• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بین الاقوامی جرائد، جس میں فوربز اور رئیل ٹائم قابل ذکر ہیں، نے سال 2022 کی امیرترین شخصیات کی فہرست جاری کی ہے، ساتھ امیر ممالک کا مختصر جائزہ بھی پیش کیا ہے، ذیل میں ٹاپ 10 شخصیات اورٹاپ 9امیر ممالک کے بارے میں مختصراً ملاحظہ کریں۔

…ریاستہائے متحدہ امریکہ…

ریاستہائے متحدہ امریکہ دُنیا کا سب سے امیرترین ملک ہے۔ جدید ٹیکنالوجی، سائنس، تعلیم تحقیق میں بھی بہت ترقّی یافتہ ہے۔ اس کی سالانہ آمدنی بائیس ٹریلین سے زائد ہے۔ علاوہ ازیں تسخیر کائنات یا خلائی تحقیق میں بھی بہت آگے ہے۔ علمی تحقیق،آزاد معیشت اور جمہوری نظام نے بھی امریکہ کو دُنیا میں بلند مقام عطا کیا ہے۔ سترھویں اٹھارہویں صدی میں امریکہ ترقّی پذیر ملکوں میں بھی سب سے پیچھے شمار ہوتا تھا مگر برطانیہ اور امریکہ کی پہلی جنگ کے بعد اور یورپ میں کسادبازاری کے سبب یورپی ملکوں سے بڑی ہجرت عمل میں آئی، یہاں تک کہ یورپی ملکوں نے اپنے تمام قیدی امریکہ روانہ کر دیئے اور جیلیں خالی ہوگئیں ان یورپی تارکین وطن نے امریکہ کی قدیم آبادیوں میں لوٹ مار، جنگ و جدل کا بازار گرم کیا، وہاں کےمقامی باشندوں کا قتل عام کیا اور قدیم قبائلیوں کے علاقوں پر قبضہ کر لیا۔

اٹھارہویں صدی میں یورپی صنعتی انقلاب کے بعد امریکی صنعتی انقلاب برپا ہوا جس نے یورپ سے زیادہ ترّقی کر لی ،اس کی وجہ یہ تھی کہ امریکہ کا رقبہ یورپ سے دُگنا تھا۔ قدرتی وسائل وافر مقدار میں دستیاب تھے جس کی وجہ سے امریکہ کی ترقّی نے سب کو پیچھے چھوڑ دیا۔ اس کے علاوہ امریکی ترقّی کا ایک سبب برین ڈرین بھی تھا۔ تارکین وطن ملازمتوں، تجارت اور اچھے مستقبل کے لئے بڑی تعداد میں امریکہ آئے، جنہوں نے ترقّی میں اہم کردار ادا کیا مگر اب دُنیا میں چند بڑے حریف امریکہ کے لئے بڑے حریف ثابت ہونے لگے ہیں۔

……جاپان……

اُبھرتے سُورج کی سرزمین ، جاپان دُنیا کا ترقّی یافتہ ملک ہے۔ جس کی سالانہ آمدنی پانچ ٹریلین اور سالانہ فی کس آمدنی بیالیس ہزار ڈالر ہے۔ جاپان ایک لحاظ سے وہ بدقسمت ملک رہا ہے جس پر دُنیا کا پہلا ایٹمی حملہ ہوا ،اس کے دو جزیرے اب تک تباہ حال ہیں مگر دُوسری عالمی جنگ کے اس کے کیئر ٹیکر امریکی جنرل آرتھر سے اس وقت کے جاپانی وزیراعظم نے تسلیم کیا کہ ہم نے جنگی جنون میں اپنا بہت کچھ ازالہ کرنا ہے۔ اس کے بعد جاپان نے جوکھلونے بنانے میں اپنی شناخت رکھتا تھا جامع صنعتی پالیسی وضع کی اور پیچھے پلٹ کر نہ دیکھا۔ 

پہلے بیس برسوں تک لائٹ انڈسٹری کی مصنوعات تیار کرتا رہا پھر اُنیس سو اَسّی کے عشرے میں ہیوی انڈسٹری کی طرف توجہ مبذول کرکے، دُنیا میں نئی نئی کاروں کی بھرمار کر دی۔ یہاں تک کہ امریکی مشہور زمانہ جرنل موٹرز بھی پریشان ہوگئی۔ جاپان نے نت نئے ڈیزائن متعارف کرائے۔ دُنیا کی شاہراہوں پر جاپانی کاروں نے اپنا سکہ جما لیا۔ بلاشبہ جاپانی قوم بہت محنتی، ملنسار، کم گو اوراپنے کام سے لگائو رکھنے والی قوم ہے۔ جدّت پسندیت پسند ہے۔ آج کی دُنیا میں ترقّی کرنے کے لئے جو لوازمات بہت ضروری ہیں وہ تمام جاپانی قوم میں پائے جاتے ہیں۔ جاپان میں چھ سو جامعات ہیں صرف ٹوکیو میں بیاسی جامعات ہیں۔

……وفاقی جمہوریہ جرمنی……

یہ دُنیا کی معیشت میں چوتھا بڑا ملک ہے۔ جرمنی کی سالانہ اوسط آمدنی ساڑھے چار ٹریلین ڈالر ہے جبکہ سالانہ فی کس آمدنی باون ہزار ڈالر سے زائد ہے۔آبادی ساڑھے آٹھ کروڑ سے تجاوز کر گئی ہے۔ سال 2015ء میں شام کی سول وار اور وہاں غیرملکی مداخلت کےنتیجے میں لاکھوں شامی پناہ گزین یورپ کی طرف ہجرت کر گئے تھے۔ اس دور میں سب سے پہلے ان کو پناہ دی اور دیگر ممالک سے اپیل کی کہ، ان تارکین وطن کی مدد کی جائے۔ اس وقت جرمنی کی چانسلر انجیلا مرکل تھیں، جنہوں نے انسان دوستی کی مثال قائم کی ۔ جرمنی یورپی یونین کا ایک اہم ترین رُکن ملک ہے۔

اس کا انفرا اسٹرکچر بہت شاندار اور پائیدار ہے۔ شیئر مارکیٹ دُنیا میں بہت اہم سمجھی جاتی ہے اور روزانہ کروڑوں ڈالر کے حصص فروخت کئے اور خریدے جاتے ہیں۔ جرمنی کا عالمی معیشت میں بہت اہم کردار ہے۔ تعلیم، صحت عامّہ، فنون لطیفہ اور تنوع پرستی میں بھی بہت ترقّی یافتہ ہے۔ سترھویں اٹھارہویں صدی میں دُنیا کے عظیم موسیقار ، مصوّر اور مصنّف پیدا کئے،تمام کلچرل سینٹر مفت جرمن زبان سکھاتے ہیں۔ کالجز اور یونیورسٹیز کی فیس بھی نسبتاً کم ہیں جو ترقّی کے لئے ضروری ہیں۔

……عوامی جمہوریہ چین……

آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا ،صنعتی اور زرعی طور پر بھی ترقّی یافتہ ملک ہے، سالانہ آمدنی سولہ ٹریلین سے زائد ہے۔ دفاعی لحاظ سے چین بہت بڑی طاقت ہے۔ چین حال ہی میں خلاء میں اسپیس اسٹیشن تعمیر کرنے کی بھی کوششیں کر رہا ہے۔ دراصل چین نے 1990ء میں بڑی چھلانگ لگائی اور جنوبی چین کے خطّے میں بحرالکاہل کے ساتھ ساتھ صنعتوں کا جال بچھا دیا۔ چین نے صنعتی ملکوں کو کم اُجرتی محنت کش اور کم نرخ پر بجلی فراہم کرنے کے منصوبے پیش کر کے بیش تر غیرملکی کارخانے لگائے اور ان کی ٹیکنالوجی بھی حاصل کر لی۔ 

اس طرح چین نے غیرملکوں کے صنعتی اداروں کا مال بھی تیار کیا ، دُوسری طرف اپنے کارخانے تعمیر کر کے سستی اشیاء تیار کرنی شروع کر دیں اور اپنا سستا سامان عالمی منڈی میں پھیلا دیا، جس سے دُنیا حیران رہ گئی،قومی آمدنی اور اوسط فی کس آمدنی میں گیارہ ہزار سالانہ سے زائد کا اضافہ کر لیا۔ چین قدیم روایات، نسلی یکجہتی اور اپنی مخصوص نظریاتی سوچ کی وجہ سے دُنیا میں اپنی ایک الگ شناخت رکھتا ہے۔ چینی قوم محنتی اور اپنی ثقافت پر ناز کرتی ہے۔ چین کی ترقّی قابل تحسین ہے۔ چین اور پاکستان کی دوستی پرانی اور قابل رشک ہے۔

……بھارت……

آبادی کے لحاظ سے بھارت دُنیا کا دُوسرا بڑا ملک ہے۔ آبادی ایک اَرب تیس کروڑ سے زائد ہے۔ بھارت دُنیا کی پانچویں بڑی معیشت بن رہا ہے۔ اس کی مجموعی آمدنی تین ٹریلین، فی کس سالانہ آمدنی دو ہزار ڈالر کے قریب ہے۔ مذہبی، نسلی اور مختلف زبانوں میں منقسم معاشرہ ہے۔ ذات پات کے نظام نے بھارت کو معاشرتی طور پر بہت نقصان پہنچایا ہے اور تاحال یہ سلسلہ جاری ہے۔بھارت کو سالانہ پچانوے ارب ڈالر سے زائد آمدنی بھارتی تارکین وطن سے حاصل ہوتی ہے جس میں زیادہ آمدنی امریکہ، کینیڈا، یورپی یونین اور مشرق وسطیٰ سے موصول ہوتی ہے۔ 

زرمبادلہ کے حوالے سےامریکہ میں بھارتی تارکین وطن زائد پیسے زیادہ رقومات بھارت بھجواتے ہیں۔ یہ سچ ہے کہ بھارتی اعلیٰ تعلیم یافتہ تیس سے زائد بڑےبڑے امریکی اداروں میں اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں۔ امریکہ میں برین ڈرین میں بھارتی تارکین وطن کا نمایاں کردار رہا ہے۔ ملک میں متوسط طبقہ پینتالیس فیصد کے لگ بھگ باقی طبقہ غربت کی لکیر کے ساتھ زندگی گزارنے پر مجبورہے۔ سیاسی قوت اس کا جمہوری نظام ہے۔

……برطانیہ……

برّاعظم یورپ کا اہم ترین ملک اور بڑی طاقت ہے، مگر یورپی یونین کا رُکن نہیں، تاہم نیٹو معاہدہ کا اہم رُکن ہے۔ برطانیہ کی مجموعی آمدنی پونے تین ٹریلین ڈالر کے قریب ہے جبکہ فی کس سالانہ آمدنی بیالیس ہزار ڈالر سے زائد ہے،کل رقبہ دولاکھ بیالیس ہزارکلومیٹر اور آبادی سات کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ جمہوری نظام کی بنیاد یہیں پڑی تھی، اسی وجہ سے برطانیہ کو جمہوری نظام کی ماں بھی کہا جاتا ہے، مگراس معاملے میں دُہری روایات رکھتا ہے۔

ملکہ برطانیہ یا بادشاہ ملک کا سرپرست ہوتا ہے ہر قانونی بل ہائوس آف کامن سے منظور ہو کر تاج برطانیہ کے دستخط کے لئے جاتا ہے، یہ محض روایت ہے۔ برطانیہ نے سترھویں اٹھارہویں صدی میں اپنی بہت بڑی بڑی کالونیاں بنائیں تھیں ،جس میں پورا برصغیر بھی شامل تھا۔ یورپ کو دو عالمی جنگیں لڑنا پڑیں اس میں برطانیہ پیش پیش رہا۔ 

لندن میں آگ لگی، شہروں میں طاعون پھیلا پھرایک ایک کر کے برطانیہ کو اپنی نوآبادیات چھوڑنا پڑیں۔برطانوی قوم نے ماضی میں بڑے ادیب، شاعر، ڈرامہ نگار، مصوّر، موسیقار، کھلاڑی دُنیا کو دیئے۔ فنونِ لطیفہ میں بڑا کام کیا۔ بعدازاں دُنیا کو انگریزی نے علمی اور ثقافتی طور پر فتح کیا۔ آج دُنیا کے زیادہ تر ممالک بین الاقوامی طور پر انگریزی کا استعمال کرتے ہیں۔

……فرانس……

فرانس دُنیا کی چوتھی بڑی معیشت اور یورپی یونین کا اہم ترین ملک ہے۔ سالانہ آمدنی 2.8 ٹریلین ڈالر اور فی کس آمدنی 48 ہزار ڈالر سالانہ ہے۔ آبادی سات کروڑ سے زائد،جبکہ رقبہ چھ لاکھ اَسّی ہزار مربع کلومیٹر ہے۔ دُنیا کا اہم ترین خوبصورت ترین ملک ہے،اس کا دارالخلافہ پیرس ہے ۔ پوری دُنیا کے سیّاح سیر و تفریح کے لئے آتے ہیں جس سے فرانس کو اربوں ڈالر سالانہ حاصل ہوتے ہیں۔ 

ماضی قریب میں فرانس کی بھی برّاعظم افریقہ اور ایشیا میں بڑی نوآبادیات قائم تھیں، خاص طور پر فرانس نے افریقہ اور مشرقی وسطیٰ کے وسائل کا بہت زیادہ استحصال کیا اور یورپ کے ایوانوں میں دولت کی ریل پیل نظر آنے لگی۔ جہاں جہاں فرانس کی نوآبادیات تھیں وہاں آج بھی فرانسیسی زبان بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ یوں بھی دُنیا کی دُوسری بڑی زبان فرانسیسی ہے۔ فرانس فنون لطیفہ کا اہم مرکز رہا ہے۔ بڑے اَدیب، فلاسفر، موسیقار، مصوّر ، فن کار پیدا ہوئے۔ دُنیا میں سب سے زیادہ پرفیوم اور اس کی اقسام فرانس کی دریافت ہے۔ فیشن ڈیزائن اور تنوع کا مرکز فرانس اور اس کا دِل پیرس ہے۔

……اٹلی……

اٹلی کا شمار ایک بڑی قوت اور معیشت کے طور پرہوتا ہے۔ اس کی سالانہ آمدنی دو ٹریلین سے زائد اور فی کس سالانہ آمدنی بتیس ہزار ڈالر کے قریب ہے،جبکہ رقبہ تین لاکھ پندرہ ہزار مربع کلومیٹر اور آبادی چھ کروڑ سے زائد ہے۔ یہ کاروں کی صنعت، پارچہ بافی، الیکٹرونک کی مصنوعات، مشینوں کی تیاری، چمڑے کی صنعت میں اپنی شہرت رکھتا ہے۔ بحیرۂ روم کے ساحلوں اور روم کی تاریخی عمارات میں سیّاحوں کا ہجوم نظر آتا ہے۔ ایک دور میں ہالی ووڈ کے بعد اٹلی فلموں کا بڑا مرکز تھا بلکہ ہالی ووڈکے اداکاروں میں نوے فیصد فن کار اطالوی تھے۔ 

امریکہ میں اطالوی باشندوں کو مشکوک نظروں سے دیکھا جاتا تھا۔ بیسویں صدی کے اوائل میں بڑے بڑے مافیا گروہ اطالوی تھے۔ گن کلچر کو عام کرنے میں اطالوی باشندے نمایاں تھے۔ یہ اپنی خوبصورتی کے حوالے سے بھی نمایاں تھے۔ ان کےگھرانوں میں مشرقی کلچرنمایاں ملتا ہے۔ خاندانی روایات کی زیادہ پاسداری کرتے ہیں۔ روایت پسند اور توہم پرست بھی ہوتے ہیں۔ تاریخی اعتبار سے اٹلی رومن ایمپائر کا مرکز اور تاریخ کااہم حصہ رہا ہے۔ سیّاحت سے سالانہ اربوں ڈالر کی آمدنی ہے،غرض دُنیا کا اہم اور امیر ترین ملک ہے۔

……کینیڈا……

کینیڈا رقبہ کے لحاظ سے دُنیا کا دُوسرا بڑا ملک ہے جس کی سرحد امریکہ سے ملتی ہے۔ سالانہ آمدنی دو ٹریلین سے زائداور سالانہ فی کس آمدنی چوالیس ہزار ڈالر کے قریب ہے۔ کینیڈا میں جمہوری پارلیمانی نظام رائج ہے،مگر برطانیہ کی طرح روایتی او رَسمی طور پر تاج برطانیہ کینیڈا کا سربراہ ہے، جبکہ ملک کے آئینی سربراہ جسٹن ٹروڈو ہیں۔ 

کینیڈا کو دُنیا کے دس مہذب ترین ملکوں میں شمار کیا جاتا ہے۔جمہوریت پسند اور پُرامن ملک ہے۔ تعلیم، صحت عامّہ، انفرا اسٹرکچر اور امن عامّہ کے نظام قائل ستائش ہیں، ہر سال تعلیم، تحقیق اور صحت عامّہ پر بہت رقم خرچ کرتا ہے۔کینیڈا میں دُنیا بھر کے تارکین وطن کی بڑی تعداد آباد ہے۔

ملک میں جمہوری روایات بہت مستحکم ہیں۔ تحریر اورتقریر کی آزادی قابل ستائش ہے۔ کہا جاتا ہے کہ کینیڈا کے گھنے جنگلات کے علاوہ ملک قدرتی وسائل اور قیمتی معدنیات سے مالا مال ہے۔ سترھویں صدی میں برطانیہ نے اس خطّہ کو دریافت کیا جبکہ فرانس بھی اس طرف نظر رکھتا تھا۔ 

یورپی آبادیوں کی آمد کے ساتھ ہی وہاں کی مقامی آبادی سے جھڑپیں شروع ہوئیں،پھر برطانیہ اور فرانس کی بھی کشمکش شروع ہوئی،تاہم کینیڈا کو اُنیسویں صدی میں آزاد ریاست تسلیم کیا گیا۔ ایک حصہ پر فرانس قابض رہا اس لئے کینیڈا کی دو قومی زبانیں انگریزی اور فرنچ قدیم مقامی آبادی ماری گئی کچھ یورپین میں ضم ہوگئی۔

امیرترین شخصیات

برنارڈ آرنلڈ نے ایلون مسک کو پیچھے چھوڑ دیا

فوربز اور بلو مبرگ کی امیر ترین افراد کی فہرست میں ، فرانس سے تعلق رکھنے والے، برنارڈ آرنلڈ، کودنیا کی امیر ترین شخصیت قراردیا ہے۔ فوربز کی ریل ٹایم بلین ایر لسٹ کے مطابق ۷۳ سالہ برنارڈ ا 188.6ارب ڈالر کے مالک ہیں، جبکہ گزشتہ ماہ تک کے جائزوں میں ایلون مسک کو امیر ترین شخصیت قرار دیا جارہا تھا،جن کے اثاثوں اور سرمائے کی مالیت۱76.8 ارب ڈالرہے۔

برنارڈ اآرنلڈ نے بیس برس قبل تعلیم مکمل کرکے اپنے والد کی تعمیراتی کمپنی میں کام کیا، بعد ازاں اپنی تعمیراتی کمپنی شروع کی، اس کے بعد انہوں نے فیشن کی مصنوعات تیار کرنے کی فیکٹری شروع کی اور بیس برسوں میں فیشن ملبوسات، پرفیوم، چمڑے کی مصنوعات کے ساتھ ڈیکوریشن کی بھی بڑی کمپنی کی بنیاد رکھی۔ اس وقت برنارڈ ا کی باون کمپنیاں اور تجارتی ادارے نیو یارک، کیلی فورنیا لندن، روم، پیرسن ٹوکیو اور ہانگ کانگ میں قائم ہیں۔ ہالی ووڈ کے فیشن ملبوسات تیارکرنے میں بھی آرنلڈ کی کمپنی کام کرتی ہے۔ آرنلڈ نے امریکی آزاد معیشت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بیس برسوں میں ترقی کی بلندیوں کو پالیا اور امیر ترین شخصیات مثلاً ایلون مسک، گوتم آدانی اورجیف بیزوز کو پیچھے چھوڑ دیا۔

ایلون مسک

ایلون مسک 1971ءمیں، جنوبی افریقہ میں پیدا ہوئے، امریکہ میں تعلیم مکمل کی، پنسلوانیہ یونیورسٹی سے اعلیٰ سند حاصل کی۔ بعدازاں ایلن نے ملازمت کے بجائے کاروبار شروع کرتے ہوئے ٹوئیٹر کمپنی کا سودا کرنے کا پروگرام بنایا اور چند دوستوں کے ساتھ 94بلین ڈالر میں ٹوئیٹر کمپنی خرید لی ،پھر اس کو مزید ترقی سے ہمکنار کیا۔ ایلون کے بارے میں کہا جاتا ہے وہ دُھن کا پکا ارادہ کا پکا ہے۔

ایلون مسک کے والد گراہم مسک جنوبی افریقہ میں فلاح و بہبود کے معاملات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے۔ ایلون مسک کے اثاثوں کی مالیت185ڈالر سے زائد ہے۔

ولیم ہنری بل گیٹس

ولیم ہنری بل گیٹس ، چند برس قبل تک دنیا کا امیر ترین فرد کہلاتا تھا۔ اب وہ امیر ترین افراد کی فہرست میں تیسرے نمبر پر ہیں ان کے اثاثے 106ارب ہیں۔ بل گیٹس معروف ادارے مائیکرووسوفٹ کے مالک ہیں۔ انڈور گیمز تیارکرکے کمپنی نے بہت شہرت حاصل کی اور خوب کاروبار کیا۔ اس کے علاوہ بہت سے دیگر سوفٹ ویئر تیار کرنے کے بعد مائیکروسوفٹ نے دنیا بھر میں اپنی ساکھ قائم کرلی۔ 

فلاحی طور پر وہ پولیو کے خلاف مہم چلا رہے ہیں۔ بل گیٹس حساس ذہن اور انسانی فلاح کا جذبہ رکھتے ہیں جوکم کاروباری شخصیات میں پایا جاتا ہے۔ انہوں نے بہت بڑا فلاحی ادارہ بھی قائم کیا ہے، جس نے دنیا میں مہلک وبائی امراض کے خاتمے پر تحقیق شروع کردی ہے۔ ادارہ دنیا میں ناخواندگی اور پسماندگی کے خاتمے کے لئے بھی کوششیں کر رہا ہے۔

گوتم آدانی

گوتم ،بھارت کے شہر احمد آباد گجرات میں 1962ء میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کپڑے کا کاروبار کرتے تھے۔ گوتم نے احمد آباد یونیورسٹی سے گریجویشن کیا۔ کپڑے کے کاروبار کے بجائے تعمیرات کا کام شروع کیا اس دوران انہیں شہر میں تعمیرات کے ٹھیکے ملنے لگے پھر ایک ذیلی پورٹ کی تعمیر کا کام مل گیا جس سے انہیں آگے چھلانگ لگانے کا موقع ملا ،وہ اب تک بارہ بڑی چھوٹی بندرگاہیں تعمیرکر چکے ہیں۔ 80 کی دہائی میں انہوں نے آسٹریلیا میں پورٹ تعمیر کی اس طرح ان کے ادارے تعمیرات کے کام میں مصروف ہوتے چلے گئے ،بعدازاں ،ایئر پورٹ بھی تعمیر کئے اب ممبئی ایئرپورٹ کا تمام کام ان کے سپرد ہے ان کے مجموعی اثاثوں کی مالیت 137ارب ڈالر ہے ، ان کا شمار دنیا کے تیسرے امیر ترین فرد میں ہوتا ہے۔

جیف بیزوز

جیف بیزوز امریکہ کی بڑی کاروباری شخصیت ہیں انہوں نے مختلف بڑے کاروباری اداروں میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ وہ جنوری 1965ء میں امریکہ میں پیدا ہوئے۔ پرشین یونیورسٹی سے گریجویشن کیا۔ فوربز کے مطابق وہ ایک سو سترہ بلین ڈالر کی مالیت کی املاک اور نقد رقم کے مالک ہیں۔ ایمیزون کمپنی کے سربراہ ہیں اور عالمی میڈیا کی ایک اہم شخصیت اور سرمایہ کار مانے جاتے ہیں۔

جیف بیزوز کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ وہ ، نرم دل اور انسانی فلاح پر یقین رکھتے ہیں۔ گزشتہ دنوں جب طوفان سے جزیرہ ہوائی کے باشندوں کے گھربار تباہ ہوگئے تھے، تو سب سے پہلے جیف نے ان کی مدد کی، امریکہ میں بے گھر لوگوں کو چھت فراہم کرنے کے لئے بھی ان کا ادارہ کام کرتا ہے۔ جیف کے ساتھ فلاحی امور میں ان کی اہلیہ میکنزی اسکاٹ بھی ان کا پورا پورا ساتھ دیتی ہیں۔ جیف بیزوز کے اثاثوں کی مجموعی مالیت 113بلین ڈالر ہیں۔

لیری ایلسن

لیری ایلسن اوریکل سوفٹ ویئر کمپنی کے مالک ہیں۔ کمپنی مختلف سوفٹ ویئر تیار کرکے اداروں کو فراہم کرتی ہے۔ یورپی یونین کے لئے بھی یہی کمپنی سوفٹ ویئر بناتی ہے۔ اس کے علاوہ، تیسلاکمپنی کے بھی مالک ہیں ان کے پاس اس کمپنی کے زیادہ شیئرز ہیں یہ الیکٹرونکس کمپنی ہے اور کاریں بنا رہی ہے جو الیکٹرک سے چلتی ہیں۔ امریکہ میں اب الیکٹرک کاریں بنانے پر زور دیا جا رہا ہے۔ 2022 کی فہرست میں، لیری ایلسن دنیا کے چھٹے امیر ترین فرد ہیں۔ جن کے کل اثاثے 103ارب ڈالر سے زیاد ہ ہیں۔

مکیش امبانی

مکیش امبانی 1967ء میں گجرات میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کاروباری فرد تھے۔ انہوں نے گجرات اور مہاراشٹر میں اپنی تعلیم مکمل کی اور ملازمت کے بجائے کاروبار کو ترجیح دی۔ ان کا آئل، گیس اور پیٹروکیمیکل کا کاروبار ہے جو لگ بھگ آدھے بھارت میں پھیلا ہوا ہے۔ گزشتہ سال انہوں نے اپنی بیٹی کی شادی میں تقریباً چالیس کروڑ سے زائد رقم خرچ کی جس پر کچھ بھارتی حلقوں نے نکتہ چینی بھی کی تھی۔ مکیش امبانی کے مجموعی اثاثوں کی مالیت 96 ارب ڈالر سے زائد ہے۔ وہ روایت پسند اور ٹھیٹ کاروباری شخصیت کے طور پر اپنی ایک شناخت رکھتے ہیں۔

لیری پیج

1973ء میں امریکہ میں پیدا ہوئے۔ نوے کی دہائی میں تعلیم مکمل کی۔ وہ کمپیوٹر سائنس کے طالب علم رہے انہیں کمپیوٹر سے بہت دلچسپی تھی۔ اپنے ہم خیال ،ہم مکتب دوست کے ساتھ مل کر ایک کمپنی کی بنیاد رکھی ،انہیں شروع سے تجربات کرنے اور نئی ایجادات کو پرکھنے کا بہت شوق تھا، اسی تگ و دو میں ان کے ذہن میں گوگل جیسی ویب سائٹ بنانے کا خیال آیا، آخرکار انہوں نے گوگل کپنی بناکر دھوم مچادی ۔اس وقت لیری پیج کے مجموعی اثاثے 94 ارب ڈالر پر مشتمل ہیں اور وہ دنیا کے امیر ترین افراد میں آٹھویں فرد کہلاتے ہیں۔

سرگئی برن

سرگئی برن 1978ء میں ماسکو میں پید ا ہوئے۔ ان کے والدین امریکہ ہجرت کر آئے ۔سال 2000ء میں انہوں نے گوگل کے ساتھ اشتراک کیا اور اپنے وژن کے مطابق گوگل میں نئی نئی اخترائیں کیں ،جس سے کمپنی نے ترقی کی اور بہت منافع ہوا۔ سرگئی برن کا کہنا ہے کہ کاروبار کے لئے سرمایہ سے زیادہ وژن اورآئیڈیاز کی اہمیت ہوتی ہے۔ گوگل دنیا کا سب سے بڑا انسائیکلوپیڈیا بن چکا ہے۔ سرگئی برن 86ارب ڈالر کے مالک ہیں۔

مارک زکربرگ

مارک1985ء میں نیو یارک میں پیدا ہوئے۔ ہارورڈ یونیورسٹی سے اعلیٰ سند حاصل کی اور پھر ملازمت کے بجائے چند احباب کے ساتھ کمپیوٹر پروگرامنگ کا سلسلہ شروع کیا۔ سب سے پہلے فیس بک دنیا میں متعارف کرا ی،جلد ہی کمپنی نے ساکھ بنالی اور انہوں نے کمپنی کے شیئرز فروخت کرنے شروع کر دیئے۔ 

چھ سال بعد مارک کا نام امریکہ کے بڑے کاروباری رسائل میں شائع ہونے لگا۔ فیس بکس سوشل میڈیا کا ایک اہم ستون بن کر ابھرا، مگر بعض افراد نے فیس بک کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کر نا شروع کردیا، تاہم فیس بک کروڑوں افراد استعمال کرتے ہیں۔ مارک زکربرگ کے اثاثوں کی مالیت 85ارب ڈالر سے زائد ہے۔