……میر انیس……
جب رن میں سر بلند علیؓ کا علَم ہوا
فوجِ خدا پہ سایۂ ابرِ کرم ہوا
چرخ زبرجدی پے تسلیم خم ہوا
پنجے پہ سات بار تصدق حشم ہوا
دیکھا نہ تھا کبھی جو علَم اس نمود کا
دونوں طرف کی فوج میں غل تھا درود کا
……٭٭……٭٭……
وہ شان اس علَم کی وہ عباس کا جلال
نخلِ زمردی کے تلے تھا علیؓ کا لال
پرچم پہ جان دیتی تھیں پریوں کا تھا یہ حال
غل تھا کہ دوشِ حور پہ بکھرے ہوئے ہیں بال
ہر لہر آبدار تھی کوثر کی موج سے
طوبیٰ بھی دب گیا تھا پھریرے کی اوج سے
……٭٭……٭٭……
تھا پنجتن کا نور جو پنجے میں جلوہ گر
اعمیٰ کی پتلیوں میں بھی تھا روشنی کا گھر
ذرّے نثار کرتے تھے اٹھ اٹھ کے اپنا زر
تکتے تھے فوق سے تو ملک تخت سے بشر
اللہ ری چمک علَمِ بوتراب کی
تارِ نظر بنی تھی کرن آفتاب کی
……٭٭……٭٭……
قربان احتشام علمدار نام ور
رخ پر جلالت شہِ مرداں تھی سر بسر
چہرہ تو آفتاب سا اور شیر کی نظر
قبضے میں تیغ بر میں زرہ دوش پر سپر
چھایا تھا رعب لشکرِ ابنِ زیادؔ پر
غل تھا چڑھے ہیں شیر الٰہی جہاد پر