جی۔ایم۔اصغر
صدر شعبہ اردو، پبلک اسکول ،حیدر آباد
1857 ء کی جنگ ِ آزادی میں ناکامی کے بعد ہندوستان میں سر سید احمد خان کی تحریک سے عقلیت پسندی اور ذہنی بیداری کی جو فضا قائم ہوئی تھی اس میں بڑوں کے لہجے میں نصیحت کرنے والے تو بہت تھے لیکن بچوں کے لہجے میں بچوں سے باتیں کرنے والا کوئی نہ تھا۔ اس وقت تک اردو میں جو کتابیں لکھی جارہی تھیں وہ سماجی یا سائنسی علوم پر تھیں اور درسی کتابوں کا محور وہ غیر ملکی آقا تھے جو اردو زبان کو اپنی حکمرانی قائم رکھنے کے لیے سیکھنا چاہتے تھے۔
اردو کے قاعدوں اور ابتدائی درسی کتابوں کی ترتیب و تدوین کے کام کا آغاز پنجاب میں مولانا محمد حسین آزاد اور صوبہ متحدہ و اودھ میں مولانا محمد اسماعیل میرٹھی نے کیا۔مولانا اسماعیل میرٹھی نے بڑی محنت، جانفشانی اور دل جمعی سے بچوں کے لیے اردو کی ابتدائی پانچ درسی کتابیں ترتیب دیں جو طویل عرصے تک شامل نصاب رہیں۔
اسماعیل میرٹھی بچوں کے ادب کے خالق ہیں ۔انھوں نے بچوں کی نفسیات اور ذہنی نشو و نما کو بڑی اہمیت دی۔اس دور کے آپ پہلے ادیب ہیں جنھوں نے باقاعدہ بچوں کے ادب کی تخلیق پر توجہ دی اور اس عظیم مقصد کے لیے اپنی زندگی وقف کی۔ اسماعیل میرٹھی نے اردو زبان کی تدریسی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے با قاعدہ نظمیں اور درسی کتابیں لکھیں۔ ان کی کتابوں اور نظموں میں بچوں کی تربیت، ذہن سازی اور کردار سازی پر بھرپور توجہ دی گئی ہے۔
اسماعیل میرٹھی نے جو ادب تخلیق کیا اس میں انھوں نے بچوں کی نفسیات، عادات، مزاج اور فطری صلاحیتوں کو مد نظر رکھا، یہی وجہ ہے کہ ان کی نظمیں پڑھنے کے بعد ہر باشعور بچہ جھومنے لگتا ہے۔ نظموں میں سادگی، سلاست اور نغمگی بچوں کے فہم و ادراک کو مد نظر رکھ کر اختیار کی گئی ہے، اسی لیے بچے ان کی نظمیں بڑے ذوق و شوق کے ساتھ پڑھتے ہیں۔
یہ نظمیں اتنی سہل اور دل چسپ ہیں کہ بچوں کو بہ آسانی یاد ہوجاتی ہیں۔اسماعیل میرٹھی کی یہ شاعرانہ خصوصیت ایسی ہے جو انھیں دیگر شعرا سے ممتاز کرتی ہیں۔ ایک صدی سے زیادہ عرصہ گزرنے کے بعد بھی یہ نظمیں بچوں میں آج بھی مقبول ہیں اور بڑی دل چسپی کے ساتھ پڑھی جاتی ہیں۔ ان کی نظموں کے متعدد ایسے اشعار ہیں جو آج بھی زبان زدِ عام ہیں جیسے:
رب کا شکر ادا کر بھائی
جس نے ہماری گائے بنائی
وہ دیکھو اٹھی کالی کالی گھٹا
ہے چاروں طرف چھانے والی گھٹا
نہر پر چل رہی ہے پن چکی
دھن کی پوری ہے کام کی پکی
مئی کا آن پہنچا مہینا
بہا چوٹی سے ایڑی تک پسینا
مولانا محمد حسین آزاد اور الطاف حسین حالی نے جدید نظم کے لیے زیادہ تر مسدس اور مثنوی کی مروجہ اصناف کو اختیار کیا لیکن مولانا اسماعیل میرٹھی نے ان کے علاوہ مثلث، مربع، مخمس اور مثمن سے بھی کام لیا۔ انھوں نے بے قافیے اور آزاد اور نظموں کے تجربے بھی کیے۔اس طرح انہوں نے اردو نظم نگاری میں اپنی جدت پسندی سے غالب کے مستند شاگرد ہونے کا حق بھی ادا کیا۔ لیکن ان کا اصل کام جو انھیں اردو ادب کی تاریخ میں ہمیشہ زندہ رکھےگا ان کی وہ نظمیں ہیں جو بچوں کے لیے لکھی گئیں۔
بقول حکیم محمد سعید:" بچوں سے مولانا محمد اسماعیل میرٹھی کی دوستی بہت بامقصد تھی۔ وہ قوم کو ذہنی ،فکری اور عملی حیثیت سے جس مقام پم پر لانا چاہتے تھےاور جو کچھ دینا چاہتے تھے نو نہالوں کے ذریعے ہی دے سکتے تھے۔ ان ہی کے ذہن کی تعمیر سے قوم تیار ہوسکتی تھی۔"پرو فیسر احتشام حسین نے انھیں "سعدی ہند" اور "بچوں کے اسماعیل" کہہ کر یاد کیا ہے۔
معزز قارئین! آپ سے کچھ کہنا ہے
ہماری بھرپور کوشش ہے کہ میگزین کا ہر صفحہ تازہ ترین موضوعات پر مبنی ہو، ساتھ اُن میں آپ کی دل چسپی کے وہ تمام موضوعات اور جو کچھ آپ پڑھنا چاہتے ہیں، شامل اشاعت ہوں، خواہ وہ عالمی منظر نامہ ہو یا سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، رپورٹ ہو یا فیچر، قرطاس ادب ہو یا ماحولیات، فن و فن کار ہو یا بچوں کا جنگ، نصف سے زیادہ ہو یا جرم و سزا۔ لیکن ان صفحات کو اپنا سمجھتے ہوئے آپ بھی کچھ لکہیں اور اپنے مشوروں سے نوازیں بھی۔ خوب سے خوب تر کی طرف ہمارا سفر جاری ہے۔
ہمیں خوشی ہے کہ آج جب پڑھنے کا رجحان کم ہوگیا ہے، آپ ہمارے صفحات پڑھتے ہیں اور وقتاً فوقتاً اپنی رائے کا اظہار بھی کرتے رہتے ہیں۔ لیکن اب ان صفحات کو مزید بہتر بنانے کے لیے اپنی رائے بھی دیں اور تجاویز بھی، تاکہ ان صفحات کو ہم آپ کی سوچ کے مطابق مرتب کرسکیں۔ ہمارے لیے آپ کی تعریف اور تنقید دونوں انعام کا درجہ رکھتے ہیں۔ تنقید کیجیے، تجاویز دیجیے۔ اور لکہیں بھی۔ نصف سے زیادہ، بچوں کا جنگ، ماحولیات وغیرہ یہ سب آپ ہی کے صفحات ہیں۔ ہم آپ کی تحریروں اور مشوروں کے منتظر رہیں گے۔ قارئین کے پرزور اصرار پر نیا سلسلہ میری پسندیدہ کتاب شروع کیا ہےآپ بھی اس میں شریک ہوسکتے ہیں ، ہمارا پتا ہے:
رضیہ فرید۔ میگزین ایڈیٹر
روزنامہ جنگ، اخبار منزل،آئی آئی چندیگر روڈ، کراچی