قائد اعظم کا شمار دنیا کے اہم رہنماؤں میں ہوتا ہے ۔ابتداء میں قائداعظم محمد علی جناح نے اپنی سالگرہ نجی طور پر منائی ہوں گی مگر جب انہو ں نے سیاست میں حصہ لینا شروع کردیا اورمسلمانوں کے سب سے عظیم رہنما تسلیم کرلئے گئے تو ان کی سال گرہ عوامی سطح پر منائی جانے لگی، یہ سلسلہ تقریباً 1936 سے شروع ہوا اور 1940 میں قرار داد پاکستان کی منظوری کے بعد اپنے عروج پر پہنچ گیا۔ قائداعظم کو غیر منقسم ہندوستان کے رہنماؤں کے مبارک باد کے پیغامات بھی موصول ہوتے رہے۔ 25 دسمبر 1937 کو قائد اعظم محمد علی جناح نے سروشنی نائڈوں کا ایک تار وصول کیا جس میں انہو ں نے کہا تھا کہ ہندوستان کی آزادی اور اتحاد کے لئے جرات مندانہ اور جرات افروز قیادت کے حوالے سے سالگرہ مبارک، فاطمہ اور دینا کے لئے پیار۔
25دسمبر 1940 کو قائد اعظم کی 64 ویں سالگرہ تقریب میں صرف مسلمانوں نے ہی شرکت نہیں کی تھی بلکہ ہر مذہب و قوم کی معروف شخصیات نے خوشی کے ساتھ شرکت کی،ان میں آندرہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر سی آر ریڈی، مشہور پارسی سیاستدان سر کاؤس جی جہانگیر، اچھوتوں کے مشہور رہنماء ایم سی راجا اور سر فیڈرک جیمزوغیرہ شامل تھے۔ سی آر ریڈی نے اس موقع پر کہا ”جناح صرف مسلمانوں کے لئےہی نہیں،سا رے ہندوستان کے لئے باعث فخر ہیں،“ سرفیڈرک جیمز نے کہا ”قانون ساز اسمبلی کے رکن کی حیثیت سے جناح کی مد مقابل کوئی نہیں، ان میں قیادت کے اعلی جوہر ہیں وہ نا کسی سے مرعوب ہوتے ہیں نا کسی قیمت پر خریدے جاسکتے ہیں۔“
قائداعظم اپنی ،سالگرہ تقریب میں اپنے دوستوں سے ہلکے پھلکے انداز میں باتیں کر رہے تھے کہ ایک دوست نے کہا ”ہندو اس بات کااکثر طنزیہ انداز میں اعتراض کرتے ہیں کہ جب انہیں سفر کرنا ہوتا ہے تو ،پورا کوپے ریزور کرواتے ہیں ،اس کے برعکس گاندھی عام مسافروں کے ہمراہ تھرڈ کلاس میں باخوشی سفر کرتے ہیں“ یہ سن کر قائد اعظم مسکرائے اوربولے ”گاندھی جی کا میرے ساتھ موازنہ کرنا درست نہیں ہے۔
میں اپنے خرچے پر سفر کرتا ہوں، مسلم لیگ کے فنڈ سے ایک پیسہ نہیں لیتا ،اس لئے اس سلسلے میں کسی کو اعتراض کرنے کا کوئی حق نہیں، جبکہ گاندھی جی کا معاملہ اس کے برعکس ہے، اعتراض کرنے والے اصل حالات سے ناواقف ہوتے ہوئے طعنہ زنی کرتے ہیں، میں ان کے لئے یہی کہہ سکتا ہوں کہ، اللہ انہیں تصویر کے دونوں رخ دیکھنے کی عقل دے“۔
25 دسمبر 1942 کودہلی میں مسلمانوں کی جانب سے قائد اعظم کو ان کی سالگرہ کے موقع پر ایک استقبالیہ دیا گیا، اس موقع پر بہت سی نظمیں پڑھی گئیں، جن میں قائد اعظم کو خراج تحسین پیش کیا گیا تھا، ایک نظم میں یہ خیال بھی پیش کیا گیا تھا کہ، ہمارا قائد روز بروز جوان ہورہا ہے، قائد اعظم نے نظم کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ”اگر میں جوان ہورہا ہوں اور خود کو ایسا محسوس کررہا ہوں تو یہ سب کچھ درحقیقت اس مسرت سے لبریز سوچ کے احساس کا ثمر ہے کہ ہندوستان بھر کے لوگ میرے لئے کس قدر محبت اور شفقت کا احساس رکھتے ہیں، خوشی اور مسرت تو ایک ٹونک ہے، شاعرانہ تخیل پر کوئی پابندی نہیں ہے، لیکن میری اپنی حیثیت کسی قدر مختلف ہے، میں کوئی بات کہنے سے قبل 100 مرتبہ سوچتا ہوں“۔
25 دسمبر 1943کو قائد اعظم نے اپنی سالگرہ کراچی میں منائی ،اس موقع پر کراچی میونسپل کارپوریشن کی جانب سے دیئے گئے شہری استقبالیے میں شرکت کی۔
25 دسمبر 1944کو ایوان تجارت بمبئی کی جانب سے منعقدہ اپنے یوم پیدائش کی تقریب میں شرکت کی یوں قائد اعظم کو ان کی سالگرہ کے موقع پر خراج تحسین پیش کرنے کا سلسلہ جاری رہا، یہاں تک کہ پاکستان کا قیام عمل میں آگیا اور قائد اعظم نئی مملکت کا انتظامی ڈھانچہ بنانے میں ہمہ تن مصروف ہوگئے، جب پاکستان اپنے قیام کے 132 ویں دن میں داخل ہوا،تو جمعرات کا دن اور دسمبر کی 25 تاریخ تھی یعنی قائد اعظم کی سالگرہ کا دن، پاکستان کے بانی اور گورنر جنرل اپنی زندگی کے 71 سال پورے کر چکے تھے،قیام پاکستان کے بعد ان کی یہ پہلی سالگرہ تھی، جسے سرکاری طور پر بڑی دھوم دھام سے منایا گیا۔
کراچی کی سرکاری اور غیرسرکاری عمارتوں پر پاکستان کا سبز ہلالی پرچم لہرارہا تھا، وہ تمام راستے جو پولوگراؤنڈ کی طرف جارہے تھے، ملک بھر سے آئے ہوئے لوگوں سے بھرے ہوئے تھے، ہر ایک جلد سے جلد پولو گراؤنڈ پہنچنا چاہتا تھا کیونکہ سالگرہ کی تقریب کے سلسلے میں بانی پاکستان پولو گراؤنڈ تشریف لارہے تھے، جب قائد، پولو گراؤنڈ پہنچے تو تینوں مسلح افواج رائیل پاکستان نیوی، بلوچ رجمنٹ اور رائیل پاکستان ایئر فورس کے چاق چوبند دستوں نے تین بار نہایت بلند آواز میں ”قائد اعظم زندہ باد“کے نعرے لگائے یہ پریڈ قائد اعظم کے اعزاز میں ان کی سالگرہ کے سلسلے میں تھی، گورنر جنرل نے دس منٹ تک سلامی لی، تینوں مسلح افواج کے دستوں نے،مارچ پاسٹ کیا، ریئر ایڈمرل جوفرڈ جو پاکستان نیوی کی کمانڈ کررہے تھے، میجر جنرل اکبر خان جنرل آفیسر کمانڈنگ سندھ ایریا اور گروپ کیپٹن ایلس ولدی آفیسر کمانڈنگ رائیل پاکستان ایئر فورس خصوصی طو ر پر تیار کردہ ڈائس پر کھڑے تھے۔
اس موقع پر بلوچ رجمنٹ نے جنرل سلوٹ کی دھن بجائی، بریگیڈیئر اسٹیفن سن سب ایریا کمانڈر سندھ نے پریڈ کی سربراہی کی، انہوں نے تین بار بلند آواز میں ”قائداعظم“ کہا اور ہر بار پریڈ میں حصہ لینے والے دستوں نے زور دار آواز میں ”زندہ باد“ کہہ کر ان کا جواب دیا، دستے سلامی دیتے ہوئے گزرتے رہے اور ہجوم قائد اعظم زندہ باد کے نعرے لگاتا رہا، جب قائد اعظم گورنر جنرل ہاؤس کے لئے روانہ ہوئے تو اس وقت بھی ہجوم قائد اعظم زندہ باد کے نعرے لگا رہا تھا اور قائد ہاتھ ہلا ہلا کر اپنے چاہنے والوں کے نعروں کا جواب دے رہے تھے، قائد اعظم کے ساتھ مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کھلی گاڑی میں سوار تھیں۔
جو لوگ اس موقع پر موجود تھے ان میں وزیر اعظم پاکستان خان لیاقت علی خان، بیگم رعنا لیاقت علی خان، گورنر سندھ، حکومت پاکستان، حکومت سندھ کے وزراء، سفارتکار، اعلیٰ سول، ملٹری عہدیدار اور ہر شعبہ زندگی کے معزز شہری شامل تھے، سالگرہ سے ایک روز قبل قائداعظم کی شخصیت اور خدمات پر دستاویزی فلم تیار کی گئی جس میں ان کو اپنے دفتر میں کام کرتے ہوئے دیکھایا گیا، اس فلم میں فاطمہ جناح بھی تھی جو ان کے ساتھ مل کر سالگرہ تقریب کی منصوبہ بندی کررہی تھیں۔ یوپی سے تعلق رکھنے والے سید اسحاق حیدر نے قائداعظم کو ایک رومال پیش کرنے کی اجازت چاہی، رومال کے کونے پر قائد اعظم کی منی ایچر اور پوٹریٹ بنی ہوئی تھی۔
قائداعظم نے یہ تحفہ بہت خوشی کے ساتھ قبول کیا اور ان کا شکریہ ادا کیا، وزیر اعظم پاکستان خان لیاقت علی خان اور بیگم رعنا لیاقت علی خان نے بھی قائد اعظم سے ملاقات کی اور سالگرہ کی مبارکباد دی۔ ریاست جونا گڑھ کے وزیراعظم گورنر جنرل ہاؤس پہنچے اور عزت مآب نواب آف جونا گڑھ کا ایک خط پہنچایا جس میں قائداعظم کو سالگرہ کی مبارکباد دی گئی تھی، اس کے بعد افغانستان کے خصوصی نمائندے عزت مآب سردار نجیب اللہ خان نے افغانستان کے بادشاہ کی طرف سے سالگرہ کے خصوصی تحفے پہنچائے، جو پانچ تحائف قائد اعظم کو پیش کئے گئے ان میں قراقلی کھال، سبز رنگ کا افغانی سگریٹ باکس، سبز رنگ کی افغانی ایش ٹرے بھی شامل تھی، سردار نجیب اللہ خان نے قیمتی پتھروں کا ایک سیٹ محترمہ فاطمہ جناح کو بھی دیا۔ قائد عظم محمد علی جناح نے اپنی سالگرہ کی خوشی میں گورنر جنرل ہاؤس میں ایک ضیافت دی جس میں مختلف ملکوں کے سفارتکاروں، وفاقی وزراء اور عمائدین خاص نے شرکت کی، اس موقع پر یوسف ہارون کی بیگم نے قائد اعظم کی فرمائش پر وہ ترانہ سنایا جو وہ تحریک پاکستان کے دوران گایا کرتی تھیں۔
ملت کے لئے آج غنیمت ہے تیرا دم اے قائد اعظم
شیرازہ ئملت کو کیا تو نے فراہم اے قائد اعظم
اسی شام ، قائد اعظم اس استقبالیہ میں مہمان خصوصی تھے جو وزیر اعظم پاکستان لیاقت علی خان اور بیگم رعنا لیاقت علی خان نے ان کی سالگرہ کی خوشی میں اپنی سرکاری رہائش گاہ پر دیا تھا، 200 سے زائد مہمانوں نے جس میں اعلیٰ سفارتی نمائندے اور ہر شعبہ زندگی کے اہم افراد شامل تھے اس ضیافت میں شرکت کی، قائد اعظم محمد علی جناح کالی شیروانی اور سفید شلوار میں ملبوس اور جناح کیپ پہنے ہوئے تھے۔ قائد اعظم تقریب میں ایک گھنٹے تک رہے اور محفل کے شرکاء سے گفتگو کرتے رہے۔
ایک خصوصی استقبالیہ حکومت کے وزراء کی جانب سے بھی دیا گیا جس میں ایک ہزار کے لگ بھگ لوگ شریک ہوئے، ان لوگوں میں چھوٹے بڑے افسران اور ماتحت عملے نے شرکت کی، یہ تقریب بھی وزیر اعظم کی سرکاری رہائش گاہ پر ہوئی، وزراء کی خواہش تھی کہ اس موقع پر چھوٹے بڑے کا امتیاز نہ رکھا جائے تاکہ حکومت کا جمہوری کردار اجاگر ہوسکے لہٰذا اسسٹنٹ، سیکریٹریز، ان کے مساوی درجے کے افسران ڈپارٹمنٹس اور مختلف برانچز کے سپرنٹنڈنٹ اور کلرک بھی استقبالیہ میں شریک ہوئے اور اس جذبے کو بے حد سراہا گیا۔
قائداعظم کی قیام پاکستان کے بعد منائی جانے والی پہلی سالگرہ کے موقع پر دنیا بھر سے تہنیتی پیغامات بھی موصول ہوئے، امریکہ کے صدر ٹرومین کےپیغام میں لکھا تھا کہ ”میں اپنی اور امریکہ کی عوام کی جانب سے آپ کی سالگرہ کے موقع پر، پرخلوص مبارک باد بھیج رہا ہوں،“ ۔ انڈونیشیا کے وزیر خارجہ حاجی اگس سلیم نے کہا کہ ”میں آپ کی سالگرہ کے موقع پر بہترین تمناؤں کے ساتھ مبارک باد پیش کررہا ہوں کہ اللہ آپ کی رہنمائی کرے اور جو آپ اپنے ملک اور مسلم اقوام کے لئے کاوشیں کررہے ہیں اس میں اللہ کی رحمت شامل ہو،“ پاکستان میں انڈیا کے ہائی کمشنر سری پرکاسا نے گورنر جنرل کو اپنے ٹیلگرام میں کہا کہ ”میں نہایت ادب کے ساتھ سالگرہ کے اس موقع پر مبارکباد پیش کررہا ہوں،“
انڈیا کے ڈپٹی ہائی کمشنر مسٹر وشماناتھن نے اپنے پیغام میں پاکستان کے وجود کو ایک حقیقت قرار دیا، انہوں نے کہا کہ ”وہ خوشی کے اس موقع پر پاکستان کے عوام کے لئے خیرسگالی کے جذبات رکھتے ہیں اور قائد اعظم کی سالگرہ کے موقع پر نیک خواہشات کا اظہارکرتے ہیں ، قائد اعظم ایک نڈر اور قابل رہنماء کی حیثیت سے آزادی کی جنگ لڑ چکے ہیں اور اس سال پاکستان کی نئی مملکت ایک حقیقت کا روپ دھار چکی ہے، ہندوستان اور پاکستان ایک بڑے بھونچال سے گزرے ہیں، مجھے پوری امید ہے کہ قائداعظم کی زندگی انہیں اتنا موقع ضرور دے گی کہ وہ پاکستان کے عوام کی بھر پور رہنمائی کرسکیں اور دونوں ریاستیں امن و سلامتی اور خوشحالی سے رہیں، پاکستان ایک حقیقت بن چکا ہے لہٰذا پاکستان کو طویل عمر ملے اور بانی پاکستان کو بھی،“
دیگر شخصیات کے جو پیغامات موصول ہوئے ان میں شہنشاہ ایران، افغانستان کے بادشاہ،شام کے وزیر اعظم اور انڈیا کے سابق سیکریٹری آف اسٹیٹ شامل تھے، زیادہ تر پیغامات میں مبارکباد کے ساتھ ان کو مسلم دنیا کا سب سے بڑا رہنماء تسلیم کیا گیا تھا اور کہا گیا تھا کہ صرف پاکستان ہی نہیں پوری مسلم دنیا ان کی لیڈر شپ سے استفادہ کرے گی ۔