اختر شیخ
ادب، کبھی کبھی ایک بستی میں جنم لیتا ہے، اور پھر ساری دنیا میں خوشبو کی طرح پھیل جاتا ہے۔ ناظم آباد، کراچی کی وہ بستی تھی جہاں ایک ایسا چراغ روشن ہوا جس نے اردو ادب کو نہ صرف نئی جلا بخشی بلکہ عوامی فکشن کو شائستگی، ذہانت اور شگفتگی کا ایسا پیکر عطا کیا جس کی مثال آج بھی نہیں ملتی ۔۔۔ہم بات کر رہے ہیں ابن صفی کی اسرار احمد ابن صفی۔
وہ نابغۂ روزگار شخصیت جنہوں نے عمران سیریز اور جاسوسی دنیا جیسے سلسلوں کے ذریعے اردو زبان میں ایک نئی ادبی روایت کو جنم دیا۔ میں نے بچپن میں کئی بار انہیں فردوس کالونی میں اپنے گھر کے قریب دیکھا، اس وقت شعور کی آنکھ ابھی پوری طرح وانہ ہوئی تھی۔ کچھ عرصے بعد جب ان کی کتابیں اور کہانیاں ہاتھ آئیں، اور ہم ان کرداروں میں کھوئے تو ہمارے بڑے بھائی صاحب نے بتایا کہ یہ وہی صاحب ہیں جنہیں ہم روز دیکھا کرتے تھے۔
یہ جان کر ایسا لگا جیسے دل سینے سے باہر آ جائے گا ۔۔ اور جب ہم سمجھ دار ہوئے تو ابن صفی دنیا سے رخصت ہو گئے، بس ان کی خوشبو باقی تھی، ان کے لفظ باقی تھے۔ اور ان سے جڑی یادیں۔
ابن صفی نے اردو میں ایک ایسا اسلوب متعارف کرایا جو نہ صرف دل کو چھو جاتا ہے بلکہ ذہن کو بھی جگا دیتا ہے۔
ان کے کردار بولتے تھے، جیتے تھے، ہنستے تھے۔ عمران، فریدی، حمید، صفدر، کرنل ذری، جوزف، رشیدہ، رانا تایا، انسپکٹر انور اور بے شمار کردار اردو کے اجتماعی شعور کا حصہ بن چکے ہیں۔
یہ سب کردار صرف تخیلاتی نہیں تھے، وہ ذہنوں میں گھر کر لینے والے مزاج اور لہجے تھے۔۔۔۔ اور یہ سب کچھ صرف ابن صفی جیسے نکتہ رس اور مشاہدہ کار ہی تراش سکتے تھے۔
ابن صفی کی نثر میں مزاح بھی تھا، رمز بھی۔ طنز کی جھلکیاں بھی اور تہذیب کی چمک بھی۔ ان کی تحریر صرف کہانی نہیں، ایک منظر نامہ ہوتا، منظر در منظر، لمحہ بہ لمحہ، قاری کو ساتھ لیے چلنے والا ۔۔۔۔۔
ابن صفی کے انتقال کے بعد ان کی شخصیت اور تخلیقات کے کئی گوشے ان کے صاحبزادے احمد صفی نے بڑی محبتسے قارئین تک پہنچائے۔ انہوں نے اپنے والد کے قلمی ورثے کو سلیقے سے محفوظ رکھا۔
ان کے غیر مطبوعہ اور نایاب کاموں کو شائع کروایا اور ان کے انٹرویوز و یادداشتوں کی مدد سے ہمیں یہ جاننے کا موقع دیا کہ وہ درویش صفت شخص جسے ہم عمران یا فریدی کے لفظوں میں پڑھتے تھے، اپنی اصل زندگی میں کیسے تھے۔
ابن صفی ہم سے صرف جسمانی طور پر جدا ہوئے، ان کی تحریری موجودگی اب بھی ویسے ہی تازہ ہے جیسے بچپن میں محسوس کی تھی۔ کتنے برس گزر گئے، پر آج بھی ان کا نام آتا ہے تو ایک روشنی سی دل میں پھیل جاتی ہے۔ جیسے ناظم آباد کی کسی پرانی شام میں بیٹھا ہوں اور کسی گوشے سے ابن صفی صاحب کی ہنسی، ان کی باتیں، اور ان کے کرداروں کی گونج سنائی دے رہی ہو۔
ابن صفی محض ایک نام نہیں، ایک جہان ہے۔ ان کی تحریریں، کردار اور زبان اردو ادب کی متاع جاں ہیں۔ انہوں نے اپنے قلم سے روشنی کی ایسی قندیلیں جلائیں جو آج بھی ہزاروں دلوں کو منور کرتی ہیں۔
ناظم آباد کی وہ گلیاں، وہ دفتر، اور ہماری یادیں آج بھی ان کی خوشبو سے مہکتی ہیں اور جب تک پڑھنے والے موجود ہیں، تب تک یہ چراغ جلتا رہے گا۔