تحریر ڈاکٹر ارشد سلیم
چیف آپریٹنگ آفیسر ہمدرد پاکستان
ہمارے لیے ضروری ہے کہ بحیثیت قوم، ملک میں صحت کے بڑھتے ہوئے مسائل اور اہل وطن کی عمومی صحت میں مسلسل تنزلی سےجو اثرات معاش اور سماج پر مرتب ہورہے ہیں اُن کا ادراک کریں۔ ہمارے اطراف موجود لوگوں میں امراض قلب، بلند فشار خون، ذیابیطس ، گردوں کے امراض ، یرقان اوردیگر بیماریوں میں روز افزوں اضافہ ہورہا ہے۔ اسی طرح ہم عالمی اعداد و شمار میں زچگی کے دوران اموات اور شیرخوارگی میں اموات میں بھی دیگر ممالک کے مقابلے پیچھے ہیں اور یہ تب ہورہا ہے جب پاکستانی قوم ہر سال ادویہ پر 700 ارب روپے خرچ کررہی ہے۔
دوا کا کام تو علاج اور امراض کا سدباب ہے لیکن کیا وجہ ہے جو امراض میں آج بھی مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ میڈیکل سائنس نے ارتقائی منازل طے کر کے موجودہ انسان کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا ہے۔ بہت سے ناقابل علاج امراض کی تشخیص و علاج ممکن ہوئے، لیکن تصویر کا دوسرا رخ یعنی امراض اور مریضوں میں اضافہ ہمیں سوچنے پر مجبور کررہا ہے کہ ہم بقائے صحت کے لیے متبادل ذرائع و طریق علاج سے رجوع کریں۔ درحقیقت جدید طبی نظام ایکSickCare نظام ہے، اس لیے ایک متوازن HealthCare نظام کی ضرورت محسوس ہورہی ہے جو سماج میںقیام صحت کو فروغ دے۔
بہ قول بانی ہمدرد پاکستان شہید حکیم محمد سعید:’’مسائل صحت حل کرنے کے لیے ہسپتالوں کا قیام اور اضافہ اتنا اہم نہیں جتنا اہم یہ ہے کہ عوام کو بیدار کیاجائے، اُن میں شعور اور حفظان صحت کا احساس پیدا کیا جائے۔‘‘ ہمدردپاکستان گزشتہ کئی دہائیوں سے قوم کی جسمانی اورروحانی صحت کی حفظ و بقا کے لیے’’حکمت ‘‘کے تصور کو فروغ دینے کی جدوجہد کررہا ہے۔اس لیے ہمدرد پاکستان کے ساتھ ساتھ سماج کو حکمت اور قیام صحت کے بنیادی تصورات سے آگاہی پیدا کرنے کے لیے اقدامات لینےکی ضرورت ہے۔
حکمت کے طریق علاج کا تذکرہ نہ صرف ہماری مقدس کتب میں ہے بلکہ یہ عالم فاضل اہل یونان و فارس اور عرب و برصغیرکے اطباء کرام کی خدمات و تحقیق سے بھی مالامال ہے۔ اس مجموعی دانش و فہم اور علم نے حکمت کو ایک مفصل ہیلتھ کیئر نظام میں ڈھالا جس نے صدیوں انسانیت کے طبی مسائل کا تدارک کیا ہے۔
آج کے طبی مسائل کی روشنی میں حالات کا تقاضہ ہے کہ اس علمی وراثت کا جدید نظام کے ساتھ انضمام کیا جائے۔ اس کی بدولت ہم قوم کی مجموعی صحت کو بہتر بنانے کے لیے متفرق طبی سہولیات کا دائرہ کار مزید وسیع کرسکیں گے، بجائے اس کے کہ ہم پہلے بیمار ہوں تو ہی طریق علاج سے رجوع کریں۔ حال ہی میں عالمی ادارہ برائے صحت نے اپنی دستاویزات میں اپنی صحت کی خودحفاظت کی اہمیت پر زور دینے کے ساتھ مربوط نظام صحت کی حمایت کی ہے۔
ہمدرد پاکستان نہ صرف عافیت کے تصور پر یقین رکھتا ہے بلکہ اپنےادارہ جاتی پیغام ’’عافیت سے جیتے رہو!‘‘کے ذریعے اس مفہوم کو فروغ دے رہا ہے کہ جسمانی صحت کے ساتھ روحانی صحت لازم و ملزوم ہے۔ ہمدرد اس بات کا پر زور اظہار کرتا ہے کہ صحت اور مرض کے درمیان ضعف (کمزوری) کے مرحلے کو اہمیت دی جائے اور ایسے مرحلے پر انسانوں کو تشخیص، معائنہ اور غذاو ادویات کی سہولیات میسر ہوں۔ ضعف کے مرحلے سے صحت کی جانب واپسی مرض کے مرحلے میں داخل ہونے پر واپسی کی نسبت کہیں آسان ہے۔
ہمارا نصب العین ہے کہ کیفیت ِ ضعف سے متعلق آگاہی بھی پیدا کی جائےاور اس ضمن میں معلومات کو ملک کے طول و عرض میں پھیلایا جائے کہ کس طرح ضعف کی تشخیص ممکن بنائی جاسکتی ہے۔ مزید براں مکمل صحت تب ہی ممکن ہے جب انسانی اعضاء کو الگ الگ پیرائے میں دیکھنے کےبجائے مکمل انسان کی جسمانی و روحانی صحت پرجامع طبی نقطہ نظر اپنایا جائے۔
آج معاشرے کو درپیش جسمانی ونفسیاتی مسائل کے وسیع تر حل کے لیے حکمت کو جدید طبی نظام کا جامع جزو سمجھا جانا چاہیے۔ حکمت کی ترویج کے مقدس مشن میں شہید حکیم محمد سعید کا خاندان اور ادارہ ہمدرد حصہ لینے کے لیے ہمہ وقت تیار ہیں۔ اس سے نہ صرف ہماری قوم ایک صحت مند قوم بنے گی بلکہ ہمارے وطن عزیز کی معاشی و سماجی ترقی کی راہ بھی ہموار ہوگی۔