• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

الیکشن کمیشن، 31 دسمبر کو ہونے والے اسلام آباد کے بلدیاتی انتخابات ملتوی

—فائل فوٹو
—فائل فوٹو

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے محفوظ کیا گیا فیصلہ سناتے ہوئے31 دسمبر کو ہونے والے اسلام آباد کے بلدیاتی انتخابات  ملتوی کر دیے۔

اس سے قبل الیکشن کمیشن آف پاکستان نے اسلام آباد کے بلدیاتی انتخابات سے متعلق سماعت مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ کیا تھا۔

الیکشن کمیشن میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم پر اسلام آباد کے بلدیاتی انتخابات سے متعلق 5 رکنی بینچ نے سماعت کی۔

حکومت کی جانب سے ایڈووکیٹ جنرل جہانگیر جدون اور سابق اٹارنی جنرل اشتر اوصاف، پی ٹی آئی کی طرف سے بابر اعوان اور علی نواز اعوان، جماعتِ اسلامی کی جانب سے میاں اسلم الیکشن کمیشن میں پیش ہوئے۔

سابق اٹارنی جنرل اشتر اوصاف نے عدالت کو بتایا کہ یونین کونسلز کی تعداد میں اضافہ اسلام آباد کی آبادی میں اضافے کی وجہ سے ضروری ہے۔

چیف الیکشن کمشنر نے استفسار کیا کہ کیا مردم شماری کی رپورٹ آئی ہے؟

اشتر اوصاف نے جواب دیا کہ ادارۂ شماریات نے اسلام آباد کی آبادی میں اضافے کا بتایا ہے، الیکشن کمیشن کو آبادی میں اضافے کا معاملہ دیکھنا چاہیے، اسلام آباد ہائی کورٹ نے بھی آبادی میں اضافے کو تسلیم کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ عدالت نے الیکشن کمیشن کو حتمی فیصلہ کرنے کا اختیار دیا ہے، ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن کو وفاقی حکومت کا مؤقف سننے کا کہا ہے۔

 وفاق کو سنے بغیر فیصلہ جاری ہوا: اشتر اوصاف

سابق اٹارنی جنرل اشتر اوصاف نے اپنےدلائل میں کہا کہ الیکشن کمیشن نے وفاقی حکومت کو سنے بغیر فیصلہ جاری کیا، ماضی میں بھی شیڈول جاری ہونے کے بعد الیکشن ملتوی کیے گئے، الیکشن کمیشن کو آئین اور قانون کے مطابق فیصلہ کرنا ہے، الیکشن کمیشن بڑی تعداد میں شہریوں کو ان کے حقوق سے محروم نہیں رکھ سکتا۔

انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت اسلام آباد میں یونین کونسلز میں اضافے سے متعلق قانون سازی کر چکی ہے، الیکشن کمیشن نئے قانون کے مطابق اسلام آباد میں ازسرنو حلقہ بندیاں کرے، یونین کونسلز میں اضافے کے بعد ووٹر لسٹوں کو ازسرنو تشکیل دینا ہو گا، اس سے قبل یونین کونسلز کی تعداد 50 سے بڑھا کر101 کی گئی ہے۔

بینچ میں شامل ممبر نے سوال کیا کہ 6 مہینے پہلے تک تو یہ تعداد اتنی نہیں تھی تو 6 ماہ میں کیسے آبادی اتنی بڑھ گئی؟

اشتر اوصاف نے بتایا کہ نادرا کے ڈیٹا کا مکمل طور پر دوبارہ جائزہ لیا گیا، ہماری غلطی کی وجہ سے آبادی کا بہت بڑا حصہ حقِ رائے دہی سے محروم ہو جائے گا۔

چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ نے کہا کہ اسلام آباد میں 2 بار حلقہ بندیاں ہو چکی ہیں، پنجاب میں 2 بار حلقہ بندیاں ہو چکی، تیسری بار ہونے جا رہی ہیں، حکومت کو پہلے خیال کیوں نہیں آیا کہ وقت پر یوسیز بڑھا لینی چاہئیں، اب جب شیڈول کا اعلان ہو چکا ہے تو یوسیز بڑھانا چاہ رہے ہیں، حکومت نے کمیشن کو ایک پیچیدہ صورت حال میں ڈال دیا ہے۔

سابق اٹارنی جنرل اشتر اوصاف نے کہا کہ اگر کبھی غلطی ہو جائے تو کمیشن کو چاہیے کہ معاونت کرے۔

غلطی ایک بار ہو، بار بار تو نہ ہو، چیف الیکشن کمشنر

چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ غلطی ایک بار ہو، بار بار تو نہ ہو۔

اشتر اوصاف نے کہا کہ یقین دلاتا ہوں کہ حکومت بلدیاتی، عام انتخابات اور صوبائی انتخابات میں مکمل معاونت کرے گی۔

سکندر سلطان راجہ نے استفسار کیا کہ آئین کے آرٹیکل 148 میں لکھا ہے کہ لوکل قانون کے مطابق الیکشن کروانے ہیں، اب وہ قانون ہی بدل دیا جائے تو پھر کیا کیا جائے؟

انہوں نے کہا کہ کوئی ایسی قانون سازی ہو کہ لوکل گورنمنٹ الیکشن اپنے وقت پر ہوں، ہمیں صوبوں میں بھی بلدیاتی انتخابات کے لیے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے، میئر کا انتخاب ڈائریکٹ کر دیا گیا ہے، ہمارے پاس تو ان کے کاغذاتِ نامزدگی بھی نہیں، کیا پتہ کل پھر یونین کونسلز کی تعداد کم کر دی جائے۔

اشتر اوصاف نے کہا کہ میئر کا الیکشن بھی اسی دن ہونا ہے۔

ممبر کمیشن اکرام اللّٰہ خان نے کہا کہ اب جنرل الیکشن بھی ہونے ہیں۔

’’آئین میں بلدیاتی انتخابات کرانا لازم ہے‘‘

چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ ہم پارلیمنٹ کو لکھیں گے کہ بلدیاتی انتخابات بروقت مکمل ہونے چاہئیں، آئین میں بلدیاتی انتخابات کرانا لازم ہے۔

ممبر اکرام اللّٰہ خان نے سوال کیا کہ اس دوران اگر جنرل الیکشن آ گئے تو پھر بلدیاتی انتخابات کا کیا مستقبل ہو گا؟

چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ خدشہ ہے کہ حکومت حلقہ بندی کے بعد دوبارہ یونین کونسلز میں ردوبدل نہ کر دے، حکومت کہیں تو اس چیز کو روکے۔

حلف دیتا ہوں قانون میں ردوبدل نہیں ہوگا، اشتر اوصاف

اشتر اوصاف نے کہا کہ حلف دیتا ہوں اس کے بعد قانون میں ردوبدل نہیں ہو گا، قانون میں تبدیلی کے بعد نئے قانون کے تحت بلدیاتی انتخابات کرانے ہیں۔

چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ نے کہا کہ حکومتیں ہر دوسرے دن الیکشن ایکٹ میں ترمیم کر کے بلدیاتی انتخابات ملتوی کر دیتی ہیں، درخواست ہے کہ 125 یونین کونسلز کی بنیاد پر اسلام آباد میں بلدیاتی انتخابات کرائے جائیں، ووٹر لسٹوں کی اسکروٹنی کا ایک پورا مرحلہ ہے، الیکشن شیڈول جاری ہونے سے پہلے ووٹ رجسٹر کرایا جا سکتا ہے۔

ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد جہانگیر جدون نے کہا کہ اشتر اوصاف کے دلائل سے مکمل اتفاق کرتا ہوں۔

31 دسمبر کو الیکشن کروانے ضروری ہیں، بابر اعوان

پی ٹی آئی کے وکیل بابر اعوان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ شیڈول جاری ہو چکا ہے، 31 دسمبر کو الیکشن کروانے ضروری ہیں، بلدیاتی انتخاب میں پہلے بھی 2 بار تاخیر ہو چکی ہے، حکومت اس کیس میں ایک پارٹی ہے، قانون کے حوالے سے 3 غلط فہمیاں پھیلائی جارہی ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ بلدیاتی انتخابات سے متعلق ابھی تک بل کی حتمی منظوری نہیں ہوئی، یونین کونسلز میں اضافے کے بل کی حتمی منظوری ابھی نہیں ہوئی، بلدیاتی انتخابات بل کی صدر مملکت نے منظوری نہیں دی، آرٹیکل 75 کے مطابق صدرِ مملکت کی منظوری کے بعد بل قانون بنتا ہے، صدر 10 دن کے اندر بل پارلیمنٹ کو واپس بھجوا سکتے ہیں۔

’’بلدیاتی انتخابات سے متعلق الیکشن کمیشن کی حمایت کرتا ہوں‘‘

بابر اعوان نے کہا کہ صدرِ مملکت کسی بل کو تجاویز یا اعتراضات کے ساتھ پارلیمنٹ کو واپس بھجوا سکتے ہیں، وہ یکم جنوری تک بلدیاتی انتخابات کا قانون واپس بھجوا سکتے ہیں، اسلام آباد میں بلدیاتی انتخابات 31 دسمبر کو شیڈول ہیں، بلدیاتی انتخابات سے متعلق الیکشن کمیشن کی حمایت کرتا ہوں۔

انہوں نے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے بلدیاتی انتخابات سے متعلق کوئی آرڈر جاری نہیں کیا، ہائی کورٹ نے بلدیاتی انتخابات سے متعلق اختیار الیکشن کمیشن کو دیا ہے، الیکشن کمیشن کو ووٹر لسٹوں سے متعلق بھی فیصلہ کرنے کی ہدایت کی گئی ہے، الیکشن کمیشن نے مکمل تیاری کر کے شیڈول کا اعلان کیا۔

پی ٹی آئی کے وکیل نے کہا کہ اس مرحلے میں مجھے کوئی انصاف دکھائی نہیں دے رہا، امیدوار تین چار ماہ سے الیکشن مہم میں مصروف ہیں، اتنے پیسے لگا رہے ہیں، ایک لوکل الیکشن پر بار بار اتنے پیسے کیوں لگائے جا رہے ہیں؟ سب جانتے ہیں کہ معیشت کی کیا حالت ہے، کسی جگہ تو ہم نے رکنا ہے، پھر کونسا الیکشن ہو سکے گا؟ اسلام آباد کے لوگوں کو فیصلہ کرنے دیں، ڈر کس بات کا ہے؟ اگر صدرِ مملکت دستخط کر دیں، پارلیمنٹ قانون بنا دے پھر اس کو چیلنج کیا جا سکتا ہے، آرٹیکل 264 میں ہے کہ اگر قانون بن بھی جائے تو الیکشن پچھلے قانون کے مطابق ہوتا ہے، حکومت کہنا کیا چاہ رہی ہے؟ آئین ہے اس کے مطابق کام کرنا ہے، یہ مذاق نہیں ہے، پورا اسلام آباد 3 دن بعد الیکشن کی طرف دیکھ رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس سے بڑی ناانصافی کوئی ہو نہیں سکتی، لوگوں کو ووٹ کا حق دیں، اقلیتوں کی لوکل گورنمنٹ الیکشن کے علاوہ کوئی نمائندگی نہیں ہے، غلط پیغام جائے گا، درخواست ہے کہ 31 دسمبر کو الیکشن ہونے دیں، اگلی بار بھی انہی لوگوں کے پاس ہی ووٹ کے لیے جانا ہے، الیکشن کمیشن دیکھے کس جماعت نے101 یوسیزمیں کتنے امیدوار کھڑے کیے ہیں، حکومت کے پاس معاملات درستگی کے لیے وسیع اختیارات ہیں، یونین کونسلز میں اضافے پر حکومتی بدنیتی نظر آ رہی ہے، حکومت نے اسلام آباد میں دفعہ 144 نافذ کی ہے۔

بابر اعوان کا کہنا ہے کہ دفعہ 144 کے نفاذ کے باعث امیدواروں کو الیکشن مہم چلانے سے روک دیا گیا ہے، وفاقی حکومت نے الیکشن کمیشن سے مشاورت کے بغیر یوسیز کی تعداد میں تبدیلی کی۔

جماعت اسلامی کے وکیل حسن جاوید نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ دو سال سے اسلام آباد میں عوام کی نمائندگی نہیں ہے۔

چیف الیکشن کمشنر نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ان دلائل کے باوجود اسلام آباد ہائی کورٹ نے ہمارا فیصلہ کالعدم قرار دیا ہے۔

حسن جاوید نے کہا کہ کمیشن کا فیصلہ اس نقطے پر کالعدم ہوا کہ حکومت کا مؤقف نہیں سنا گیا تھا۔

چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ ہائی کورٹ نے یونین کونسلز کی تعداد کا جائزہ لینے کا بھی کہا ہے۔

جماعت اسلامی کے وکیل نے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن کا اختیار محدود نہیں کیا، ہمارا مؤقف ہے کہ ہم الیکشن کمیشن کے ساتھ کھڑے ہیں۔

چیف الیکشن کمشنر نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن کا آرڈر بہت واضح تھا۔

وکیل حسن جاوید نے کہا کہ تمام اتھارٹی الیکشن کمیشن کی ہے، انتخابات الیکشن کمیشن نے کروانے ہیں، وفاقی حکومت الیکشن کمیشن کے اختیارات کو کم کر دے گی، اگر یہ اختیار انہیں دے دیا جاتا ہے تو کبھی بھی الیکشن نہیں ہو سکیں گے۔

جماعت اسلامی کے وکیل کا کہنا ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے اپنے آرڈر میں کسی بھی جگہ الیکشن کمیشن کے آرڈر کو رد نہیں کیا، حکومت کو اختیار ملا تو یہ الیکشن کمیشن کے قانونی اختیارات پر پہرے داری کے مترادف ہوگا، ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن کے اختیار، رائے یا فیصلے کو غلط قرار نہیں دیا۔

انہوں نے کہا کہ صرف یہ کہا گیا کہ ان جماعتوں کو سنا نہیں گیا، ان کو سن کر فیصلہ کر لیں، لیکن کیا فیصلہ کرنا ہے یہ الیکشن کمیشن کا اختیار ہے۔

سابق اٹارنی جنرل اشتر اوصاف کا کہنا ہے کہ کسی نے الیکشن کمیشن کے اختیارات پر بات نہیں کی، سب کو برابری کا موقع ملنا چاہیے، سب کی الیکشن میں مکمل نمائندگی ہونی چاہیے۔

قومی خبریں سے مزید