مصوری، ادب، موسیقی، مجسمہ سازی اور رقص، یعنی فنونِ لطیفہ جن موضوعات، مظاہر اور احوال کوپیش کرتے ہیں، وہ اپنی معنویت کے دائرے میں ان عناصر کا احاطہ کرتے ہیں جن کی ایک حیثیت دائمی بھی ہوتی ہے، یہی وجہ ہے کہ صدیوں بعد بھی ایک پینٹنگ، مجسمہ، کہانی یا شعر نئے عہد کے لوگوں تک اپنے معنی اور کیفیت کا ابلاغ کرتے ہوئے نئے زاویے سے دیکھے جانے کی ضرورت کا احساس دلاتا ہے۔ نئے زمانے کے لوگ اپنے وقت کے تناطر میں اس کو سمجھتے اور اس سے محظوظ ہوتے ہیں۔
اس طرح ایک تخلیقی تجربہ عہد بہ عہد سفر کرتے ہوئے اپنے زندہ اور بامعنی ہونے کا ثبوت دیتا ہے۔ وقت کی قید اور فضا کی گرفت سے اُس کی آزادی یہ بتاتی ہے کہ انسانی وجود بے شک فانی ہے لیکن اس کا کام کچھ ایسے عناصر کا حامل ہوسکتا ہے جو بقا کا سامان رکھتے ہیں۔ تاہم اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ فنونِ لطیفہ ایک سطح پر اپنے زمانے، اُس کے مزاج، رجحانات اور انسانی صورتِ حال کا اثر بہرحال قبول کرتے ہیں۔
یہی وہ شے ہے جو کہ ان فنون میں عصری حسیت کو راہ دیتی اور اگلے زمانوں تک کی ترسیل کی صورت پیدا کرتی ہے۔ سویہ کہا جاسکتا ہے کہ تخلیق اور فن کی شناخت کے حوالوں میں ایک حوالہ زمانی یا تاریخی نوعیت کا حامل بھی ہوتا ہے۔ اسی حوالے کے ذریعے ایک سماج کے تہذیبی، ثقافتی اور فنی امتیازات کے نقوش ابھرتے اور تاریخ کے صفحات میں محفوظ ہوتے ہیں۔ اس لحاظ سے ان فنون کے سالانہ جائزے کی اہمیت واضح ہوتی ہے۔ ایسے جائزے کے ذریعے فن میں ہونے والی پیش رفت اور اس پر مرتب ہونے والے خاص زمانی اثرات کو سمجھنے میں بھی مدد ملتی ہے۔
تخلیقی اور فنی صورتِ حال پر بات کرتے ہوئے ہمیں اس عہد کی جغرافیائی، سماجی، سیاسی اور معاشی حقیقتوں کو بھی پیشِ نظر رکھنا چاہیے۔ مثال کے طور پر ۲۰۲۲ء کو کووڈ۔19 سے نجات کاسال کہا جائے گا، یعنی ۲۰۲۰ء کے بعد کرئہ ارض کی انسانی آبادی نے محسوس کیا کہ اس سال میں آکر اسے اس ہول ناک وبا کے چنگل سے آزادی نصیب ہوئی ہے جس نے اس کرے کی پوری انسانی آبادی کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا اور کوئی خطہ ایسا نہ تھا جہاں اس بیماری نے موت کا رقص نہ دکھایا ہو۔ محاورۃً نہیں ،حقیقت میں اس وائرس نے محمود وایاز، یعنی امیر وغریب سب کو خوف اور وحشت کی ایک ہی صف میں لاکھڑا کیا تھا۔اس طرح یہ سال وبا سے نجات کا سال ٹھہرتا ہے۔
کسی بھی اعتبار سے دیکھا جائے، واقعہ یہ ہے کہ کووڈ۔۱۹ شدید نوعیت کا انسانی تجربہ تھا۔ ادب و فن کی دنیا اس نوع کے تجربات سے ہمیشہ مہمیز پاتی اور انھیں اظہار کا موضوع بناتی آئی ہے، لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ اس مسئلے کے بارے میں یوں تو شعر و ادب اور مصوری وغیرہ میں تخلیق کاروں اور فن کاروں کا ایک ردِعمل سامنے آیااور انھوں نے اس وبا کے زیرِ اثر انسانی ذہن، مزاج اور زندگی پر ہونے والے اثرات کو کسی نہ کسی انداز سے اورایک حد تک اپنے فن کا موضوع بھی بنایا ہے، لیکن اس حقیقت کے اعتراف میں ہرگز تأمل نہیں ہونا چاہیے کہ کوئی بہت بڑا تخلیقی اور فنی شاہکار اس مسئلے اور اس کی صورتِ حال کے ذیل میں بہرحال اب تک سامنے نہیں آیا ہے۔
ظاہر ہے، اس کی وجہ بھی ہے، اور وہ یہ ہے کہ یہ تجربہ انسانی تاریخ میں اپنی نوعیت کا ایک بالکل الگ اور نہایت گمبھیر تجربہ تھا۔ اب سے پہلے وبائیں مختلف معاشروں پر گزرتی رہی ہیں، لیکن ان کے اثرات کا جغرافیائی دائرہ کبھی اتنا بڑا نہیں ہو اجتنا کووڈ۔19 کا ہوا تھا۔ اس وبانے تو انسانی احساس اور اس کے روابط کے معاملے میں بے حد شدید بے بسی اور محرومی کا تجربہ انسان کودیا تھا،جس کی اس سے پہلےکسی دور میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ اتنے بڑے اور گہرے تجربے کو تخلیقی سطح پر لانا اورفن میں بیان کرنا آسان ہرگز نہیں ہوتا۔ یہ یقینا وقت طلب ہے۔ ممکن ہے کہ آنے والے زمانے میں ایسے فن پارے پیش کیے جائیں جو وبا اور اس کی پیدا کردہ صورتِ حال کو سمجھنے اور دیکھنے کے خاص زاویے لیے ہوئے ہوں۔
پاکستان میں ۲۰۲۲ء میں ہونے والی مصوری کو پیشِ نظر رکھا جائے تو سب سے پہلے اس امر کا احساس ہوتا ہے کہ اس سال میں ہمارے مصور کام تویقینا کرتے رہے ہیں، لیکن کوئی نمایاں فنی جہت یا کوئی بڑا تخلیقی تجربہ، کوئی بڑا فکری سوال یا پھر احساس کی کوئی شدید لہر مصوری میں سامنے نہیں آئی ہے۔ خیر یہ کوئی ایسی اچنبھے کی بات بھی نہیں ہے۔ اس لیے کہ کوئی بڑا اور غیر معمولی فن پارہ روز روز تخلیق نہیں ہوتا۔
علاوہ ازیں احساس یا فکر کی کوئی اہم رو بھی آئے دن فن کی دنیا میں سامنے نہیں آتی۔ تخلیق اور فن کی دنیا میں کام ہوتے رہتے ہیں، ان میں سے کچھ خاص اور الگ اہمیت کے حامل اور توجہ طلب بھی ہوتے ہیں، لیکن اس بلندی تک بہرحال نہیں پہنچتے جو کسی فن پارے کو ایک عہد کے امتیاز کی علامت بنا دیتی ہے اور اس کے سفر کے لیے وقت کی شاہراہ کو کھول دیتی ہے۔
تاہم اس عرصے میں تخلیق ہونے والے فن پارے ایسے ضرور ہیں کہ ان کی طرف سے اغماض نہیں برتا جاسکتا۔ اس کے دو بنیادی اسباب ہیں۔ پہلا یہ کہ ہمارے مصور اپنے عصر کی انسانی، سیاسی، سماجی، ذہنی اور وجودی صورتِ حال سے اپنا ایک رشتہ بہرطور قائم رکھے ہوئے ہیں اور اسے اپنے فن کے دائرے میں برتنے اور سمجھنے کی ضرورت و اہمیت کا شعور رکھتے ہیں۔ دوسرا یہ کہ اس عہد نے تخلیق کاروں کو مثبت یا منفی، اس سے بحث نہیں، لیکن کچھ نہ کچھ ایسے موضوعات اور وہ فضا ضرور فراہم کی ہے جو فن کارانہ جستجو کو کسی نہ کسی انداز سے تحریک دیتی ہے۔
تخلیقِ فن کا معاملہ ریاضی کی کسی مساوات جیسا براہِ راست، سیدھا اور قطعیت والا نہیں ہوتا،یہ ایک پیچیدہ اور قدرے پراسرار عمل ہوتاہے۔ اشیا، افراد، حالات، وقت، کیفیات، نظریات، مشاہدات اور تجربات— غرضے کہ ہر شے فن کار کے لیے ذہنی اور جذباتی حوالے سے مہمیز کا ذریعہ ہوتی اور خام مواد کا درجہ رکھتی ہے، لیکن ضروری نہیں کہ ان میں سے کسی بھی چیز کی طرف دو فن کاروں کا رویہ اور ان کا طرزِ احساس ایک جیسی ہو،دونوں بالکل الگ بلکہ باہمی طور پر متضاد صورت میں بھی اپنا اظہار کرسکتے ہیں۔
دل چسپ بات یہ ہے کہ متضاد رویوں کا یہ اظہار اپنی جگہ لایعنی بھی نہیں ہوگا، بلکہ اپنے اپنے انداز سے ہر فن پارہ اپنے عہد کی حسیت سے اپنے رشتے کا اثبات کرتے ہوئے اس کی معنویت کو اجاگر کرتا ہوا نظر آئے گا۔مثال کے طور پر اگر ہم راشد رانا اور عمران قریشی کے فن پاروں کو پیشِ نظر رکھیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ ان دونوں کے یہاں اپنے عہد کی سیاسی اور سماجی صورتِ حال اور اس کے انسانی ذہن و دل پر اثرات توجہ کا مرکز ہیں۔ دونوں سینئر آرٹسٹ ہیں اور بہ یک وقت مختلف میڈیمز میں اظہار کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ خطوط و الوان میں دونوں کا اسلوب اپنی ایک جاذبیت کا حامل نظر آتا ہے۔
ان دونوں فن کاروں نے اگرچہ اس عہد کے ایک ہی موضوع کو فوکس کیا ہے، لیکن اپنے رنگوں اور ٹریٹمنٹ میں دونوں کے کام کی نوعیت الگ ہو جاتی ہے۔مثال کے طور پر راشد رانا کے یہاں اس عہد کے انسان کی خارجی دنیا اپنے دبیز رنگوں اور ایک دوسرے سے گزرتے، ٹوٹتے اور باہم مدغم ہوتے خطوط انسانی احساس کی تشکیل اور اس کی کیفیات کی تالیف میں کردار ادا کرتے نظر آتے ہیں۔ عمران قریشی کے یہاں رنگوں کی گھٹتی ،بڑھتی اور ڈوبتی ابھرتی لہریں ان کے اطراف کی زندگی کا احوال بیان کرتی ہیں۔ ان کے یہاں باہم در آویزاں خطوط اس عہد کی سماجی و اجتماعی نفسیات اور فرد کے ذاتی و انفرادی، ذہنی اور حسی تجربات کو نمایاں کرتے ہیں۔
یوں تو سیاست اور سماج دونوں ہی فن کاروں کے لیے ہمیشہ سے خاص توجہ کا مرکز رہے ہیں، لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ جدید عہد میں یہ اور اس سے منسلک دوسرے موضوعات اور مسائل جدید مصوری اور فن کار کے لیے بنیادی سروکار کا درجہ رکھتے ہیں۔ اس عہد میں بالخصوص سیاست عالمی سطح پر جس طرح ملکوں کے جغرافیہ اور ان کی تہذیب و سماج پر اثر انداز ہو رہی ہے اور ان کی طرف جیسے جارحانہ رویے کا اظہار کر رہی ہے، اس سے صرف سیاسی میدان میں نئے مناظر سامنے نہیں آرہے، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ انسانی سماج پر بھی اس کے گہرے اثرات دیکھے جاسکتے ہیں۔ آج کی دنیا میں انسانی سائیکی اور اس کاطرزِ عمل دونوں براہِ راست اس کی زد میں ہیں۔ راشد رانا اور عمران قریشی نے اپنے فن پاروں آج کے انسان کے احساس کے اس مسئلے کو دیکھنے اور فنی دائرے میں سمجھنے کی کوشش کی ہے۔
بعض فن کار اپنے عہد، اس کی صورتِ حال اور مسائل سے لاتعلق تو ہرگز نہیں ہوتے، لیکن اُن کے یہاں اس کا اظہار براہِ راست نہیں ملتا۔ اس کے برعکس وہ اپنے تہذیبی عناصر اور ثقافتی مظاہر کو فن میں نمایاں کرتے ہوئے سیاست کے تکدر کے بارے میں اپنے فن کارانہ رویے کا اظہار کرتے ہیں۔ فوزیہ خان ہمارے عہد کی ایسی ہی ایک فن کارہ ہیں۔ ان کے فن پاروں میں سیاست کی افراتفری اور سماج کے مسائل بھی گہرے احساس کی صورت اور ثقافتی عناصر سے ہم آمیز ہو کر سامنے آتے ہیں۔ کووڈ۔19 کی پیدا کردہ انسانی وحشت اور سماجی خلفشار کے منظرنامے میں فوزیہ خان کی توجہ کا مرکز وطنِ عزیز کے رنگا رنگ کلچر کا ایک نمایاں عنصر رہا۔
انھوں نے اس وقت میں شمالی علاقہ جات اور خاص طور پر گلگت، چترال کی سماجی زندگی اور ثقافتی انفرادیت کو اپنے فنی اظہار کا موضوع بنایا ہے،ان فن پاروں میں ان علاقوں کی انسانی زندگی، اس کے سماجی احوال کے مختلف مناظر اور ثقافتی مظاہر فن کارانہ مہارت اور خوبی کے ساتھ ابھارے گئے ہیں۔فوزیہ خان کی اس نئی سیریز کے فن پارے بظاہر ایک خطے کی زندگی کے اور اس کی مختلف انفرادی اور اجتماعی کیفیات اور احوال کو فن میں ڈھالنے سے عبارت ہیں۔
ان فن پاروں میں دکھائی دینے والی لطافتوں اور فنی باریکیوں کی داد اپنی جگہ، لیکن اس کے ساتھ توجہ طلب بات یہ بھی ہے کہ ایک ایسے عہد میں جب دنیا کا سیاسی و سماجی منظر وحشت اور خلفشار سے بھرا ہوا نظر آتا ہے، فوزیہ خان کا فنی شعور اپنی زندہ اور توانا ثقافت کی طرف متوجہ ہوتا ہے، آخر اس کی بنیاد کس شے پر ہے؟
دراصل یہ اس امر کا اظہار ہے کہ عصری زندگی میں جب بے ثباتی اور وحشت کا سامان اس درجہ بڑھ جائے کہ انسانی زندگی پر اس کے مہیب اور احساس و شعور کو معطل کرنے والے سائے گہرے محسوس ہونے لگیں تو ایک فن اس کیفیت سے نکلنے اور اس کے اثرات کو زائل کرنے کے لیے فطرت کی اصل اور خالص صورتوں کی طرف پلٹ کر دیکھتاہے۔ فوزیہ خان نے ایسا ہی کیا ہے۔ ان کی چترال سیریز فن کار کی خالص فطرت سے وابستگی کو بھی ظاہر کرتی ہے اور اس عہد کے دبائو سے باہر آنے کا راستہ بھی کھولتی ہے۔
اس عرصے میں عائشہ خالد، عدیل الظفر، صبا قزلباش، احمر فاروق اور محبوب جوکھیو وہ فن کار ہیں جن کے یہاں پاکستان کی سماجی زندگی اور سیاسی صورتِ حال پر زیادہ توجہ دی گئی ہے۔ انہوں نے مختلف عوامل و عناصر کو اپنے فن میں بروئے کار لاتے ہوئے ہمارے معاشرے،اس عہد کے انسانی احوال اور کیفیات کو پیش کیا ہے۔ اہلِ دانش کہتے ہیں کہ کسی معاشرے میں بنیادی حقائق کی یکسانیت کے باوجود ہر باشعور اور حساس فن کار اپنی سطح پر اور اپنے انداز سے زندگی کا کوئی نہ کوئی الگ رُخ لاتا اور کسی نئی جہت کو نمایاں کرتا ہے۔
گویا جتنے تخلیق کار ہیں، زندگی بھی پھر اتنے ہی روپ بہروپ رکھتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک معاشرے اور ایک ہی عہد کے فن کار جب اپنی فن کارانہ کاوش کو سامنے لاتے ہیں تو ان کے یہاں زندگی متنوع صورتوں اور نو بہ نو کیفیتوں میں رونماہوتی ہے۔ ان کے فن پارے کہیں اپنے عہد کی کسی ایک جہت کو ابھارتے ہیں تو کہیں کسی ایک سماجی اور اجتماعی رُخ کو نمایاں کرتے ہیں۔ اس زمانے میں عائشہ خالد کے یہاں سماجی، عدیل الظفر کے یہاں سیاسی، صبا قزلباش کے یہاں فرد کی داخلی، احمر فاروق کے یہاں خارجی دبائو کا سامنا کرتے فرد، محبوب جوکھیو کے یہاں فرد کے احساس کو متغیر کرتے عناصر کو جس طرح فن کا حصہ بنایا گیا، اس سے فن کاروں کی اپنی اپنی انفرادی صلاحیت ہی سامنے نہیں آتی بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ایک سماج کے بنتے بگڑتے احوال کا نقشہ بھی مرتب ہوتا ہے، جس کے ذریعے عصری حسیت کو سمجھنے کا موقع ملتاہے۔
ایس ایم نقوی نے اس دوران میں جو فن پارے تخلیق کیے، ان میں ایک نمایاں قسم کی بے رنگی، اداسی، خوف، تنہائی اور لایعنیت کا گہرا احساس نمایاں ہے،یہ فن پارے دراصل کووڈ۔۱۹ کی دنیا میں انسانی احساس اور اس کو درپیش صورتِ حال کو سامنے لاتے ہیں۔ اس وبا نے جس طرح انسان کی زندگی کو جبر کے تجربے اور اس کے وجود کی بے مایگی کے گہرے احساس سے دوچار کیا ہے، نقوی نے اس کو بیان کرنے کے لیے ایسے اسکیچز اور تصویریں بنائی ہیں جو پینسل اور پین کی لکیروں سے وجود میں آئی ہیں، ان میں رنگ استعمال ہی نہیں کیے گئے۔
بے رنگی یا پھیکے پن کا یہ تأثر اس دور کی پوری فضا کا غماز ہے۔ ان تصویروں میں سب سے اہم شے وہ کیفیت ہے جو نقوی نے بڑی مہارت سے ان فن پاروں میں نظر آنے والے چہروں پر ابھاری ہے۔ یہ کیفیت فرد کے داخل کا حال ہمیں اس انداز سے سناتی ہے کہ اس کی ذاتی زندگی اور سماجی منظرنامے دونوں پر گزرنے والی ابتلا اور ملال کا عکس پوری طرح ابھر کر سامنے آجاتا ہے۔ یوں اس عہد کا ایک ہول ناک مسئلہ اپنے گہرے اثرات کے ساتھ قابلِ فہم ہو جاتا ہے۔ فن کی یہی جہت اس کی معنویت کو سامنے لاتی ہے۔
اے ایس رند، کی پینٹنگ انسانی اعضا اور چہروں کے الگ خطوط کی وجہ سے بھی پہچانی جاتی ہے، لیکن ان کے یہاں رنگوں کا امتزاج، پینٹنگ کے پس منظر اور پیش منظر میں بیان کی گئی کیفیات جو درحقیقت انسانی وجود کااحوال بیان کرتی ہیں، ان سب کا بھی رند کی فن کارانہ شخصیت کے اظہار اور ان کے فن کی شناخت میں بھی ایک خاص کردارنظر آتاہے۔ اس زمانے میں رند کی تصاویر میں پیش کیے گئے کرداروں پرغور کیا جائے تو وہ بہ یک وقت حقیقی اور علامتی حیثیت کے حامل نظر آتے ہیں۔رند نے ان کرداروں کو پیش کرتے ہوئے ایک خاص اہتمام کیا ہے،وہ اس طرح کہ ان کرداروں کے لباس کے رنگوں کو شوخ اور ان کے وجود کے رنگ کو پھیکا اور مدھم رکھا ہے۔
اس طرح یہ کیفیت فرد اور اس کے سماج کے منظرنامے کو ایک ہی وقت میں معرضِ اظہار میں لاتی ہوئی محسوس ہوتیہے۔ رند اپنی تصویروں میں اشعار اور مصرعے بھی استعمال کرتے ہیں جو ان کی پینٹنگ کے معنی اجاگر کرنے میں مفید معلوم ہوتے ہیں اور دیکھنے والے ایک خاص زاویے سے ان کی پینٹنگ کو دیکھتے ہوئے اس میں پیش کیے گئے احوال کو سمجھنے میں آسانی محسوس کرتے ہیں۔ اس دورانیے کے فن پاروں میں جو نسوانی کردار رند کے یہاں آئے ہیں، ان کے ذریعے اس عہد کے نسائی شعور کا ابلاغ بھی ہوتاہے۔
اقبال درانی کے فن میں کبوتر، عورت اور پھول کو خصوصی حیثیت حاصل ہے۔ اس برس بھی اُن کے یہ علامتیں اُن کے فن میں مرکزی حوالے کا درجہ رکھتی ہیں۔ ان کے تخلیقی عمل میں ان تینوں علامتوں کے اگرچہ مخصوص معنی کا ابلاغ بھی ہوتا ہے، لیکن اگر ایک بڑے سیاق میں غور کیا جائے تو یہ علامتیں انسان کی پوری زندگی کا احاطہ بھی کرتی نظر آتی ہیں۔مثلاً اقبال درانی کے یہاں کبوتر امن کا حوالہ تو ہے ہی، لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ اجتماعیت، برداشت اور ہم آہنگی کے استعارے کی حیثیت بھی رکھتا ہے۔
اس کا صحیح ادراک اس وقت ہوتا ہے جب ہم ان کی مختلف پیٹنگز میں اس استعارے کو فنی شاہکار میں رونما دیکھتے ہیں۔اسی طرح عورت اقبال درانی کے فن میں بہ یک وقت قربت، تعلق، زرخیزی اور تکمیل کے بنیادی عنصر کی حیثیت سے ابھرتی ہے۔ اس کی یہ ساری جہتیں اس کائنات میں اس کے کردار کی اہمیت اور افادیت کا اظہار کرتی ہیں اور وہ اپنے ذاتی اور اجتماعی دونوں حوالوں سے اس کائنات میں اقبال کے اس خیال کی تائید و توثیق کرتی ہے:
وجودِ زن سے ہے تصویرِ کائنات میں رنگ
چترا پریتم کے فن پاروں کااسلوب نمایاں طور سے وہی ہے جو تأثریت پسند پینٹرز کا ہوتا ہے۔انھوں نے اپنے فن کو خصوصیت سے فطرت کے ساتھ جوڑکر رکھاہے،اس لیے ان کی پینٹنگز میں دوسری چیزوں کے ساتھ فطرت کے مظاہر سب سے زیادہ نظر آتے ہیں۔ کھیت کھلیان، دیہی انسان اور دیہات کا فطری ماحول انھوں نے زیادہ پینٹ کیا ہے۔ سمندر سے ان کا لگائو بھی خصوصیت کا حامل ہے۔
ان کے فن پاروں میں سمندر مختلف کیفیتوں اور مزاج کے ساتھ سامنے آتا ہے، اسی سمندر میں سفر کرنے اور لوٹ کر آنے والے جہاز اورکشتیاں بھی ان کی توجہ کا ایک خاص محور رہے ہیں۔ یہ پینٹنگز اس حوالے سے بھی اپنے زمانے کی ابتلا کی روداد بیان کرتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں کہ لوگ جبری ٹھہرائو کے اسیر ہیں اور زندگی جیسے بالکل معطل اور جامد ہو کر رہ گئی ہے۔ ایسی پینٹنگز میں چتراپریتم نے رنگوں کے استعمال سے بھی اس کیفیت اور زندگی کے اضمحلال کو خوبی سے اجاگر کیا ہے۔
مصوری کے حوالے سے ۲۰۲۲ء کے اہم واقعات کا جائزہ لیا جائے توسعید قریشی کی ایک خاص سیریل کی نومبر میں ہونے والی نمائش کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا،جو’’وائس آف موومنٹ‘‘ کے نام سے پیش کی گئی تھی۔ ان فن پاروں میں دو فنون کو جوڑنے کا کامیاب اور شان دار تجربہ کیا گیا تھا، یعنی رقص اور مصوری۔
بیشتر فن پاروں میں رقاصہ کے مختلف پوز اور کیفیات کو اس طرح اجاگر کیا گیا ہے کہ پینٹنگ ٹھہرے ہوئے وقت کی ایک ایسی ساعت معلوم ہوتی ہے جس میں رقص کا آہنگ اور رقاصہ کے وجودکی حرارت کو بھی محسوس کیا جاسکتا ہے۔ ان پیٹنگز میں سعید قریشی نے رنگوں کو اس خوبی سے استعمال کیاہے کہ وہ فن کی بہار اور فن کار کے جمال کو عمدگی سے آمیز کرکے ایک قالب میں پیش کرتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔
سعید قریشی کے اس کام کے حوالے سے یہ بات خاص طور پر توجہ طلب ہے کہ اپنے ظاہر میں تو اس سیریل کی پینٹنگز ریئلسٹ آرٹ کی نمائندگی کرتی ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان فن پاروں میں علامت اور تأثریت کے فنی اسالیب بھی دیکھے جاسکتے ہیں۔
یہ درحقیقت ان کے فن پاروں کی علامتی کیفیت ہی تو ہے جو ۲۰۲۲ء میں انسان اور اس کے فن کی آزادی کو حرکت کے دل کش احساس کے ساتھ پیش کر رہی اور بتا رہی ہے کہ وہ اب وبا اور ابتلا کے موسم سے نکل آیا ہے۔ ساکت، سہمی اور ٹھٹھری ہوئی زندگی اب انگڑائی لے کر اٹھ کھڑی ہوئی ہے اور احساس کے رنگوں سے ایک بار پھر اپنی دنیا کو آرستہ کر رہی ہے۔
مسعود اے خان کے فن پاروں میں تاریخ، سماج اور معاصر زندگی کی مختلف اور توجہ طلب صورتیں جگہ پاتی ہیں۔ان کے یہاں خاص طور سے معاصر حقائق اور تجربات کو بھی فن میں جگہ دینے کا رجحان نمایاں ہے۔ انھوں نے ایک طرف ,Mini Ship of Noah اور Sona Chandi Hati Ghodey کے عنوان سے پینٹنگز بنا کر احساس کے ایک رُخ کو پیش کیا ہے جن میں تاریخ کے شعور اور انسانی مزاج کے مختلف پہلوئوں کو فن پارے میں ڈھالاہے تو دوسری طرف ان کے یہاں ہمیں ’’ٹھنڈا گوشت‘‘ اور ’’ہائر ایجوکیشن‘‘ ایسے فن پارے بھی ملتے ہیں جو معاصر زندگی کے متنوع حقائق اور انسان کے احساس اور اعصاب پر ان کے اثرات کو کامیابی سے اجاگر کرتے ہیں۔
مسعود اے خاں کے یہاں فن پارے کی ایک سے زائد سطحیں دیکھنے والے کے سامنے آتی ہیں بشرطے کہ وہ ان کے خطوط و الوان کی تہوں میں جھانکنے کی صلاحیت رکھتا ہو، اس دوران میں اُن کی جو پینٹنگز سامنے آئی ہیں ان میں دھیمے اور گونجتے دونوں طرح کی رنگوں سے فن پارے تخلیق کیے گئے ہیں، جن کے ذریعے ان میں عصری حسیت بھی ایک خوبی سے نمایاں ہوئی ہے۔
فرح محمود ہمارے جواں سال فن کاروں میں ہیں۔ وہ تخلیقِ فن کے ساتھ آرٹ کی تعلیم و تدریس سے بھی وابستہ ہیں۔ان کی فن کارانہ کارگزاری کو سامنے رکھا جائے تو اندازہ ہوتا ہے فرح نے ایک بڑے دائرے میں اپنی صلاحیتوں اور جوہر کا اظہار کیا ہے۔ ان کے یہاں تاریخ سے ملنے والی ایک داخلی تحریک کا اثر ان فن پاروں میں عیاں ہے جن میں تاریخ کے علائم کوفن کی تہ داری کے اظہار کا ذریعہ بنایا گیا ہے خاص طور سے جن پینٹنگز میں منی ایچر کا اسلوب نمایاں ہے، تاہم ایک جدید فن کار کی حیثیت سے فرح محمود کے یہاں عصری حسیت اور معاصر شعور بھی پوری طرح سامنے آتا ہے، خاص طور پر ایسے فن پاروں میں جہاں انھوں نے عورت کو لوٹس کے پھول کی علامت کے طور پر پیش کیا ہے۔
اسی طرح درخت ان کے یہاں ذات کا نمائندہ ہے جو زمین سے اپنی وابستگی میں فرد اور سماج کے رشتے کو بیان کرتاہے،ان فن پاروں میں انسانی جذبہ و احساس کی مختلف صورتیں اظہار پاتی ہیں۔ وہ ان تخلیقات میں متنوع اور بعض اوقات متضاد رنگوں کے ذریعے بھی انسان کی داخلی دنیا کو سامنے لاتی ہیں۔ فرح نے اس دوران میں جو کام کیا ہے، اس میں ہمارے سماج میں عورت کے لیے امید، اعتماد اور حوصلے کی جہت خاص طور سے نمایاں ہے۔
سطورِ بالا میں ان چند اہم فن کاروں کے ۲۰۲۲ء میں ہمارے یہاں ہونے والی مصوری کا نمایاں منظرنامہ تو کہا جاسکتا ہے، لیکن شاید ایک وسیع اور جامع تناظر نہیں، اس لیے کہ جن پینٹرز اور ان کے کام پر تھوڑی بہت گفتگو کی گئی ہے، ان کے علاوہ بھی کئی ایک اہم مصور اس برس اپنی فن کارانہ جستجو میں منہمک رہے ہوں گے، لیکن ان تک بوجوہ ہماری رسائی نہیں ہو پائی۔ اس کے علاوہ یہ بھی سچ ہے کہ اس نوع کے محدود دائرے والے کام میں ایک عہد کے ہر رجحان اور ہر ایک فن کار کا تذکرہ اور جائزہ ممکن نہیں ہوتا۔
بہرحال مصوری کے حالیہ فریم ورک کو پیشِ نظر رکھا جائے تو یہ بات وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ اس عرصے میں ہمارے جو مصور کام کررہے ہیں، ان کے یہاں فنی جستجو اور انہماک دونوں کو بخوبی دیکھاجاسکتاہے۔یہ فن کار اپنے انفرادی جوہر کو تو اجاگر کر ہی رہے ہیں، لیکن اس کی ساتھ ساتھ ان کے فن پارے اس امر کی بھی گواہی دیتے ہیں کہ وہ اپنے عہد کی انسانی صورتِ حال، مسائل اور حقائق کا بھی گہرا شعور رکھتے ہیں۔ اس شعور کا اظہار تاریخ و تہذیب کے حوالوں، اسالیب اور استعاروں کے ذریعے بھی ہوتا ہے اور فن وثقافت کے مروّجہ اور معاصر پیمانوں اور زاویوں سے بھی،اس لیے کہ زیرک اور وسیع النظر فن کار ان دونوں ہی جہتوں کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے اپنے فن میں بروئے کار لاتے ہیں۔