حدیثِ مبا رکہ میں رمضان المبا رک کو تین عشروں میں تقسیم کیا گیا ہے اور وہ رحمت بخشش اور جہنم کی آ گ سے آزادی کے عشرے ہیں ۔غور کیا جا ئے تو اس تقسیم کے اندر بڑی ہی گہری حکمت ہے جو شا رع علیہ السلام کے پیش ِ نظر تھی لہٰذااسے سمجھنا بہت ہی ضروری ہے ۔اس سے بھی کہیں زیا دہ اہم یہ با ت ہے کہ ہم اس با ت کو جا ننے کی کو شش کریں کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کو پا نے ،اس سے بخشش ما نگنے اور جہنم کی آ گ سے آزادی کا کیا طریقہ ہے تب ہی ہم رمضان کے حقیقی مقاصد کو حاصل کر سکیں گے۔رحمت، اللہ تعالیٰ کی عظیم الشان نشانیوں میں سے ہے ۔اللہ تعالیٰ نے اسے اپنے لیے خاص فرمایا ہے ۔حدیثِ مبا رکہ میں ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحمت کو تخلیق کیا تو اس کے نناوے حصے اپنی ذات کے لیے مختص فرما ئے اور صرف ایک حصہ ساری مخلوق میں تقسیم فرمایا ۔اس سے اللہ تعالیٰ کی بے پایاں رحمت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔رحمت ،اللہ تعالیٰ کی ذاتِ اقدس کا جزوِ لا زم ہے ۔ارشادِ ربا نی ہے ’’ تمہارے رب نے اپنے اوپر رحمت لکھ دی ہے ‘‘۔ ( سورہ الانعام :54)۔اللہ تعالیٰ کے دو صفاتی نا م الرحما ن اور الرحیم پورے قرآن میں پھیلے ہو ئے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی رحمت اور محبت کا شاہکار ہیں ۔ سورہ اعراف کی آیت نمبر 156 اور 157میں ارشادِ ربا نی ہے ’’میری رحمت ہر چیز پر چھا ئی ہو ئی ہے ،اور اسے میں ان لوگوں کے حق میں لکھوں گا جو نا فرما نی سے پرہیز کریں گے ،زکوٰۃ دیں گے اور میری آیات پر ایما ن لا ئیں گے ۔پس آج یہ رحمت ان لوگوں کا حصہ ہے جو اس پیغمبر ؐ، نبی اُمی کی پیروی اختیار کریں جس کا ذکر اپنے ہا ں تورات اور انجیل میں لکھا ہو املتا ہے۔‘‘ اس سے معلوم ہوا کہ رحمت کا منبع اللہ تعالیٰ کی ذاتِ اقدس ہے۔ ان کی رحمت چہار سو پھیلی ہو ئی ہے ۔اس رحمت سے وہی لو گ فیضیاب ہو نے والے ہیں جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی ذات کا عرفا ن حاصل کرنے کے بعد اپنے آپ کو کُلی طور پر اس کی اطا عت میں لگا دیا ہو ۔قرآنِ مجیدیہ بھی بتاتا ہے کہ انسانوں کیلئے رحمت کی تقسیم اللہ تعالیٰ ہی کے اختیار میں ہے ۔وہ اسے انسانوں کے عقیدے ،افعال اور اعما ل کے مطا بق تقسیم فرماتا ہے ’’اللہ جس رحمت کا دروازہ بھی لوگوں کیلئے کھول دے اسے کو ئی روکنے والا نہیں اور جسے وہ بند کر دے اسے اللہ کے بعد پھر کو ئی دوسرا کھولنے والا نہیں۔(سورہ الفا طر:2)
یہ رحمت ہر وقت ہی ہماری دستگیری کیلئے موجود رہتی ہے لیکن رمضان المبا رک کے پورے مہینے میں با لعموم اور اس کے پہلے عشرے میں بالخصوص اس کا عروج ہوتا ہے ۔مسلم شریف کی حدیث میں ہے ’’ جونہی رمضان آتا ہے جنت کے دروازے کھل جا تے ہیں ، جہنم کے دروازے بند ہو جا تے ہیں اور سرکش شیطانوں کو جکڑ دیا جا تا ہے ‘‘۔ اللہ تعالیٰ کی اس پایاں رحمت کو پا نے کیلئے مندرجہ ذیل طریقے اختیار کیے جا سکتے ہیں:
1۔اللہ تعالیٰ پر پختہ ایما ن رکھنے کے ساتھ ساتھ اس کی لگاتار تجدیدسے ۔اس با ت کا احساس کہ ایما ن کا ئنا ت کی سب سے بڑی دولت ہے جس پر سب کچھ قربا ن کیا جا سکتا ہے ایسا ایما ن جو انسان کو اللہ تعالیٰ کی ذات سے ایسا وابستہ کردے کہ یہ تعلق زندگی کے آخری سانس تک قائم و دائم رہے۔ارشادِ ربا نی ہے ’’ پس جو لوگ ایما ن لا ئے اور اللہ تعالیٰ کی ذات سے وابستہ رہے اللہ تعالیٰ عنقریب انہیں اپنی رحمت اور فضل میں داخل فرما ئے گا۔ (النساء:175)
2۔خوفِ الٰہی اور رسولِ اکرم ﷺ پر پختہ ایما ن سے ۔ قرآنِ مجید میں ارشاد ہے ’’ اے لوگو جو ایما ن لا ئے ہو اللہ سے ڈرو اور اس کے رسول ؐ پر ایما ن لاؤ تو اللہ تعالیٰ تمہیں اپنی رحمت کے دوگنے حصے سے مالا ما ل فرما ئے گا‘‘۔ الحدید:28)
3۔قرآنِ مجید کی پیروی اور اتبا ع سے۔ اللہ تعالیٰ فرما تے ہیں ’’ یہ وہ عظیم کتا ب ہے جسے ہم نے نا زل کیا ہے ،یہ برکتوں والی کتا ب ہے ۔ پس اسی کی پیروی کرو اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو تو یقینا تم پر اللہ کی رحمت کا نزول ہو گا ‘‘۔ (الانعام:155)
4۔اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کی مکمل اطاعت اورنیک اعما ل کی ادائیگی سے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے ’’ مومن مرد اور مومن عورتیں ایک دوسرے کے ممد و معاون ہیں۔نیکی کا حکم دیتے ،برا ئی سے روکتے اور اللہ اوراس کے رسول ؐ کی اطا عت کرتے ہیں ۔یہی وہ لو گ ہیں جن پر عنقریب اللہ تعالیٰ اپنی رحمتوں کا نزول فرما ئے گا ‘‘۔ (التوبہ:71)
6۔احسان کا رویہ اختیار کرنے سے ۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ’’ کچھ شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت احسان کرنے والوں کو بہت ہی قریب ہے‘‘۔( الاعراف:56)
7۔توبہ اور استغفار سے ۔ قرآنِ مجید صاف الفا ظ میں کہتا ہے کہ ’’ تم اللہ سے توبہ و استغفار کیوں نہیں کرتے تا کہ تمہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت سے وافر حصہ دیا جا ئے۔( النمل:46)
8۔ پوری دلجمعی کے ساتھ قرآنِ مجید کی تلاوت کرنے اور خاموشی اور ادب کے ساتھ اس کی سماعت کرنے سے ۔ ارشاد ہو تا ہے’’ جب قرآن پڑھا جارہا ہو تو پوری دلجمعی سے اس کی سماعت کرو اور خاموش رہو تاکہ تم پر رحم کیا جا ئے۔ (الاعراف:204)
9۔دعا اور منا جا ت سے ۔ اللہ تعالیٰ نے سچے اہلِ ایمان کی دعا کا تذکرہ ان الفاظ میں کیا ہے :’’ اے ہمارے رب ہمارے دلوں کو ہدایت عطا ہو جا نے کے بعد کسی بھی طرح کی ٹیڑھ میں مبتلا نہ فرما اور ہمیں اپنی رحمتوں سے ما لا ما ل فرما کچھ شک نہیں کہ تو ہی سب سے بہتر عطا فرما نے والا ہے ‘‘۔ ( آلِ عمران 8)
حضور ﷺ کا ارشادِ گرامی ہے ’’ تمہارے درمیا ن رمضان کا ایسا برکتوں والا مہینہ آچکا ہے جس میں اللہ تعالیٰ تمہیں غنی کرنا چاہتا ہے پس وہ تم پر اپنی رحمتیں نا زل فرماتا ہے ‘‘۔ ( طبرانی)۔ابوداؤد کی روایت میں ہے کہ پیارے رسول ﷺ نے فرمایا ’’ اللہ اس شخص پر اپنی رحمت نا زل فرما ئے جو رات کے وقت نما ز کے لیے اٹھتا ہے۔ خود بھی نفل نما ز ادا کرتا ہے اور اپنی بیوی کو بھی جگاتا ہے ‘‘۔
10۔قرآن فہمی اور ذکرِ الٰہی کی محافل میں شرکت کرنے سے۔صحیح مسلم کی روایت ہے کہ رسولِ اکرم ﷺ نے فرمایا ’’ جو لوگ بھی اللہ کے گھروں میں سے کسی گھر میں اس مقصد کے لیے جمع ہو تے ہیں کہ وہ قرآن مجید سیکھیں اور سکھا ئیں تو اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ ان پر سکینت نا زل فرماتے ہیں ، رحمتِ الٰہی انہیں ڈھا نپ لیتی ہے ،فرشتے انہیں گھیر لیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ فرشتوں کی محفل میں ان کے تذکرے فرما تے ہیں۔ (مسلم)رمضان المبارک کا دوسرا عشرہ مغفرت اور بخشش کا عشرہ ہے ۔یوں تو رمضان کے ہر دن اور ہر رات اللہ تعالیٰ لا تعداد لوگوں کو اپنے فضل و کرم اور ان کی تو بہ و استغفارکے نتیجے میں بخشش سے ہمکنار فرما تے ہیں لیکن دوسرا عشرہ خاص طور پر اس کام کیلئے مختص کیا گیا ہے۔ مغفرت کے معانی گناہ کی تبا ہ کا ریوں سے بچانے ، معافی دینے اور پردہ پوشی کے ہیں۔یہ اللہ تعالیٰ کی شانِ رحیمی ہے کہ وہ گنا ہ گاروں کو توبہ و استغفار اور رجوع الی اللہ کے ذریعے گنا ہ کی وادی سے با ہر آنے کی توفیق عطا فرما تا ہے ۔سچے دل سے تو بہ کرنے والا اس کے ہا ں یو ں شما ر ہو تا ہے جیسے اس نے کو ئی گنا ہ کیا ہی نہیں (بخاری)۔اللہ تعالیٰ سے مغفرت اور بخشش ما نگنے کا بہترین طریقہ رمضان کی راتوں کے آخری پہر کہیں تخلیے میں جا کر اللہ تعالیٰ کی ذات کو حاضر و نا ظر جا ن کر اس احساس سے اس کے سامنے دامن پھیلا دیا جا ئے کہ وہی تو بہ قبول فرما نے والا ، گنا ہوں کے دفترِ سیا ہ کو دھونے والا اور بے نواؤں کی پکار سننے والا ہے ۔اس احساس اور حضوری کے ساتھ ، گنا ہوں پر شرمندگی اختیار کرتے ہو ئے جو بھی آنسو بہا ئے جائیں گے وہ اللہ تعالیٰ کے ہا ں اتنے ہی محبوب ہو جائیں گے جتنے خون کے وہ قطرے جو شہید کے جسم سے بوقتِ شہا دت ٹپکتے ہیں ۔(بخاری)
موتی سمجھ کر شانِ کریمی نے چُن لیے
قطرے جو تھے میرے عرقِ انفعال کے
رمضان ا لمبا رک کا آخری عشرہ جہنم کی آگ سے آزادی کا عشرہ ہے ۔یہ با ت یقینی ہے کہ جس فرد کو اللہ تعالیٰ کی رحمت سے وافر حصہ مل جا ئے اور وہ اللہ کے حضور توبہ و استغفار کے ذریعے معافی کا طلب گا ر بن کر اپنے گنا ہوں سے چھٹکارا حاصل کر چکا ہو اس کے لیے کے لیے یہ عشرہ جہنم کی آگ سے آزادی کا عشرہ بن جاتا ہے ۔ قرآن مجید کی زبا ن میں حقیقی کامیا بی اسی شخص کے لیے ہے جو جہنم سے محفوظ اور جنت کا مستحق قرار پایا ہو ’’ پس جو شخص جہنم کی آگ سے بچا لیا گیا ہو اور جنت میں داخلے کا پروانہ پاچکا ہو وہ یقینی طور پر کامیا ب ہے اور دنیا کی زندگی سوائے دھوکے کے ساز و ساما ن کے کچھ بھی نہیں ‘‘۔آخری عشرے کی ایک اہم با ت جو اسے پہلے دونوں عشروں سے ممتاز کرتی ہے وہ یہ ہے کہ اس کے اندر لیلۃ القدر جیسی عظیم الشان رات ہے جس کی عبادت و ریا ضت ہزار مہینے کی عبادت سے افضل اور عظیم تر ہے ۔ اور دوسری اہم با ت ’’اعتکاف‘‘ جیسی عالیشان نعمت ہے ۔یہ ایک ایسی رہبا نیت ہے جس کے نتیجے میں بندہ اللہ تعالیٰ کا مہما ن بن کر اس کے در کا سوالی بن جاتا ہے جس کے نتیجے میں اس کے اور جہنم کے درمیا ن ایسی دو خندقوں کا فا صلہ کر دیا جاتا ہے جن کا درمیا نی فاصلہ آسما ن اور زمین کے درمیا ن پا ئے جا نے والے فاصلے بھی کہیں زیا دہ ہے ۔لہٰذا آ ئیے اپنی عملی جدوجہد سے رحمت اور بخشش کا حصول کرنے کے بعد جہنم سےخلاصی کا اہتما م کریں ۔اللہ تعالیٰ اس کی تو فیق عطا فرمائیں۔ (آمین)