پاکستان اِن دِنوں ایسے گوناگوں مسائل کا شکار ہے جن کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ ایک جانب ملک سیاسی عدم استحکام کا شکار ہے تو دوسری جانب ہماری سخت اقتصادی مشکلات ہیں جن کے زیادہ تر اسباب ہماری اپنی کوتاہیاں ہیں اور کچھ بیرونی عوامل بھی ہیں۔ پھر یہ کہ اقتصادی مشکلات نے دیگر بہت سے مسائل پیدا کردیے ہیں۔ ان ہی میں سے ایک ہمارا توانائی کا مسئلہ ہے۔
ایک جانب توانائی کے شعبے کاگردشی قرضہ عِفریت بن چکا ہے اور دوسری جانب ملک توانائی کے درآمدی بلوں کی وجہ سے مفلوج ہوتا جا رہا ہے۔ اسے کم کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ طلب کو کم کیا جائے۔ اس ضمن میں حکومت نے بعض اقدامات کا اعلان کیا ہے،لیکن ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ یہ صرف حکومت کا مسئلہ نہیں ہےبلکہ اس سے ہم سب کا مستقبل وابستہ ہے۔
زرمبادلہ کے تیزی سے کم ہوتے ہوئے ذخائر ہمیں کسی بھی غیر محتاط عمل کی اجازت نہیں دیتے ۔ توانائی کو محفوظ انداز میں استعمال کرکے ہم نہ صرف ملک کا قیمتی زرِمبادلہ بچاسکتے ہیں، بلکہ اپنا مستقبل بھی محفوظ بناسکتے ہیں۔
پاکستان میں توانائی کے مسائل نئے نہیں ہیں، لیکن روس اور یوکرین کی جنگ اور عالمی رسد کے بحران کے باعث ان میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ درآمدی ایندھن پر ملک کے زیادہ انحصار نے اسے توانائی کے عدم تحفظ سے دوچار کر دیا ہے، جس میں قیمتوں کے دھچکے، فراہمی میں خلل ، اور ساتھ ہی توانائی کے نرخوں میں مسلسل اضافہ بھی شامل ہے۔ ہم رکازی ایندھن ( ایندھن کا ضمنی تیل، مایع قدرتی گیس اور کوئلے) پر بہت زیادہ انحصار کرتے ہیں، جو ملک کی2021کی توانائی کی سالانہ کتاب کے مطابق، پاکستان کی بنیادی تجارتی توانائی کی فراہمی کا چھیاسی فی صد حصہ بنتا ہے۔ پاکستان کا ایندھن کا درآمدی بل مالی سال 2021-22 میں بڑھ کر 23ارب امریکی ڈالرز تک پہنچ گیا، جو گزشتہ مالی سال کےمقابلے میں ایک سو پانچ فی صد زیادہ ہے۔
پاکستان کی توانائی کا اضافی درجہ (جی ڈی پی کا ایک امریکی ڈالر پیدا کرنے کے لیے درکار توانائی) 2018 میں 4.6میگاجولز (ایم جے) فی ڈالر تھا، جو خِطّے یا دیگر ممالک کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ یہ غیر موثریت درآمدی ایندھن پر ملک کے انحصار کو بدتر کرتی ہے، کیوں کہ اس سے توانائی کی طلب میں اضافہ ہوتا ہے۔ وقتا فوقتا پیٹرول اور گیس کا بحران بھی سامنے آجاتا ہے۔ کچھ عرصے سے عالمی منڈی میں تیل اور دیگر ایندھنوں کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں۔ جب ہم منہگے داموں تیل خریدتے ہیں تو لامحالہ قومی معیشت پر دباو بڑھتا ہے۔ اس کے نتیجے میں عوام کو پیٹرول، بجلی، اور ایندھن منہگے داموں دست یاب ہوتا ہے۔
ماہرین بار بار اربابِ حل و عقد کی توجہ اس جانب مبذول کراچکے ہیں کہ ہمیں توانائی کے متبادل زرایع استعمال میں لانے چاہییں۔ اس حوالے سے شمسی توانائی کا ذکر خاص طور پر کیا جاتا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ اب فیصلہ ساز بھی متبادل ذرایع کو اہمیت دینے لگے ہیں۔ چناں چہ حال ہی میں ملک میں توانائی کے بحران کے پیش نظر وفاقی حکومت نے توانائی کی بچت کے ایک ہنگامی منصوبے کی منظوری دی ہے۔
وزیر اعظم شہباز شریف نے سرکاری دفاتر میں بجلی کی کھپت تیس فی صد کم کرنے کی ہدایت جاری کی ہے۔ کابینہ میں الیکٹرک بائیکس کے استعمال کو ملک بھر میں عام کرنے کے بارے میں بھی تفصیلی بریفنگ دی گئی۔ بتایا گیا کہ ملک میں پیٹرول سے چلنے والی موٹر سائیکلز کو مرحلہ وار الیکٹرک بائیکس سے تبدیل کیا جائے گا۔ اس طرح ایندھن کی مد میں خاطر خواہ بچت ہو گی۔ یہ بھی طے ہوا کہ بجلی کی چوری روکنے کے لیے کریک ڈاون کیا جائے گا۔ ایک اہم فیصلہ یہ ہوا کہ نجی اور سرکاری اداروں کی عمارتوں کو شمسی توانائی پر منتقل کیا جائے گا۔ توانائی کے بحران کے پیش نظر یہ اچھے فیصلے ہیں۔ اگران پر عمل کیا جاتا ہے تو یقینا صورت حال میں بہتری آئے گی۔
برسوں سے ہم یہ بات سنتے آرہے ہیں کہ منہگے داموں خریدے گئے ایندھن سے بجلی پیدا کرنے کے بجائے ہمیں شمسی توانائی کا استعمال شروع کرنا چاہیے۔ سورج کی روشنی سے پیدا ہونے والی بجلی نہایت کم قیمت میں دست یاب ہو گی۔ شمسی توانائی کے استعمال کو فروغ دینے کا فیصلہ اچھا ہے۔ الیکڑک بائیکس کے استعمال سے بھی تیل کی بچت ہو گی۔
ماہرین معیشت بتاتے ہیں کہ توانائی کے متبادل زرایع استعمال کیے جائیں تو سالانہ اربوں ڈالرز کی بچت ہو سکتی ہے اورایسی تجاویز پر عمل کرنے سےمعیشت پر دباو کم کر کے اقتصادی استحکام حاصل کیا جا سکتا ہے۔وہ انٹرنیشنل انرجی ایجنسی کی جانب سے پیش کیے جانے والے ان دس نکات کا بھی ذکر کرتے ہیں جن پر او ای سی ڈی کے ممالک عمل کرکے توانائی کی بچت کررہے ہیں۔ وہ نکات درجِ ذیل ہیں:
جہاں ممکن ہو وہاں ہفتے میں تین دن گھر سے کام کرنا چاہیے۔ ہائی ویز پررفتار کی حد دس کلو میٹر فی گھنٹہ کم کردینی چاہیے۔ ملک کے بڑے شہروں میں اتوار کو گاڑیاں نہ چلائی جائیں۔ پبلک ٹرانسپورٹ سستی کردی جائے۔ کم فاصلہ پیدل یا بائیسکل پر طے کریں۔ کار شیئرنگ سے ایندھن کا استعمال کم کریں ۔ بڑے شہروں میں متبادل گاڑیاں استعمال کی جائیں۔ مال بردار گاڑیوں کا مؤثر استعمال کریں۔
جہاز کی جگہ رات میں تیز رفتار ریل استعمال کریں ۔ الیکٹرک اور زیادہ پائے دار گاڑیاں استعمال کریں ۔متبادل موجود ہونے کی صورت میں کاروباری سفری ضرورت کم کریں۔ منصوبہ بندی کے ساتھ لوڈ مینجمنٹ سے درآمدی ایندھن کا استعمال کم کریں ۔کاروباری سرگرمیوں کے اوقات صبح آٹھ تارات آٹھ بجے مقرر کردے جائیں۔ نمبر پلیٹ کی تقسیم سے گاڑیاں متبادل ایّام میں چلائی جائیں۔
مشکلیں بڑھ سکتی ہیں
ایشیائی ترقیاتی بینک نے 2022کے بارے میں جو آؤٹ لک رپورٹ حال ہی میں جاری کی ہے اس کے مطابق جنوبی ایشیا میں اقتصادی ترقی کی شرح سیلاب کی وجہ سے کم ہوگئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان اور بنگلادیش کے سیلابوں نے اقتصادی ترقی کو متاثر کیا، جنوبی ایشیا میں اقتصادی ترقی کی شرح 6.5 کی بجائے 6.3 فی صد رہے گی، جنوبی ایشیا میں پاکستان دوسرا منہگا ترین ملک ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں منہگائی بڑھنے کی شرح 26.6فی صدہے۔ ایشیائی ترقیاتی بینک نے پیش گوئی کی ہے کہ پاکستان میں روپے کی قدر مزید کم ہوسکتی ہے اور توانائی کے نرخ مزید بڑھنے کا خدشہ ہے۔یعنی ہماری مشکلیں بڑھنے والی ہیں اور توانائی کا شعبہ ہمیں سخت مشکل میں ڈال سکتا ہے۔
پڑوس میں دیکھیں
ہم نہ جانے کیوں اپنی مشکلیں کم کرنے پر توجہ نہیں دیتے۔ لیکن غیر ہمیں بتاتے رہتے ہیں کہ انہیں کس طرح کم کیا جاسکتا ہے۔ مثلا مارچ 2017 میں عالمی بینک نے پاکستان میں سورج کی روشنی سے بجلی پیدا کرنے کے لیے موزوں ترین مقامات پر مشتمل پاکستان سولر میپ جاری کیا تھا۔ اس اقدام کے نتیجے میں پاکستانی اور بیرونی سرمایہ کاروں کو شمسی توانائی کے شعبے میں سرمایہ کاری کے لیے قابل بھروسہ اور عالمی اداروں کا تصدیق شدہ ڈیٹا دست یاب ہو گیا تھا۔
پاکستان سولر میپ کی تیاری کے لیے ملک کے نو مقامات پر سولر میثزرمنٹ اسٹیشن قایم کیے گئےتھے جہاں سے سورج کی پورے سال حدت کا تصدیق شدہ عالمی معیار کا ڈیٹا جمع کیا گیا اور اس کی بنیاد پر پاکستان سولر میپ تیار کیا گیا۔ اس نقشے کی تیاری کے بعد پاکستان ان ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہو ا جہاں سولر میپ دست یاب ہیں۔
یاد رہے کہ یہ نقشہ عالمی بینک کی جانب سے متبادل توانائی کے ذرایع (اے ای ڈی بی) کے قومی ادارے کے اشتراک سے مکمل کیا گیا تھا۔ عالمی بینک اور اے ای ڈی بی کی جانب سے جاری کی گئیں تفصیلات کے مطابق پاکستان سولر میپ جاری کرنے کے بعد پاکستان دنیا بھر میں عالمی بینک کے ملٹی ڈونر ٹرسٹ انرجی سیکٹر مینجمنٹ اسسٹنس پروگرام (ای ایس ایم اے پی) سے استفادہ کرنے والا پہلا ملک بن گیا تھا، لیکن پانچ برس گزرنے کے باوجود ہم اس کی بنیاد پر کسی بڑے غیر ملکی تجارتی ادارے کو ملک میں سرمایہ کاری کے لیے راضی نہیں کرسکے۔ حالاں کہ ہمیں اپنے اچھے ہم سایے ،چین سے سبق سیکھنا چاہیے اور اس ضمن میں اس کا تعاون بھی حاصل کرنا چاہیے۔
چین نے اپنی توانائی کی ضرورتیں پوری کرنے کے لیے نیا منصوبہ تیار کیا ہے جس کے تحت وہ 2025 تک اپنی ونڈ اور سولر انرجی کی صلاحیت دگنی کرلے گا اور تھرمل پاور پلانٹس سے بھی زیادہ بجلی پیدا کرے گا۔ اگر اس نئے منصوبے پر کام مکمل ہوگیا تو اس کا مطلب ہوگا کہ وہ پیرس ماحولیاتی معاہدے کے اہداف قبل از وقت حاصل کرلے گا۔ چین کو یہ ہدف سن 2030 تک حاصل کرنا ہے، تاہم وہ ونڈ اور سولر انرجی کی پیداواری صلاحیت دگنی کرکے اسے 2025 تک حاصل کرنا چاہتا ہے۔ حالاں کہ یوکرین اور روس کی جنگ کی وجہ سے توانائی کے نرخوں میں اضافہ ہو جانے اور اپنی معیشت کو تقویت پہنچانے کے لیے بیجنگ نے حالیہ مہینوں میں تھرمل پاور پلانٹس یا کوئلے سے چلنے والے بجلی پیدا کرنے والے کارخانوں پرانحصار بڑھا دیا ہے۔
چین میں منصوبہ بندی کے مرکزی ادارے کی جانب سے جاری کردہ دستاویز کے مطابق 2025تک ملک کے قومی گرڈ کو33فی صد بجلی کی فراہمی قابلِ تجدید توانائی کے ذرایع سے ہونے لگے گی، جو 2020 میں 29 فی صد تھی۔2025میں قابل تجدید توانائی کے ذرایع سے بجلی کی سالانہ پیداوار تقریباً 3.3 ٹریلین کلو واٹ آور ہوجائے گی اور ونڈ اور سولر انرجی کی مقدار د گنی ہوجائے گی۔
واضح رہے کہ چین اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ قابل تجدید توانائی پیدا کرنے والا ملک ہے۔ اس نے آلودگی پر قابو پانے کے لیے سولر اور ونڈ انرجی کے منصوبوں میں سرمایہ کاری تیز کردی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ چین اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ آلودگی پیدا کرنے والا ملک ہے اور ہر سال لاکھوں لوگ آلودگی کے سبب موت کا شکار ہو رہے ہیں۔
بیجنگ نے ملک میں 2030تک کاربن کا اخراج کم ترین سطح پر لے جانے اور 2060 تک کاربن نیوٹرل بنانے کا عہد کیا ہے۔ نیشنل انرجی ایڈمنسٹریشن کے اعدادوشمار سے پتا چلتا ہے کہ جنوری2021 سے اپریل کے درمیان سرمایہ کاری کے مقابلے میں اس برس کے ابتدائی چار مہینوں میں شمسی توانائی کے پروجیکٹں میں سرمایہ کاری تقریباً تین گنا ہوکر 4.3 بلین ڈالر ہوگئی ہے۔یوکرین کی جنگ کے سبب تیل اور قدرتی گیس کی قیمتوں میں اضافہ کے مدنظر چین کے پالیسی ساز کوئلے کے استعمال پر مزید انحصار کرنے پر زور دے رہے ہیں۔
ہمارا حال
پاکستان شمسی توانائی کی پیداوار کے لیے دنیا کا تیسرا سب سے موزوں ملک ہے جہاں اوسطاً سال کے 315 دن سورج چمکتا ہے۔ لیکن ہم شمسی توانائی سے بجلی پیدا کرنے والے ممالک میں چوالیسویں نمبر پر ہیں۔ بدقسمتی سے توانائی کے اس اہم اور سستے ذریعے سے عوام کو فائدہ پہنچانے کی سرکاری سطح پر کبھی مناسب حوصلہ افزائی نہیں کی گئی ہے۔ حالاں کہ ہماری معیشت پن بجلی کے بعد تیل اور کوئلے سے پیدا کردہ منہگی توانائی پرکافی انحصار کرتی ہے، جس کی وجہ سے شدید موسم گرما میں ہم انتہائی مشکل توانائی کے بحران کا شکار ہوجاتے ہیں۔
عالمی اداروں کے مطابق چین 2020 تک شمسی توانائی سے 253گیگا واٹ بجلی حاصل کرنے کی صلاحیت کے ساتھ پہلے، امریکا 76 گیگا واٹ کے ساتھ دوسرے، جاپان67 گیگا واٹ کے ساتھ تیسرے ، جرمنی 53 گیگاواٹ کے ساتھ چوتھے اور بھارت 40 گیگا واٹ کے ساتھ پانچویں نمبر پر تھا۔ واضح رہے کہ ایک گیگا واٹ ایک ہزار میگا واٹ کے برابر ہوتا ہے۔ اس وقت پاکستان میں بجلی کی پیداواری استعداد تقریباً 40 ہزار میگا واٹ ہے۔ جس میں سے تیل سے 24 فی صد،پانی سے33،کوئلے سے20،گیس سے 12 ، جوہری توانائی سے سات، ہوا سے دو اور شمسی تونائی سے صرف ایک فی صد بجلی پیدا ہو رہی ہے۔
پچھلی حکومت نے متبادل توانائی کو فروغ دینے کے اقدامات کا اعلان کرتے ہوئے تین برس قبل کہا تھا کہ 2025 تک متبادل توانائی کے منصوبوں سے بجلی کی پیداوار 20 اور 2030 تک 30فی صد کر دی جائے گی، جس کا مطلب تھاکہ دس برسوں میں پاکستان کو متبادل توانائی سے 24 ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کے منصوبے لگانےتھے، لیکن اس ضمن میں پچھلی حکومت کے جانے تک کیا پیش رفت ہوئی تھی، یہ ہم سب جانتے ہیں۔
اس نے اس شعبے کورعایت دینے کے بجائے گزشتہ برس کے آغاز میں اس پر محاصل میں کافی اضافہ کردیا تھا جسے بعد میں بعد میں رواں مالی سال کے بجٹ میں واپس لیا گیا تھا، لیکن اس وقت تک اس شعبے کو بہت نقصان پہنچ چکا تھا۔ نئے ٹیکسزکی وجہ سے شمسی توانائی کی لاگت میں تیس فی صد اضافہ ہوگیا تھا اور حکومت کی جانب سے ٹیکس میں اضافہ واپس لیے جانے کے باوجود اس ٹیکنالوجی کے درآمد کنندگا ن اور اسے فروخت اورفراہم کرنے والوں نے اس کا فایدہ عوام تک نہیں پہنچنے دیا تھا۔
حکومت کی طرف سے 2020 میں سولر پینل اور انورٹر پر درآمدی ڈیوٹی میں چھوٹ کی وجہ سے شمسی توانائی کاشعبہ جو دنیا میں سالانہ 20 فی صد کے کی شرح سے بڑھ رہا تھا، پاکستان میں پچھلے مالی سال میں اس میں 50 فی صد اضافہ دیکھا گیا تھا اور اُس مالی سال کے دوران 2380 میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت کے حامل سولر پینلز درآمد کیے گئے تھے۔
یہ حیران کن عمل تھا کہ پاکستان کے نجی شعبے نے صرف ٹیکسوں میں دی گئی چھوٹ کا فائدہ اٹھا کر یہ کارکردگی دکھائی۔ اس کے مقابلے میں امریکا، آسٹریلیا ،یورپی یونین اور بھارت جیسے ممالک صارفین کو 30 سے 50 فی صد سبسڈی بھی دے رہے ہیں تاکہ بجلی پیدا کرنے کے سستے ترین ذریعے سے استفادہ کیا جا سکے، لیکن وہاں صورت حال ایسی نہیں تھی۔
پھر آئی ایم ایف کے دباؤ پرسابق حکومت نے پچھلے برس کے اوائل میں منی بجٹ پیش کرتے ہوئے جو ٹیکس لگائے ان میں شمسی توانائی کا شعبہ بھی شامل تھاجس پر 20 فی صد اضافی ٹیکس لگا دیے گئے تھے۔
اگر گزشتہ مالی سال کے دوران درآمد کیے گئے سولر پینلز کی مجموعی مالیت کا اندازہ لگایا جائے تو یہ تقریباً120 ارب روپے بنتے ہیں۔ اس طرح حکومت کا خیال تھاکہ صرف اس شعبے میں لگائے گئے ٹیکسز سے اسے اضافی طور پر 24 ارب روپے حاصل ہوجائیں گے۔ لیکن دوسری جانب شمسی توانائی سے وابستہ کمپنیز کا خیال تھاکہ اس شعبے کی حوصلہ افزائی کی بجائے حکومت نے اس کا گلا ہی گھونٹ دیا ہے، کیوں کہ سولر سسٹم میں لگائے جانے والے سازوسامان اور کمپنیز کی اپنی آمدن پر سرکاری خزانے کو پہلے ہی تقریباً25 فی صد ٹیکس مل رہا تھا۔ اضافی ٹیکس کے بعد یہ شرح 50 فی صدہو گئی تھی جس کے بعد صارفین کے لیے سولر سسٹم کی قیمت میں 25 فی صد اضافہ ہوگیا تھا، یوں جو ترقی اس شعبے نے صرف ایک سال میں دکھائی تھی وہ دھڑام سے نیچے آگئی تھی۔
اگر ہم شمسی توانائی کے شعبے کی اس ایک سالہ کارکردگی کو ہی ایک نمونے کے طور پر لیں تو ایک سال میں پاکستان میں2380 میگا واٹ صلاحیت کے سولر پینلز درآمد کیے گئےتھے۔ سالانہ 120ارب روپےکے سولر پینلز درآمد کر کے لوگوں نے صرف ایک سال میں 94ارب روپے کی بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت کے سولر سسٹم لگائے، حکو مت کو بالواسطہ اور بلاواسطہ ٹیکسز کی مد میں 40 ارب سے زاید کی رقم دی اور سستی بجلی پیدا کر کے تیل کی درآمد کا بل بھی کم کیا۔ یہی نہیں بلکہ اس شعبے میں ایک برس میں ہونے والے پچاس فی صد اضافے کو اگر ایک پیمانہ مان لیا جائے اور اسی رفتار سے یہ اگلے پانچ برس تک بڑھتا رہے تو یہ شعبہ 19ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت کا حامل ہو گا۔
یہ محتاط اندازہ ہے،کیوں کہ سولر پینل کی استعداد میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ آج سے چند برس پہلے سولر پینل کی افادیت 16فی صد تھی جو اب بڑھ کر 26 فی صد ہو چکی ہے۔ اگلے دس برسوں میں یہ بڑھ کر 60 فی صد ہونے کی توقع ہےجس کا مطلب ہو گا کہ نیشنل گرڈ کا تصور ختم ہو جائے گا۔ بجلی کے کھمبے قصہ پارینہ بن جائیں گے اور گھر کی چھت ہی اس کی بجلی کی تمام ضروریات پوری کرے گی۔ یہ بات ہماری سمجھ میں کیوں نہیں آتی؟
ملائیشیا کی قابلِ تقلید مثال
ہمیں ایندھن کی بچت کے لیے اپنی سڑکوں پر بھی توجہ دینا ہوگی۔ ملائیشیا میں کچھ عرصہ قبل تک موٹر سائیکلز کے بہت زیادہ حادثات ہوتے تھے،جس کی وجہ سے ٹریفک میں کافی خلل پڑتا اور ایندھن کے زیاں کی شکایات عام تھیں۔ اس پر وہاں حکومت نے بعض موثر اقدامات اٹھائے، جن کی وجہ سےحالات میں قابلِ ذکر حد تک بہتری آئی۔
وہاں موٹرسائیکلز کے لیے مخصوص لین بنائی گئیں جو دنیا میں اپنی نوعیت کی سب سے پہلی لین تھیں۔ انہوں نے موٹرسائیکلز اور مسافر بردار گاڑیوں کے مختلف پیٹرنز کو مدِّنظر رکھ کر سڑکیں ڈیزائن کیں۔ 1992ء میں موٹر سائیکلز کی لین میں 14 کلومیٹر کا اضافہ کیا۔ انہوں نے حادثات کی نوعیت، شدّت اور ان کے نتیجے میں آنے والی چوٹوں کا جائزہ لیا اور اس کی روشنی میں حادثات سے قبل اور بعد کی صورت حال کے لیے اپنی حکمتِ عملیاں تبدیل کیں اور انہیں مزید مؤثر بنایا۔
بگوٹا ماڈل
دنیا بھر میں ٹریفک سے متعلق مسائل اور خطرات کم کرنے کے لیے بہت سے ممالک نے نہ صرف ماس ٹرانزٹ نظام تشکیل دیا اور اسے بہتر بنایا، بلکہ ایسی حکمتِ عملیاں بھی وضع کیں، جن کی وجہ سے لوگوں کی جانب سے ذاتی موٹرگاڑیاں اور موٹر سائیکلز یا اسکوٹرز استعمال کرنے کے ضمن میں حوصلہ شکنی ہوئی۔ ترقی یافتہ ممالک کے علاوہ بعض ترقی پزیر ممالک نے بھی ایسی ہی کوششیں کیں، جن کی وجہ سے نہ صرف ٹریفک جام ہونے کی شکایات اور سڑک کے حادثات میں خاطر خواہ کمی ہوئی، بلکہ ایندھن کے زیاں اور ماحولیاتی آلودگی میں بھی کمی واقع ہوئی۔
اس ضمن میں کئی مثالیں دی جاسکتی ہیں، جن میں سے برازیل اور کولمبیا کی مثالیں خاصی اہم ہیں۔ ان ممالک نے اپنے دو شہروں کو پبلک ٹرانسپورٹ کے موثر ہونے اور سڑکوں کو محفوظ بنانے کے ضمن میں دنیا بھر کے لیے نمونہ بنادیا۔ ان نمونوں کی کئی ترقی پزیر ممالک میں تقلید کی گئی۔ بیسویں صدی کے اواخر میں کولمبیا کے شہر بگوٹا میں ٹریفک کی صورت حال ہمارے شہروں جیسی ہی تھی۔
لیکن 1998ء میں اینرک پینالوسا بگوٹا کے میئر منتخب ہوئے تو انہوں نے متعلقہ لوگوں سے یہ سوال کیا کہ جب بگوٹا کے 85 فی صد شہری روزمرہ کے معمولات کے لیے اپنی موٹرگاڑیاں استعمال نہیں کرتے، تو کیا یہ منصفانہ بات ہوگی کہ ہماری سڑکوں پر زیادہ تر جگہیں موٹرگاڑیاں گھیریں؟ اس سوال نے وہاں بہت کچھ بدل دیا اور آج دنیا بھر کے ماہرین شہروں کی منصوبہ بندی کے ضمن میں سوچ بچار کرتے ہوئے اس سوال پر بھی غور کرتے ہیں۔
اینرک پینالوسا نے اپنی اس فکر کے تحت بگوٹا کا نقشہ ہی بدل دیا۔ اس وقت اس شہر کی آبادی تقریباً ستّر لاکھ نفوس پر مشتمل تھی، لیکن انہوں نے اتنی بڑی آبادی کے مسائل کے باوجود اپنا سفر جاری رکھا اور 2015ء تک یہ دنیا بھر میں کام یابی کی نئی مثال بن کر ابھرنے والا شہر بن چکاتھا۔ واضح رہے کہ کولمبیا کے مختلف علاقوں سے ہر سال ایک لاکھ 40 ہزار افراد بگوٹا میں آکر بس جاتے ہیں اور ہر سال بگوٹا میں70ہزار موٹرکاریں رجسٹر ہوتی ہیں۔
اینرک پینالوسانے میئر کی حیثیت سے ذمے داریاں سنبھالنے کے بعد کئی جہتوں میں کام کیا۔ انہوں نے شہر کے باسیوں کے لیے شہر میں زندگی گزارنا سہل بنایا، نئے اسکولز اور سڑکیں بنائیں، غریبوں کے علاقوں تک گندآب کی نکاسی کی سہولتیں پہنچائیں، پارکس کی مرمت کرائی اور آٹو موبیلز کے استعمال کے بارے میں بعض پابندیاں عاید کیں اور سخت پالیسز بنائیں۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے ٹرانسپورٹ کے ضمن میں بعض اصلاحات نافذ کیں۔ انہوں نے بائیسکلز کے لیے70میل طویل راستے بنائے، بہت سی سڑکوں پر موٹرکاروں کا داخلہ ممنوع قرار دے دیا اور رش کے اوقات میں موٹرکاروں کے استعمال پر پابندی عاید کردی۔
انہوں نے صرف اسی پر اکتفا نہیں کیا، بلکہ نمبر پلیٹ کی بنیاد پر گردو نواح سے موٹرکاروں کے شہر میں ہفتے میں صرف دو روز داخل ہونے کی پابندی عاید کی۔ اس پابندی کے ڈرامائی نتائج برآمد ہوئے اور شہر میں سفر کا اوسط وقت 21 منٹ تک رہ گیا، حادثات ،ایندھن کے زیاں اور ماحولیاتی آلودگی میں خاطر خواہ کمی واقع ہوئی۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے معاشرے میں اینرک پینالوسا جیسا ایک بھی شخص نہیں، جو ہمارے شہروں کی حالت بدل سکے، ٹرانسپورٹ کا نظام بہتر کرسکے اور سڑکوں پر ایندھن کے بے تحاشا زیاں کو روک سکے۔