• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہر نئے سال کی آمد پر ، گزرنے والے سال کی کارکردگی پر نظر ڈالنا بڑا فطری عمل ہے۔ ہم اپنی تاریخ کے ایک اور سال کو رخصت کررہے ہیں اور ایک نئے سال کی دہلیز پر کھڑے ہیں۔ بالعموم ہر آنے والا سال امیدوں اور توقعات کی ہم رکابی میں آتا ہے، مگر جانے والا سال کوئی اچھے نقوش چھوڑ کر نہ جارہا ہو تو آئندہ کے لیے بھی پرامیدی کے بہت زیادہ امکانات برقرار نہیں رہتے ، سوائے اس کے کہ حالات پر اثر انداز ہونے والے ادارے اور افراد اگر واقعی بہتری کی طرف گامزن ہونے کا کوئی ٹھوس ثبوت پیش کرتے نظر آرہے ہوں تو امید کا دامن تھامے رہنے کی گنجائش بھی موجود رہتی ہے۔

2022ء میں تعلیم کے شعبے کے حالات پر نظر ڈالیں تو پہلی بات تو یہی سامنے آتی ہے کہ پچھلے پچھتر برسوں سے ہم جن دیرینہ مسائل سے دوچار رہے ہیں ان کے حل کی سمت میں کوئی بامعنی پیش رفت اس سال بھی نہیں ہوئی۔ دعوے بہت ہوئے ، اعلانات بھی بہت کیے گئے ، ایک ہی طرح کے بعض احکامات بھی دہرائے گئے ، کہا گیا کہ نئے تعلیمی ادارے قائم کیے جارہے ہیں، مزید اساتذہ بھرتی ہوں گے، طلبا کی تعداد بھی بڑھے گی۔ 

یہ سب اعلانات ہر سال ہوتے ہیں ، کسی نہ کسی حد تک ان پر عمل بھی ہوتا ہے لیکن تعلیم کے شعبے میں کوئی معنوی تبدیلی عمل میں نہیں آتی بلکہ ہر سال گذشتہ برسوں کے مقابلے میں اس شعبے کے کمزور پہلوئوں میں اضافہ ہی ہوتا ہے۔ کرپشن کے نت نئے طریقے وضع ہوتے ہیں، تعلیم کے شعبے میں سیاسی مداخلت میں اضافہ ہوتا ہے ،اساتذہ اور طالبعلموں کی عمومی کارکردگی بہتر ہونے کے بجائے بدتری کی طرف گامزن نظر آتی ہے ۔پروفیشنل اداروں میں داخلوں کا معیار آج جتنا گر چکا ہے اس سے پہلے کبھی نہیں تھا۔ ملاحظہ کیجیے 2022 میں تعلیمی صورت حالاور سوچیے کہ ہوا کیا ہے۔

کرونا کی وباکے دوررس اثرات

گزرنے والے سال میں دو مسائل نے تعلیم کے شعبے کو دوررس مشکلات سے دوچار کیا۔ ایک تو 2020ء کے اوائل سے پاکستان میں داخل ہونے والی کرونا کی وباتھی جس کے اثرات وبا کا زور ٹوٹنے کے باوجود مختلف شعبہ ہائے زندگی میں اب بھی دیکھے جاسکتے ہیں۔ کوئی دو ڈھائی سال تعلیم کا شعبہ بھی براہ راست اس وبا سے متاثر ہوا۔ طالبعلموں کا تعلیم کا زبردست نقصان ہوا۔ وباکے ان اثرات سے عہدہ برآ ہونے کے لیے آن لائن تدریس کا راستہ اختیار کیا گیالیکن ایک تو ملک کے دور افتادہ علاقوں میں بیٹھے ہوئے طلبا اس عمل کا حصہ نہیں بن سکے کیونکہ یا تو ان کے علاقوں میں انٹرنیٹ کی سہولت موجود نہیں تھی یا ان کے پاس ایسے وسائل ہی نہیں تھے کہ وہ اس سہولت سے استفادہ کرپاتے۔

یہی نہیں بلکہ دو ڈھائی سال کی اس فاصلاتی تعلیم و تدریس کے بعد یہ بات بھی سامنے آئی کہ آن لائن تدریس کے ذریعے علم کی ترسیل اُس انداز میں نہیں ہوسکی جس انداز میں کلاس روم میں پڑھنے اور پڑھانے سے ہوتی تھی۔بعض صورتوں میں امتحانات کو بھی نظر انداز کیا گیا اور طالبعلموں کو اگلے درجوں میں بھیج دیا گیا۔ اس ساری صورت حال نے تعلیم کے معیار کو متاثر کیا اور اب جبکہ دو ڈھائی سال کے تعطل کے بعد بچوں نے درس گاہوں کا رخ کیا ہے تو وہ اپنا بہت سا نقصان کروا کر واپس آئے ہیں۔

سیلاب کی تباہ کاریاں

دوسرا اہم مسئلہ جو 2022ء میں درپیش ہوا وہ ملک کے مختلف علاقوں میں غیر معمولی سیلابوں اور بارشوں کے نتیجے میں ہونے والی تباہ کاریوں کا مسئلہ تھا جس کے اثرات جملہ شعبہ ہائے زندگی پر مرتب ہوئے۔ تعلیم کا شعبہ بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ لاکھوں طالبعلم اور اساتذہ اپنے گھر والوں کے ساتھ بے گھر ہوئے ،اسکولوں کی عمارتیں تباہ ہوئیں، سڑکیں اور راستے ناقابل استعمال بنے۔

سیلاب اترنے کے بعد تباہیوں کا حساب لگایا گیا تو پتا چلا کہ یہ اندازوں سے کہیں زیادہ دوررس ثابت ہوئی ہیں۔ ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹ کے مطابق 30 لاکھ طلبہ کا ایک پورا سیمسٹر سیلاب کی وجہ سے ضائع ہوا۔ سیلاب کے نتیجے میں بلوچستان میں 643 اسکول تباہ ہوئے، پنجاب میں تباہ ہونے والے اسکولوں کی تعداد 109،اور خیبرپختونخوا میں 287 تھی ۔ لیکن سیلاب نے سندھ میں تعلیمی اداروں کو کہیں زیادہ نقصان پہنچایا، بقول وزیر تعلیم سید سردار علی شاہ ، صوبے میں سیلابوں سے متاثر ہونے والے بچوں کی تعداد 23 لاکھ ہے جبکہ 19ہزار کے قریب پبلک اسکول سیلاب کی نذر ہوئے۔ 

وزیر تعلیم نے صوبائی اسمبلی میں سیلاب کے نتیجے میں تعلیم کے شعبے میں ہونے والی تباہ کاریوں کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ اس وقت بھی ہمیں 37ہزار خیموں کی ضرورت ہے تاکہ ان کو اسکولوں کے طور پر استعمال کیا جاسکے۔ اگر ان خیموں کا انتظام ہوجاتا ہے تو ایک بڑی تعداد میں طالبعلم اگلے دو سے تین سال ان خیموں میں تعلیم حاصل کرسکتے ہیں، جو 19ہزار سرکاری اسکول تباہ ہوئے ہیں، حکومت سندھ ان میں سے 2 ہزار اسکولوں کی مرمت اور ان کو دوبارہ قابل استعمال بنانے میں کامیاب ہوئی ہے۔

یہ سندھ سے متعلق دستیاب اعداد و شمار ہیں۔ دوسرے صوبوں کےخاص طور سے بلوچستان کے تعلیمی انفراسٹرکچر پر ایسے ہی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔بظاہر یہ بھی نظر آتا ہے کہ صوبائی حکومتوں کے پاس اس بڑی آزمائش سے عہدہ برآ ہونے کے وسائل بھی کم ہیں۔ اس کی وجہ کچھ بھی ہو، خواہ تعلیم کے شعبے کو ملنے والی سالانہ گرانٹ کی کمی مانع ہویا اس شعبے میں وسائل کی تقسیم کے نظام کی خرابیاں ہوں، یا اس شعبے کے اندر پایا جانے والا کرپشن ہو، یا پھر واقعی سیلاب کی تباہ کاریاں اتنی زیادہ ہیں کہ ان سے موجود وسائل کے اندر رہتے ہوئے عہد ہ برآ ہونا ناممکن ہے۔

حل اس کا یہ نکالا گیا ہے کہ باہر سے امداد کی اپیل کی جائے۔یہ اب بعد ہی میں سامنے آئے گا کہ باہر سے کتنی امداد ملی اور وہ کتنی مددگار ثابت ہوئی۔یہ نتیجہ اخذ کرنا بہرحال مشکل نہیں ہونا چاہیے کہ 2022ء کا سیلاب تعلیم کے شعبے کو جو نقصان پہنچا گیا اس کی تلافی مستقبلِ قریب میں ہوتی نظر نہیں آتی۔ وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال کا کہنا ہے کہ سیلاب نے تعلیمی اداروں کو جو نقصان پہنچایا ہے اس کو پورا کرنے، تعمیر نو اور بحالی کے کاموں میں کم ازکم دو سال کی مدت لگے گی۔

تعلیم__ہم کہاں تک پہنچے؟

تعلیم کے شعبے کے وسیع تر منظر نامے کو دیکھیں توپچھتر سال کے سفر میں ہم آج محض 62.3 فیصدخواندگی کی شرح تک پہنچ پائے ہیں۔ یہ دنیا کے بعض ان ممالک کی شرح خواندگی سے کہیں کم ہے جو تقریباً اسی زمانے میں آزاد ہوئے تھے جب ہمیں آزادی حاصل ہوئی۔ ہمارے ذمہ دارانِ حکومت نے شروع سے جو ترجیحات ملک کے لیے طے کیں ان میں تعلیم کسی قابل ذکر اہمیت کی حامل نہیں تھی۔

ہر سال بجٹ کا ایک بہت ہی محدود حصہ تعلیم کے لیے رکھا جاتا ہے۔ اس سال یعنی-23 2022ء میں ہمارے بجٹ نے تعلیم کے لیے کُل ملکی پیداوار (GDP) کا محض1.7فیصد مختص کیا ہے جو جنوبی ایشیا کے خطے میں تعلیم پر مختص کیے جانے والی سب سے کم شرح ہے۔ اس بجٹ کا بھی بڑا حصہ بنیادی ڈھانچے اورتعلیمی بیوروکریسی پر خرچ ہونا ہے۔

پاکستان میں اس وقت کُل 3لاکھ 5ہزار سے کچھ زیادہ ادارے ہیں جن میں 5کروڑ12 لاکھ کے قریب طلبا رجسٹر ڈ ہیں جبکہ اساتذہ کی تعداد20لاکھ سے اوپر ہے۔ تعلیمی اداروں میں62 فیصد سرکاری اور 38فیصد نجی ادارے ہیں۔ان میں دینی مدارس بھی شامل ہیں جن کی تعداد 31ہزار سے زیادہ ہے۔طالبعلموں کی تعداد سرکاری اداروں میں زیادہ اور پرائیویٹ اداروں میں کم ہے۔ نجی شعبے میں قائم 38 فیصد ادارے کُل طلبا کے44 فیصد کو تعلیم فراہم کررہے ہیں۔

2021-22ء کے پاکستان’ اکنامک سروے ‘کے مطابق ملک میں اس وقت 218 یونیورسٹیاں اور ڈگری دینے والے ادارے قائم ہیں۔’پاکستان اینڈ گلف اکنامسٹ ‘کے جمع کردہ اعداد و شمار کے مطابق ملک میں موجود60 فیصد یونیورسٹیاں اور دیگر ڈگریاں دینے والے ادارے سرکاری شعبے میں جبکہ 40 فیصد نجی شعبے میں کام کررہے ہیں۔

یونیورسٹیوں اور ڈگری دینے والے اداروں میں کُل طلبہ کی تعداد 15لاکھ سے کچھ اوپر ہے۔ ان میں سے 12لاکھ یعنی کُل طلبہ کا 80فیصد سرکاری اداروں میں جبکہ20فیصد طلبہ نجی یونیورسٹیوں اور ڈگری دینے والے اداروں میں پڑھ رہے ہیں۔ تمام یونیورسٹیوں میں کل طلبہ کا 56فیصد لڑکے ہیں جبکہ 44 فیصد لڑکیاں ہیں۔

پاکستان میں کُل طلبہ کا صرف 4 فیصد کے قریب یونیورسٹیوں تک پہنچ پاتا ہے۔ یہ سب اعدادا و شمار اُس وقت اپناحقیقی مفہوم واضح کرتے ہیں جب ان کا تجزیہ کیا جاتا ہے اور مجموعی نظامِ تعلیم کے اندر مختلف مدارج کا تقابلی موازنہ کیا جاتا ہے۔ یہ بات بھی اُس وقت مزید قابلِ تنقیح بن جاتی ہے جب تعلیم کے شعبے میں نمایاں ہونے والے کمیتی اضافے کو تعلیم کی کیفیتی حیثیت کے سامنے رکھ کر دیکھا جاتا ہے۔ مثلاً یہ بات قابل ذکر ہے کہ ملک میں کہنے کو تو 218یونیورسٹیاں بن گئی ہیں مگر خود ان یونیورسٹیوں کے کوائف کیا ہیں؟ یونیورسٹیوں کے پاس فنڈز کی کمی ہے اور وہ ہائر ایجوکیشن کمیشن سے فنڈز میں اضافے کے مستقل مطالبے کررہی ہیں۔

دوسری طرف خود ہائر ایجوکیشن کمیشن اپنے بجٹ کی کمی پر شاکی ہے۔ اس کمی کا نتیجہ یہ ہے کہ پہلے یونیورسٹیوں کی تجربہ گاہوں میں مشینری کی کمی اور کیمیکلز کی عدم فراہمی اور لائبریریوں میں کتابوں کی عدم دستیابی کی شکایت کی جاتی تھیں، پھر تحقیقاتی فنڈز کی نایابی زیر بحث آتی رہی اور اب صورت حال یہ ہے کہ یونیورسٹیوں کے پاس اساتذہ کو تنخواہیں دینے اور ریٹائرڈ اساتذہ کو پینشن دینے کے لیے بھی بروقت پیسے دستیاب نہیں ہوتے۔ نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ بعض یونیورسٹیاں تنخواہیں کئی کئی دن کے بعد اور پینشن کی رقم ریٹائرڈ اساتذہ کو قسطوں کی صورت میں دے رہی ہیں اور تازہ ترین صورت حال یہ ہے کہ یونیورسٹیوں کے اساتذہ کی تنظیمیں، کلاسوں کے بائیکاٹ کا اعلان کررہی ہیں۔

ایک طرف یہ صورت حال ہے اور دوسری طرف فیصلہ سازوں کا یہ رجحان ہے کہ وہ یونیورسٹیوں کی تعداد بڑھاتے رہے ہیں، خواہ ان یونیورسٹیوں میں نہ بیٹھنے کی جگہ ہو نہ تجربہ گاہیں اور لائبریریاں ہوں، بعض یونیورسٹیوں میں توپانی کی دستیابی اور دیگر ضروری اشیا تک ناپید رہی ہیں۔ یہی نہیں بلکہ یونیورسٹیوں کے مختلف شہروں میں علیحدہ کیمپس قائم کرنے کی روش بھی قائم ہوچکی ہے۔ بعض یونیورسٹیاں جو اپنے اصل کیمپس پر ہی بے شمار کمزوریوں اور خامیوں کی منہ بولتی تصویر نظر آتی ہیں ان کے بھی دوسرے شہروں میں کیمپس قائم کیے جارہے ہیں۔

گذشتہ بجٹ پیش کرتے وقت سندھ کے وزیراعلیٰ نے صوبائی اسمبلی کو یہ خوشخبری سنائی کہ سندھ میں نہ صرف بہت سے نئے کالجز کھولے جارہے ہیں بلکہ کئی یونیورسٹیوں کے نئے کیمپس بھی وجود میں لانے کا اراد ہ ہے۔ ان کے اعلان کے مطابق کورنگی میں ایک یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی قائم کی جائے گی، جبکہ کراچی وسطی اور کیماڑی میں اس یونیورسٹی کے ذیلی کیمپس بنائے جائیں گے۔اسی طرح انہوں نے ملیر میں این ای ڈی یونیورسٹی کے ذیلی کیمپس کا اعلان کیا۔ ایسے ہی ذیلی کیمپس ٹنڈو محمد خان، ٹنڈو الہ یار میں قائم کرنے کا اعلان کیا گیا۔

سجاول میں مہران یونیورسٹی آف انجیئنرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کا ذیلی کیمپس بنانے کا بھی اعلان ہوا۔ یہ سب اعلانات بظاہر بڑے خوش آئنددکھائی دیتے ہیں لیکن موجود یونیورسٹیوں کی صورت حال کو دیکھا جائے اور یونیورسٹیوں کے لیے دستیاب فنڈز کو دیکھا جائے تو یہی سوال ذہن میں آتا ہے کہ یہ نئی یونیورسٹیاں یا موجود یونیورسٹیوں کے ذ یلی کیمپس کس طرح کسی معیار کے حامل بن پائیں گے۔ اس صورت حال میں گذشتہ دنوں جو سب سے اچھی خبر موصول ہوئی وہ وفاقی وزیر تعلیم اور ہائر ایجوکیشن کمیشن کے چیئرمین کے یہ بیانات تھے کہ آئندہ مہینوں میں کسی نئی یونیورسٹی کا قیام عمل میں نہیں آئے گا۔

ایک طرف تعلیم کی یہ تصویر ہے جو اعلیٰ تعلیمی اداروں کے حوالے سے مرتب ہوتی ہے دوسری طرف تعلیم کے شعبے سے وابستہ خاص طور سے پرائمری سطح کی تعلیم کے کوائف ہیں جو نہ صرف تلخ ہیں بلکہ ایک دلخراش صورت حال کی نشاندہی کرتے ہیں۔ مثلاً اسی حقیقت کو دیکھا جائے توبڑی افسوس ناک صورت حال سامنے آتی ہے کہ ہمارے یہاں کتنے بچے جو ان عمروں کو پہنچ چکے ہیں جن میں ان کو درسگاہوں میں ہونا چاہیے تھا، مگر وہ تعلیم کی دولت سے کوسوں دور ہیں۔ ایشین ڈیولپمنٹ بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 5سے 16سال کی عمر کے 2کروڑ30لاکھ ایسے بچے ہیں جو اسکول جانے کی عمر کو پہنچ چکے ہیں مگر اسکول جانے سے محروم ہیں۔

اسکول نہ جا پانے والے بچوں کی تعداد پر مشتمل مختلف ملکوں کی فہرست میں پاکستان دوسرے نمبر پر آتا ہے۔’اثر‘(The Annual Status of Education Report)کی رپورٹ کے مطابق اسکول نہ جا پانے والے بچوں کی زیادہ تعداد دیہی علاقوں میں پائی جاتی ہے۔ یونیسیف (UNICEF) نے ایسے بچوں کی تعداد کو مختلف صوبوں کے حوالے سے رپورٹ کیا ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق تمام صوبوں میں تعلیم سے محروم بچوں کی واضح اکثریت غریب طبقے سے تعلق رکھتی ہے۔یہ حقائق ان دعووں کا منہ چڑاتے ہیں جو ہمارے حکمران برسہا برس سے کرتے چلے آئے ہیں۔

ملک کے اندر ایک اشرافیہ کو بالادستی حاصل ہے خواہ وہ فوجی حکومتوں سے تعلق رکھتی ہو یا سویلین حکومتوں سے، اس حکمران اشرافیہ کے اپنے حالات اس کو کسی اور ہی مخلوق کے طور پر پیش کرتے ہیں جبکہ ملک کی اکثریت انتہائی پسماندہ اور غیر انسانی زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔2010ء میں اٹھارہویں آئینی ترمیم کے ذریعے ہمارے آئین کے بنیادی حقوق سے متعلق باب میں آرٹیکل 25-Aکی صورت میں ایک اہم شق شامل کی گئی تھی جس کے مطابق 5سے 16سال کے بچوں کی مفت اور لازمی تعلیم ریاست کی ذمہ داری قرار پائی تھی۔اس شق کے مطابق مرکز اور صوبوں نے قانون سازی بھی کی لیکن عملی سطح پر اس پر عملدرآمد کی کوئی تصویر نظر نہیں آتی۔

ہماری تعلیم کے دیرینہ مسائل

تعلیم کے شعبے میں گزرتے ہوئے سال میں جو اضافی بحران آئے اور جن نئے مسائل کا سامنا کرنا پڑا ان سے قطع نظر تعلیم کا شعبہ برسہا برس سے چند بنیادی خرابیوں اور تضادات کی آماجگاہ بنا رہا ہے۔ یہ خرابیاں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مزید بگڑتی چلی گئی ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ ان مسائل اور تضادات کو حل نہیں کیا جاسکتا تھا، لیکن ضروری ہے کہ پہلے تو ان مسائل کی موجودگی کا اعتراف کیا جائے ،پھر ان کے اسباب پر غور کیا جائے اور پھر اس کے بعد ان کو حل کرنے کی راہیں سوچی جائیں۔ ہمارے یہ بنیادی مسائل کون سے ہیں جوپہلے دن سے چلے آرہے ہیں اور ان میں مہ و سال کی گردش کے ساتھ اضافہ ہوتا رہا ہے۔

۱۔ پہلا مسئلہ تو ہمارے یہاں بجائے خود تعلیم کی حیثیت اور مقام کا مسئلہ ہے۔ ہم نے اپنی جو ریاستی اور حکومتی ترجیحات بنائی ہیں وہ ہماری مجموعی ریاستی فکر کا مظہر ہیں۔ اس فکر میں شہریوں کی بہبود اور ’انسانی ترقی‘ (Human Development)ایک بہت ہی نچلی سطح کی حامل چیز ہے۔نتیجتاً تعلیم کو بجٹوں میں بہت کم حصہ دیا جاتا ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ملک کی بڑھتی ہوئی آبادی کی ضرورت کے مطابق نہ تعلیمی ادارے خاص طور سے پرائمری کی سطح کے ادارے قائم ہوپاتے ہیں نہ ان میں مناسب تعداد میں اساتذہ کا تقرر ہوتا ہے ،نہ نصاب کو کوئی اولیت حاصل ہے اور نہ ہی اساتذہ کی تربیت اور تعلیم کے معیار کی بلندی کوضروری سمجھا جاتا ہے۔

سرکاری سطح کی تعلیم بڑی حد تک خانہ پری کی حیثیت رکھتی ہے ۔اس کے ذریعے ہر سال ہزاروں نوجوانوں کو مختلف ڈگریاں دے دی جاتی ہیں۔ ان ڈگری یافتہ لوگوں کی اکثریت ملک کی تعمیر و ترقی میں کوئی کردار ادا کرنے یا کسی بھی شعبے کو آگے لے جانے کی اہلیت سے محروم ہوتی ہے۔ یہ تعلیم کے شعبے کے اکثریتی حصے کی صورت حال ہے۔ البتہ ایک محدود طبقہ ایک مخصوص تعلیم کے حصول کے بعد ان مقاصد کے لیے ضرور تیارہوجاتا ہے جو مقتدر اداروں، حکومتوں اور کاروباری حلقوں کے پیش نظر ہوتے ہیں۔

۲۔ تعلیم کے شعبے میں شدید قسم کی طبقاتی تمیز اور تفریق ایک اور بڑا اور بنیادی مسئلہ ہے۔ ملک کے بیشتر سرکاری ادارے زیادہ سے زیادہ یہ کام کر پاتے ہیں کہ آبادی کے ایک بڑے حصے کو ایک کمتر درجے کی اور برائے نام تعلیم دے دیتے ہیں۔ لیکن ملک میں کچھ سرکاری ادارے اور بیشتر نجی ادارے جن کی فیسیں ایک عام آدمی کی دسترس سے باہر ہیں اور جن سے صرف اشرافیہ استفادہ کرسکتی ہے ، یہ ضرور بہتر تعلیم فراہم کرتے ہیں۔

اس وقت ملک کے پیشہ ور کالجوں اور یونیورسٹیوں میں سالانہ فیسیں کئی کئی لاکھ تک پہنچ چکی ہیں۔ بعض میڈیکل یونیورسٹیاں پانچ سال کے کورس کی کل فیس ایک کروڑ سے اوپر تک وصول کررہی ہیں۔ تعلیم کے شعبے میں طبقاتی امتیاز اتنا بڑھ چکا ہے کہ یہ کہنا مشکل نہیں کہ ہم قومی وحدت اور مملکت کے استحکام کے تمام تر خوشنما نعروں کے برخلاف ملک میں دو قومیں بنا رہے ہیں۔ غربت کے سمندر میں امارت کے سفینے ہر طرف دیکھے جاسکتے ہیں، 2022 میں تعلیم کے شعبے میں یہ کہیں زیادہ فراٹے بھرتے نظر آتے ہیں۔

۳۔ سوم،ریاست کی ترجیحات اور شدید طبقاتی تقسیم ہی کا نتیجہ ہے کہ ملک میں ایک سے زیادہ نظام ہائے تعلیم بیک وقت کام کررہے ہیں۔ عوام الناس کے لیے معمولی سرکاری ادارے ہیں جن میں نہ نیا پن ہے نہ زندگی کی حرارت ، نہ یہاں کوئی معیار کی طرف پلٹ کر دیکھتا ہے، نہ ہی طلبہ اور اساتذہ تعلیم کے کسی مقصدسے آشنا ہوتے ہیں۔ کوئی استاد اپنی انفرادی افتادِ طبع او رذاتی کوشش کے نتیجے میں بچوں میں علم کا شوق پیدا کرنے اور ان کو آگے بڑھنے کے جذبے سے متصف کرنے کا کام کرنا چاہے توالگ بات ہے لیکن ایک بحیثیت مجموعی بدحال اورذمہ داری اور جواب دہی کے کسی قابل ذکر اہتمام سے عاری نظام میں یہ ایک استثنائی صورت ہی ہوسکتی ہے۔ 

پھر تعلیمی اداروں کی دوسری قسم ہے جو انگریزی میڈیم ادارے ہیں جہاں نسبتاً بہتر تعلیم ہے مگر فیسیں بھی زیاد ہ ہیں۔ ان اداروں میں بھی کچھ مزیداونچے ادارے ہیں جن کی فیسیں اور بھی زیادہ ہیں۔ یہاں نصاب بھی باہر کا پڑھایا جاتا ہے۔ اسکولوں کی ایک قسم وہ ہے جوفوج کی نگرانی میں آتے ہیں مثلاً کیڈیٹ کالجز وغیرہ۔ اس کے علاوہ دینی مدارس ہیں جو مختلف مسلکوں کے دائرے میں تعلیم و تدریس کا کام کرتے ہیں۔ یہ بکھرا ہوا نظام ، یہ مختلف النوع ادارے کسی قابل ذکر مشترک اقدار سے محروم ہیں۔یہ ایک بکھری ہوئی قوم کو مزید بکھیرنے کا ذریعہ ہیں۔

۴۔ تعلیم کے شعبے کا ایک اور بنیادی مسئلہ مختلف مدارج کے درمیان توازن کا نہ ہونا ہے،جو،2022 میں بھی برقرار رہا۔ ہماری بیشتر حکومتیں اعلیٰ تعلیمی اداروں، خاص طور سے یونیورسٹیوں کے قیام کو اصل تعلیمی ترقی تصور کرتی ہیں۔ وہ کالجوں اور اسکولوں کی تعلیم کوخاطر خواہ اہمیت کی حامل سمجھتی نظر نہیں آتیں۔ یونیورسٹیوں کا قیام بظاہر یہ باور کرانے کے لیے کیا جاتا ہے کہ ہم دنیا کے دوسرے ملکوں سے مقابلتاً کس مقام پر کھڑے ہیں۔ بعض ماہرینِ تعلیم اور ٹیکنوکریٹس جن کو اقتدارکی غلام گردشوں میں رسائی حاصل ہوتی ہے ، وہ بڑے فخریہ انداز میں بتاتے ہیں کہ چند سال قبل ہمارے یہاں کتنی کم یونیورسٹیاں تھیں اور اب ان کی تعدادمیں کتنا اضافہ ہوچکا ہے۔

بعض ٹیکنوکریٹس اور ماہرین جن کو باہر کی یونیورسٹیوں میں پڑھنے اور پڑھانے کا موقع ملا اور پھر وہ پاکستان واپس آگئے ، ان میں سے بھی بہت سوں کا رجحان یہ ہوتا ہے کہ وہ وزارت تعلیم یا ہائر ایجوکیشن کمیشن کے توسط سے حکومت وقت کو یہ یقین دلائیں کہ وہ باہر کی جدید ترین تعلیم کو کتنی جلد پاکستان میں متعارف کراسکتے ہیں۔ بعض نت نئی ٹیکنالوجیز کو یونیورسٹیوں میں متعارف کرنے کا دعویٰ بھی کیا جاتا ہے۔ ایک سلسلہ ماضی میں یہ بھی رہا کہ باہر کے ملکوں سے ’فارن فیکلٹی ہائرنگ‘پروگرام کے تحت وہاں کے سینیئر یا ریٹائرڈ اساتذہ کو بڑے بڑے مشاہروں پرپاکستان بلا کر یہاں کی یونیورسٹیوں میں کھپایا گیا۔

بحیثیت مجموعی اس نظام سے کوئی خاطر خوا ہ فائدہ حاصل نہیں ہوا کیونکہ باہر سے آنے لے اساتذہ کو نہ تو یہاں لیبارٹریوں میں وہ آلات اور سامانِ تحقیق میسر تھاجو باہر کے ملکو ں میں ان کو دستیاب تھااور نہ ہی انہیں بحیثیت مجموعی تحقیق کا وہ ماحول میسر آیا جس میں انہوں نے باہر رہ کر جلا پائی تھی۔

یونیورسٹیوں کو ترقی دینا یقیناً بہت ضروری ہے لیکن یہ اگر ایک ایسے نظام میں رہ کر کرنے کی کوشش کی جائے جس میں اسکول کم و بیش یکسر نظر انداز ہورہے ہوں اور سیکنڈری اور ہائر سیکندڑی سطح کی تعلیم بھی ضروری توجہ اور وسائل سے محروم ہو ، تو ایسے میں یونیورسٹیوں کی ترقی ایک خواب سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی۔ یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ ہمارے یہاں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ چونکہ اسکولوں سے اچھے طالبعلم کالجوں میں نہیں پہنچے لہٰذا کالجوں سے بھی اچھے اور معیاری طالبعلم یونیورسٹیوں تک نہیں پہنچ پائے۔ 

نتیجہ یہ ہوا کہ یونیورسٹیاں اپنے فرائض کو پورا کرنے کی اہل ثابت نہیں ہوئیں اور برسوں کے اس عمل میں جب یونیورسٹیوں سے فارغ ہونے والے وہ طالبعلم جن کی ماضی کے مختلف درجوں میں مناسب اور موزوں تعلیم نہیں ہوسکی تھی ، امسال خود اساتذہ کی صف میں شامل ہوئے تو وہ اس منصب کے تقاضوں کو پورا کرنے کے خود کو اہل ثابت نہیں کرسکے۔

۵۔تعلیمی نظام کا ایک اور بہت بڑا مسئلہ خود پڑھنے اور پڑھانے کا طریقہ ہے۔ہمارے یہاں ابتدائی مدارج سے لے کر اعلیٰ تعلیم تک طالبعلم کو تنقیدی نقطہء نظر سے چیزوںکو دیکھنے کا عادی نہیں بنایا جاتا۔ وہ سوال نہیں کرسکتے۔وہ لکھے ہوئے نصاب سے اِدھر اُدھر نہیں ہوسکتے۔ وہ استاد سے اختلاف نہیں کرسکتے۔ان کے لیے پاس ہونے اور اچھے نمبر حاصل کرنے کا واحدطریقہ یہ ہے کہ جو کچھ ان کو تحریر یا لیکچر کی صورت میں دیا جائے اس کو رَٹ لیں اور امتحان میں اس کو اسی شکل میں لکھ آئیں، تنقیدی طرز فکر جو تعلیم کا اصل مقصد ہے، اس سے اغماض برت کر ہم تقلید پسندگروہ تو تیار کرسکتے ہیں، تخلیق پر آمادہ کسی قوم کی تعمیر نہیں کرسکتے۔

نتیجہ دیکھا جاسکتا ہے کہ اس وقت ملک کے منظرنامے پر کس قسم کی سطحی باتوں کی تکرار سننے میں آتی ہے، کج بحثی ، دشنام، عدم برداشت اور اپنے اپنے ممدوحین کے لیے غیر مشروط اور جذباتی وابستگی،بدقسمتی سے یہ نئی نسل کا عمومی مزاج بنتا جارہا ہے۔ اس مزاج کو بنانے میں ہمارے نظام تعلیم، ہمارے نصاب اور طریقہ تدریس کا اہم کردار ہے۔

۶۔ تعلیم کے شعبے میں کرپشن دور دور تک پھیل چکا ہے۔ایک زمانے میں تعلیم کو بڑا مقدس شعبہ سمجھا جا تا تھا مگر اب بدعنوانیاں اس پورے شعبے کو اپنی لپیٹ میں لے چکی ہیں۔ ایک زمانے میں نقل ایک واحد برائی تھی جو چند طالبعلم کرتے تھے، بہت سوں کو سزا مل جاتی تھی، کچھ اس سے بچ جاتے تھے۔ اب نقل ایک نظام بن چکی ہے جس میں بعض اساتذہ اور امتحانات کا عملہ بھی ملوث ہوچکا ہے۔

ایک زمانے میں گھوسٹ اسکولوں کا تذکرہ تھا۔ بتایا جاتا تھا کہ کچھ اسکول ہیں جو صرف کاغذوں پر قائم ہیں، عملاً ان کا کوئی وجود نہیں ۔پھر پتا چلا کہ اسکول ہی نہیں ، گھوسٹ اساتذہ بھی ہوتے ہیں جن کا محکمے میں نام بھی موجود ہوتا ہے، ان کو تنخواہیں بھی دی جاتی ہیں لیکن وہ کبھی اسکول میں دیکھے نہیں جاتے۔

ایک اوراختراع’ویزا سسٹم‘کی تھی۔یوں تھا کہ کوئی استاد ’نوکری پکڑنے‘ کے بعد اپنے کسی بھانجے بھتیجے کو تنخواہ کا ایک معمولی سا حصہ دے کر کلاس روم میں جانے پر مامور کردیتا تھا اور خود آرام سے گھر پر بیٹھتا تھا یا جہاں وہ کوئی اور ملازمت یا کاروبار کررہا ہوتا تھا، وہاں پایا جاتا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ سب باتیں حکومتوں کے علم میں ہوتی ہیں لیکن آج تک کوئی حکومت ان کا سدباب کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکی اور کامیاب ہوتی بھی کیسے کہ وزارتوں کی مشینریاں بھی کسی نہ کسی صورت اسی بدعنوان نظام کا حصہ بنی رہی ہیں۔حال ہی میں سندھ ہائی کورٹ نے صوبائی وزارت تعلیم کو یہ ہدایت کی ہے کہ وہ جلد از جلد گھوسٹ ملازمین کا خاتمہ کرے۔

عدالت کو صوبے کے سیکریٹری تعلیم نے بتایا کہ ان کی وزارت نے 1645ایسے اساتذہ کو شناخت کیا ہے جوڈیوٹی پر حاضر نہیں ہوتے مگر تنخواہیں وصول کررہے ہیں۔ ان میں سے 1481کو شوکاز نوٹس بھی جاری کردیے گئے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ جن اساتذہ کے خلاف کاروائی شروع کی گئی ہے ان کا فیصلہ 31 دسمبر تک کردیا جائے گا۔ سیکریٹری صاحب نے عدالت کو یہ بھی بتایا کہ ان کے صوبے میں 45ا یسے گھوسٹ ملازمین کے خلاف بھی کاروائی ہورہی ہے جو استاد ہی نہیں ہیں ،وہ دوسری جگہوں پر باقاعدہ صحافیوں کی حیثیت سے ملازمت کررہے ہیں لیکن تعلیمی اداروں سے استاد کی تنخواہ بھی وصول کررہے ہیں ۔

کرپشن کے یہ تو ایک آدھ واقعات ہیں ۔اس موضوع پر بات کریں تو اس کی سینکڑوں مثالیں سامنے آجائیں گی ۔ان مثالوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ تعلیم سے وابستہ کوئی بھی شعبہ اب ایسا نہیں بچا ہے جس کے اندر کرپشن زہر کی طرح سرایت نہ کر چکا ہو۔سوچا جاسکتا ہے کہ ان حالات میں تعلیم سے کسی بہتری کی اورملک کی تعمیر و ترقی میں اس شعبے سے آنے والے لوگو ں سے، کیا توقع کی جاسکتی ہے۔

2022ء اپنے دن پورے کرکے رخصت ہورہا ہے، نئے سال کی آمد آمد ہے۔ یہ نیا سال کیا کچھ لے کر آتا ہے ، امید اور مایوسی کے ملے جلے احساسات کے ساتھ آنے والے سال کو خوش آمدید کہنا ہی مناسب اور ممکن ہے۔