اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ اکیس ویں صدی کا آغاز ایک طرح سے انسانی تاریخ اور تہذیبی و ثقافتی سفر کے ایک نئے موڑ کے طور پر ہوا تھا،جس سے آگے کے سفر میں انسانی تمدن اور تہذیب و ثقافت کی کایا کلپ کے انتظامات کا پورا روڈ میپ نہ صرف سامنے آرہا تھا ،بلکہ وہ جو گزشتہ صدی کی آخری دہائی میں خصوصیت سے نیو ورلڈ آرڈر کی اصطلاح سنی گئی تھی، اس کی عملی صورتوں کا منظرنامہ انسان اور اس کی تہذیب کا منتظر تھا۔
اس نئی صدی کا آغاز جنگ و جدل سے ہوا تھا۔ اس سے پہلے کے زمانوں میں ہونے والی جنگوں کی تاریخ کو پیشِ نظر رکھا جائے تو اس امر کی نشان دہی ہوتی ہے کہ ایک مقتدر سیاسی قوت بالعموم اپنے سے کسی قدر کم زور یا اپنے آس پاس کی صلاحیت والے ملک و قوم پر مادی مفاد کی حصول کے لیے حملہ آور ہوتی ہے، تاکہ اس کے مادی وسائل اور ذرائع پر غلبہ پاکر اپنے اقتدار کی وسعت اور طوالت کا انتظام کیا جائے۔ اکیس ویں صدی کے آغاز میں ہونے والی جنگوں کی حقیقت اس سے مختلف نظر آتی ہے۔ اس بار صرف مادی وسائل کا حصول مطمحِ نظر نہیں ہے، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ تہذیبی انفرادیت اور ثقافتی امتیاز کو مٹانا بھی جنگ کے بنیادی مقاصد میں خاص اہمیت کا حامل ہے۔
اس نکتے کو سمجھنے کے بعد ہم امریکا کی افغانستان اور عراق پر چڑھائی پر غور کرتے ہیں، اس کے بعد مصر، لبنان اور شام میں پیدا کیے گئے داخلی انتشار پر توجہ دیتے ہیں اور ایسی ہی ایک کوشش ترکی کے سلسلے میں بھی ہوتی ہے اور حال ہی میں ایسا ہی ایک کھیل ایران میں بھی ہمارے سامنے آتا ہے— بہرحال اس پوری صورتِ حال کی کڑیوں کو جوڑ کر دیکھنے سے جو منظر ہمارے سامنے آتا ہے وہ اس حقیقت کو بے نقاب کرتا ہے کہ ان ممالک میں ہونے والے یہ سارے اقدامات خواہ وہ کسی بھی عنوان یا اعلان کے تحت کیے گئے ہوں، محض مادی مفادات کے حصول کے لیے نہیں تھے بلکہ ان کے پس منظر میں اس سے بھی بڑا ہدف یعنی اس دنیا کی صورت کو تبدیل کرنا کارفرما ہے۔
یہ ہدف ثقافتوں کی انفرادی شناخت کو مٹانے اور انسانی سائیکی کی قلبِ ماہیت کے بغیر حاصل نہیں کیا جاسکتا، اور جنگ و جدل، سماجی انتشار اور سیاسی عدم استحکام کا جو منظر مندرجہ بالا اسلامی ممالک میں سامنے آتا ہے، وہ فی الاصل اسی کے حصول کی کوشش سے عبارت ہے۔ ترکی اس جارحیت کو سمجھنے اور ناکام بنانے میں سرخ رُو رہتا ہے اور حالیہ منظرنامے میں ایران اسی کے خلاف کامیابی سے نبرد آزما ہے۔
اِدھر جنوبی ایشیا میں پاکستان میں داخلی انتشار اور سماجی برہمی کا ایک وسیع اور دبیز جال بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ یہاں مذہبی، مسلکی، لسانی اور ثقافتی حوالوں سے افتراق، نفرت، ہیجان اور انتشار کی مختلف صورتیں سامنے آتی ہیں۔ دوسری طرف دو سوا دو سال پہلے بھارتی جارحیت، جنوبی ایشیا میں اس وقت حربی ٹکرائو کا ہول ناک ماحول پیدا کر دیتی ہے جب وہ مقبوضہ کشمیر کے سیاسی اور انسانی حقوق کو مکمل طور پر سلب کرتے ہوئے اسے بھارت کا حصہ بنا لیتی ہے۔
دوسری طرف سائنس اور ٹیکنالوجی کی ہوش رُبا ترقی ہے جو انسانی ذہن، اعصاب اور مزاج کو اپنا اسیر ہی نہیں بنا رہی، بلکہ اس سے فکر و خیال کی تشکیل بھی اس طرح کر رہی ہے کہ وہ اجتماعیت کے دائرے سے نکل کر ذات کے نکتے میں سمٹتے سکڑتے ہوئے ایک بے مہر اور بے وقت ذرّے میں تبدیل ہونے جارہا ہے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کی اس ترقی نے جو کچھ انسان کو مثبت صورت میں دیا ہے، اس کی حقیقت سے بھلا کون انکار کر سکتا ہے، لیکن اس کی جو قیمت وصول کی جارہی ہے، وہ انسان کی اجتماعی، ثقافتی، تہذیبی اور اخلاقی موت سے کسی طرح کم نہیں ہے۔
ہمارے افسانہ نگاروں کے تخلیقی شعور نے اپنے اپنے رجحانات کے تناظر میں اپنے عہد کی ان سب حقیقتوں کو اظہار کے دائرے میں بڑی حد تک سمیٹا اور پوری کامیابی سے پیش کیا ہے۔ یہ سب موضوعات بہت بڑے اور گہرے ہیں، لیکن اردو افسانے کا تخلیقی سبھائو ان مسائل کو پوری طرح سہارنے میں کامیاب رہا ہے۔ مثال کے طور پر جنگی تباہی اور ہول ناک صورتِ حال کو انتظار حسین نے اپنے افسانے ’’مورنامہ‘‘ میں تخریب کے زاویے سے دیکھا ہے تو خالدہ حسین نے اس مسئلے کی انسانی جہت کو موضوع بنایا ہے، ان کا افسانہ ’’ابنِ آدم‘‘ جنگ کی آگ کا ایندھن بننے والی معصوم روحوں کو ان کے ذاتی المیے، سماجی حقائق اور انسان کے فطری اور فوری ردِعمل کو اس طرح ابھارتا ہے کہ علاقائی حوالے کے باوجود یہ کردار اور ان کا مسئلہ اپنی شدت اور نوعیت کا ابلاغ محض انسانی جہت سے کرتے ہوئے ، تہذیبی و ثقافتی اور زمانی فریم کو ایسے ہر تجربے کا پیش منظر بنا دیتا ہے۔
جیلانی بانو کے یہاں بھی یہ مسئلہ دو افسانوں میں ہمارے سامنے آتا ہے۔ ان افسانوں خاص طور سے ’’عباس نے کہا‘‘ میں ایک مذہبی زاویہ بھی اگرچہ پوری طرح نمایاں ہے، لیکن مسئلے کی بنیاد انسانی جذبے اور احساس میں پیدا ہونے والے ارتعاش پر ہے۔ فن کی اثرپذیری کا یہی بنیادی حوالہ ہوتا ہے۔
اس کے علاوہ زاہدہ حنا کے ’’رقصِ بسمل‘‘، امرائو طارق کے ’’آتش فشاں کی گود میں‘‘، محمد حمید شاہد کے ’’مرگ زار‘‘ اور محمد امین الدین کے ’’چیونیٹیوں کی طرح مت چیخو‘‘ کے افسانوں میں بھی جنگ، دہشت، بربریت اور انسانی وجود کی بے وقعتی اور پامال کو اپنے اپنے انداز سے موضوع بنایا گیا ہے۔
ان افسانوں میں پیش کیے گئے کردار، ان کے مسائل، ان کا المیہ اور ان کی انسانی تقدیر کا عمل سب کی نوعیت بے شک الگ الگ ہے، لیکن ان سب فن کاروں نے جس انداز سے اپنے عہد کے اس مسئلے کو فوکس کیا ہے اور جیسے انسانی احوال کو پیش کیا ہے، وہ اس عہد میں انسان کے وجود اور اس کی وقعت کا وہ منظر سامنے لاتا ہے جس کی نوعیت کو الگ زاویے سے ہی دیکھنے کا موقع نہیں ملتا بلکہ اس کے پس منظر میں کارفرما احساس کی لہر بھی پوری شدت کے ساتھ محسوس کی جاسکتی ہے۔
اکیس ویں صدی میں معاشروں کی کایا کلپ کا جو منظر ہم دیکھ رہے ہیں اُس میں سب سے اہم اور شدید نوعیت کا کردار ادا کرنے والا ایک عامل سیاست بھی ہے۔ سیاسی ہتھکنڈے کس طرح عالمی بساط پر کام کر رہے ہیں اور اپنے خاص مقامی ماحول میں ان کے کردار کی نوعیت کیا ہے اور وہ فرد اور سماج پر اثر انداز کس طرح ہو رہے ہیں، یہ موضوع بھی خاص طور سے افسانہ نگاروں کے پیشِ نظر رہا ہے— نجم الحسن رضوی کا ’’شیشے اور دل‘‘، اسد محمد خاں کا ’’دانی کی کہانی‘‘ یا ’’ہے للا للا‘‘، عابد سہیل کا ’’شرطیں‘‘، محمود احمد قاضی کا ’’بین کرنے والی‘‘، اشفاق احمد کا ’’اشرف اسٹیل مارٹ‘‘، اسرار گاندھی کا ’’غبار‘‘، سیّد محمد اشرف کا ’’رنگ‘‘ اور شموئل احمد کا ’’عنکبوت‘‘ ایسے افسانے ہیں جو اس عہد کے سماجی، انسانی، تہذیبی اور اخلاقی معاملات میں انسان کی روز بدلتی صورتِ حال اور اس کے عقب میں کارفرما سیاسی عناصر اور ان کی سیدھی، الٹی اور ٹیڑھی چال کو کسی نہ کسی رُخ سے پیشِ نظر رکھتے ہوئے، اس عہد کے انسان کی زندگی پر اس کے اثرات کو دیکھنے اور سمجھنے کی صورت پیدا کرتے ہیں۔ ان اثرات کو جانچنے کی کوشش کی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اُن کی نوعیت براہِ راست یعنی اپنے ظاہر میں سیاسی نہیں ہیں، بلکہ لکھنے والوں نے کہیں فرد کے الجھائو، کہیں سماج کی لاتعلقی، کہیں جدید آلات کے زندگی میں عمل دخل، کہیں معاشی مسئلے اور کہیں اخلاقی سوال کے حوالے سے موضوع بنایا اور فنی تفتیش کے لیے پیشِ نظر رکھا ہے۔
اس زمانے میں حیاتِ انسانی کا جو رُخ بالخصوص تخلیق کاروں اور افسانہ نگاروں کی توجہ کا مرکز رہا ہے، وہ فرد کی ذات کا الجھائو، سماجی زندگی کے باوجود جذبہ و احساس کی سطح پر سماج سے کٹتا ہوا انفرادی وجود، عقل و خردکی ہر چیز میں دخل اندازی کے ساتھ ساتھ اس کی روز افزوں معذوری کا گہرا احساس، تیزی سے بڑھتا اور بجائے خود زندگی کو کھا جانے والا وحشت اثر خیز روز مرہ انسانی رویہ ہے۔ یہ سب مسائل یوں تو اپنے اپنے طور پر الگ اور اپنی اپنی جگہ خود بڑے محسوس ہوتے ہیں، لیکن یہ سب دراصل انسانی احساس کی وہ بدلتی ہوئی صورتیں ہیں جو اس عہد کی زندگی میں سماج اور تہذیب کے فرق کے باوجود ، انسان میں کسی نہ کسی شکل میں دیکھی جاسکتی ہیں بلکہ ان کی اثر پذیری کا نقشہ بھی انسانی عمل کے ہر منظر اور زندگی کی ہر سطح پر ان کے زیرِ اثر بنتے اور پھیلتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔
یہ صورتِ حال ہمیں انسان کی بے وقعتی اور بے قیمتی سے آگاہ کرتی ہے ۔ اس کا اظہار منشا یاد کے یہاں ’’کوک بھرا کھلونا‘‘، خالدہ حسین کے ’’متبادل راستے‘‘، رشید امجد کے ’’یہ کہانی کس کی ہے‘‘ اور ’’اصل‘‘، اقبال مجید کے ’’قصۂ نازیبا‘‘، نیر مسعود کے ’’گنجفہ‘‘، ’’بڑا کوڑا گھر‘‘، اور ’’آزاریان‘‘، مسعود اشعر کے ’’اندھیرے کا سفر‘‘، مشرف عالم ذوقی کے ’’گلیشیئر ٹوٹ رہے تھے...‘‘ اخلاق احمد کے ’’کہانی بائولے خالو کی‘‘، ساجد رشید کے ’’موت کے لیے ایک اپیل‘‘، امجد طفیل کے ’’مچھلیاں شکار کرتی ہیں‘‘، خالد محمود سنجرانی کے ’’ڈسپوزیبل شہر‘‘، طاہرہ اقبال کے ’’نوکر بچہ‘‘ سلمیٰ اعوان کے ’’تصور کا یہ رُخ بھی‘‘، محمد حامد سراج کے ’’درونِ خود ہمہ تن ریختہ و آبلہ پا‘‘، آصف فرخی کے ’’سمندر کی چوری‘‘، عرفان جاوید کے ’’سوئے ہوئوں کا قصہ‘‘، طلعت حسین کے ’’پھیکے نیلے آسمان کا رنگ‘‘، محمد انور جاوید کے ’’تولا‘‘، عطا الرحمن خاکی کے ’’روشنیوں کا شہر‘‘، وقار مصطفی سپرا کے ’’قصۂ گزشتہ‘‘، زین سالک کی ’’خلائی مخلوق کا ایک سیاہ راز‘‘، الیاس دانش کے ’’سپر نووا‘‘، اوراشتیاق احمد کے ’’بندر کا تماشا‘‘، افسانوں میں ہمارے سامنے آتا ہے اور فرد کی زندگی اور اس کے سیاسی، سماجی اور تہذیبی احوال کو سمجھنے کی ترغیب دیتا ہے۔
اسے عہدِ جدید کے انسان کی زندگی کا تاریک رُخ تو نہیں کہنا چاہیے۔ اس لیے کہ نور اور ظلمت کی اصطلاحوں کو اس دور میں نئے سرے سے دیکھنے اور ری ڈیفائن کرنے کا تقاضا بھی محسوس ہوتا ہے۔ تاہم اتنی بات ضرور کہی جاسکتی ہے کہ اس زمانی فریم میں انسانی زندگی جن تجربات کی زیرِ اثر ہے، اُن میں سفیدی کا عنصر کم اور سیاہی کا زیادہ ہے اور ان دونوں سے بھی زیادہ سرمئی رنگ انسانی احساس اور اس کی فکر دونوں منطقوں پر حاوی دکھائی دیتا ہے۔ یہ عہدِ جدید کے انسان کی ناگزیر تقدیر ہے جو اُس کے اپنی جڑوں سے کٹنے اور نئے تصورات کی لپیٹ میں آنے کا اشاریہ ہے۔
یہ عہد اور اس کا انسان ماقبل زمانے اور انسان کے تقابل میں جس بنیادی فرق کے ساتھ سامنے آتا ہے، وہ اس کی فکر اور وجود پر سایہ فگن یقین اور توہم کا تناسب ہے۔ پہلے کے انسان کی زندگی میں یقین کے اثرات کہیں زیادہ اور بہت گہرے تھے۔ اس کے برعکس عہدِ جدید کے انسان کی زندگی میں یقین کی دولت تیزی سے سکڑتی چلی گئی ہے اور توہمات کا تناسب اس درجہ بڑھ گیا ہے کہ آج اس کے یہاں یقین و ثبات کی آرزو ماند دکھائی دیتی ہے۔ اس کا ایک سبب اس کی زندگی سے مذہب کی روح کا رخصت ہو جانا بھی ہے۔ اس خلا کو عہدِ موجود کے انسان نے مذہبی شدت پسندی اور رسومات پر اصرار سے پُر کرنے کی کوشش کی ہے، لیکن روح کے خلا کو رسم سے بھلا کیوں کر پُر کیا جاسکتا ہے۔
عورت کی زندگی اور اس کا طرزِ احساس اردو ادب خصوصاً فکشن کے لیے نئی چیز تو بالکل نہیں ہے، لیکن عورت کے وجودی، ذہنی، فکری اور حسی تجربات کی طرف جس انداز اور جس سطح پر اس عرصے میں توجہ مرکوز ہوئی ہے، وہ یقینا غور طلب ہے۔ اس حوالے سے خالدہ حسین کا ’’دادی آج چھٹی پر ہیں‘‘، فہمیدہ ریاض کا ’’اُس نے کہا تھا‘‘، فاطمہ حسن کا ’’ٹھہری ہوئی یاد‘‘ ، نیلو فر اقبال کا ’’سیاہ لباس‘‘ نجیبہ عارف کا ’’جھوٹی کہانی‘‘ اور ’’سخت بے زمینی ہے‘‘ ، شہلا نقوی کا ’’پریشاں خواب‘‘،’ محمد عثمان جامعی کا ’’شہر سے دور دو آنکھیں‘‘، حمیرا اشفاق کا ’’حصار‘‘ سیمیں کرن کا ’’نیاز مند جبیں کا سجدہ بے نیاز‘‘، سارہ احمد کا ’’مجھے گھر نہیں جانا‘‘، فرحین شیخ کا ’’ہیں! میں وہ نہیں‘‘ ایسے کچھ افسانے ہیں جن میں عورت کو اس کے سماجی و ثقافتی سیاق سے دیکھنے اور اس کی زندگی کی معنویت کو حاصل اور لاحاصل کے گوشوارے کے ساتھ سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے۔
یہاں ایک کتاب کا خصوصی ذکر بے محل نہ ہوگا اور وہ ہے ’’گونجتی سرگوشیاں‘‘۔ افسانوں کا یہ مجموعہ فرحین خالد اور صفیہ شاہد نے مرتب کیا ہے،اس میں سات افسانہ نگاروں (ابصار فاطمہ، ثروت نجیب، سمیرا ناز، صفیہ شاہد، فاطمہ عثمان، فرحین خالد اور معافیہ شیخ) کی پینتیس نگارشات شامل ہیں۔ کم و بیش سارے ہی افسانے عورت اور اس کے وجود و روح کا احوال سناتے ہیں۔
ایک زمانے میں ہمارے یہاں ’’انگارے‘‘ کی بہت گونج ہوئی تھی۔ مماثلت یا مشابہت کی طرف بحث میں جانا مقصود نہیں، لیکن یہ ضرور کہا جانا چاہیے کہ یہ کتاب اپنے تخلیقی اظہار میں جن سوالوں اور مباحث کو فوکس کرتی ہے، وہ بلاشبہ ایسے ہیں کہ ان کو دیکھا جائے، ان پر بات کی جائے اور ان کے بارے میں سماجی اور ثقافتی رویے، مسائل اور انسانی احوال کے زاویے سے مطالعات مرتب کیے جائیں۔ یہ افسانے، ٹھیک ہے عورت اور اس کی زندگی کو موضوع بناتے ہیں اور عورت ہی نے قلم بند کیے ہیں، لیکن یہ افسانے درست طور پر اصرار کرتے ہیں کہ عورت بھی معاشرے کا ناگزیر اور اہم تر حصہ ہے۔ اس کے وجود کی ابتلا اور روح کی کیفیت کو انسانی سطح پر دیکھنے کی ترغیب دینے اور سمجھنے کا مطالبہ کرنے والی تحریریں یقینا اہم اور توجہ طلب ہیں۔ یہ کتاب ایسی ہی تحریروں کا مجموعہ ہے۔
اکیس ویں صدی کی دوسری دہائی کا آخری برس انسانی تاریخ کا ایک بے حد مختلف برس تھا۔ یہ سال تاریخ کے صفحات اور انسانی حافظے میں اپنے بے حد انوکھے اور سخت ہول ناک تجربے کے حوالے سے تادیر تازہ رہے گا۔ ایک وبا جو اس سے پہلے والے سال کے اواخر میں چین کے شہر سے پھوٹی تھی اس نے دیکھتے ہی دیکھتے پورے کرہ ارض کو اس طرح اپنی لپیٹ میں لے لیا کہ ساری دنیا خوف کی تنہائی میں بند اور بالکل ساکت ہو کر رہ گئی۔ وبائیں اس سے پہلے بھی ملکوں اور قوموں پر گزرتی رہی ہیں، لیکن ان کی نوعیت اب تک مقامی رہی تھی۔ ایک مخصوص علاقہ یا زیادہ سے زیادہ اس کا قریبی جغرافیہ اس کی لپیٹ میں آتا تھا، لیکن اس بار کووڈ۔۱۹ یا کورونا کے نام سے جو وبا آئی اس نے پوری انسانی آبادی کا احاطہ کیا۔
لاکھوں اموات ہوئیں اور کئی کروڑ سے زیادہ افراد اس وبا کے جاں گسل تجربے سے گزرے۔ خوف اور سراسیمگی نے تو کم و بیش پوری انسانی آبادی کو گھیر لیا۔ وبائوں کے حوالے سے بڑے ادبی فن پارے پہلے بھی تخلیق ہوئے ہیں، اسی وبا کے حوالے سے بھی اردو میں افسانے سامنے آئے، مثلاً ذکیہ مشہدی کا ’’کووڈ کے ماتم دار‘‘ محمد حمید شاہد کے ’’میری گود میں دم نکلے‘‘، اور شکیل اختر کے ’’مستعار سانسیں‘‘ ایسے افسانے پڑھنے کو ملے جو اس وبا اور اس کے انسانی دل و دماغ پر اثرات کو موضوع بناتے ہیں، تاہم اس امر میں کوئی تأمل نہیں ہونا چاہیے کہ اس موضوع کے حوالے سے کوئی بڑا تخلیقی تجربہ ابھی سامنے نہیں آیا ہے۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ یہ موضوع اس نوعیت کا ہے کہ اس کی انسانی احساس میں تحلیل اور جمالیاتی تشکیل وقت طلب ہے۔
آخر میں یہ بات ذمہ داری سے کہی جاسکتی ہے کہ اردو افسانے کا اکیس ویں صدی میں تخلیقی تناظر اس امر کا عکاس ہے کہ اس عرصے میں جو تجربات اس صنف میں سامنے آئے ہیں وہ نہ صرف صنفِ ادب کی مکمل فعالیت کا ثبوت ہیں بلکہ عصری حسیت، سماجی شعور، ثقافتی امتیاز اور انسانی فکر و احساس کی وسعت اور گہرائی کے حامل بھی ہیں۔ یہ تجربات اس امر کی گواہی دیتے ہیں کہ ہمارے تخلیق کار اپنے زمانے سے پوری طرح ہم آہنگ ہیں اور ان کے یہاں تخلیقِ فن کی وہ جستجو پوری طرح کار فرما ہے جو کسی عہد کے امتیاز کا مظہر ہوتی ہے۔
معزز قارئین! آپ سے کچھ کہنا ہے
ہماری بھرپور کوشش ہے کہ میگزین کا ہر صفحہ تازہ ترین موضوعات پر مبنی ہو، ساتھ اُن میں آپ کی دل چسپی کے وہ تمام موضوعات اور جو کچھ آپ پڑھنا چاہتے ہیں، شامل اشاعت ہوں، خواہ وہ عالمی منظر نامہ ہو یا سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، رپورٹ ہو یا فیچر، قرطاس ادب ہو یا ماحولیات، فن و فن کار ہو یا بچوں کا جنگ، نصف سے زیادہ ہو یا جرم و سزا۔ لیکن ان صفحات کو اپنا سمجھتے ہوئے آپ بھی کچھ لکہیں اور اپنے مشوروں سے نوازیں بھی۔ خوب سے خوب تر کی طرف ہمارا سفر جاری ہے۔
ہمیں خوشی ہے کہ آج جب پڑھنے کا رجحان کم ہوگیا ہے، آپ ہمارے صفحات پڑھتے ہیں اور وقتاً فوقتاً اپنی رائے کا اظہار بھی کرتے رہتے ہیں۔ لیکن اب ان صفحات کو مزید بہتر بنانے کے لیے اپنی رائے بھی دیں اور تجاویز بھی، تاکہ ان صفحات کو ہم آپ کی سوچ کے مطابق مرتب کرسکیں۔ ہمارے لیے آپ کی تعریف اور تنقید دونوں انعام کا درجہ رکھتے ہیں۔ تنقید کیجیے، تجاویز دیجیے۔ اور لکہیں بھی۔ نصف سے زیادہ، بچوں کا جنگ، ماحولیات وغیرہ یہ سب آپ ہی کے صفحات ہیں۔ ہم آپ کی تحریروں اور مشوروں کے منتظر رہیں گے۔ قارئین کے پرزور اصرار پر نیا سلسلہ میری پسندیدہ کتاب شروع کیا ہےآپ بھی اس میں شریک ہوسکتے ہیں ، ہمارا پتا ہے:
رضیہ فرید۔ میگزین ایڈیٹر
روزنامہ جنگ، اخبار منزل،آئی آئی چندیگر روڈ، کراچی