• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

2022 میں سائنس کی دنیا میں مصنوعی ذہانت اور میٹاورس کی دُھوم سُنائی دی

21ویں صدی کے آس پاس سائنسدانوں نے چوتھے صنعتی انقلاب کی نوید سُنا دی تھی۔ چوتھے صنعتی انقلاب کی خاص بات یہ ہے کہ، ماضی کے تینوں صنعتی انقلاب کے مقابلے میں حالیہ صنعتی انقلاب میں مشینوں کا استعمال بڑھ گیا ہے اور نئی اختراعات کا تصور سے لے کر عمل تک کا سفر بہت تیز ہوگیا ہے۔ سال 2022 میں جہاں دیگر کئی سائنسی ایجادات دنیا نے دیکھیں، وہاں ہم نے مصنوعی ذہانت (AI) اور میٹاورس جیسے الفاظ زباں زد عام ہوتے دیکھے اور کئی سائنسی حلقے انھیں سال 2022 کے Buzz Wordsبھی قرار دے رہے ہیں۔

مصنوعی ذہانت

مصنوعی ذہانت، مشین لرننگ، اور ڈِیپ لرننگ جیسی ٹیکنالوجیز نے چوتھے صنعتی انقلاب کو اب تک کی صنعتی ترقی کی نمایاں ترین اور اہم ترین ایجاد بنا دیا ہے۔ ورلڈ اکنامک فورم نے ایک رپورٹ میں پیش گوئی کی تھی کہ مصنوعی ذہانت لوگوں سے ساڑھے آٹھ کروڑ نوکریاں چھین لے گی لیکن ساتھ ہی یہ ٹیکنالوجی اس سے زیادہ نئی نوکریاں بھی پیدا کرے گی۔ 2022 میں ہم نے اس پیش گوئی کو حقیقت میں بدلتے دیکھا جب ’اوپن AI‘ پروجیکٹ کو دنیا بھر میں پذیرائی ملنا شروع ہوئی اور اس کے ’چَیٹ جی پی ٹی‘ اور ’ڈیل۔ای‘ فیچرز نے کانٹینٹ رائٹرز،گرافکس ڈیزائنرز، آرکیٹیکٹس، اساتذہ، ویب ڈیویلپرز اور کمپیوٹر پر نان۔ٹیکنیکل اور ٹیکنیکل کام کرنے والی افرادی قوت کو یہ باور کرادیا کہ ’’یاتو اپنے ہنر کو اَپ۔گریڈ کریں یا بے روزگار ہونے کے لیے تیار ہوجائیں‘۔ اسی طرح میٹاورس ہرچندکہ ابھی تصور اور عملی دنیا کے دوراہے پر ہے لیکن سائنسدان اسے آنے والی ٹریلین ڈالر انڈسٹری قرار دے رہے ہیں۔ 2022 میں مصنوعی ذہانت اور میٹاورس دنیا کو کس طرح بدلتی نظر آئی، زیرِ نظر مضمون میں یہی جاننے کی کوشش کی گئی ہے۔

مصنوعی ذہانت (AI)

دورِ جدید میں مصنوعی ذہانت (آرٹیفیشل انٹیلی جنس) کمپیوٹر سائنس کے ایک ایسا ذیلی شعبہ کے طور پر اُبھر کر سامنے آیا ہے، جس میں ذہانت (یا فہم)، سیکھنے اور کسی صلاحیت کو اپنانے سے متعلق بحث کی جاتی ہے۔ مستقبل کی پیش گوئی کے حوالے سے شہرت رکھنے والے ڈاکٹر رے کروزویل کا کہنا ہے کہ 2045ء تک دنیا ایک ایسے مرحلے میں داخل ہوجائے گی، جب مشینیں عقل اور جدت طرازی میں انسانوں سے زیادہ ذہین ہو جائیں گی۔

کروزویل وہ مستقبل بین ہیں، جن کی ماضی میں کی گئی 86فی صد پیشن گوئیاں درست ثابت ہوئی ہیں۔ کروزویل کا کہنا ہے کہ مصنوعی ذہانت ہمارے دماغ کو الیکٹرانک سرکٹ سےمنسلک کردے گی، جو جسمانی خلیوں کے مقابلے میں بہت بہتر ہونگے۔ 2030ء کی دہائی تک ہم انسانی دماغ اور شعور کو الیکٹرانک میڈیم سے نقل کرنے کے بھی قابل ہوجائیں گے۔

بنیادی طور پر مصنوعی ذہانت انسانی دماغ کو بائے پاس کرکے اس سے کئی گنا زیادہ سوچنے، سمجھنے اور عمل کر دِکھانے والی مشین تیار کرنے کی سائنس ہے۔ یہ 1960ء سے دنیا بھر کے سائنسدانوں اور محققین کا پسندیدہ ترین موضوع رہا ہے اور تقریباً نصف صدی کے اس سفر میں تیز تر تحقیق کا یہ عالم ہے کہ آج انسان مصنوعی انسانی دماغ ’اِ مورٹیلیٹی ٹیکنالوجی‘ کی تخلیق کے منصوبے کا آغاز کر چکا ہے۔ مصنوعی ذہانت، سائنس اور ٹیکنالوجی کو بامِ عروج پر پہنچانے کی ایک انسانی کاوش ہے۔ اسے آرٹیفیشل انٹیلی جنس کا نام دینے والے سائنسدان جان میک کارتھی نے اس نووارد مضمون کو ذہانت کی حامل مشینیں بنانے کی سائنس قرار دیا تھا۔

اسے مزید آگے بڑھاتے ہوئے اسٹوئرٹ رسل اور پیٹر نوروِگ نے اس پر اپنی کتاب میں مشینوں کی جگہ پہلی دفعہ ’انٹیلی جنٹ ایجنٹس‘ کی اصطلاح استعمال کی، یعنی ایسے ایجنٹس جو پوری طرح اپنے ماحول کو سمجھنے اور پَرکھنے کی صلاحیت کےحامل ہوں تاکہ ماحول از خود ان سے برتاؤ کر سکے، جس سے ناصرف انسان کے کام کرنے کی رفتار بڑھ جائے گی بلکہ آخری حد تک دُرست نتیجے کا حصول بھی ممکن ہوجائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ مصنوعی ذہانت کو انسانی تاریخ کا دوسرا بڑا انقلاب اور سنگِ میل قرار دیا جاتا ہے، خصوصاً صنعتوں، کمپیوٹرز اور روبوٹکس میں اس کی جدید اور منفرد تیکنیکس کی بدولت جو انقلاب رونما ہوا ہے وہ روزِ روشن کی طرح عیاں ہے۔

مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجی کو سمجھنے کے لیےچار بنیادی 'مکاتبِ فکر سے واقفیت ضروری ہے۔ پہلے مکتبۂ فکر کے روحِ رواں رسل، نوروِگ اور جان ہاگلینڈ ر ہیں، جن کے مطابق مصنوعی ذہانت کا اصل مقصد ایسی مشینوں کی تیاری ہے، جو بالکل انسانوں کی طرح سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت رکھتی ہوں۔ 

دوسرے مکتبۂ فکر کا لبِ لباب یہ ہے کہ مصنوعی ذہانت کے ذریعے مشین کو اس قابل بنایا جائے کہ وہ ناصرف پوری طرح اپنے ماحول کو سمجھتے ہوئے ردِ عمل دے سکے، بلکہ سیکنڈز میں انسان کی حسبِ خواہش افعال بھی انجام دے سکے۔ اس کی ایک قابلِ ذکر مثال روبوٹس ہیں، جو ٹیکنالوجی میں روز افزوں ترقی سے اس قابل ہو گئے ہیں کہ فوری فیصلہ کر سکیں مگر اب بھی ان کے افعال بہت حد تک ' قابلِ پیشگوئی ہیں۔

اس کے علاوہ کمپیوٹرز ساکن تصاویر اور ویڈیوز کے ذریعے متعلقہ شخص یا جگہ کے متعلق ویژوئل انفارمیشن فراہم کرتے ہیں، یہ بھی ذہین مشینوں کی ایک جہت ہے۔ مصنوعی ذہانت کے تیسرے مکتبۂ فکر کا تعلق انسانی دماغ کو تسخیر کرنے کی صلاحیت سے ہے، یعنی ایسے ماڈلز بنائے جائیں، جن کے ذریعے انسانی دماغ کو سمجھا اور جانا جا سکے کہ وہ اپنے ماحول، ارد گرد بسنے والے افراد اور روز مرہ کی ان اشیا کو کس طرح سمجھتا ہے؟ 

جب کہ آخری مکتبۂ فکر ان تیکنیکس سے متعلق ہے، جن سے مشین کو اس قابل بنایا گیا ہے کہ وہ انسان سے بہتر اور کئی گنا زیادہ بہتر اور تیز تر نتائج دے سکے۔ اس کی ایک مثال انٹرنیٹ پر میسر مختلف سرچ انجن ہیں۔ بادی النظر میں دیکھا جائے تو تیسرے اور چوتھے مکتبۂ فکر کی تمام تر اساس ہمارا دماغ مسخر کرنے کی صلاحیت پر ہے اور بلاشبہ دماغ انسانی جسم کا پیچیدہ ترین عضو ہے جس کے افعال اور اس کے مکینزم کو پوری طرح سمجھنا اب تک ممکن نہیں ہو سکا۔

گوگل سرچ، آئی بی ایم واٹسن، جدید مہلک ہتھیاروں کی دوڑ، صنعتوں، معاشیات و سوشل میڈیا، غرض یہ کہ اب ہر جگہ مصنوعی ذہانت کا سکہ چلتا نظر آتا ہے۔ گزشتہ 50برس میں جو ایجادات اور تحقیقی مواد ہمارے سامنے آیا ہے، وہ ایک حد تک ’کمزور یا محدود ذہانت‘ کا حصہ تھا، جیسے کہ چہرہ پہچاننا یا انٹرنیٹ سرچ انجن، جن کے ذریعے ہم انتہائی کم وقت میں اپنے کام کو بھرپور طریقے سے انجام دینے کے قابل ہو گئے ہیں۔

محققین کے لیے یہ مصنوعی ذہانت کی کم ترین سطح ہے، کیوں کہ ان کا اصل پروگرام ٹیکنالوجی کو اس انتہا تک لے کر جانا ہے کہ مشین، انسان کے آپریٹ کیے بغیر از خود کام انجام دینے کی اہلیت کی حامل ہو، جس کی ایک مثال ہیومنائڈ یا انسان نما روبوٹس ہیں، جن پر 1995ء سے کام کیا جارہا ہے اور اب تک ایسے لاکھوں روبوٹس متعارف کروائے جا چکے ہیں جو مشینوں کو کنٹرول کرنے کے ساتھ ساتھ کسی بھی اچانک رونما ہونے والی خرابی اور ہنگامی صورتحال سے مؤثر انداز میں نمٹ سکتے ہیں۔

اس کا ایک منفی پہلو یہ ہے کہ ہماری زندگی میں مصنوعی ذہانت کا تیزی سے بڑھتا ہوا اثر و رسوخ انسان کی اہمیت کو گھٹا کر مشین کو اس کے متبادل کے طور پر پیش کر رہا ہے۔ لوگ ٹیکنالوجی کو اپنا اوڑھنا بچھونا بناکر اپنی ذاتی خداداد صفات پر انحصار ترک کرتے جا رہے ہیں۔ معروف برطانوی مفکر اور سائنسدان اسٹیفن ہاکنگ، مصنوعی ذہانت کو انسانیت کے لیے خطرہ قرار دیتے تھے۔ ایسے میں ضرورت اس بات کی ہے کہ مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجی کو اس طرح ترقی دی جائے کہ وہ انسانیت کی صحیح خدمت گار کے طور پر ترویج پائے نا کہ اسے انسانی دماغ اور ذہانت کو مات دینے کے لیے استعمال کیا جائے۔

میٹاورس

روایتی میٹاوَرس کا تصور ایک ایسی ورچوئل دنیا ہے، جہاں اربوں لوگ رہتے، کام کرتے، خریداری کرتے، سیکھتے اور ایک دوسرے کے ساتھ باہمی روابطہ رکھتے ہیں اور یہ سب کچھ وہ اپنی طبعی دنیا میں آرام دہ صوفوں پر بیٹھ کر کرتے ہیں۔

ہم معلومات کے عالمی ویب سے جُڑنے کے لیے جو کمپیوٹر اسکرینیں استعمال کرتے ہیں، وہ ایک تھری ڈی ورچوئل دنیا سے جُڑنے کا ذریعہ اور پورٹل بن چکی ہیں۔ ہمارے ’ڈیجیٹل نقوش‘ یا ’اوتار‘ ایک تجربے سے دوسرے تجربے میں آزادانہ طور پر منتقل ہوتے ہیں اور ہمارے ساتھ ہماری شناخت اور پیسہ بھی ساتھ لے جاتے ہیں۔

میٹاوَرس پر گزشتہ کئی برسوں سے کام ہورہا ہے اور اس کی تشکیل پر صرف اتنی ہی پیشرفت ہوسکی ہے کہ اس ٹیکنالوجی پر کام کرنے والی کمپنیاں ابھی تک اس کے پروٹوٹائپ ہی پیش کرسکی ہیں اور تھری ڈی اینی میشن کے ذریعے اس مجوزہ اور ممکنہ متوازی دنیا کو پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔

کیا میٹاوَرس، اپنے مجوزہ اور ممکنہ تصور کے عین مطابق ایک مکمل متوازی ورچوئل دنیا بن سکے گی؟ اس حوالے سے میٹا کے چیف ایگزیکٹو آفیسر مارک زکربرگ اور دیگر انٹرپرنیورز کافی پُراُمید ہیں۔ مینجمنٹ کنسلٹنسی میکنزی اینڈ کمپنی کو توقع ہے کہ 2030تک میٹاوَرس معیشت 5ٹریلین ڈالر تک پہنچ جائے گی۔ گیمنگ، انٹرٹینمنٹ، ایجوکیشن، اور مارکیٹنگ وغیرہ میٹاوَرس معیشت کے اہم جزو ہوں گے۔

نئے سال 2023کے آغاز پر میٹاوَرس کے بارے میں آپ کو کیا باتیں جاننے کی ضرورت ہے، آئیے پڑھتے ہیں:

میٹاورس میں بزنس اسکولز

MBAمیں Mمیٹاورس کے لیے نہیں ہے لیکن عین ممکن ہے کہ بہت جلد آپ ورچوئل ریالٹی (VR) ہیڈ سیٹ کے ذریعےایم بی اے کی تعلیم حاصل کررہے ہوں۔ ہارورڈ بزنس پبلشنگ کے مطابق، دنیا کے صفِ اول کے کئی بزنس اسکول اینٹوں اور مسالے سے بنی عمارتوں سے پِکسل اور مِکسڈ ریالٹی (MR)کی طرف منتقل ہورہے ہیں اور اس دوڑ میں فرانسیسی تعلیمی ادارے سرِ فہرست ہیں۔

رپورٹ کے مطابق ESSEC بزنس اسکول گزشتہ سال VRپر مبنی کلاسز متعارف کرواچکا ہے، INSEAD بزنس اسکول اپنے ایگزیکٹو اور ڈگری پروگراموں میں VRکا استعمال کررہا ہے جب کہ NEOMAبزنس اسکول نے مکمل طور پر ورچوئل کیمپس تیار کرلیا ہے۔

ایجوکیشن انٹرپرنیور وِجے گووند راجن کہتے ہیں کہ، ’’بزنس ایجوکیشن کو ٹرانسفارم کرنے کے لیے، اب روایتی فارمیٹس اور کیمپس سیٹنگز سے ہٹ کر سیکھنے کے طریقوں کے ساتھ تجربہ کرنا ضروری ہو گیا ہے۔ مقصد یہ سیکھنا ہے کہ ’ڈِیپ لرننگ‘ کو فروغ دینےکے لیے ڈیجیٹل ٹیکنالوجیز کو اختراعی اور ٹارگٹڈ طریقوں سے کیسے استعمال کیا جائے۔ 

اس کا مقصد روایتی کورسز کو VR کورسز سے تبدیل کرنا نہیں ہے، بلکہ یہ دریافت کرنا ہے کہ یہ جدید ٹیکنالوجیز سیکھنے کے تجربے کو کیسے بڑھا سکتی ہیں۔ اس کا مقصد روایتی کورسز کو VR کورسز سے تبدیل کرنا نہیں، بلکہ یہ دریافت کرنا ہے کہ یہ جدید ٹیکنالوجیز سیکھنے کے تجربے کو کیسے بڑھا سکتی ہیں۔‘‘

ویانا، آسٹریا کی WUایگزیکٹو اکیڈمی ، ایڈٹیک اسٹارٹ ۔اَپ ’ٹومارو' ز ایجوکیشن‘ کے اشتراک میں ’ماسٹر آف سسٹینبلٹی، انٹرپرنیورشپ اینڈ ٹیکنالوجی‘ پروفیشنل پروگرام تیار کررہی ہے، جو مکمل طور پر ورچوئل کیمپس میں پڑھایا جائے گا۔ اس سلسلے میں ایڈ ٹیک کے ایک سینئر اہلکار کا کہنا ہے کہ، ’’ہمیں آنے والی نسل کے بارے میں سوچنا ہے جو میٹاوَرس میں بڑی ہوگی۔ ایسے میں دیگر کاروباروں سمیت تعلیمی اداروں کی بھی میٹاورس میں موجودگی انتہائی ضروری ہے۔ تعلیمی اداروں کی میٹاورس میں سرمایہ کاری انھیں ’فیوچر۔پروف‘ بنادے گی۔‘‘

میلان کا پولیمی گریجویٹ اسکول آف مینجمنٹ VR بزنس ٹرپس تیار کرنے کے لیے ایک اور ایڈٹیک اسٹارٹ اپ ’فَیڈ پرو‘ کے ساتھ کام کر رہا ہے۔ یہ اپنے انٹرنیشنل فلیکس ایگزیکٹو MBA پروگرام میں طلباء کو میٹاورس میں کاروباری مواقع کے بارے میں پڑھانے کا بھی ارادہ رکھتا ہے۔

شعبہ تعلیم میں میٹاورس کی اہمیت کو عالمی بینک بھی تسلیم کرچکا ہے اور ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ آنے والے برسوں میں میٹاورس شعبہ تعلیم میں بڑی تبدیلی لائے گا۔

میٹاورس میں صنفی تفریق بڑھ رہی ہے

میک کینزی کے مطابق، میٹاورس ابھی تک بمشکل ہی اپنا وجود رکھتا ہے لیکن صنفی تفریق پہلے سے ہی وہاں کی زندگی کی حقیقت ہے۔ ادارے کا کہنا ہے کہ میٹاورس میں صنفی فرق فارچیون 500 کمپنیوں کی طرح ہے، جہاں 10 فیصد سے بھی کم چیف ایگزیکٹو آفیسرز خواتین ہیں۔

یہ اس حقیقت کے باوجود ہے کہ مردوں کے مقابلے میں زیادہ خواتین میٹاورس کا دورہ کرتی ہیں، اور خواتین ورچوئل دنیا میں زیادہ وقت گزارتی ہیں۔ میک کنزی کا کہنا ہے کہ اس نے جن خواتین کا سروے کیا، ان میں سے 35فی صد ’’میٹاورس پاور یوزرس‘‘ ہیں ، یعنی وہ وہاں ہفتے میں تین گھنٹے سے زیادہ وقت گزارتی ہیں ، خواتین کے مقابلے میں 29فی صد مرد حضرات میٹاورس میں ہفتہ وار تین گھنٹے گزارتے ہیں۔

مزید برآں، خواتین جن کمپنیوں کے لیے کام کررہی ہیں، وہاں وہ مردوں کے مقابلے میں میٹاورس کے فروغ کے لیے زیادہ سرگرم ہیں۔ سروے میں شامل 450خواتین ایگزیکٹوز میں سے 60فی صد نے میٹاورس منصوبوں پر پیشرفت ظاہر کی ہے، جب کہ ان کے مقابلے میں 50فی صد مرد ایگزیکٹوز نے پیشرفت ظاہر کی۔

میک کنزی کا کہنا ہے، ’’حقیقت یہ ہے کہ خواتین، مردوں کے مقابلے میں ’پروٹومیٹاورس‘ میں زیادہ وقت گزار رہی ہیں اور ہمارے اعداد و شمار کے مطابق، میٹاورس پیشرفت کو آگے بڑھانے اور لاگو کرنے کا زیادہ امکان ہے۔ تاہم، جس طرح مجموعی طور پر ٹیک سیکٹر کی طرح، خواتین میٹاورس معیشت میں اقلیت کی نمائندگی کرتی ہیں۔‘‘

کیا آپ چیف میٹاورس آفیسر (CMO)بننے کے لیے تیار ہیں؟

ورلڈ اکنامک فورم نے اکتوبر میں رپورٹ کیا کہ مزید نان ٹیک کمپنیاں چیف میٹاورس آفیسرز (سی ایم اوز) کی خدمات حاصل کر رہی ہیں۔ لیکن وہ اصل میں کیا کرتے ہیں؟

ایک امریکی نیوز پورٹل نے یہ جاننے کے لیے تین سی ایم اوز سے بات کی – جن میں سے دو خواتین ہیں۔ ان میں کیتھی ہیکل بھی شامل ہیں، جنھیں’’دنیا کا پہلی چیف میٹاورس آفیسر‘‘ بھی کہا جاتا ہے)۔ ان تمام لوگوں نے سی ایم او کے کردار کو تحقیق (ریسرچ) اور لائحہ عمل (اسٹریٹجی) کا امتزاج بتایا۔

’میٹاورس اوتار‘ اسے حقیقت کے قریب لے آئیں گے 

ہم سب کے پاس میٹاورس میں اپنا اپنا اوتار ہوگا، اور یہ چیز میٹاورس کو حقیقی دنیا کے قریب لے آئے گی، جس کا صارف کی دلچسپی اور مشغولیت کو بڑھانے میں کلیدی کردار ہوگا۔

ایک ٹیکنالوجی کمپنی کا نیا ’موشن ٹریکنگ سسٹم‘ اسی بات کا وعدہ کرتا ہے۔ سر، کلائی، ٹخنوں اور کولہے کے لیے چھ چھوٹے ٹیگز پر مشتمل یہ سسٹم، صارف کی نقل و حرکت کو حقیقی وقت میں ان کے اوتار پر کاپی کرے گا۔ ان میں سے ہر سینسر کا وزن صرف آٹھ گرام ہوگا، یہ سسٹم وائرلیس ہوگا اور اس کی بیٹری 10گھنٹے تک چل سکے گی۔ اندازہ ہے کہ اس کی تعارف قیمت 360ڈالر ہوگی۔

میٹاورس میں انسانی نقل و حرکت کی اس طرح کی حقیقت پسندانہ نقشہ سازی موجودہ اوتاروں کے مقابلے میں ایک بڑی جدت کی نشاندہی کرتی ہے۔

زیادہ تر انٹرنیٹ صارفین کے پاس ڈیجیٹل شناخت نہیں ہے۔ تاہم، میٹاورس صارفین کو ایک سے زیادہ پلیٹ فارمز پر منتقل ہونے کی اجازت دینے کے لیے ڈیجیٹل شناخت کی ضرورت ہوگی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ڈیجیٹل شناخت بنانے کے لیے معیارات اور ضوابط طے کیے جانا ناگزیر ہوگا۔