• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قدیم زمانے سے مقامی طور پر پن بجلی سے دنیا کے وہ ممالک مستفید ہو رہے ہیں۔ جہاں قدرتی طور پر بھاپ اور شدید گرم پانی کے ذخائر زمین کے اندر غیر معمولی مقدار میں موجود ہیں۔ جب ان ذخائر کو حرارت توانائی کے روپ میں اُبل کر سطح زمین پر آجاتے ہیں تو پانی کا ایک بلند و بالا فوارہ فضا میں پھوٹ پڑتا ہے۔ گرم پانی کا اس طرح اُمنڈ کر کھلی فضاء میں بلند ہونے کا عمل ’’گیزر‘‘ (Geyser)کہلاتا ہے۔ اس توانائی کے حصول اور استعمال کے لیے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جدید ٹیکنالوجی کو متعارف کیا جا رہا ہے، جس کی بدولت بعض ممالک کی طرزِ زندگی پر سود مند اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔

مثلاً آئس لینڈ، فلپائن، انڈونیشیا دنیا بھر کے جید ماہرین ارضیات نے فیلڈ سروے کے دوران یہ انکشاف کیا ہے کہ اس قسم کی کیفیت ’’آتشی کمپلیکس‘‘ جسے خطوں میں وقوع پذیر ہوتی ہیں جو ’’پلیٹ بائونڈری‘‘ سے تعلق رکھتی ہیں اور گریبن (Graben) چیسی ٹیکٹونکس ساخت کو جنم دیتی ہیں جو عموماً متوازن خطائیں ہوتی ہیں۔ یہ زمین میں پانی کی آمدورفت کے حوالے سے دراڑیں ہوتی ہیں جو مجموعی طور پر حالیہ آتشی کارکردگی والے خطوں میں نظرآتی ہیں۔ مثلاً نیوزی لینڈ ، جرمنی امریکا اور ہمالیہ ریجن ۔

’’گیزر‘‘ ایک آئس لینڈک لفظ ہے ،جس کے معنی ہیں، گرم دھاریں مارتا ہوا پانی یا حددرجہ گرم پانی کا اُبلتا ہوا چشمہ، پانی جب سطح زمین سے آہستہ آہستہ رستا ہوا زمین کے نیچے موجود دراڑ شدہ خطاؤں کے عمودی پائپ سے گزرتا ہے تو ٹیکٹونک حدود کی شدت اورحدت سے گہرائی میں داخل ہوتے ہی اُبلنے لگتا ہے جہاں سے کھولتا ہواپانی اور فواروں کے روپ میں وقفے وقفے سے فضاء میں کئی کئی فٹ اوپر بلندی تک پہنچ جاتا ہے۔ 

یہی وہ مقام ہے جہاں سے اس حرارتی توانائی کو جدید ٹیکنالوجی کنواں میں ٹیپ (Tap)کے ذریعہ مقید کیا جاتا ہے ،پھر اس مقید بھاپ یا حد درجہ گرم پانی کو بھاپ میں تبدیل کرکے پائپ کے ذریعہ ’’پاور ہائوس ‘‘ تک منتقل کیا جاتا ہے جو ارض تپشی توانائی کمپلیکس کے اطراف تعمیر کی جاتی ہے۔ 

’’گیزر‘‘ کی توانائی پاور ہائوس میں لگی چرخی (Turbirne) میں گردش پیدا ہوتی ہے جو جنریٹر (Generator) کوگھوما دیتی ہے اور مقامی طور پر بجلی پیدا کی جاتی ہے، جس سے اطرافی علاقوں میں موجود گائوں اور دیہاتوں کو بجلی فراہم کی جاتی ہے۔ دنیا کا سب سے بڑا ارضی تپشی پروجیکٹ (Geothermal Project) کیلی فورنیا میں شمالی سین فرانسیسکو سے 120کلو میٹر کی دوری پر موجود ہے، جس سے 1000میگا واٹ کی بجلی پیدا کی جارہی ہے۔ جو تقریباً ایک ملین افراد کے لئے کافی ہوتا جارہا ہے ۔ ایسے تمام پروجیکٹ ان علاقوں میں تعمیر کیے جاتے ہیں جہاں سے فیلڈ سروے کے ذریعہ معلومات فراہم ہوتی ہے ،کیوں کہ یہی علاقے ’’ہاٹ اسپاٹ‘‘ ہوتے ہیں جو ’’گیزر‘‘ کی توانائی کے حصول کے حوالے سے درست ثابت ہوتاہے۔ حال ہی میں بھارت نے مشرقی لداخ کے علاقے ’’پوگا‘‘(Puga) میں اس قسم کے پروجیکٹ کا افتتاح کیا ہے۔ 

یہاں یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ پاکستان کے اسی خطہ میں آتشی کمپلیکس کے علاقے موجود ہیں۔ پوری دنیا میں صرف تین مقامات ایسے ہیں جہاں ’’گیزر‘‘ موجود ہیں ایک آئس لینڈ، دوسرا نیوزی لینڈ اور تیسرا مغربی امریکا کے نیشنل پارک میں۔ لیکن ان سب میں ’’یلواسٹون نیشنل پارک‘‘ کے گیزر کو دنیا بھر میں بڑی فوقیت حاصل ہے، کیوں کہ یہ وقت کا پابند ’’گیزر‘‘ ہے یعنی یہ 45 منٹ سے 105منٹوں کے درمیان گرم پانی اور بھاپ کو زبردست گھن گرج کے ساتھ فوارہ کی صورت میں سطح زمین کے اوپر خارج کرتے ہیں جب کہ دوسرے ’’گیزر‘‘ بے قاعدگی سے عمل پذیر ہوتے ہیں۔ 

ان میں سے کچھ ہفتوں یا مہینوں میں بھاپ اور گرم پانی کو خارج کرتے ہیں لیکن وقت کا تعین نہیں ہوتا ہے۔ بعض اوقات یہ 45 منٹ سے 105منٹوں کا بھی ہوتا ہے۔ لیکن دوسرے ’’گیزر‘‘ بے قاعدگی سے عمل پذیر ہوتے ہیں۔ ان میں سے کچھ ہفتے یا مہینوں کے دوران کھولتے ہوئے بھاپ اورگرم پانی کو خارج کرتے ہیں لیکن وقت کا تعین نہیں ہوتا۔ گیزر کے میکنیزم کا اندازہ اس وقت ہوا، جب زیرِ زمین ’’گیزر‘‘ کے ہمسایہ چٹانوں سے نمونے حاصل کئے گئے، جس سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ’’گیزر‘‘ کی اندرونی ساخت ایک پیچ دار آتشی پائپ سے منسلک ہوتی ہے، جس کے ذریعہ پانی اوپر سے سرایت کرتا ہے، پھر واپس زمین پر نکلتا ہے۔ 

عام طور پر یہ پانی کھوہ یا غارنما ساخت سے ہر لمحہ تعلق رکھتا ہے۔ سطح زمین کا رستا ہوا پانی آتشی پائپ اور کھوہ میں پوری طرح سرایت کرکے واپس زمین پر اُبلتا ہے چونکہ آتشی پائپ بہت سی کھوہ یا غار نما ساخت سے ہر لمحہ آپس میں منسلک ہوتا ہے، جس کی وجہ سے کھوہ میں سرایت کرکے پوری طرح لبریز ہو جاتا ہے جو اطراف میں موجود میگما یا گرم گیسوں کی قربت سے حرارت حاصل کرتا ہے اور بتدریج بھاپ اور گرم پانی میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ ’’گیزر‘‘ کی اندرونی میکنیزم کے حوالے سے ایک پہلو اور بھی سامنے آتاہے کہ جب پانی میں گیس کے بلبلے بنتے ہیں تو یہ عام نقطہ ٔ جوش یعنی 100oC سے کہیں زیادہ ہوتا جاتا ہے جو اوپر موجود پانی کے وزن اور دبائو میں اضافے کا باعث بن جاتا ہے۔ 

اس دوران زیریں جانب موجود پانی کے درجہ ٔ حرارت میں کمی رونما ہوتی ہے،جس کی وجہ سے پانی کا اخراج ایک ایک گرج دار طوفانی سلسلہ فوارہ کی شکل میں پائپ سے اُبلنے لگتا ہے۔ یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہتا ہے جب تک پانی اور بھاپ کی کثیر مقدار آتشی حرارتی خانوں سے باہر نہیں نکل جاتا۔ ’’گیزر‘‘ کے اُبلنے کے بعد یہ سارا عمل ایک خاص وقفے سے بار بار وقوع پذیر ہوتا رہتا ہے۔ بظاہر ’’گیزر‘‘ کا اخراج سطحی پانی اور حرارت کے سپلائی کے درمیان توازن کا ردِعمل معلوم ہوتا ہے۔ لیکن مجموعی طور پر گیزر کے آتشی پائپ کی ساخت، پانی کے سپلائی اور حرارت کے درمیان ہم آہنگی موجود ہونی چاہیے۔ 

ان عوامل کے درمیان تفریحات پر ایک گیزر کو انفرادی خصوصیت کا حامل بنا دیتی ہے، جس کی وجہ سے اخراج میں بے قاعدگی پیدا ہو جاتی ہے۔ یلو اسٹون پارک کا گیزر چونکہ ان تمام عوامل میں مستحکم اور منسلک ہوتا ہے اور وقت مقررہ (تقریباً ایک گھنٹہ ) کے وقفے سے اُبلتا ہے جسے دیکھنے کے لیے سیاح طول و عرض سے جمع ہو جاتے ہیں۔ چونکہ تمام گرائونڈ پانی میں حل پذیر مرکبات کی موجودگی پہلے سے ہوتی اور گرم پانی میں تو کچھ زیادہ ہی دستیاب ہوتی ہے۔ 

چناں چہ ’’گیزر‘‘ نہ صرف حرارت کے روپ میں ’’ارضی تپشی توانائی‘‘ (Geothermal Energy) مہیا کرتا ہے بلکہ اہم قسم کے تعمیراتی اور معدنی ذخائر بھی تشکیل کرتا ہے۔ مثلاً تمام ’’ٹریورٹین‘‘ (Traverten) ایک ایسا ذخیرہ ہے جو کیلشیم کاربونیٹ کینسائیٹ) پر مشتمل ہوتا ہے جو عام طور پر گیزر اورگرم چشموں کے دہانوں کے اطراف تہہ نشین ہوتا ہے جب کہ حل پذیر سبلیکا یعنی سینٹر(Sinter)کی صورت میں پایا جاتا ہے۔ جب اس کی ترتیب ’’گیزر‘‘ کے ماتحت ہوتی ہے تو اسے گیزر برائیٹ (Geyser)کہلاتا ہے۔ اونکس سنگ ِ مرمر (Onyx Marble)جو اسی طرح تشکیل پاتا ہے لیکن یہ تخلیقی طور پر خالص سنگ ِ مرمر نہیں ہوتا چونکہ اس میں خاص سنگ مرمر جیسی خصوصیت پانی جاتی ہے۔ 

اسی وجہ سے اسے تجارتی پیمانے پر خالص سنگِ مرمر کی جگہ استعمال کیا جارہا ہے۔ ان تمام تخلیق پانے والی معاون اور ذخائر کا انحصار زیرِ زمین موجود چٹانی اقسام پر ہوتا ہے۔ مثلاً سینٹر (Sinter) زیرِ زمین بلند درجہ حرارت کی موجودگی کی نمائندگی کرتا ہے جبکہ اس کے ساتھ ہی تشکیل پانے والی معدن’’ٹریورٹین‘‘ کم درجہ حرارت کی حامل چٹان اور ماحول کی نشاندہی کرتا ہے کیونکہ سیلیکا حل پذیری کے اعتبار سے سخت رجحان رکھتا ہے کیلسائیٹ کے مقابلے میں یہ تمام ذخائر گرم پانی میں کامیابی سے پنپنے والے بیکٹیریا کے رنگ کی وجہ سے داغ دار ہوجاتے ہیں۔ 

یہ بیکٹیریا بہت ہی قدیم ہوتے ہیں اور ’’تھرموفایلیک‘‘ بیکٹیریا (Thermophylic) ہوتے ہیں جو آتش فشاں گرم چشموں اور گیزر کے اطراف حددرجہ حرارت میں جنم لیتے ہیں اور درجہ حرارت میں کمی کے ساتھ ختم ہوجاتے لیکن ایک پیغام دے جاتے ہیں کہ زندگی گرم آگ میں بھی تخلیق پا سکتی ہے۔

سائنس و ٹیکنالوجی سے مزید
ٹیکنالوجی سے مزید