ایوب خان کے دور میں زیر تربیت سی ایس پی افسروں کو کچھ عرصہ کیلئے فوج کی کسی یونٹ سے منسلک کیا جانے لگا، مقصد تھا کہ باہمی تعلق قائم ہو۔ اِس ضمن میں سویلین اور عسکری اداروں کے مابین ربط نے کئی لطیفوں کو جنم دیا۔ سویلین افسردورانِ تربیت، رینک کے بغیر فوجی وردی پہنتے۔ ایک روز میس میں بڑے ڈنر کا اہتمام تھا۔ مہمان آپس میں متعارف ہو رہے تھے۔ 1965ء بیچ کے زیر تربیت افسر مرحوم جیون خان بھی محفل میں شریک تھے۔ فوجی اسٹائل میں کٹے بالوں کے ساتھ وہ باقی شرکاء کی طرح سویلین لباس میں تھے۔ تعارف کے دوران، جیون خان نے کسی میجر کو اپنا نام بتایا تو اُس نے جیون کو ’’G-1‘‘ (جی- ون) سمجھا۔ فوج میں G-I کرنل رینک کا اہم عہدہ ہے۔ میجر صاحب اُنہیں بہت عزت و احترام سے، سر کہہ کر مخاطب کرتے رہے۔ کسی معاملہ فہم نے وضاحت کی تو تمام مہمان اِس غلط فہمی پر بہت محظوظ ہوئے۔ جنرل جیلانی پنجاب میں گورنر تعینات ہوئے تو یہ واقعہ علم میں آنے پر اُن کا محبوب لطیفہ بن گیا۔ صدر پاکستان ڈویژن کے قیام کا اعلان کرنے ڈیرہ غازی خان تشریف لائے تو گورنر جیلانی نے پہلے کمشنر کے طور پر جیون خان کا نام تجویز کیا، راقم اُس محفل میں موجود تھا۔ گورنر جیلانی نے ضیاالحق کو یہ واقعہ سُنایا تو صدر پاکستان کے قہقہے نہ تھمے۔
کیڈٹ کالج حسن ابدال کے نیم فوجی ماحول میں فوج سے ایک تعلق تو زمانۂ طالب علمی سے قائم تھا۔ بہت سے ہم جماعت، بری، بحری اور فضائیہ میں شامل ہوئے۔ راقم سی ایس ایس کے بعد سرکار ی ملازمت میں آیا تو کچھ دیر بعد مارشل لاکا نفاذ ہوا۔ سول انتظامیہ، فوجی افسران کی زیر نگرانی کار سرکار سرانجام دینے لگی۔ ہر ضلع میں سب مارشل لا ایڈمنسٹریٹر تعینات ہوئے۔ میری پہلی تعیناتی، بطور اسسٹنٹ کمشنر، ضلع شیخوپورہ کی تحصیل ننکانہ صاحب میں ہوئی۔ شیخوپورہ میں کرنل نصیر، 47 پنجاب کے کمانڈنگ آفیسر، یونٹ کے افسروں کی معاونت سے انتظامی معاملات کے نگراں تھے۔ اُن کے ماتحت میجر ساجد اور میجر ارشد علوی سے تعلقات، سرکاری معاملات سے شروع ہو کر ذاتی دوستی میں بدل گئے۔ جب 47پنجاب، شیخوپورہ سے کوئٹہ منتقل ہوئی تو راقم رات ایک بجے لاہورریلوے اسٹیشن کے پلیٹ فارم 8 پر یونٹ کے افسروں اور جوانوں سے الوداعی ملاقات کیلئے موجود تھا۔ کئی برس بعد جب میری تعیناتی سیالکوٹ ہوئی تو 47پنجاب رجمنٹ8سندھ میں تبدیل ہو چکی تھی۔ حسن اتفاق سے 8سندھ، سیالکوٹ چھائونی منتقل ہوئی تو میجر ارشد علوی اِس یونٹ کے کرنل کمانڈنٹ تھے۔ ہفتے میں ایک دو بار تشریف لاتے اور رات گئے تک مختلف موضوعات پر گفتگو ہوتی۔
47 پنجاب کی سندھ رجمنٹ میں تبدیلی مجھے خوش آئند لگی۔ میں کرنل ارشد علوی سے سندھی جوانوں کی تعدادکے بارے معلوم کرتے ہوئے اُن کے عسکری معیار کے بارےمیں پوچھا کرتا۔ یہ سُن کر تسلی ہوتی کہ کرنل صاحب سندھی سپاہیوں کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں سے مکمل طور پر مطمئن تھے۔ ہم دونوں ایوب خان کی خود نوشت کے اُس حصے پر غور کرتے جس میں بنگالیوں کا فوج میں بھرتی کے معیار پر پورا نہ اُترنے کا ذکر تھا۔ کبھی کبھار ہماری گفتگو کا رُخ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے اسباب کی طرف مُڑ جاتا۔ یہ علم تھا کہ انڈین آرمی کی ابتدا بنگال سے ہوئی تھی۔ ہمیں کئی لحاظ سے بنگالیوں کی شکایت اور احساس محرومی جائز نظر آتاتھا۔ بات چیت میں اِس فرضی امکان پر بھی غور ہوتا کہ پاکستان بننے کے بعد سویلین ملازمتوں کی طرح فوجی بھرتیاں بھی صوبائی آبادی کے تناسب سے منسلک ہوجاتیں تو پاکستان کی قومی وحدت پر کیا اثرات مرتب ہوتے؟ کرنل ارشد علوی سندھی فوجیوں کی بھرتی کے حوالے سے ایک اور فائدے کا ذکرکیا کرتے۔ وہ بڑے زمینداروں کی من مانیوں سے واقف تھے۔ اُنہوں نے قصہ سُنایا کہ رجمنٹ کا ایک سندھی سپاہی چھٹی کے دوران آبائی گائوں میں جاگیر دار کی زیادتی کے خلاف ڈٹ گیا۔ کرنل ارشد نے فخر سے بتایا کہ جاگیر دار کو پیچھے ہٹنا پڑا کیونکہ اُسے علم تھا کہ سپاہی کے پیچھے ایک ادارہ کھڑا ہے۔کرنل ارشد علوی رجمنٹ کو فوج کی ’’آغوشِ مادر‘‘ کہا کرتے۔ اپنی بات کی تائید میں اُنہوں نے 8 سندھ رجمنٹ کے ایک نوجوان لیفٹیننٹ کا ذکر کیا جس کے خاندان اور قریبی رشتہ داروں میں صرف ایک دُور کی خالہ حیات تھیں۔ اُنہوں نے بتایا کہ اب فوج ہی اِس نوجوان لیفٹیننٹ کا خاندان اور کنبہ ہے۔ رجمنٹ کی ’’آغوش مادر‘‘ میں اُسے اتنی اپنائیت اور محبت ملے گی کہ کسی کمی کا احساس نہیں رہے گا۔ آج کرنل ارشد علوی اِس دُنیا میں نہیں۔ آج ارشد علوی مرحوم کی فوج کے حوالے سے وضع کردہ اصطلاح ’’آغوش مادر‘‘ کی یاد آئی جس کی محبت بھری نگہداشت میں وہ نوجوان لیفٹیننٹ ساحر شمشاد مرزا ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے اعلیٰ ترین عہدے پر تعینات ہوچکے ہیں۔
نئے آرمی چیف کی تعیناتی کا مرحلہ بھی تمام ہوا۔ یہ چنائو دفاع وطن کے علاوہ اِس لحاظ سے اہم ہے کہ ہماری سیاسی جماعتیں آرمی چیف سے خصوصی تعلق کی خواہش مند رہتی ہیں۔ اِس غیر صحت مند رُحجان کے پس منظر پر غور کرتے ہوئے مجھے ایک پرانا واقعہ یاد آیا ۔ محسن حسن خان، 1970-80ء کی دہائی کے دوران دنیائے کرکٹ کے آسمان پر ایک روشن ستارے کی مانند چمکتے تھے۔ ہندوستان کی مشہور فلم ایکٹریس سے تعلق قائم ہوا اور رینا رائے سے شادی کر لی۔ اِس شادی کے فوراً بعد ایک میچ کے دوران اُن کی پرستار لڑکیاں لیڈیز انکلوژر میں تالیاں بجا کر کورس کی شکل میں قومی نغمے کی دُھن پر گاتی رہیں۔ ’’نہ تیرا محسن خان ہے، نہ میرا محسن خان ہے،یہ اُس کا محسن خان ہے جو مسز محسن خان ہے۔‘‘ سیاست دانوں سے اُمید ہے کہ وہ اِن پرستار لڑکیوں کی طرح نئے آرمی چیف سے دفاع پاکستان سے واحد وابستگی کے علاوہ کوئی اور توقع نہیں رکھیں گے۔