سال 2022 جہاں ملکی سیاست کے لیے اہم ترین رہا، وہیں ایم کیو ایم پاکستان کے لیے بھی یہ سال آزمائشیں لے کر آیا۔
اس سال ایم کیو ایم پاکستان نے وفاق میں پی ٹی آئی کی حکومت سے علیحدگی اختیار کی اور پھر پی ڈی ایم حکومت کا حصہ بن گئی۔
2022 ایم کیو ایم پاکستان کے لیے کیسا رہا؟ اس کا جائزہ پیش کریں تو اس سال پہلی بار وزیراعظم پاکستان کے خلاف لائی گئی عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہوئی، جس میں ایم کیو ایم کا کردار نہایت اہم رہا۔
تحریک عدم اعتماد پیش ہونے سے پہلے عمران خان اپنی ساڑھے 3 سالہ حکومت میں پہلی بار 9 مارچ کو کراچی پہنچے تاکہ ایم کیو ایم سے اپنی حمایت جاری رکھنے کی یقین دہانی حاصل کرسکیں۔
مگر ہوا یوں کہ متحدہ نے بعض شرائط کے ساتھ پہلا معاہدہ مسلم لیگ (ن) اور دوسرا معاہدہ پیپلز پارٹی یعنی سندھ حکومت سے کیا۔
ان تحریری معاہدوں پر دستخط کے لیے 30 مارچ کو رات گئے بلاول بھٹو زرادری، شہباز شریف اور مولانا فضل الرحمان اچانک ایم کیو ایم کے کنوینر ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی سے ملنے پارلیمنٹ لاجز پہنچے۔
دستخط کے بعد ایم کیو ایم نے مشترکہ پریس کانفرنس میں پی ڈی ایم کا ساتھ دینے کا اعلان کیا۔
نئی وفاقی حکومت کے قیام کے بعد ایم کیو ایم جہاں وفاقی کابینہ کا ایک بار پھر حصہ بنی اور اس جانب سے گورنر سندھ کے لیے 5 نام بھیجے گئے، جس میں سے نسرین جلیل کا نام فائنل ہوا مگر اس نام کو منظوری نہیں ملی۔
پھر ستمبر میں کامران ٹیسوری کی ایم کیو ایم پاکستان میں بطور ڈپٹی کنوینر چونکا دینے والی واپسی ہوئی اور صرف 1 ماہ بعد یعنی 9 اکتوبر کو وہ سندھ کے گورنر بھی بن گئے۔
اسی سال قومی اسمبلی کے حلقے این اے 240 اور این اے 245 پر ضمنی انتخابات بھی ہوئے، جس میں ایم کیو ایم پاکستان نے این اے 240 میں تو بمشکل کامیابی حاصل کرلی تھی لیکن این اے 245 پر شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
اس سال کے اختتام پر بھی پیپلز پارٹی کے ساتھ کراچی میں بلدیاتی حلقہ بندیوں کی درستگی اور بلدیاتی نظام میں آئین کے آرٹیکل 140 اے کے تحت ترمیم کا معاملہ تاحال لٹکا ہوا ہے۔