حکومت نے ملک کو درپیش سنگین معاشی مسائل اور توانائی کے بحران کا حل یہ نکالا ہے کہ عوام کا ناطقہ بند کردیا جائے اور عام آدمی جو گھر بار چلانے کیلئے رزق حلال کمانے کی غرض سے چھوٹا موٹا دھندہ کرتا ہے اس پربھی قدغنیں لگا دی جائیں ۔توانائی بچت کے نام پر مارکیٹیں روزانہ رات آٹھ بجے بند کرنے کا حکم صادر کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ دنیا بھر میں سورج کی روشنی میں کاروبار کرنے کا رواج ہے، لوگ صبح جلدی دکانیں کھولتے اور شام ہوتے ہی بند کردیتے ہیں جبکہ ہمارے ہاں دوپہر بارہ بجے سے پہلے مارکیٹیں نہیں کھلتیں، عمومی مشاہدہ بھی یہ ہی ہے کہ بڑی مارکیٹوں میں کاربار2بجے شروع ہوتا ہے اور رات ایک دو بجے تک جاری رہتا ہے جس سے بجلی کی کھپت زیادہ ہوتی ہے جسے بچانےکیلئے مارکیٹیں رات8بجے بند کرنے کاحکم صادر کیا گیا ہےاور اس پر فوری عملدرآمد شروع ہوگیا ہے ۔اس پر کاروباری برادری کا کہناہے کہ وفاقی حکومت کا بغیر مشاورت کے کیا گیایکطرفہ فیصلہ ناقابل عمل ہے۔ماضی میں بھی زمینی حقائق کا ادراک کئے بغیر کیے گئے فیصلوں کے خاطر خواہ نتائج نہیں نکلے ۔اس سے معاشی بحران میں اضافہ ہی ہوگا، کمی نہیں ہوسکتی ۔کاروباری طبقے کی تجویز ہے کہ عام لوگوں کے رزق پر لات مارنے کی بجائے حکومت سرکاری دفاتر،ریسٹ ہاؤسز،سرکاری رہائشی کالونیوں اور دیگر عمارتوں میں بجلی کے ضیاع پر پابندی لگائے اور سب سے بڑھ کر سرکاری حکام کے زیر استعمال ٹرانسپورٹ میں پٹرول کے غیر ضروری استعمال کی روک تھام کرے۔بنظر غائر دیکھا جائے تو یہ تجاویز بالکل درست اور مناسب ہیں ۔سرکاری دفاتر میں کوئی بھی جاکر دیکھ سکتا ہے کہ ملازمین بجلی کے استعمال میں کتنی لاپرواہی برتتے ہیں۔بڑے بڑے ہال نما کمروں میں گنتی کے افراد اپنی تعداد سے بھی زیادہ بجلی کے بلب اور ٹیوب لائٹس جلائے ’’ کچھ کام کاج کئے بغیر مصروف دکھائی ’’دینے کی اداکاری کررہے ہوتے ہیں۔یعنی LOOK BUSY DO NOTHING کی عملی تصویر بنے ہوتے ہیں ۔بہت سے دفاتر میں کمرے روشن مگر عملہ غائب ہوتا ہے۔بے شمار سرکاری عمارتوں پر رات بھر چراغاں ہوتا ہے، وجہ پوچھی جائے تو سوائے سرکارکی دھاک بٹھانے کے کوئی معقول وجہ نہیں ہوتی۔ اشرافیہ کی رہائشی کالونیاں بجلی کے اصراف ِبے جا کا مرکزہ ہیںجہاں اس ملک کے اصل حکمران رہتے ہیں۔عام آدمی کو کیا خبر کہ اشرافیہ اس کے وسائل کتنی بے رحمی سے تصرف میں لاکر اس کی ہڈیوں سے کشید کردہ عرق کو شیر مادر کی طرح پیتی ہے۔ گرمیوں میں صاحب لوگوں کے گھروں کے کچن تک میں ائیرکنڈیشنرز چلتے ہیں تو دسمبر جنوری کے مہینوں میں سردی سے بچنےکیلئے کئی ہزار واٹ کے بجلی کے ہیٹر یا کنورٹر اے سی کمرے گرم کرتے ہیں، ان پر کوئی روک ٹوک نہیں۔ توانائی کے بحران پر قابو پانے کی تجاویز کے مسودات تیار کرنے والوں کے اجلاس بھی ایسے ہی گرم کمروں میں ہوتے ہیں جن میں بجلی کے بڑے بڑے ہیٹر یا کنورٹر اے سی چل رہے ہوتے ہیں۔ جمہوریت کے نام پر قائم ایوانوں میں عوام کیلئے تو سوائے ظالمانہ بجٹ پیش کرنے کے کچھ نہیں ہوتا مگر ان ایوانوں میں ممبران پارلیمنٹ آئیں نہ آئیں توانائی کا بے درد استعمال جاری رہتا ہے۔طرفہ تماشہ ہے کہ نان جویں کو ترستے عوام کا مہنگائی نے جینا تو پہلے ہی دوبھر کررکھا ہے، اس پر ستم ظریفوں نے تباہ حال لوگوں کو مزید برباد کرنے کا سامان کرتے ہوئے نئی پابندیاں لگادی ہیں۔ پالیسی سازوں میں سے کوئی یہ سوچنے کی زحمت نہیں کرتا کہ بھائی یہ ہوٹل، ریسٹورنٹ، شادی ہال صرف مالکان کیلئے ہی سامانِ رزق مہیا نہیں کرتے، ان سے سینکڑوں نہیں ہزاروں افراد کا رزق بھی وابستہ ہوتا ہے اور ان وابستگانِ روزگار کی اکثریت دیہاڑی دار ہوتی ہے جن کی روزانہ کی آمدنی ان پالیسی سازوں کی ایک دو سگریٹ کی ڈبیہ کی قیمت کے برابر ہوتی ہے۔ دھوئیں کے مرغولے اڑاتے، وضع کردہ پالیسیوں کی خدوخال سنوارتے، ایش میں سگریٹ کی راکھ جھاڑتے کبھی کسی کو خیال آیا کہ ایش ٹرے میں وہ سگریٹ نہیں ہزاروں لوگوں کی آرزوؤں، حسرتوں اور امنگوں کی راکھ جھاڑتے ہیں۔ چھوٹے ریستوران، ہوٹل، شادی ہال بند کروا کے خود فائیو اسٹار ہوٹلوں میں بوفے ڈنر کرنے والے کبھی توند بھر کر ڈکار مارتے ہوئے اپنی خدمت پر مامور کسی معمولی ملازم کے چہرے پر بے بسی اور محرومیوں کی داستان پڑھنے کی کوشش کریں تو شاید سینے میں دھڑکتےپتھر دل کے کسی کونے سے دردمندی کی کوئی لہر ٹیس بن کر انہیں محرومِ تمنا لوگوں کی چیخ و پکار سے آشنا کردے!
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس
ایپ رائےدیں00923004647998)