سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو میری نظر سے گزری جس کے دل چھو لینے والے پیغام نے مجھے بہت کچھ سوچنے پر مجبور کردیاکہ اگرہمیں دکھائی نہیں دے رہا تو اسکا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہاں کچھ نہیں ہے، ہماری آنکھیں سیلولر فون اور وائی فائی کے سگنل دیکھنے سے قاصر ہیں لیکن ہمارے الیکٹرانکس ڈیوائس کی فعالیت ان کی موجودگی کی ناقابل فراموش گواہ ہیں۔دنیا کا ہر مذہب انسانیت کی خدمت کا درس دیتا ہے، تاہم انسان کو سیدھی راہ سے بھٹکانے کیلئے شیطان روزِ اول سے سرگرم ہے۔ خالق کائنات نے انسان کو گمراہی سے بچانے کیلئے ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر اور بے شمار اولیاء کرام منتخب کئے، اللہ نے اپنے آخری پیغمبر ﷺ کو خودرحمت العالمین کا لقب دے کر بھیجاجنہوں نے خدا کا پیغام عام کرنے کی بناء پر سخت مسائل کا سامنا کیا اور آخرکار یثرب میں مدینہ کی صورت میں ایک ایسی زبردست رول ماڈل امن پسند، روادار اور خوشحال ریاست قائم کردی جو رہتی دنیا کیلئے ان تمام انسانوں کیلئے قابل ِ تقلید مثال ہے جو اپنے معاشرے کو امن کا گہوارہ بنانا چاہتے ہیں۔ دنیا کے ہر مذہب میں پیغمبروں کا درجہ بہت بلند ہے ، ہندو دھرم دنیا کاہزاروں سال قدیم ترین مذہب ہے جو آج دنیا کا تیسرا بڑا مذہب قرار دیا جاتا ہے،ہندو مت کی برداشت اوررواداری پر مبنی تعلیمات ایک امن پسند معاشرے کے قیام کیلئے دھرتی پرموجود ہر ایک انسان بشمول چرند پرند کا خاص خیال رکھنے پر زور دیتی ہیں،ہندو دھرم میں شری کرشن کو عظیم رتبہ حاصل ہے جن کا تذکرہ ہندو فلاسفی، نظریات اور مذہبی تعلیمات میں جابجا پایا جاتا ہے۔مذکورہ ویڈیو کلپ میں بھی فلم کا مرکزی کردار تلقین کرتا ہے کہ شری کرشن کو بھگوان کی مہر لگا کر من و دھرتی سے الگ مت کرو،وہ دھرتی پر چلنے والے ایک انسان ہیں،انہوں نے جو ہمیں بتایا ہے وہ دھرم نہیں ہمارا جیون ہے، انہوں نے گیتا کے ذریعے سے کروڑوں لوگوں کو سیدھی راہ دکھائی، لوگوں کیلئے سمندر کے درمیان نگری بسائی اور عوام کے دُکھ درد کا احساس کیا، ان سے بڑھ کر کون گُرو ہوگا؟کرشن بھگتوں کے مطابق ان کے پاس فائٹر، ٹیچر، سنگر، انجینئر ، سائکالوجسٹ وغیرہ کی تمام خصوصیات ہیں، وہ ہمارے لئے سب کچھ ہیںاوروہ ہمیشہ ہمارے دِلوں میں زندہ رہیں گے۔میں نے جب سے ہوش سنبھالا اپنے بڑوں کو انسانیت کی خدمت کرتے دیکھا، ہمیں بچپن سے تلقین کی گئی کہ ایک اچھا انسان وہ ہے جو دوسروں کیلئے بھلائی کا کام کرتا ہے، روشنیوں کا تہوار دیوالی یہی پیغام دیتا ہے کہ آخری فتح ہمیشہ حق اور سچائی کی ہوتی ہے، روشنی کی ایک کرن گھُپ اندھیرے کو شکست دے دیتی ہے۔ میں ہر سال اپنی دیوالی نہ صرف ہندو کیلنڈر کے مطابق دھوم دھام سے مناتا ہوں بلکہ رائج الوقت کیلنڈر کے تحت انگریزی سالِ نو کا بھرپوراستقبال بھی میرے لئے دیوالی کی طرح ہے جسے میں اپنے گزشتہ سال کا محاسبہ کرکے مناتا ہوں،نئے سال کا سورج طلوع ہونے سے قبل اپنے مالک کا شکر ادا کرتا ہوں کہ میرا سال اچھا گزرا اور اب خدا کے عطاکردہ ایک اور سال کو پچھلے سال سے مزیدبہتر بنانے کا وقت آگیاہے، ہمیں غریبوں، بیواؤں، یتیموں اور بے کس لوگوں کے گھروں میں اپنے اہلخانہ کے ہمراہ جاکر انہیں راشن اوردیگر اشیائے ضروریہ فراہم کرنا چاہئےکیونکہ خیال میں خدا کا شکرانہ ادا کرنے کا سب سے بہترین طریقہ یہی ہے۔ کسی کا گھر بسانا خدا کے نزدیک ایک بڑی نیکی ہے،یہی وجہ ہے کہ میری نئے سال کے اوائل کی اگلی سرگرمی اوسطاََسو غریب مستحق ہندوجوڑوں کی اجتماعی شادیوں کراکر انکا گھر بسانے کی کوشش ہوتی ہے،گزشتہ ہفتے 8جنوری کواجتماعی شادیوں کے سالانہ انعقادنے ایک بار پھر ثقافتی تقریب کا رنگارنگ منظر پیش کیا جہاں نوبیاہتا جوڑوں کو نہایت عزت و احترام سے نئی زندگی شروع کرنے پر شبھ کمامناؤں کے ساتھ رخصت کیا گیا،ہمارے قومی میڈیا نے جس بھرپور انداز میں اس تقریب کی کوریج کی اس سے نہ صرف غیرمسلم محب وطن اقلیتوں کوقومی دھارے میں شامل ہونے کا حوصلہ ملا بلکہ عالمی سطح پر یہ مثبت پیغام اجاگر ہوا کہ ملک میں آئین پاکستان کے تحت اقلیتوں کو اپنی زندگی مذہبی رسم و رواج کے مطابق گزارنے کی مکمل آزادی حاصل ہے،مجھے خوشی ہے کہ ہماری اس کاوش کی کامیابی کو دیکھتے ہوئے معاشرے کے دوسرے طبقات میں بھی اجتماعی شادیوں کا رحجان پروان چڑھ رہا ہے۔انسان چاہے جس مذہب کا پیروکار ہو ، وہ کبھی یہ مت بھولے کہ ایک خدا تک پہنچنے کے راستے مختلف ہوسکتے ہیں لیکن مقصد دُکھی انسانیت کی خدمت اور سماج کی بہتری کیلئے جدوجہد کرنا ہونا چاہئے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)