• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کراچی میں آئے روزراہ زنی کی وارداتوں کے دوران لوگوں کی جانیں جانے کی خبریں دلوں کو دہلا دیتی ہیں۔ جرائم پیشہ لو گ چند ہزار کے موبائل فون یا چند ہزار کی نقدی اور زیورات کے لیے بے دردی سےکیسے کیسے دیے گُل کردیتے ہیں، کتنے خاندانوں کا آسرا، کتنی ماوں، بیویوں اور بچوں سے ان کے بیٹے، شوہر اور باپ چھین لیتے ہیں۔

بالخصوص جب جوانی کی تازگی لیے چہرے والے ایسے کسی مقتول کی تصویر پر نظر پڑتی ہے تو کلیجہ منہ کو آجاتا ہے کہ وہ کسی نوجوان کی نہیں بلکہ اُن تمام خوابوں اور خیالوں کی تصویر ہوتی ہے جو اُس کے والدین نے اُس سے وابستہ کررکھے ہوتے ہیں۔ اسی طرح دیگر مقتولین کے ورثا کے بھی علیحدہ علیحدہ نوحے ہوتے ہیں۔

حکّام اگرچہ لاگ لپیٹ سے کام لیتے ہیں ،لیکن حقیقت یہ ہے کہ کراچی سمیت ملک بھر میں راہ زنی، چوری، ڈکیتی، قتل اور جرائم کی دیگر وارداتوں کی شرح بڑھتی جارہی ہے۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ عام شہری ہر روز دھڑلّے سے لوٹے جارہے،اور یوں محسوس ہوتاہے جیسے اب پولیس صرف یونیفارم پہننے تک محدود ہو گئی ہے،اُس کا کام صرف سرکاری گاڑیوں میں بیٹھ کر گشت کرنا رہ گیا ہے اور جرائم پیشہ افرادکو اس بات کا لائسنس مل گیا ہے کہ اسلحے کے زور پروہ کسی کو بھی کہیں بھی لوٹ سکتے ہیں۔

ایسے حالات میں عوام کا گھر سے باہر نکلنا مشکل ہو گیا ہے۔ایک جانب منہگائی اور بے روزگاری نے زندگی کی مشکلات میں اضافہ کردیا ہے اور دوسری جانب جرائم پیشہ افراد کی وجہ سے لوگ خود کو گھر کے اندر اور نہ باہر خود کو محفوظ تصور کرتے ہیں۔ انہیں صرف مال کا نہیں بلکہ اصل خطرہ جان کا ہوتا ہے۔ مجرموں کو ہونے والی کوئی غلط فہمی بھی لوگوں کی جان لے لیتی ہے۔ 2022 بھی امن وامان کے لحاظ سے کراچی والوں کے لیے بہت بُرا ثابت ہوا۔

ساڑھے چار سو افراد مختلف واقعات میں قتل کردیے گئے۔ قتل کے سب سے زیادہ واقعات ویسٹ زون میں رپورٹ ہوئے، جہاں 95 شہری مختلف واقعات میں ہلاک ہوئے۔ یہ وارداتیں اورنگی ٹائون، منگھو پیر، سرجانی اور سائٹ کے علاقوں میں ہوئیں۔ صرف راہ زنی کے واقعات میں 92 شہری جان کی بازی ہار گئے۔ راہ زنوں نے سب سے زیادہ ویسٹ زون میں 22 شہریوں کو قتل کیا۔ اس کے بعد سینٹرل زون میں 20، کورنگی میں 188شہری دورانِ واردات قتل ہوئے۔

اقدامِ قتل کے واقعات میں 580 شہریوں کو زخمی کیا گیا۔ خواتین اور بچیوں کے ساتھ زیادتی اور بدفعلی کے واقعات کی تعداد 209 تک جا پہنچی۔ شہرِ قائد میں 2022 کے دوران اغوا کے2480کیسز رپورٹ ہوئے،41کیسز میں اغوا کاروں نے تاوان بھی طلب کیا۔ اس کے علاوہ 394بچے مختلف علاقوں سے لاپتا ہوئے۔

لیکن یہ صرف کراچی کا نہیں بلکہ ہمارے ہر بڑے شہر کا رونا ہے۔ مثلا لاہور ہی کو لے لیں، وہاں جرائم کے سالانہ واقعات کی رپورٹ کے مطابق 2020 میں 120,000 اور 2021میں 225,000 کیسز رپورٹ ہوئے۔ 2022 کے ابتدائی چار مہینوں میں 80,000 سے زاید کیسزرپورٹ ہو ئے تھے۔

دنیا کے دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی وقت کے ساتھ جرائم کی شرح میں اضاٖفہ ہوتا جارہا ہے۔ بعض حلقےجرائم کی شرح میں اضافے کو بے روزگاری، ناخواندگی، بڑھتی ہوئی منہگائی اور غربت سےجوڑتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان وجہ کی بنا پر لوگ اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے جرائم کرنے پر مجبور ہیں۔

اسباب کا کھوج لگانے اور انہیں ختم کرنے کی ضرورت 

ہمارے ملک میں جرائم کی شرح کیوں بڑھ رہی ہے ؟ اس کے اسباب کا کھوج لگانے اور انہیں ختم کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ کیوں کہ جرائم کی وجہ سے لوگ مسلسل خوف اور عدم تحفظ کا شکار ہیں جو پورے معاشرے کی صحت اور پیداواری صلاحیت کومتاثر کررہاہے۔ 

یاد رہے کہ چند برسوں سے لاہور، کراچی اور اسلام آباد میں راہ زنی، ڈکیتی، چوری،اغوا، قتل اور گھروں پرحملوں کی وارداتوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔متعلقہ حکّام کا کہنا ہے کہ لاہور کراچی کے مقابلے میں چھوٹا شہر ہے، لیکن وہاں سالانہ200,000 جرائم رپورٹ ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس 2020میں کراچی میں سالانہ 45,000 جرائم ہوتے تھے، لیکن 2021ء میں یہ تعدادبڑھ کر 84,000تک پہنچ گئی تھی اور 2022 کے پہلے تین مہینوں میں صرف کراچی میں 11,000 سے زایدراہ زنی، چوری اور ڈکیتی کی وارداتیں رپورٹ ہوئیں جو جرائم سے نمٹنے اور شہریوں کے تحفظ میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ناکامی کو ظاہر کرتی ہے۔

ماہرینِ جرمیات کے مطابق دراصل ہمیں سب سے پہلے یہ بنیادی حقیقت سمجھنےکی ضرورت ہے کہ جرم کا تعلق نفسیات اور سماجیات سے ہے۔علمِ جُرمیات میں جرائم کی وجوہات اور اُن کے سدّ ِباب اور جرائم کے پورے معاشرے پر اثرات کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ کرمنالوجی میں اِس بات کا بھی جائزہ لیا جاتا ہے کہ معاشرے اور حکومت کی جانب سے جرائم کو روکنے کے لیے کیا لائحہ عمل اختیار کیا گیا ہے۔ اس علم میں جرائم کی وجوہات جاننے کے ضمن میں مقداری طریقے پر زیادہ انحصار کیا جاتا ہے۔ ہمیں اپنے معاشرئے میں جرائم کی وجوہات جاننے کے لیے معاشرت، معیشت ،نفسیات،عمرانی رویوں کا عمیق جائزہ لینا ہوگا۔

برصغیر پاک وہند میں بسنے والے لوگوں کے مزاج دھیمے نہیں ہیں۔ بات بات پر لڑائی جھگڑا اِس بات کی غمازی ہے کہ یہاں کے لوگ ذہنی طور پر دباؤ کا شکار ہیں۔ پھر یہ کہ جب معاشی تحفظ نہ ہوتو انسانی رویوں میں عجیب طرح کی تبدیلیاں رنما ہوتی ہیں۔ یہ صرف وقتی طور پر نہیں ہوتا بلکہ اس کے انسان کی نفسیات پر بہت گہرے اثرات ہوتے ہیں۔ غریب کا غریب تر اور امیر کا امیر تر ہونا کیسے سماج میں توازن ،خوشی اور اور خوش حالی لا سکتا ہے؟ جب معاشی عدم توازن ہوتو لوگوں میں نفرت، سرکشی بغاوت کے جذبات پیدا ہونا فطری بات ہوتی ہے۔ ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ سماج کی یہ کیفیت چند دنوں کے لیے نہیں ہوتی بلکہ کبھی کبھی دہائیوں پر محیط ہوتی ہے۔

اس کے سدّ ِ باب کے ضمن میں سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ سماجی انصاف کا بول بالا ہو۔جب تک معاشرے کے تمام طبقات کی انصاف تک رسائی نہ ہوگی اُس وقت تک معاشرے میں امن قائم نہیں ہوسکتا۔ لوٹ کھسوٹ پر مبنی نظام خلوص اور محبت کو کیسے پروان چڑھا سکتا ہے؟حق دار کو اگر روٹی، کپڑا، مکان، تعلیم اور روزگار، یعنی معاشی تحفظ کی سہولت میسر نہیں ہوتو پھر یہ محروم طبقات ردِعمل کے طور پر قانون کو ہاتھ میں لے لیتے ہیں۔

جرائم کے اسباب کا کھوج لگانے کے لیے کی گئی تحقیق بتاتی ہے کہ جب ہم عمر کے لحاظ سے جرائم کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لیتے ہیں تویہ بات سامنے آتی ہے کہ بیس اور تیس سال کی عمر کے افراد میں جرم کرنا اور بار بار کرنا ظاہر ہوتا ہے۔ اِسی طرح مرد، عورتوں کی نسبت زیادہ جُرم کرتے ہیں۔ نسلی طور پر بھی شماریات کی مدد سے پتا چلتا ہے کہ جہاں محرومیاں زیادہ ہیں وہاں جرائم کی شرح بھی زیادہ ہے۔ ایک بات اور بھی سامنے آئی ہے کہ جو لوگ اپنے ملکوں کو چھوڑ کر دوسرے ملکوں کی طرف ہجرت کر جاتے ہیں اُن میں بھی جرائم کی شرح زیادہ ہے۔ ایسے والدین جو سگریٹ پیتے ہیں اُن کی اولاد میں جُرائم کی شرح دوسرے لوگوں کی نسبت زیادہ ہوتی ہے۔

تحقیق یہ بھی بتاتی ہے کہ ایسے بچے، جن کے والدین اپنے بچوں سے زیادہ پیار نہیں کرتے یا اپنے بچوں کو زیادہ توجہ نہیں دیتے یا اُن کے خاندان میں کوئی نشہ کیا جاتا ہے یا خاندان کے افراد بہت زیادہ ہیں، اُن میں پروان چڑھنے والے بچے بعد میں جرائم کی طرف جلد راغب ہوجاتے ہیں۔ اسی طرح جن بچوں کا پیدایش کے وقت وزن کم ہوتا ہے یا جن بچوں کی ولادت کے دوران مشکلات پیدا ہوتی ہیں وہ بچے بھی بڑے ہوکر جرائم کی جانب راغب ہوجاتے ہیں۔

جو والدین اپنے بچوں کے ساتھ اچھا برتاؤ نہیں کرتے یا ایسے والدین جن کی ازدوجی زندگی خوش گوار نہیں ہوتی یا خاندان میں منشیات استعمال کرنے کا رحجان ہے یا والدین کی جانب سے بچوں کی درست نگرانی و نگہبانی نہیں ہو پاتی، اُن کے بچے دیگر بچوں کی نسبت زیادہ جرائم کی دُنیا میں قدم رکھتے ہیں۔ علاوہ ازیں ایسے بچے جو اسکول کے نظم وضبط پر عمل پیرا نہیں ہوتے، اساتذہ کا احترام نہیں کرتے یا جن کی تعلیمی کارکردگی تسلی بخش نہیں ہوتی یاجن بچوں کوا سکول سے یا تعلیمی ادارے سے نکال دیا جاتاہے، وہ چاہتے یا نہ چاہتے ہوئے جرائم کا شکار ہوجاتے ہیں۔

تحقیق یہ بھی بتاتی ہے کہ ایسے بچے جو چھوٹی عمر میں ہی بڑی عمر والوں کاسا رویہ اپنالیتے ہیں اور منشیات کا استعمال کرتے ہیں یا چھوٹی عمر کے بچے بڑی عمر کے لوگوں کے ساتھ راہ ورسم بڑھا لیتے ہیں ان کےجرائم کی دنیا میں قدم رکھنے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔ جو بچے چھوٹی عمر میں جنسی و غیر فطری افعال کی جانب راغب ہوجاتے ہیں اُن کا بھی جرائم کی طرف جھکاؤ ہوجاتا ہے۔ ایسے بچے جن کے دوست بہت کم ہوتے ہیں وہ بھی جرائم کی راہ پر نکل پڑتے ہیں۔

بچے کا بلوغت کی عمر کو پہنچنے سے پہلے ہی ڈپریشن کا شکار ہوجانا یا جس خاندان سے وہ تعلق رکھتا ہے اگر وہ ڈپریشن کا شکارہو تو اِن حالت میں بھی اس کا جرم کی طرف جھکاؤ ہوجاتا ہے۔ تعلیم کی طرف رغبت نہ ہونااورذہانت کی شرح کم ہونا بھی انسان کو جرائم کی طرف دھکیل دیتا ہے۔ اس کے علاوہ زیادہ جذباتی ہونے سے خود پر قابو پانا مشکل ہوجاتا ہے جس سے انسان لڑائی جھگڑے کا شکار ہوتا ہے اور جرائم پیشہ بن جاتا ہے۔

تحقیق یہ راز بھی کھولتی ہے کہ زیادہ سماجی حیثیت کے حامل افرادیا جن کی تعلیم زیادہ ہوتی ہے یا ایسے افراد جو معاشی طور پر کم زور نہیں ہوتے اور اُن کی آمدن گزر اوقات سے بھی زیادہ ہوتی ہے،جرائم کی طر ف کم راغب ہوتے ہیں ۔جن افرادکی سماج میں زیادہ عزت ہوتی ہے اُن کا بھی جرائم کی جانب رحجان کم ہوتا ہے۔ 

ایسے افراد جو اکثر اپنی ملازمتیں تبدیل کرتے رہتے ہیں یا جو زیادہ وقت بے روزگاری میں گزارتے ہیں ایسے لوگ جرائم کی دلدل میں پھنس سکتے ہیں۔ ثقافتی ماحول وار رہن سہن بھی جرائم میں کمی یا اضافے کا باعث بنتا ہے۔ ایسے سماج جہاں ثقافتی سرگرمیاں زیادہ ہوتی ہیں اور لوگ ان سرگرمیوں زیادہ میں حصہ لیتے ہیں ان میں جرائم کی شرح کم ہوتی ہے۔

ماہرین نے تحقیق اور مشاہدات کی بنیاد پر یہ نتیجہ بھی اخذ کیا ہے کہ سماج کا ڈھانچا بھی لوگوں کو جرم کرنے پر اُکساتا ہے۔ اکثریت اور اقلیت کے مسائل اور زبان، رنگ و نسل کے مسائل بھی جرائم کو فروغ دیتے ہیں۔ نوخیز عمر میں جرائم کی جانب جھکاؤ میں اخلاقی ترقی یا تنزلی بھی انسان کو جرائم کی طرف دھکیل دیتی ہے۔ اس کے علاوہ جرائم کے پس منظر میں وراثتی اور ماحولیاتی عمل کردار ادا کرتے ہیں۔ 

معاشی حالات اور جرائم کی شرح کا آپس میں گہرا تعلق ہے، کیوں کہ معاشی حالات بہتر ہونے کی بناپر جرائم کی شرح میں کمی آتی ہے۔ ایسا بہت کم دیکھا گیا ہے کہ معاشی حالات بہتر نہ ہوں یا بے روزگاری زیادہ ہو تو جرائم کم ہوں۔ ایسے ممالک جہاں آبادی کی شرح بہت زیادہ ہے وہاں جرائم کی شرح بھی زیادہ ہے۔ اسی طرح امیر ممالک کے ہم سایہ ممالک اگر غریب ہوں تو بھی جرائم کی شرح میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ایسے ملک جو خطِ استوا کے قریب واقع ہیں اُن ممالک میں بھی جرائم کی شرح زیادہ ہے۔ جہاں موسم زیادہ گرم ہوتا ہے وہاں بھی جرائم کی شرح خصوصاً زیادتی کے واقعات زیادہ ہوتے ہیں۔

خوف کی شرح اور انسانی رویّے

علمِ جُرمیات کی تحقیق یہ بھی بتاتی ہے کہ جرائم پیشہ افراد کا نشانہ بننے سے ڈرنے والے زیادہ تر ٹین ایج سے لے کر تیس سال تک کی عمرکے لوگ خوف زدہ رہتے ہیں۔ زیادہ عمر کے لوگوں میں یہ خوف کم ہوتا ہے۔ عورتوں کو مردوں کی نسبت جرائم کا نشانہ بننے کازیادہ خوف ہوتا ہے۔

تحقیق کے مندرجہ بالا نکات ہمیں یہ سمجھاتے ہیں کہ انسانی رویّےکئی حوالوں سے تشدّد یا کسی بھی جُرم کی طرف اُبھارتےہیں ۔چناں چہ ان نکات کی روشنی میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان، بنگلا دیش اور بھارت میں جرائم کی ایک بہت اہم وجہ غربت بھی ہے۔

کسی بھی ملک میں عومی طور پرجرائم کے تجزیے کے لیے اس کی شرح کو ایک لاکھ نفوس پر منقسم کر کے نتیجہ اخذ کیا جاتا ہے۔ کسی بھی ملک کے حالات اور سماجی حقایق دوسرے ملک سے قطعی مختلف ہوتے ہیں، اسی طرح جرائم کی وجوہ بھی بہت سے عوامل سے جڑی ہونے کے باعث ریکارڈ کا حصہ بنتی ہیں۔ عموماً جرائم کی وجوہ میں غربت کی بلند سطح، بے روز گاری، جرائم کی شرح کو بڑھانے کا سبب اور قانون کے نفاذ کے لیے حفاظتی اداروں کا عملی کردار اور سخت سزائیں جرائم کی شرح کم کرنے کے رجحان میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔

عالمی سطح پر جائزہ لیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ زیادہ تر جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کی عمریں 20 سے 30 برس کے درمیان ہوتی ہیں۔ امریکا میں جرائم کی مجموعی شرح 47.70 ہے۔ وہاں پچیس برسوں میں پرتشدد جرائم کی شرح میں نمایاں کمی بتائی جاتی ہے۔ لیکن امریکی ریاستوں میں جرائم کی شرح کی وجوہ مختلف ہونے کی وجہ سے بہت زیادہ بھی ہے۔ الاسکا، نیو میکسیکو اور ٹینیسی جیسی ریاستوں میں مائن، نیو ہیمپشائر اور ورمونٹ میں جرائم کی شرح بہت زیادہ بتائی جاتی ہے۔

دوسری جانب دنیا میں سب سے کم جرائم کی شرح سوئٹزر لینڈ، ڈنمارک، ناروے، جاپان اور نیوزی لینڈ میں ہے۔ جرائم کی شرح کی کمی و بیشی کاایک اہم محرک موثر قانون نافذ کرے والے ادارے بھی ہیں۔ ڈنمارک، ناروے اور جاپان نے اپنے معاشروں کو قانون کا سخت پابند بنانے کےلیے قانون کی رٹ منوائی ہے۔

دنیا میں جرائم کی شرح

ورلڈ کرائم انڈیکس کے مطابق وینزویلا جرائم کے انڈیکس میں 83 اعشاریہ 76 پوائنٹ کے ساتھ دنیا میں پہلے نمبر پر ہے۔ زیر زمین 300 اعشاریہ 787 ملین بیرل تیل محفوظ رکھنے والے ملک میں جرائم کی شرح بڑھنے کے اسباب میں بدعنوان حکام، عدلیہ کا ناقص نظام اور پرتشدد رجحانات قرار دیے جاتے ہیں۔ پاپوا نیو گنی جزیروں پر مشتمل ملک ہے۔اس کا دارالحکومت پورٹ مورسبی ہے۔ آٹھ کروڑ 93 لاکھ پانچ ہزار نفوس کا یہ ملک 80 اعشاریہ 79 پوائنٹس کے ساتھ دنیا میں دوسرے نمبر ہے۔ گینگ وار، پرتشدد واقعات، مجرمانہ سرگرمیاں، کم تعلیم اور روزگار کے محدود مواقع نے بدعنوانی کے ساتھ جرائم کی شرح میں اضافہ کیا ہے۔ 

بالخصوص منشیات اور انسانی اسمگلنگ میں پاپوا نیو گنی پرکشش شمار کیا جاتا ہے۔ ، جنوبی افریقا 76 اعشاریہ 86 انڈیکس پوائنٹ کے ساتھ دنیا میں سب سے زیادہ جرائم کی شرح رکھنے والے ممالک میں تیسرے نمبر پر آتا ہے۔وہاں عصمت دری، ٹارگٹ کلنگ اور پرتشدد واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ جنوبی افریقاکی میڈیکل ریسرچ کونسل کے سروے کے مطابق چارمیں سے ایک سے زیادہ مردوں نے عصمت دری کا اعتراف کیا۔

بنگلا دیش جرائم کی بلند شرح میں 63.9 پوائنٹس کے ساتھ عالمی فہرست میں17ویں نمبر پر، ایران 49.38 پوائنٹس کے ساتھ 48ویں، عراق 48.42 میں 53 ویں،امریکا 47.81پوائنٹس کے ساتھ 56 ویں، بھارت 44.43 کے ساتھ 71 واں، نیوزی لینڈ 42.88 پوائنٹس کے ساتھ 77 ویں اور پاکستان عالمی سطح پر بلند شرح کے 42.51پوائنٹس کے ساتھ 79 ویں نمبر پر آتا ہے۔ 137 ممالک پر محیط جرائم میں اضافے کی اس فہرست میں 136 نمبر پرمتحدہ عرب امارات ہے جس کے پوائنٹس 15.23 ہیں۔ کم ترین جرائم کی شرح والا ملک قطر ہے جو137ویں نمبر پر 12.13 پوائنٹس کے ساتھ ہے۔

ہمارے بچّے اور جرائم

ہم کہاں جارہے ہیں یہ جاننے کے لیے اس خبر پر توجہ دینا ضروری ہے۔گزشتہ برس دسمبر کے آخری ہفتے میں شایع ہونے والی اس خبر کے مطابق فیصل آباد میں گزشتہ برس بچوں میں جرائم میں ملوث ہونے کی شرح میں 40فی صد تک اضافہ دیکھا گیا تھا۔ یہ خبر چودہ برس تک کے بچوں کے بارے میں تھی۔سرکاری اعداوشمار کے مطابق چوری کے واقعات میں 105،منیشات فروشی میں 90، قتل اور لڑائی جھگڑے میں 13 جب کہ دیگر جرائم میں 150 سے زاید بچے ملوث پائے گئے تھے۔ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ بورسٹل جیل فیصل آباد میں70کے قریب بچے اپنے جرم کی سزائیں کاٹ رہے ہیں۔

خبر میں بتائی گئی عمر وہ عمر ہے، جس میں بچے یا تو پڑھنے میں مصروف ہوتے ہیں یا پھر انہیں پڑھائی کے ساتھ کھیل کی فرصت نہیں ہوتی۔ یہی وہ نوجوان نسل ہے، جس نے آگے بڑھ کر اس ملک کی ترقی میں ہاتھ بٹانا ہے۔مگر ایسا کیوں ہے کہ اس عمر کے بچے جرائم کرتے ہیں۔ اگر اس بات کی تحقیق کی جائے تو اس کے معاشی اور معاشرتی پہلوؤں کے علاوہ نفسیاتی پہلو بھی نکلتے ہیں۔ ہمارے لیے ان وجوہات کو جاننا بے حد ضروری ہے، جو نوعمر بچوں کو جرائم کی دلدل میں دھکیل دیتی ہیں۔

بچے مستقبل کے معمار اور آنے والے اچھے وقت کی امید ہوتے ہیں۔ اس لیے بہتر یہی ہوتا ہے کہ اوائل عمری میں ہی بچوں کی درست ترجیحات کا تعین کرنے میں ان کی مدد کی جائے۔کیوں کہ ابتدائی ذہنی نشوونما میں معاشرتی، معاشی، نفیساتی اور جذباتی عوامل شامل ہوتے ہیں۔ بچہ اپنے ماحول اور ارد گرد سے زیادہ سیکھتا ہے بہ نسبت سکھائے جانے کے۔ ایسے میں پر آسائش ماحول کے عادی اور افلاس میں پیدا ہونے والے بچوں کی ترجیحات اور رویے مختلف ہوں گے۔

ہر جوان ہونے والے بچے کے دل میں بہت سی خواہشات بھی جنم لیتی ہیں۔ جب یہ خواہشات پوری نہیں ہوتیں تو وہ انتقامی کیفیت کا شکار ہو جاتا ہے جو اسے جرم کی جانب لے جاتی ہے۔ بعض اوقات بچوں کے ساتھی بھی اس کیفیت کو ابھارتے ہیں جس سے وہ جرائم کی جانب مائل ہوجاتے ہیں اور کسی کا نقصان کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ بچوں پر تشدد اور ان کے حقوق کی پامالی اس سنگین مسئلے کی بڑی وجہ ہے۔ 

ہمارے ہاں سب سے مظلوم طبقہ بچوں کا ہے کیوں کہ جب ان کے کھیل کود اور پڑھنے کے دن ہوتے ہیں تو ان پر ذمے داریاں ڈال دی جاتی ہیں۔ جب باپ بے روزگار ہو گا تو بچہ کسی نہ کسی ناجائز طریقے سے کمانے کا سوچے گا۔ یہاں ذمے داری ریاست پر لاگو ہوتی ہے، جو اس سے مکمل پہلو تہی برت رہی ہے۔ اسی لیے مستقبل کی غیر یقینی صورت حال بھی اس کی ایک وجہ ہے۔

پاکستان کی تیس فی صد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے رہ رہی ہے اور آدھے سے زیادہ آبادی کی خواہش یہ ہے کہ وہ سفید پوش طبقے کی مانند ،عزت سے زندگی گزارے۔ مگر ہوش ربا منہگائی کے دور میں یہ سب ممکن نظر نہیں آتا ہے۔ ایسے میں گھر کا خرچ چلانا ہی مشکل ہے نہ کہ بچوں کی بڑھتی عمر کی ضروریات یا خواہشات پوری کی جا سکیں۔ ایسے میں بچے، جن کے اندر ہر نئی چیز حاصل کرنے یا نیا کام کرنے کا ولولہ ہوتا ہے، وہ اپنی زندگی کو بدلنے کے لیے مختلف شارٹ کٹس اور ناجائز ذرایع کو اپناتے ہیں اور ایسے میں جرائم پیشہ لوگوں کے ہاتھ آ جانا کوئی بڑی بات نہیں۔ 

جرائم پیشہ عناصر ان کے ہاتھوں سے قلم کتاب چھین کر ہتھیار پکڑانے میں ذرا سی بھی دیر نہیں کرتے۔ پاکستان کے قریباً تمام شہروں میں ایسے بہت سے بچے، جن کی عمریں 8 سے 15 سال کے درمیان ہیں، وہ نہ صرف چوری، اٹھائی گیری اور جیب تراشی میں ملوث ہیں بلکہ ان میں سے کئی بڑی بڑی وارداتوں میں بھی شامل ہیں۔

ہمیں اپنا کل محفوظ بنانے کے لیے آج سے کوشش کرنا ہوگی۔