مُجھے اِس بات پر فخر ہے کہ کیڈٹ کالج حسن ابدال کے دوست اور کلاس فیلو، مسعود اسلم اور صلاح الدین ستی، پاکستان فوج میں لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے تک پہنچے۔ مسعود اسلم، کارگل میں بہادری سے دُشمن کا مقابلہ کرنے پر ستارۂ جرات کے حق دار ہوئے۔ اُنہوں نے پشاور کور کمانڈ کی، نیب لاہور ریجن کے چیف اور ریٹائرمنٹ کے بعد میکسیکو میں سفارت کی ذمہ داری نبھائی۔ صلاح الدین ستی، راولپنڈی کور کے کمانڈر بنے۔ کمال عزیز جو زمانۂ طالب علمی سے جرنیلی انداز کے حامل تھے، بریگیڈیئر کے عہدے سے ریٹائر ہوئے۔گورنمنٹ کالج لاہور میں ہم جماعت، شاہد اقبال کراچی کور کی کمانڈ میں نیک نام ہوئے۔ مگر آج ساہیوال شہر سے تعلق رکھنے والے، ابدالین، میجر ریٹائرڈ، احمد محمود کی بات یاد آرہی ہے۔ غالباً 1970ء میں شب برات کا موقع تھا، رات بھر عبادت کا اہتمام رہا۔ صبح میں نے احمد سے پوچھا کہ قبولیت کی رات، تم نے اللہ سے کیا مانگا۔ احمد محمودنے بلا تامل جواب دیا ۔ ’’صرف ایک دُعا، شہادت کی موت ۔‘‘ یہ بات یاد آئی تو خیالات کا سلسلہ دراز ہو گیا۔
انسانی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو سپاہ گری میں جذبات اُبھارنے کے لئے، ہمیشہ کسی کشش کی ضرورت رہی ہے۔ ابتدائی سماجی نظام میں، سپاہ کو قبائلی برتری اور مالِ غنیمت کی کشش مائل کرتی۔ تہذیب میں مذہب کا عمل دخل ہوا تو یہی جذبہ، دین کی ترویج اور عقائد کی حفاظت سے منسلک ہوگیا۔ صلیبی جنگوں کے دوران، کلیسا نے سپاہیوں کو جان لڑانے کیلئے مختلف جتن کئے۔ جب ملکوں کے درمیان سرحدوں کی لکیریں مستقل ہوئیں تو مادرِ وطن کا دفاع ایک قومی فرض ٹھہرا۔ یورپین اقوام اپنی فوج کو دُوسرے براعظموں میں تجارتی اور معاشی مفاد کےلئے کالونیاں بنانے کے عمل میں، یقین دلاتیں کہ مقامی لوگوں کو تہذیب و تمدن سے آشنا کرنا اُن کا مذہبی فرض ہے۔
اِس پس منظر میں، ایسٹ انڈیا کمپنی کی برطانوی فوج ، ہندوستان وارد ہوئی تو اُسے بھی یہی سبق دیا گیا۔ البتہ مقامی سپاہ کو اپنے ہم وطنوں کے خلاف لڑنے کی ترغیب دینا مشکل مرحلہ تھا۔ مذہبی، لسانی، علاقائی اور نسلی تفریق میں بٹے ہندوستانی معاشرے میں نہ مذہبی کارڈ کھیلا جا سکتا تھا اور نہ ’’مقامی گنواروں‘‘ کو تہذیب سکھانے کا نعرہ قبول ہوتا۔ اِس پس منظر میں ایک مختلف حکمتِ عملی کی ضرورت پڑی۔ شروع میں مقامی سپاہیوں کی وردی علیحدہ تھی۔ لارڈ کلائیو کے زمانے میں اِس تفریق کو ختم کر کے تاثر دیا گیا کہ مقامی سپاہی، غیر ملکی حکمرانوں کا حصہ ہیں۔ فوجی کمانڈر، ہندوستانی سپاہیوں کو مقامی آبادی سے علیحدہ رکھتے۔ خوف لاحق تھا کہ لوگ، غیر ملکیوں کا ساتھ دینے پر ، اُنہیں طعن و تشنیع سے متنفر کر سکتے ہیں۔ سپاہ کی اقامت کے لئے، شہروں سے دُور فوجی چھائونیاں بسائی گئیں۔
خوراک کے لئے مذہبی بنیاد پر علیحدہ لنگر کا اہتمام ہوتا اور عام اشیا کی خریداری کے لئے علیحدہ بازار قائم کئے جاتے۔ آج بھی لاہور شہر کا ایک علاقہ ، آر اے بازار کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔ کم لوگوں کو علم ہو گا کہ آر ۔ اے کا مطلب رائل آرٹیلری (شاہی توپ خانہ)ہے۔ اُس وقت کے لاہور کی شہری آبادی سے دُور، یہ بازار برطانوی فوج کے شاہی توپ خانہ سے منسلک سپاہیوں کی ضرورت کے لئے قائم کیا گیا تھا۔ایسٹ انڈیا کمپنی کی تمام کوششوں کے باوجود،1857ءمیں بغاوت ہوئی۔ وجہ، کارتوس تھے جنہیں بندوق میں ڈالنے سے پہلے، دانتوں سے کاٹنا پڑتا تھا۔ مسلمان فوجیوں میں یہ بات پھیلی کہ کارتوسوں پر سؤر اور ہندو فوجیوں میں افواہ عام ہوئی کہ ِان پر گائے کی چربی ہے۔ افواہ صحیح تھی یا غلط، انگریز افسروں نے ازالہ کرنے کے لئے، صرف فوجی طریقے استعمال کئے۔ اِس غیر حساس ردِ عمل نے سپاہیوں کو سرکشی پر اُکسا دیا۔
گزشتہ غلطیوں سے سبق سیکھنے پر، فوج کی رجمنٹ مخلوط ہوئی اور سپاہی علیحدہ شناخت پر مختلف کمپنیوں میں تقسیم ہوئے۔ اُنہیں لڑنے مرنے کی ترغیب دینے کےلئے ایک مؤثر جذبے کی ضرورت تھی۔ فوجی قیادت نے کمپنیوں اور رجمنٹ سے وفاداری کو اوّلین ترجیح دی۔ اپنے یونٹ سے جذباتی وابستگی اور ذہنی لگائو پیدا کرنے کے لئے،مقابلوں کے نظام سے صحت مند مسابقت کو فروغ دیا گیا۔ کسی کھیل یا عسکری مہارت میں فتح یاب ہونے پر، رجمنٹ کے ’’میس‘‘ میں جیتی ہوئی ٹرافی دلوں میں فخر کے جذبات پیدا کرتی۔جنگ کے میدان میں جیتے ہوئے میڈل، رجمنٹ کے ماتھے کا جھومر سمجھے جاتے۔ کمانڈنگ آفیسر حد درجہ احتیاط کرتے کہ اِس وابستگی میں مذہبی جذبات کا عمل دخل نہ ہو۔ اپنی یونٹ کا وقار قائم رکھنا اور اُس کے لئے جان دینا ایک غیر مذہبی، طاقتور جذبہ تھا۔
پاکستان بننے کے بعد، مسلمان سپاہیوں پر مشتمل فوج میں اجتماعی مذہبی جذبے کا شامل ہونا ایک قدرتی عمل تھا جو آہستہ آہستہ جاری رہا۔ اِس بتدریج تبدیلی کو مہمیز ایک ایسے جنگی ترانے سے ملی جس کا پاکستانی فوج سے براہِ راست کوئی تعلق نہیں تھا۔ مشہور لکھاری، نسیم حجازی، اسلامی تاریخ کے حوالے سے مقبولِ عام، فرضی ناول لکھتے تھے۔ صدیوں پہلے، بغداد پر حملے کے پس منظر میں ’’آخری چٹان‘‘ کی کہانی پر 1958ء میں ایک فلم ،’’چنگیز خان‘‘ کے نام سے بنائی گئی۔ قلیل سرمائے سے بنی فلم کامیاب نہ ہوئی مگر کسی کو یہ اندازہ نہ تھا کہ چنگیز خان کے خلاف، برسرِ پیکار عرب مجاہدین پر فلم بند ہونے والا جنگی نغمہ اتنا مقبول ہو گا۔ طفیل ہوشیارپوری کا لکھا اور رشید عطرے کی دُھن پر، عنایت حسین بھٹی کا گایا ہوا یہ جنگی نغمہ ، سات سال بعد، 1965ء کی جنگ میں اسلامی جذبہ اُبھارنے کے لئے، مؤثر طریقے سے استعمال ہوا۔ جنگ شروع ہوئی تو صدرِ پاکستان، محمد ایوب خان نے قوم سے خطاب کیا۔
اِس خطاب کے فوراً بعد ریڈیو اور ٹیلی وژن سے، خون میں حدت پیدا کرنے والے یہ الفاظ، فضائوں میں بکھر گئے۔ ’’سر کُفر نے دیکھ اُبھارا ہے، اسلام کو پھر للکارا ہے، پھر کُفر مقابل ہے آیا، اے مردِ مجاہد جاگ ذرا، اب وقت شہادت ہے آیا۔ اللہ اکبر، اللہ اکبر‘‘۔ فلم چنگیز خان میں شامل اِس نغمے کی دُھن، پاکستان آرمی نے اپنے آفیشل بینڈسونگ کے طور پر اپنا لی۔ ضیاء الحق کے دور میں مذہبی جذبات کو فروغ ملا تو پاکستان کی قومی فوج پر اِس تبدیلی کے اثرات مرتب ہوئے۔ رجمنٹ سے محبت کا جذبہ تو آج بھی قائم ہے ، مگر اِس فلمی ترانے کی دُھن پر مارچ کرتے ہوئے، ہماری قومی فوج کا قبلہ دُرست ہوگیا۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)