پاکستان میں مائیکرو سافٹ کے مقامی سطح پر دفاتر بند ہونے پر سوشل میڈیا اور ٹیک (Tech) حلقوں میں شور برپا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ امریکی ٹیکنالوجی ادارے مائیکروسافٹ عملاً پاکستان کو کیا کچھ دے رہا تھا؟ اور اس کے جانے سے نقصان واقعی کتنا ہے؟
مائیکرو سافٹ گزشتہ 25 سال سے پاکستان میں بزنس کر رہا تھا تو پاکستان کو مائیکروسافٹ نے کتنا ٹیکس دیا؟ اس سوال پر جب چند ٹیکس ماہرین سے بات ہوئی تو سب کا مؤقف یکساں تھا کہ پاکستان میں مائیکرو سافٹ کی موجودگی نمائشی تھی، آمدنی زیادہ تر علاقائی یا عالمی دفاتر سے مینیج ہوتی تھی، ٹیکس براہِ راست نہیں آتا تھا۔
پاکستان میں غیر ملکی سافٹ ویئر کمپنیوں پر اب 5 فیصد ڈیجیٹل لیوی عائد کی گئی ہے مگر اس کا نفاذ حالیہ برس میں ہوا ہے، اس سے پہلے دہائیوں تک ٹیکس ماہرین کے مطابق مائیکرو سافٹ جیسی کمپنیوں نے براہِ راست انکم ٹیکس یا کارپوریٹ ٹیکس نہیں دیا تھا، اس بارے میں عوامی سطح پر کوئی شفاف ریکارڈ دستیاب نہیں کہ کمپنی نے 25 سال میں پاکستان کو کتنا ٹیکس ادا کیا۔
پاکستان میں مالیاتی ٹیکس کے ماہر اشفاق تولہ نے ’جیو نیوز‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کئی غیر ملکی کمپنیاں صرف اپنے بڑے نام کی بنیاد پر پاکستان میں ٹیکس چھوٹ حاصل کرنا چاہتی ہیں، مگر بزنس ڈیلیور نہیں کر پاتی ہیں۔
مائیکرو سافٹ کی بندش پاکستان تک محدود نہیں، مائیکروسافٹ نے چین اور روس میں بھی دفاتر بند کیے ہیں جبکہ برطانیہ اور آسٹریلیا میں کچھ سینٹرز بند کیے ہیں۔
انسٹیٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن (IBA) میں آرٹیفیشل انٹیلیجنس لیب کی سربراہ وجیہہ زیدی نے ’جیو نیوز‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مائیکرو سافٹ کی گلوبلائزیشن پالیسی کا حصہ یہ بھی ہے کہ وہ چھوٹے ممالک، جہاں بزنس کم ہوتا ہے، وہاں فوکل آفس کسی اور بڑے ملک میں قائم کر کے وہیں سے آپریٹ کرتا ہے۔
کمپنی نے چین میں اپنی شراکت دار کمپنی ویکریسافٹ (Wicresoft) کے آپریشنز بند کر دیے ہیں، وہاں تقریباً 2000 ملازمین فارغ کیے گئے ہیں۔
شنگھائی میں آئی او ٹی (IoT ) اور آرٹیفیشل اینٹیلجنس (AI) لیب کو بھی بند کر دیا گیا۔
روس کے 13 بڑے شہروں (جیسے ماسکو، قازان، سینٹ پیٹرز برگ) میں دفاتر بند کیے گئے، اسی طرح لندن (فروری 2025ء) اور سڈنی (مئی 2025ء) میں اپنے تجرباتی مراکز بند کیے ہیں۔
واضح رہے کہ چیزوں کا انٹرنیٹ یا Internet of Things (IoT) سے مراد ایسی عام اشیاء ہیں جو انٹرنیٹ سے جڑ کر خود کار طریقے سے کام کرتی ہیں، جیسے موبائل سے پنکھا آن کرنا، فریج کا خود پیغام دینا کہ دودھ ختم ہو چکا ہے یا گاڑی کا آگے سڑک پر رش دیکھ کر راستہ بدل لینا، یہ سب (IoT) کہلاتا ہے۔
دبئی میں ڈیجیٹل پروڈکٹ متعارف کرانے والے برطانوی ایوارڈ یافتہ فین ٹیک ماہر دانش قاضی کا خیال ہے کہ دنیا میں ٹیکنالوجی کا منظر نامہ تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے، اب متعدد ممالک خصوصاً پاکستان کا یورپ اور امریکا کی ٹیکنالوجی پر انحصار بتدریج کم ہو رہا ہے۔
دانش قاضی کے بقول کم خرچ بالا نشین والا معاملہ ہو چکا ہے کہ چین کی متعدد ٹیک کمپنیاں سستے داموں انمول ٹیک پروڈکٹس فراہم کر رہی ہیں بلکہ ڈالرز کے بغیر مقامی کرنسی میں خرید و فروخت کر رہی ہیں جس میں پاکستان کو غیر معمولی فائدہ ہو رہا ہے۔
متعدد سیاسی اور سیکیورٹی ماہرین مائیکروسافٹ کے مشرقِ وسطٰی خصوصاً لبنان سے لے کر فلسطین تک ادارے کے غیر تعمیری کردار پر شدید سوالیہ نشان بھی لگا رہے ہیں، البتہ مائیکرو سافٹ کا ادارہ اس کی سختی سے تردید کرتا رہا ہے۔
پاکستان میں سائبر سیکیورٹی اور دفاعی شعبے میں حالیہ برسوں میں ایک واضح تبدیلی دیکھی گئی ہے، کئی حساس ادارے مغربی سافٹ ویئر بشمول مائیکروسافٹ سے اجتناب کر رہے ہیں، کیونکہ ان کے سسٹمز میں مبینہ طور پر penetration اور leakage کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔
ایک سابق ڈیفنس سیکیورٹی آفیسر کے مطابق اب خود مختار نظاموں کی طرف جھکاؤ ہے اور متعدد ممالک میں امریکی سافٹ ویئرز پر مکمل انحصار خطرناک سمجھا جا رہا ہے۔
ماہر ٹیکس اشفاق تولہ کے بقول ایک طرف ایسی کمپنیاں مسابقت سے بچ کر آگے بڑھنا چاہتی ہیں تو دوسری جانب پائریسی سے بھی ان کا کاروبار متاثر ہوتا ہے اور سب سے بڑھ کر حکومتی ٹیک منصوبوں میں بھی ایسے اداروں کی موجودگی بہت محدود رہی ہے۔
مائیکرو سافٹ پاکستانی طلباء کے لیے سرٹیفکیٹس کا اہتمام کرتا رہا ہے اور اس کے ساتھ طلباء کو عالمی سطح پر متعارف بھی کراتا رہا ہے، انسٹیٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن (IBA) کی اے آئی لیب کے سربراہ وجیہ زیدی کے مطابق مائیکرو سافٹ ایچ ای سی کے ساتھ مل کر اسکالر شپس اور یونیورسٹی طلبہ کو ٹریننگ سرٹیفکیٹس فراہم کرتا رہا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ مائیکرو سافٹ ہر سال امیجن کپ منعقد کرتا ہے، جس سے ٹیلنٹ کی تلاش و نکھار ہوتی ہے اور پاکستانی یونیورسٹیوں سے مسلسل رابطے میں رہتا ہے۔
انہوں نے مستقبل میں بھی یہ سلسلہ جاری رہنے کی امید ظاہر کی اور مائیکرو سافٹ فوکل آفس کے تحت رابطہ کاری برقرار رکھنے کی توقع ظاہر کی۔
پاکستان میں یہ تاثر بھی دیا جا رہا ہے کہ مائیکروسافٹ کے تمام فیصلے آج بھی بل گیٹس کے ہاتھ میں ہیں، حالانکہ بل گیٹس کا فعال کردار 2015ء سے ختم ہو چکا ہے، وہ اب صرف ایڈوائزری حیثیت رکھتے ہیں اور کمپنی کے روزمرہ کے فیصلوں سے الگ ہو چکے ہیں۔
ٹیک حلقوں کا خیال ہے کہ سابق صدر عارف علوی جیسے سیاسی افراد کی جانب سے بل گیٹس کے مائیکرو سافٹ کے دفاتر سے متعلق دعوے محض قیاس آرائی پر مبنی ہیں۔
پاکستان میں متعدد ٹیک ایکسپرٹ بشمول پاکستان میں سرگرم آئی ٹی سافٹ ویئر ڈیولپمنٹ سے وابستہ سفیر حسین کا کہنا ہے کہ مائیکرو سافٹ کا جانا ویک اپ کال ضرور ہے مگر ملک میں آئی ٹی انفرااسٹرکچر تیار ہو چکا ہے، اب پالیسی سازوں کو مزید آئی ٹی فرینڈلی پالیسیاں بنانی چاہئیں۔
البتہ کچھ آئی ٹی ماہرین دراصل پاکستان سے مائیکرو سافٹ کے دفاتر کی بندش کو خطے کے لیے کوئی غیر معمولی ڈیولپمنٹ قرار نہیں دے رہے بلکہ ان کے مطابق یہ ایک موقع ہے کہ ملک اپنی خودمختار، محفوظ اور آزاد شراکت داروں اور مقامی ٹیکنالوجی پر اعتماد پیدا کرے۔