے ایک روشن باب کی حیثیت کا حامل ٹھہرا۔

اقبال نے سبطِ رسول ؐ ،حلف الرشید علی ؓ اور جگرگوشۂ بتولؓ کو قافلہء حجاز کا سرخیل قرار دیا ہے جس نے گیسوئے دجلہ و فرات کو تاب ناکی عطا کی۔ ’’اسرارِخودی‘‘ میں اقبالؔ نے سیدہ فاطمتہ الزہراءؓ کی شخصیت ِ مبارکہ کو موضوع بناتے ہوئے امومت و تربیت کی بہترین مثال قرار دیا ہے، جن کی آغوش میں سیدنا حسین ؓ کی تربیت اس انداز سے ہوئی کہ آپ ؓ اہل کوفہ و شام کی خاطر یزید سے برسرپیکار ہوئے اور افضل رتبہء شہادت سے سرفراز ہوکر مقام شبیری پر فائز ہوئے۔

’’رموزِ بے خودی‘‘ میں اقبالؔ نے سیدۃ النساء کے مثالی کردار کو مسلم خواتین کے لیے نمونہ قرار دیتے ہوئے توجہ دلائی ہے کہ حضرت مریم ؓ کو حضرت عیسیٰ ؑ سے والدہ ہونے کے ناتے فقط ایک نسبت حاصل تھی، جس کے باعث وہ ہمیں عزیز ہیں جبکہ سیدہ فاطمہ ؓ کا یہ اعزاز ہے کہ انھیں تین نسبتیں حاصل رہیں، اوّل یہ کہ وہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحب زادی تھیں، دوم یہ کہ وہ حضرت علی ؓ کی زوجہ محترمہ تھیں اور سوم یہ کہ وہ حسین ؓکی والدہ مکرمہ تھیں چنانچہ وہ مسلم عورت کو انھی کی پیروی کا سبق دیتے ہوئے فرماتے ہیں:

فطرتِ تو جذبہ ہا دارد بلند

چشمِ ہوش از اُسوئہ زہراؓ مبند

تا حسینےؓ شاخِ تو بار آورد

موسمِ پیشیں بگلزار آورد

(اے مسلمان عورت ! ٰتیری فطرت میں بے شمار جذبے پنہاں ہیں۔ تو اپنی نگاہِ ہوش سیّدہ فاطمہ ؓ کے مثالی نمونے سے دور مت ہٹانا ،تاکہ تمھارے وجود کی شاخ پر بھی حسین ؓ جیسا پھل لگے اور یوں ہماری ملّت کے گلستان میں پھر سے بہار آجائے)

یہ سیّدہ ؓ کی تربیت کے روشن عناصر ہی ہیں، جو اقبال عہدحاضر کی مسلمان خواتین کے لیے ضروری گردانتے ہیں۔ آپؓ اُمومت و تربیت،سیرت و کردار اور نیکی و پاکیزگی میں ممتاز تھیں۔ چنانچہ اقبال نے جب ’’انجمن مسلم خواتین مدراس‘‘ کے سپاس نامہ میں پیش کیے گئے مختلف سوالات کا جواب دیتے ہوئے ان سے خطاب فرمایا تو مسلم خواتین کو انھی کی ذات کی پیروی کی ہدایت کی، فرمایا:’’مسلمان عورتوں کے لیے بہترین اُسوہ حضرت فاطمتہ الزہراء ؓ ہیں۔

کامل عورت بننا ہو تو آپ کو سیدہ فاطمتہ الزہراء ؓ کی زندگی پر غور کرنا چاہیے۔ عورت کو اپنی انتہائی عظمت تک پہنچنے کے لیے سیدہ فاطمہ ؓ کا نمونہ بہترین نمونہ ہے۔ حضرت زہراء ؓ کی عظمت بیان کرنے کے لیے صرف اتنا کہہ دینا کافی ہے کہ وہ حسین ؓ کی ماں تھیں۔‘‘

اس بات کو ’’رموز بے خودی‘‘ میں شعری قالب میں یوں ڈھالتے ہیں:

سیرتِ فرزند ہا از اُمّہات

جوہرِ صدق و صفا از اُمّہات

مزرعِ تسلیم را حاصل بتولؓ

مادراں را اُسوئہ کامل بتولؓ

(بیٹوں کی سیرتیں مائوں کی آغوش میں تربیت پاتی ہیں۔ صدق و صفا کی خوبیاں مائوں ہی کی تربیت کے نتیجے میں حاصل ہوتی ہیں۔ سیّدہ بتول ؓ تسلیمیت اور رضامندی کی کھیتی کا حاصل تھیں اور ماؤں کے لیے ان کی ذات میں قابل تقلید نمونہ ہے)

سیّدنا حسین ؓ کی تربیت میں اس مہربان آغوش نے ہی ایسے ہی دل کش رنگ بھرے۔ اقبال ؔ ان کی شخصیت پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں کہ آپ محتاجوں کی دست گیری کرتیں، اپنی ضروریات دوسروں پر قربان کردیتیں، شوہر کی رضا میں راضی ہوتیں، صبرورضا کا پیکر تھیں، چکی پیستیں مگر لبوں پر تلاوت جاری رہتی، زبان شکوے سے عاری تھی اور متقی ایسی تھیں کہ آنسو کبھی تکیے کی زینت نہ بنتے بلکہ حالتِ نماز میں رقّت سے آنسو بہاتیںاور وہ اس قدر مقدس ٹھہرتے کہ جبرائیل امینؑ زمین سے اٹھا کر شبنم کے مانند عرشِ بریں پر گرا دیتے۔ ’’ارمغانِ حجاز‘‘ میں فرمایا:

اگر پندے ز درویشے پذیری

ہزار اُمت بمیرد، تو نہ میری

بتولےؓ باش و پنہاں شو ازیں عصر

کہ در آغوش شبیرےؓ بگیری

(تو اگر اس درویش (اقبال) کی نصیحت قبول کرلے تو ہزاروں ماؤں میں تجھے دوام حاصل ہوجائے گا۔ وہ نصیحت یہ ہے کہ بتول ؓ کی سی زندگی گزار اور زمانے کی نظروں سے اوٹ میں رہ تاکہ تیری آغوش میں شبیرؓ جیسے فرزند تربیت پائیں)

دوسری طرف حضرتِ امام حسین ؓ کے والد گرامی سیدنا علی المرتضیٰ ؓ کو دیکھیں تو وہ اسلامی تاریخ میں جرأت ، دلیری اور شجاعت کا استعارہ ہیں اور اسی نسبت سے آپؓ حیدرکرارؓ اور ’اسداللہ‘ کہلائے۔ دوسری طرف فقروغنا کی صفت اور جذبۂ جہاد کے باعث بالترتیب ’ابوتراب‘ اور ’یداللہ‘ کے اسماء سے  یاد کیے جاتے ہیں۔ 

آپ ؓ فاتح خیبر تھے اور مرحب اور عنتر جیسے سرکشوں کو کیفر کردار تک پہنچانے والے تھے۔ اقبال ؔ نے اپنے کلام میں اسی لیے ’’اسداللّٰھی و یداللّٰھی‘‘ کو حقانیت اور ’’مرحبی و عنتری‘‘ کو استبداد کی علامتوں کے طور پر بیان کیا ہے اور عصرحاضر کے تناظر میں یوں اظہار کیا ہے:

نہ ستیزہ گاہِ جہاں نئی، نہ حریفِ پنجہ فگن نئے

وہی فطرتِ اسداللّٰھی، وہی مرحبی، وہی عنتری

_____

بڑھ کے خیبر سے ہے یہ معرکہء دین و وطن

اس زمانے میں کوئی حیدرِ کرارؓ بھی ہے!

چنانچہ ایسے والدین کی تربیت کا نتیجہ سیّدنا حسین ؓ کی ذات تھی جو اسلامی تاریخ کا زرّیں حوالہ ہے۔ کلام اقبال میں ان کے حوالے سے یوں علامتی اظہار ہوا ہے:

حقیقتِ ابدی ہے مقام شبیریؓ

بدلتے رہتے ہیں اندازِ کوفی و شامی!

_____

قافلہء حجاز میں ایک حسینؓ بھی نہیں

گرچہ ہے تاب دار ابھی گیسوئے دجلہ و فرات!

_____

اِک فقر ہے شبیریؓ اس فقر میں ہے مِیری!

میراثِ مسلمانی، سرمایہء شبیریؓ!

_____

نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسم شبیریؓ

کہ فقرِ خانقاہی ہے فقط اندوہ و دلگیری

اقبال ؔ اس طرف توجہ دلاتے ہیں کہ حضرت امام حسین ؓ نے مقام شبیری صبرواستقامت اور حریت و شہادت کے باعث حاصل کیا۔ وہ اپنے کلام میں آپ ؓ کی شخصیت کو ایک انقلابی اور حرکی کردار کے طور پر لائے ہیں جو قوت و شوکت پر مبنی ہے۔ وہ ایسی شخصیت تھے کہ آج بھی ایسے افراد کی ریگ عراق منتظر ہے اور کشت حجاز جن کے لیے تشنہ کام ہے اور آج بھی کوفہ وشام کو خونِ حسین ؓ کی ضرورت ہے۔

اقبالؔ علامتی رنگ میں کہتے ہیں کہ ملت اسلامیہ کی فلاح و بقا کے لیے حقیقی ’حسینیت‘ اور ’شبیریت‘ درکار ہے جو حریت، سوز اور حرارت کے عناصر رکھتی ہے:

ریگِ عراق منتظر کشتِ حجاز تشنہ کام

خونِ حسینؓ باز دہ کوفہ و شامِ خویش را

_____

رمزِ قرآں از حسینؓ آموختیم

ز آتش اُو شعلہ ہا اندوختیم

_____

در نوائے زندگی سوز است حسینؓ

اہل حق حریت آموز از حسینؓ

بغور دیکھیں تو اقبال نے ’حسینیت‘ اور ’یزیدیت‘کو دو متضاد نقطہ ہائے نگاہ کے طور پر تفہیم کردیا ہے۔ ان کے مطابق حضرت امام حسین ؓ نے تیغ کو ’حفظِ آئین‘ کے آداب سکھائے اور یوں گویا سرِّابراہیم و اسمٰعیل کے معنی مسلمانوں کو سمجھا دیے۔ 

انھوں نے اپنی شہادت سے یہ سبق دیا کہ مسلمان کا عزم بلند کوہساروں کی طرح پختہ ہونا چاہیے اور تلوار فقط دین کی حرمت و عزت کے لیے اٹھانی چاہیے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کے خون شہادت نے ملت خوابیدہ پر فلسفہ شہادت کے معنی کھولے اور انھیں غفلت سے بیداری کا سبق دیا:

آں امام عاشقاں پورِ بتولؓ

سروِ آزادے ز بستان رسولؐ

بہر حق در خاک و خوں غلطیدہ است

پس بنائے لاالٰہ گردیدہ است

(وہ عاشقوں کے امام جو فرزند بتولؓ تھے اور بوستان رسولؐ کے ایک آزاد سرو کے مانند تھے، وہ حق کی خاطر خاک و خوں میں لپٹ گئے اور لاالٰہ کی بنیاد رکھ کر اس کی معنویت اجاگر کردی)

یوں اقبال کے ہاں مقام شبیری ؓ کی وضاحت کمال درجے کی علامتی معنویت کے ساتھ ہوئی ہے اور انھوں نے حضرت امام حسین ؓ کے ذکر سے اپنی شاعری میں ایک حرکت و عمل کا استعارہ ترتیب دیا ہے۔

سرِّ ابراہیم و اسمٰعیل بود

یعنی آں اجمال را تفصیل بود

عزمِ او چوں کوہساروں استوار

پائیدار و تند سیر و کامگار

تیغ بہرِ عزتِ دین است و بس

مقصدِ او حفظِ آئین است و بس

_____

زندہ قوت از قوتِ شبیریؓ است

باطل آخر داغِ حسرت میری است

_____

خونِ اُو تفسیرِ ایں اسرار کرد

ملتِ خوابیدہ را بیدار کرد

اقبال انھیں ’’عشق کے اسرار کا محرم‘‘ قرار دیتے ہیں۔ وہ ایسے عشاق میں سے ہیں جو آزمائش کے لمحات میں اہل حق کی طاقت کا سبب بنتے ہیں۔ آپ صبرواستقامت کا پیکر تھے۔ اقبال توجہ دلاتے ہیں کہ سوزِحسین ؓ سے اہل حق نے حریت کے اسرارومعانی اکتساب کیے ہیں۔ 

وہ سیدنا حسین ؓ کا تذکرہ جلیلہ تاریخ اسلام کی جری و قوی شخصیات کے ہمراہ کرتے ہیں۔ مثنوی ’’پس چہ باید کرد اے اقوام مشرق‘‘ میں ’’حرفے چند با امت عربیہ‘‘ کے عنوان سے اقبال کا ذیل کا بیت اس امر کی تصدیق کرتا ہے اور یہاں خلاصۂ کلام کے طور پر پیش ہے:

گرمیِ ہنگامۂ بدر و حنین

حیدرؓ و صدیقؓ و فاروقؓ و حسینؓ