سری ادب کے موجد ابن صفی کی موت کے ساتھ ان کا دور ختم نہیں ہوتا، شروع ہوتا ہے۔ بڑے ادیب کی زندگی اس کی آنکھیں بند ہونے کے بعد شروع ہوتی ہے:
چشم خود بربست و چشم ما ُکشاد
26؍ جولائی سن80 کی ایک صبح وہ ہاتھ تہہ خاک ہوئے جو28؍برس تک اپنے پڑھنے والوں کو نت نئے جہانوں کی سیر کراتے رہے۔ وہ ہاتھ جن کی جنبش میں ترنم تھا اور خاموشی میں شاعری، جن کی انگلیوں سے تخلیق کی گنگا بہا کرتی تھی، ہمیشہ کے لئے خاموش ہوگئیں۔
ابن صفی کا اصل نام اَسرار احمد تھا۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم نارا کے پرائمری اسکول میں حاصل کی۔ میٹرک ڈی اے وی اسکول، الہ آباد سے کیا جبکہ انٹرمیڈیٹ کی تعلیم الہ آباد کے ایونگ کرسچن کالج سے مکمل کی۔1947میں الہ آباد یونیورسٹی میں بی اے میں داخلہ لیا۔ اسی اثنا میں برصغیر میں تقسیم کے ہنگامے شروع ہوگئے۔
ہنگامے فرو ہوئے تو سال ضائع ہوچکا تھا لہذا بی اے کی ڈگری آگرہ یونیورسٹی سے اس شرط پر ملی کہ امیدوار کا عرصہ دو برس کا تدریسی تجربہ ہو۔ 1948ء میں عباس حسینی نے ماہنامہ نکہت کا آغاز کیا، شعبہ نثرکے نگران ابن سعید تھے جبکہ ابن صفی شعبہ شاعری کے نگران مقرر ہوئے۔ رفتہ رفتہ وہ مختلف قلمی ناموں سے طنز و مزاح اور مختصر کہانیاں لکھنے لگے۔ ان قلمی ناموں میں طغرل فرغان اور سنکی سولجر جیسے اچھوتے نام شامل تھے۔
جون1948 میں نکہت سے ان کی پہلی کہانی ’فرار‘ شائع ہوئی۔ 1957ء کے آواخر میں بے تکلف دوستوں کی ایک محفل میں کسی نے کہا تھاکہ اردو میں صرف فحش نگاری ہی مقبولیت حاصل کرسکتی ہے۔ ابن صفی نے اس بات سے اختلاف کیا اور کہا کہ کسی بھی لکھنے والے نے فحش نگاری کے اس سیلاب کواپنی تحریر سے روکنے کی کوشش ہی نہیں کی ہے۔
اس پر دوستوں کا موقف تھا کہ جب تک بازار میں اس کا متبادل دستیاب نہیں ہو گا، لوگ یہی کچھ پڑھتے رہیں گے، یہی وہ تاریخ ساز لمحہ تھا جب ابن صفی نے ایسا ادب تخلیق کرنے کی ٹھانی جو بہت جلد لاکھوں پڑھنے والوں کی توجہ کا مرکز بن گیا۔
عباس حسینی کے مشورے سے اس سلسلے کا نام جاسوسی دنیا قرار پایا اور ابن صفی کے قلمی نام سے انسپکٹر فریدی اور سرجنٹ حمید کے کرداروں پر مشتمل سلسلے کا آغاز ہوا جس کا پہلا ناول ’’دلیر مجرم‘‘ مارچ 1958ء میں شائع ہوا۔ 1949ء سے 1952ء کے عرصے میں ابن صفی پہلے اسلامیہ اسکول اور بعد میں یادگار حسینی اسکول میں ٹیچرکی حیثیت سے خدمات سرانجام دیں۔
اگست 1952ء میں ابن صفی اپنی والدہ اور بہن کے ہمراہ پاکستان آگئے جہاں انھوں نے کراچی کے علاقے لالو کھیت میں 1953ء سے 1958 ء تک رہائش اختیار کی۔ ان کے والد صفی اللہ ،1947ء میں کراچی آچکے تھے۔ اگست 1955ء میں ابن صفی نے بھیانک آدمی کے عنوان سے عمران سیریز کا پہلا ناول لکھا جسے راتوں رات مقبولیت حاصل ہوئی۔ مذکورہ ناول کو ماہانہ جاسوسی دنیانے نومبر 1955ء میں کراچی کے ساتھ ساتھ الہ آباد سے بیک وقت شائع کیا تھا۔
اکتوبر 1957ء میں ابن صفی نے اَسرار پبلی کیشنز کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا جس کے تحت جاسوسی دنیا کا پہلا ناول ’ٹھنڈی آگ‘ شائع کیا۔ 1958ء میں ابن صفی لالو کھیت سے کراچی کے علاقے ناظم آباد منتقل ہوگئے، یوں انہیں اپنی تخلیقات کو پروان چڑھانے کے لیے ایک آرام دہ ماحول میسر آگیا۔ ناظم آبادکے اس گھر میں وہ 1980ء میں اپنے انتقال تک قیام پذیر رہے۔ جاسوسی دنیا اور عمران سیریز کے تحت ابن صفی کے تحریر کردہ ناولوں کی کل تعداد 245 ہے۔
…٭…٭…٭…
جون 1960ء میں ابن صفی جاسوسی دنیا کا 88؍واں ناول پرنس وحشی اور عمران سیریز کا41؍واں ناول بے آواز سیارہ لکھ چکے تھے کہ ان پر شیزوفرینیا نامی بیماری کا شدید حملہ ہوا ۔ 1960ء سے 1963ء تک وہ مکمل طور پرصاحب فراش رہے۔ اس دوران بازار میں طرح طرح کے جعلی صفیوں کی بھرمار ہوگئی۔
ان میں نجمہ صفی (جس کے بارے میں خود صفی صاحب نے کہا تھا کہ میرے نام سے ملتے جلتے قافیے والی ایک صاحبہ بہت عرصے سے غلط فہمی پھیلا رہی ہیں جبکہ میرے والد صاحب بھی ان کے جغرافیے پر روشنی ڈالنے سے قاصر ہیں )، این صفی، ابّن صفی، ایس قریشی، ابن صقی اور اس قبیل کے بہت سے دوسر ے شامل تھے۔
صحت یابی کے بعد ابن صفی جاسوسی ادب کے میدان میں واپس کیا آئے، ان کے نقالوں کی تو گویا موت واقع ہوگئی۔ وہ جاسوسی ادب کے میدان میں واپس آئے تو اس شان سے کہ عمران سیریز کا ناول ’’ڈیڑھ متوالے‘‘ لکھا جو ایک انتہائی دلچسپ ناول ہے۔ ناول کیا ہے، لکھا لکھایا اسکرپٹ ہے کہ فلم بنانے کے لیے لوکیشنز منتخب کی جائیں اور بلا تامل فلم بندی کا آغاز ہوجائے۔
ان کے کئی ناولوں پر جاسوسی، نفسیاتی، مہماتی اور آرٹ فلمیں بنائی جاسکتی ہیں کہ حیات و کائنات کا کون سا ایسا مسئلہ ہے جسے انہوں نے اپنی تحریروں میں نہ چھیڑا ہو۔ ان میں موروثی ہوس، موت کی آندھی، گیارواں زینہ، وبائی ہیجان، پتھر کی چیخ، گارڈ کا اغوا، شاہی نقارہ، سائے کی لاش جیسے شاہکاروں کے نام لیے جاسکتے ہیں۔ ابن صفی کی ہمہ گیر شخصیت تھی۔
بنیادی طور پرچونکہ وہ ایک اعلی پائے کے شاعر تھے اسی لیے ان کے ناولوں کے نام بھی ان کے ادبی و شاعرانہ ذوق کے عکاس ہوتے تھے: ٹھنڈی آگ، سہمی ہوئی لڑکی، تاریک سائے، سبز لہو، لاش گاتی رہی، آوارہ شہزارہ، چاندنی کا دھواں، چمکیلا غبار، چیختے دریچے، ٹھنڈا سورج، خوشبو کا حملہ وغیرہ وغیرہ۔
…٭…٭…٭…
عالمی افق کی ہمہ وقت بدلتی صورتحال پر ابن صفی کی ہمیشہ گہری نظر رہی۔ترقی پسند تحریک ہو یا پھر وطن عزیز کے لیے ایٹمی پراسسنگ پلانٹ کا حصول، ان کی تحریروں میں جابجا ان معاملات کاذکر ملتا ہے۔ ان کے دیرینہ دوست اور شاعرو ادیب، جناب شاہد منصورمرحوم نے اسی موضوع پر اپنے ایک مضمون میں قدرے تفصیل سے روشنی ڈالی ہے، وہ لکھتے ہیں:
’’ ہمارے ملک پر بھی ایک ایسا وقت آن پڑا تھاکہ یار لوگوں نے سبز پاکستان کو سرخ کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی تھی۔ اس گھمبیر وقت کا سامنا کرنے میں بھی ابن صفی صف اول میں سینہ سپر تھے۔
انہوں نے پے درپے اپنے کئی ناولوں میں نہ صرف اس مسئلے کو اٹھایا بلکہ ان ریشہ دوانیوں کا بھی بڑی چابکدستی سے پردہ فاش کیا جو سفارتی ہھتکنڈوں سے ثقافتی سرگرمیوں کے پردے میں کی جارہی تھیں۔
…٭…٭…٭…
2012ء میں راقم کے نام ایک خط میں پاکستان کے ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان مرحوم نے یہ انکشاف کیا تھا کہ وہ بھی ابن صفی کے پڑھنے والوں میں شامل تھے۔ مرحوم ضمیر اختر نقوی سے راقم کی ملاقاتیں رہی ہیں۔ علامہ ضمیر نے یہ انکشاف کیا تھا کہ ابن صفی آئی ایس آئی کے زیر تربیت افسروں کو لیکچر دیا کرتے تھے۔ اس سلسلے میں راقم نے جنرل حمید گل سے رابطہ کیا۔
گل صاحب ان دنوں مری میں قیام پذیر تھے، انھوں نے وعدہ کیا کہ وہ راولپنڈی پہنچتے ہی اس سلسلے میں تصدیق شدہ معلومات راقم کے علم میں لائیں گے۔ مگر افسوس، اس گفتگو کے دو ہی روز بعد، جنرل حمید گل انتقال کرگئے۔
جامعہ ملیہ نئی دہلی کے استاداور مصنف ڈاکٹر خالد جاوید نے ایک بار کہا تھا:
’’ابن صفی اردو میں ایک روایت کا نام ہے، مگر یہ روایت ان کے ساتھ ہی ختم ہوگئی۔ہماری تنقید نے ان کے ساتھ سگا یا سوتیلا، کسی قسم کا برتاؤ نہیں کیا۔ یہ اسی قسم کی صورتحال ہے جیسے اعلی قسم کا فلم بین طبقہ اور سنیما کے ناقدین نصیر الدین شاہ کے ساتھ دلیپ کمار کا نام لیتے ہوئے ہونٹ دبا لیتے ہیں یا موسیقی کا اعلی ذوق رکھنے والا طبقہ اشرافیہ بھیم سین جوشی کے ساتھ محمد رفیع کے بارے میں کچھ کہنے میں ہتک محسوس کرتا ہے۔ تو کیا ’پاپولر‘ کو صرف اس لیے نکال باہر کیا جائے کہ عوام نے اسے پسند کیوں کیا ۔ ترقی پسند حضرات کو اس پر اور بھی زیادہ غور و خوص کرنے کی ضرورت ہے۔ ‘‘
…٭…٭…٭…
ابن صفی ایک ایسا ُبت تھے جسے توڑنے کی، مایوس و پژمردہ کرنے کی، نیچا دکھانے کی اوراس کی نقالی میں قارئین کو گمراہ کرنے کی بڑے بڑے بت شکنوں نے تمام عمر سعی کی تھی، مگرجب ایسے لوگوں کے ہتھوڑے اور تیشے اس بت کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے سستانے لگتے تھے، وہ ٹکڑے ازسرنو اکھٹا ہوکر اس خوبصورت بت کی صورت اختیار کرلیتے تھے جس کا نام ابن صفی ہے اور جو اپنے تنقیص نگاروں کومخاطب کر کے اپنی نرم، شیریں اور مدھم آواز میں کہتا ہے:
فہم و فراست خو اب کی باتیں، جاگتی دنیا پاگل ہے
عقل کا سورج ماند ہوا ہے، ذروں کی بن آئی
ابن صفی نے جس مسلک کج کلاہی کی سمت ایک دفعہ اپنا قبلہ راست کرلیا ، پھر اسے تاعمر نہیں بدلا اور اپنے اسی عہد وفا میں علاج گردش لیل و نہار ڈھونڈا۔ اور یہ انہوں نے اس زمانے میں کیا جب اردو زبان کے سری ادب کو تازہ خون کی اشد ضرورت تھی۔
کتنے ایسے ہیں جو قریبا نصف صدی تک ایک ہی وضع پر قائم رہے ہوں، جیسا کہ پہلے عرض کرچکا ہوں کہ ابن صفی کے چنے ہوئے راستے سے ادب کے رہنماؤں کو اختلاف رہا ہے لیکن اپنی تحریروں کے ذر یے اردو زبان کے پھیلاؤ، قانون کا احترام اور پڑھنے والوں کی ذہنی و فکری تربیت جیسے کام جس پامردی و استقامت سے انہوں نے کیے، وہ لائق تحسین و تکریم ہیں۔ ابن صفی اس طرح جیے، جس طرح جینا چاہیے اور رخصت ہوئے بھی تو ایسے جس طرح وہ رخصت ہونا چاہتے تھے:
جس طرح آئے گی جس روز قضا آئے گی
خواہ قاتل کی طرح آئے کہ محبوب صفت
دل سے بس ہوگی یہی حرف ودع کی صورت
للہ الحمد! با انجام دل دل زدگاں
کلمہ شکر بنام لب شیریں دہناں
26 ؍جولائی 1980 ء کو بلبل ہزار داستان اپنی نغمہ سرائی ختم کرکے خاموش ہوا۔ سرّی ادب کی محفل ویران ہوگئی۔ وہ دنیا سے کیا گئے،گویا چمن ہی اجڑ گیا۔ علی عمران، کرنل فریدی، کیپٹن حمید ، قاسم، سر سلطان، رحمان صاحب، سنگ ہی، جولیا، صفدر۔۔۔ سبھی دوڑتے دوڑتے یک دم رک گئے۔۔۔گویا کسی نے طنابیں ہی کھینچ لی ہوں۔ جیسے انھیں خود بھی یقین نہ آرہا ہو کہ ان کے ساتھ یہ کیا ہوا ؟
ابن صفی کی موت بعد بھی ان کی کہانیوں کی مستقل فضائیں بھی مغموم و سوگوار لگتی ہیں۔ عمران کے قہقہ بارفلیٹ پر اداسی چھائی ہوئی ہے۔ صفدر، جولیا، خاور، نعمانی، چوہان، ظفرالملک، جمن، سلیمان، جوزف اور یہاں تک کہ عمران جس نے کبھی مایوس ہونا نہ سیکھا تھا، سب کے سب غم و اندوہ میں ڈوبی ہوئی اداس تصویریں بنے بیٹھے ہیں۔
اُدھر کرنل فریدی کی کوٹھی پر بھی سوگوار فضا طاری ہے۔ کیپٹن حمید واقعی مغموم ہوگیا ہے اور اپنے خالی پائپ کو گُھور رہا ہے۔ اور کرنل فریدی۔۔۔۔۔وہ فریدی جس نے کبھی حمید کے اس اظہار خیال پر کہ اب آپ بوڑھے ہوگئے ہیں، کہا تھا، ’’لغو خیال ہے میں کبھی بوڑھا نہیں ہوسکتا۔‘‘ جس کی ڈکشنری میں مایوسی اور ناکامی جیسے الفاظ نہیں ملتے، وہ فریدی بھی آج افسردگی کے عالم میں اپنے بجھے ہوئے سگار کو یوں تک رہا ہے جیسے سگار کی آگ نہ ہو بلکہ ایک تابناک اور بھڑکتا ہوا شعلہ ہو جو یکایک سرد ہوگیا ہے۔
غم انگیز پرچھائیوں نے فریدی کے چہرے کو جھریا دیا ہے۔ پہلی بار اس کے چہرے پر مایوسی کے آثار نظر آئے ہیں اور اس اندوہناک خیال سے اور زیادہ وحشت ہوتی ہے کہ کون آئے گا جو ان کے کرداروں میں روح پھونک سکے گا، ان میں جان ڈال کر فریدی کو واقعی فریدی اور عمران کو واقعی عمران بنا کر پیش کرسکے گا۔
حقیقت تو یہ ہے کہ ان دونوں کرداروں کی ہمہ گیریت اوران کی کردارسازی کے فن سے جتنا ابن صفی واقف تھے کسی دوسرے کا اس کی گرد تک کو پہنچنا بعید از قیاس ہے۔
نارہ کے اسرار احمد المعروف ابن صفی !۔۔۔۔۔۔ہم سب کےابن صفی کو کون بھول سکتا ہے۔