عالمی سطح پر ماحولیاتی تبدیلی کا مسئلہ گمبھیر صورتحال اختیار کرتا جارہا ہے۔ سردی ہو یا گرمی، دونوں موسم ہی سخت ترین ہوتے جارہے ہیں۔ معمول سے ہٹ کر گرمی اور بارشیں موسمی تغیرات کا شاخسانہ ہیں۔ شمال مغربی بحرالکاہل میں شدید گرمی کی لہر سے لے کر سائبیریا کے جنگلات اور دنیا کے مختلف ممالک میں لگنے والی آگ، سیلاب اور سمندری طوفان آنے کے کئی واقعات، یہ سب خطرناک ماحولیاتی تبدیلی کی طرف اشارہ کررہے ہیں۔
انتہائی گرمی کی لہریں اور بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے سیلاب ناصرف انسان کے لیے خطرناک ہیں بلکہ وہ جنگلات، سرسبز کھیتوں اور زیرِآب حیاتیات سمیت سارے ماحولیاتی نظام کو بھی تباہ کررہے ہیں۔ اس ماحولیاتی نظام کی تباہی کے نتیجے میں ان معاشروں اور معیشتوں کو مزید نقصان پہنچتا ہے، جن کا ان پر دارومدار ہوتا ہے۔
ماحولیاتی تبدیلی جوبلاواسطہ یا بالواسطہ انسانی سرگرمیوں (صنعتکاری، جنگلات کی کٹائی وغیرہ) سے متعلق ہے، عالمی ماحول کے تشکیلی عمل کو تبدیل کرتی ہے اور مختلف ادوار میں قدرتی آب و ہوا میں تغیرکو سامنے لاتی ہے۔ اقوامِ متحدہ کے ماحولیاتی تبدیلی پر تشکیل کردہ انٹر گورنمنٹل پینل آن کلائیمٹ چینج (IPCC) کے ایک سائنسی جائزے سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس صدی کے آخر تک عالمی سطح پر اوسط درجہ حرارت ایک سے3.5ڈگری تک بڑھ جائے گا اور اس اضافے سے سطح سمندر میں 95سے 115سینٹی میٹر (تقریباً37سے45انچ) اضافہ ہوجائے گا اوریوں سمندری طوفانوں اور سونامی کے خطرات بڑھ جائیں گے۔ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ کرہِ ارض کا درجہ حرارت ہمارے خدشات سے کہیں زیادہ تیزی سے بڑھ رہا ہے۔
ماحولیاتی تبدیلی کی وجوہات
سائنسدانوں نے درجہ حرارت میں 1.5 ڈگری سینٹی گریڈ اضافے کو گلوبل وارمنگ کے لیے محفوظ حد مقرر کیا ہے۔ اگر درجہ حرارت زیادہ ہو جائے تو قدرتی ماحول میں نقصان دہ تبدیلیاں انسانوں کے طرز زندگی کو تبدیل کر سکتی ہیں۔ بہت سے سائنسدانوں کا خیال ہے کہ ایسا ہوگا اور صدی کے اختتام تک 3 ڈگری سینٹی گریڈ یا اس سے زیادہ اضافے کی پیش گوئی کی ہے۔ رٹگرز یونیورسٹی کی ایک تحقیق کے مطابق، 2100ء تک دنیا بھر میں 1.2 ارب افراد گرمی کے شدید دباؤ کا سامنا کر سکتے ہیں۔ یہ تعداد آج کے متاثرہ افراد سے کم از کم چار گنا زیادہ ہے۔ ذیل میں ماحولیاتی تبدیلی کی چند وجوہات کا ذکر ہے؛
پلاسٹک کا استعمال: پچھلے پانچ عشروں کے دوران پلاسٹک کی پیداوار اور استعمال دونوں کا حجم کئی گنا بڑھ چکا ہے۔ پلاسٹک وقت کے ساتھ گل سڑ کر پھلوں اور سبزیوں کی طرح زمین اور فطرت کا حصہ نہیں بنتا۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم بھی ہو جاتا ہے اور یہی ٹکڑے بعد میں زمینی اور سمندری علاقوں میں پھیل جانے کے علاوہ فضا میں بھی پہنچ جاتے ہیں۔ اعداد وشمار کے مطابق سالانہ بنیاد پر تقریباً 300 ملین ٹن پلاسٹک استعمال کے بعد پھینک دیا جاتا ہے۔ ورلڈ اکنامک فورم کے مطابق دنیا کے تمام سمندروں میں ہر سال 8.8 ملین ٹن پلاسٹک پر مشتمل کچرا پھینکا جاتا ہے۔
زیرِ سمندر حیاتیاتی نظام (کورل ریف) ایک تہائی سے زائد سمندری حیات کی کمین گاہ ہیں، تاہم ماحولیاتی تبدیلی کے باعث یہ تیزی سے ختم ہورہی ہیں۔ ایک اندازہ ہے کہ اگر پلاسٹک کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے کوئی تدبیر نہ کی گئی تو 2050ء تک ہمارے سمندروں میں مچھلیاں کم اور پلاسٹک زیادہ ہوگا۔ اعدادوشمار کے مطابق، دنیا بھر کے سمندروں میں اس وقت 15 کروڑ ٹن پلاسٹک موجود ہے اور ہر سال 10 لاکھ پرندے اور ایک لاکھ سے زائد سمندری جاندار اس پلاسٹک کو کھانے یا اس میں پھنسنے کی وجہ سے مر جاتے ہیں۔ پلاسٹک سمندروں کی آلودگی کے ساتھ ساتھ زمین سے اُگنے والی خوراک کو بھی زہریلا بناتا ہے۔
کھانے کا ضیاع: ہم جو کھانا روزانہ پھینکتے ہیں، اس سے پیدا ہونے والی گرین ہاؤس گیسز کئی ممالک کے مجموعی کاربن اخراج سے زیادہ ہیں۔ اس سے بھی زیادہ حیرت کی بات یہ ہے کہ ہمارے سیارے میں غذائی اجناس کی پیداوار کا ایک تہائی حصہ کبھی بھی کھانے کی میز تک نہیں پہنچ پاتا۔ یہ اجناس یا تو کھیتوں سے باہر ہی نہیں آپاتیں یا آمدورفت کے مختلف مراحل طے کرنے کے دوران گل سڑ جاتی ہیں یا پھر ہوٹلوں، ریستورانوں، گراسری اسٹوروں، اسکولوں اور گھروں کے باورچی خانوں میں لانے کے بعد پھینک دی جاتی ہیں۔ ضائع ہونے والی تمام غذائی اشیا کے وزن کا اندازہ 1.3ارب ٹن سالانہ لگایا گیا ہے جبکہ اس کی خوردہ قیمت ایک ٹریلین ڈالر تک جاپہنچتی ہے۔
عمارتوں سے کاربن کا اخراج: عالمی سطح پر کاربن اخراج میں 40فیصد حصہ تعمیراتی عمارتوں کا ہے اور تمام تر کوششوں کے باوجود اس میں ہر سال ایک فی صد اضافہ ہورہا ہے۔ 2015ء میں ماحولیات کے حوالے سے ہونے والے ’پیرس معاہدے‘ کے تحت تمام صنعتوں اور ملکوں کو انفرادی طور پر ایسی پالیسیاں مرتب کرنے کا اختیار دیا گیا، جن کی مدد سے وہ اپنے دائرہ اختیار میں کاربن کے اخراج میں قابلِ ذکر حد تک کمی لانے میں کامیاب ہوسکیں اور عالمی سطح پر 2050ء تک کاربن کا اخراج بالکل ختم ہوجائے۔ تاہم، ماحولیات پر بات کرتے ہوئے عمارتوں اور ان کے کردار کو کم ہی زیرِ بحث لایا جاتا ہے۔
پاکستان پر اثرات
گرین ہاؤس گیسز کے مجموعی اخراج میں پاکستان کا حصہ بہت کم ہے، لیکن ماحولیاتی تبدیلی کے منفی اثرات کی وجہ سے درج ذیل صورتوں میں پاکستان بری طرح متاثر ہوسکتا ہے۔ اس کی ایک مثال 2022ء میں ہونے والی بارشیں اور سیلاب تھا، جس نے پورے ملک کو متاثر کیا اور اربوں ڈالر کا نقصان پہنچایا۔
٭ امکا ن ہے کہ ہمالیہ میں گلیشیر پگھلنے سے سیلاب کی آمد میں اضافہ ہو سکتا ہے اور یہ عمل اگلی دو سے تین دہائیوں میں آبی وسائل کو متاثر کرے گا۔ اس کے بعد گلیشیرز کی تعداد میں کمی کے ساتھ ساتھ دریاؤں کے بہاؤ میں بھی کمی واقع ہوسکتی ہے۔
٭ میٹھے پانی کی دستیابی میں بھی کمی کا امکان ہے، جس کی وجہ سے بائیو ڈائیورسٹی ( پاکستان میں یا کسی خاص ماحول میں پودوں اور جانوروں کی زندگی کے لیے موافق حالات) میں تبدیلی رونما ہوگی۔
٭ پاکستان کے جنوب میں بحیرہ عرب کے ساحل سے متصل علاقوں کو سمندر ی طوفان اور کچھ شہروں میں دریاؤں کی وجہ سے سب سے زیادہ خطرہ ہوگا۔
٭ موسمیاتی تبدیلیوں سے پاکستان میں فصلوں کی پیداوار میں کمی واقع ہوسکتی ہے۔ ملک میں تیزی سے بڑھتی آبادی، شہرکی طرف نقل مکانی اور کم ہوتی پیداوارکی وجہ سے قحط سالی کا خدشہ ہوگا۔
٭ بنیادی طور پر سیلاب اور خشک سالی سے وابستہ بیماریوں کی وجہ سے اموات میں اضافے کا خدشہ ہے۔ ساحلی پانی کے درجہ حرارت میں اضافے سے ہیضے کی وبا پھیل سکتی ہے۔
موسمیاتی تبدیلیوں سے معاشی نقصان
ماہرین معاشیات مستقبل میں عالمی گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کا تخمینہ پیشن گوئی شدہ عالمی مجموعی قومی پیداوار (مصنوعات اور خدمات کی کل قیمت) کو مجموعی قومی پیداوار کے فی ڈالر اوسط اخراج سے ضرب دے کر لگاتے ہیں۔ کم کاربن ٹیکنالوجیز کی اختراع اور استعمال (الیکٹرک گاڑیاں اور سولر فارمز)، ان اخراجات اور فوائد کو نمایاں طور پر تبدیل کر سکتے ہیں۔ بہت سے عوامل (بشمول تحقیق اور ترقی میں سرمایہ کاری) تکنیکی ترقی کے اس راستے کا تعین کرتے ہیں۔ کنسلٹنسی ڈیلوئٹ کے ماہرین معاشیات کا تخمینہ ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کی جانچ نہ ہونے سے اگلے 50سال میں عالمی معیشت کو 178 ٹریلین ڈالر کا نقصان ہو سکتا ہے۔
ڈیلوئٹ کے تخمینے میں پیش گوئی کی گئی ہے کہ غیر چیک شدہ گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج سے ہونے والے نقصان، جس میں عالمی درجہ حرارت صنعتی دور سے پہلے کے زمانے میں 3 ڈگری سیلسیس (5.4 F) بڑھتا ہے، ہر خطے میں ترقی کو سست کر دے گا اور صرف 2070ء میں عالمی جی ڈی پی میں 7.6 فیصد کمی لاسکتا ہے۔ اس میں گرمی کی لہر اور فصلوں کے نقصان سے پیداواری صلاحیت میں کمی جیسے نقصانات شامل ہیں۔ دنیا کی مختلف کمپنیوں کا اندازہ ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کے باعث انھیں اب تک اثاثہ جات کی مد میں اربوں ڈالر کا نقصان ہوچکا ہے جبکہ خدشہ ہے کہ 2025ءتک یہ نقصان ایک ٹریلین ڈالر تک پہنچ جائے گا۔ ان متاثرہ کمپنیوں میں 80فیصد کا تعلق مالیاتی خدمات کی فراہمی سے ہے۔
ماحولیاتی تحفظ میں سرمایہ کاری
2050ء تک عالمی سطح پر زہریلی گیسوں کے اخراج کو صفر پر لانا ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ عالمی رہنماؤں نے 2030ء تک تمام صنعتوں سے زہریلی گیسوں کے اخراج میں کم از کم 50 فی صد کمی کا ہدف مقرر کررکھا ہے۔ اس میں جنگلات کی کٹائی اور زمین کا غیرذمہ دارانہ استعمال روکنا شامل ہے، جس کا زہریلی گیسوں کے سالانہ اخراج میں 25فی صد حصہ ہے۔ ماہرین کے مطابق، زہریلی گیسوں کے اخراج کو بتدریج کم کرکے صفر پر لانے کے لیے ’فطرت کے تحفظ میں سرمایہ کاری‘ کے ذریعے عالمی درجہ حرارت کو مقرر کردہ سطح کے اندر رکھنے کا ہدف حاصل کیا جاسکتا ہے۔ عالمی درجہ حرارت کو 1.5ڈگری سینٹی گریڈ سے زیادہ نہ بڑھنے دینے کا قدرتی طریقہ ’ٹیکنالوجیکل سلوشن‘ کے مقابلے میں کم لاگت کا حامل ہے۔
خوش آئند بات یہ ہے کہ دنیا بھر میں ’ماحولیاتی تبدیلی‘ پر کسی حد تک بحث ہورہی ہے اور لوگ اس پر اپنی آواز بلند کررہے ہیں۔ ماحولیاتی تبدیلی کے پریشان کن اثرات کے پیشِ نظر گرین ہاؤس گیسز کے اخراج کو روکنے پر زور دیا جارہا ہے۔ عالمی سطح پر کمپنیوں کی ایک بڑی تعداد بھی اپنے کاربن فٹ پرنٹ کو کم کرنے اور پائیدار اہداف کے حصول کے لیے کوشاں نظر آتی ہے۔ سائنسی تحقیق کی روشنی میں مقرر کیے گئے اہداف ’نیٹ-زیرو اسٹینڈرڈ‘ تمام شعبوں میں کمپنیوں کو پابند کرتے ہیں کہ وہ 2030ء تک اپنے زہریلی گیسوں کے اخراج کو نصف کر دیں (بشمول جنگلات کی کٹائی، زمین کے استعمال اور زراعت کے ذریعے گیسوں کا اخراج) اور فطرت میں ان کی سرمایہ کاری اس کے تحفظ، بحالی اور پائیدار طریقے سے زمین کے استعمال کےمعیار پر پورا اُترتی ہو۔
فطرت میں کی جانے والی سرمایہ کاری میں محفوظ جنگلاتی ماحولیاتی نظام کا تحفظ شامل ہے، جو جنگلات کی کٹائی سے ہونے والے اخراج کو روکتا اور کم کرتا ہے۔ مزید برآں، اس میں جنگلات کی بحالی بھی شامل ہے، جو ماحول میں پہلے سے موجود زہریلی گیسوں کو جذب کرتے ہیں۔ چونکہ درختوں کو اُگنے میں وقت لگتا ہے، آج فطرت کے تحفظ میں سرمایہ کاری، مستقبل کے اخراج کی تلافی کرے گی۔ فطرت دیگر قیمتی فوائد اور لچک بھی فراہم کرتی ہے، جیسے کہ ماحولیاتی نظام اور خطرے سے دوچار حیاتیاتی تنوع کا تحفظ اور نقصان زدہ /بنجر زمینوں کی بحالی۔
تاہم، یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہیے کہ کاربن اخراج کو روکنے کے لیے غیر ذمہ دارانہ شجرکاری کے خطرناک نتائج برآمد ہوسکتے ہیں، جن میں مقامی ماحول کے لیے ناموافق انواع کا داخل ہوناشامل ہے، جس کے مقامی آبادی کو فائدہ پہنچنے کے بجائے طویل مدتی نقصانات اور بقاکے خطرات لاحق ہوجاتے ہیں۔ لہٰذا مقامی علم اور سائنسی شواہد کی روشنی میں ماحولیاتی اور سماجی ذمہ داری کا ثبوت دیتے ہوئے فطرت میں اس طرح سرمایہ کاری کرنی چاہیے جو جنگلات اور مقامی کمیونٹیز کی ضروریات کو پورا کرتی ہو۔
کم کاربن والی ٹیکنالوجیز
موسمیاتی تبدیلی کو محدود کرنے اور کم کاربن ٹیکنالوجیز کو معمول بنانے کے لیے ایک بے مثال عالمی تحریک کی ضرورت ہے۔ مگر بدقسمتی سے دنیا ایسی تحریک کے لیے تیار نہیں ہے۔ بہت سے عالمی رہنما اب بھی یہ سمجھتے ہیں کہ گرین ہاؤس گیسز کے اخراج کو کم کرنا موزوں ہدف نہیں ہے۔ نئی، کلین ٹیکنالوجیز کو اپنانا پوری معیشت میں تخلیقی صلاحیتوں اور اختراعات کو ابھارتا ہے۔ اس کے نتیجے میں جدت، سرمایہ کاری اورکم ہوتی لاگت کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔ پون بجلی، شمسی توانائی اور ایل ای ڈی جیسی ٹیکنالوجیز اب پوری دنیا میں بجلی یا روشنی پیدا کرنے کے کچھ سستے ترین طریقے پیش کرتی ہیں۔
ہوا کی طاقت، شمسی توانائی اور ایل ای ڈی کی لاگتیں ابتدائی طور پر قائم ٹیکنالوجیز (جیسے کوئلے اور گیس سے چلنے والی بجلی) سے بہت زیادہ تھیں، جنہوں نے ایک صدی سے زیادہ ترقی سے فائدہ اٹھایا تھا۔ لیکن جیسا کہ بڑی ابھرتی ہوئی معیشتوں میں دیکھا گیا ہے، یہ نئی ٹیکنالوجیز اب درحقیقت توانائی کے اخراجات کو کم کر رہی ہیں۔ سولر پینلز سے بجلی پیدا کرنے اور اسے لیتھیم آئن بیٹریوں میں ذخیرہ کرنے کی لاگت پچھلی دہائی کے دوران 80فیصد سے زیادہ کم ہوئی ہے۔ کاربن کو کم کرنے کی ضرورت سے قطع نظر، لوگ اب سستی بجلی اور بہتر کارکردگی دکھانے والی برقی گاڑیوں (EVs) سے فائدہ اٹھانے کے لیے تیار ہیں۔
ٹھوس اقدامات کی ضرورت
انسانی سرگرمیوں اور قدرتی وسائل کے بے دریغ استعمال کے زمین پر شدید اثرات ظاہر ہونا شروع ہوگئے ہیں اور حقیقت تو یہ ہے کہ روئے زمین پر انسان اور حیوانات کا وجود خطرے میں پڑگیا ہے۔ اس بات سے یقیناً انکار ممکن نہیں کہ اگر ماحولیاتی تبدیلی اور عالمی درجہ حرارت میں اضافے کو روکنے کے لیے ابھی سے ٹھوس اقدامات نہ کیے گئے تواس کے خود انسانی نسل کی افزائش سے لے کر اس کی خوراک کی ضروریات پوری کرنے تک، اور مٹی کی زرخیزی سے لے کر سمندروں کی سطح تک، ہر چیز پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہوں گے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر 2030ء تک دنیا، عالمی درجہ حرارت میں اضافے کو موجودہ سطح پر قابو رکھنے میں کامیاب نہ ہوسکی تو اس کے بعد ایسا کرنا شاید ممکن نہ رہے۔ خوش قسمتی سے، وقت مکمل طور پر ہمارے ہاتھ سے نہیں نکلا اور اب بھی ایسے لائحہ عمل دستیاب ہیں، جن کو اختیار کرتے ہوئے اس دو رُخی مسئلہ سے نمٹا جاسکتا ہے۔ نیز، ماحولیاتی بگاڑ کو ختم کرنے کے لیے ماحولیاتی بحالی کے اقدامات کرکے اضافی ماحولیاتی، سماجی اور معاشی فوائد حاصل کیے جاسکتے ہیں۔