• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پروفیسر خالد اقبال جیلانی

صحابۂ کرامؓ ، تابعین اور تبع تابعین کی طرح امت کے صلحاء و اخیار اور صوفیاء و مشائخ کی زندگی بھی مسلمانوں کے لئے نمونہ ہے۔ ان صوفیاء و مشائخ میں سے ہر کسی نے اپنے اپنے زمانے کے مسلمانوں کے دین و اخلاق، معاشرہ و سیاست کو کس انداز سے سنوارا، تاریخ برصغیر کے اوراق میں یہ تفصیل پوری طرح موجود ہے، لیکن ہمارا اس تاریخ کے مطالعے کا مجموعی طریقہ یہ ہے کہ ہم مسلمان بادشاہوں اور حاکموں کے کردار سے ان کے زمانے کے مسلمانوں کے اخلاق و کردار کا اندازہ لگاتے ہیں، جو صحیح نہیں ہے۔

برصغیرکے صوفیاء و مشائخ ہی نے اس خطے میں دین اسلام کی حقیقی شوکت و عظمت قائم کی۔ اس لئے ان کے حالات و تعلیمات کو برصغیر کے اسلامی عہد کی تاریخ کا ضروری جزو سمجھنا چاہئے ۔ دوسری اہم بات یہ کہ صوفیائے کرام کے حالات بیان کرتے یا لکھتے ہوئے زیادہ تر اُن کی کرامات ہی کو تفصیل سے اُجاگر کیا جاتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان بزرگانِ دین کی اصلی شخصیت ، مقاصد ِزندگی اور حقیقی تعلیمات نظروں سے بالکل ہی اوجھل رہیں۔ ایسا ہی کچھ رویے ہم نے برصغیر کے عظیم صوفی اور عہدساز شخصیت حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ کے ساتھ روا رکھا،حالاںکہ حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ صرف کرامت سازہی نہیں ،بلکہ تاریخ ساز شخصیت ہیں۔

مشیتِ خداوندی کے تحت ساتویں صدی ہجری میں آپ ایک مسلمان درویش او ر صاحبِ علم و حکمت انسان کے روپ میں خراسان کی سر زمین سے ہندوستان میں داخل ہوئے اور پھر آپ نے اپنے علم و معرفت سے اس پورے خطے کو کچھ اس طرح مسخر کیا کہ 800سال کا طویل عرصہ گزرانے کے باوجود آپ کا نام آج بھی ’’سکہ رائج الوقت‘‘ کی مانند چلتا ہے۔ یہ برصغیر پر اللہ تعالیٰ کی نظر انتخاب ہی کا کرشمہ تھا کہ ایک طرف شہاب الدین غوری نے برصغیر میں اسلامی حکومت قائم کی تو دوسری طرف سلطان الہند حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیریؒ نے دعوتی جدوجہد اور اصلاح و تربیت کے خانقاہی نظام کے ذریعے ہندوستان میں اپنی روحانی سلطنت کی بنیاد رکھی ۔ یہی وجہ ہے کہ شاہ عبدالحق محدث دہلوی ؒجیسی شخصیت نے حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ کو ’’سرحلقۂ مشائخ کبار‘‘ کے عالی لقب سے ملقب کیا ہے۔

اسی پسِ منظر میں دنیائے اسلام کے معروف اسکالر سید ابوالحسن علی ندوی ؒ نے اپنی تصنیف تاریخ دعوت و عزیمت میں شہادت دی کہ ’’اگرچہ پہلی صدی ہجری میں ہی یہاں اسلام کے حوصلہ مند دستے آناشروع ہوگئے تھے۔ 93ھ میں محمد بن قاسم ثقفی نے سندھ سے ملتان تک کے علاقے کو اپنی شمشیر و اخلاق سے تسخیر کر لیا تھا اور اس برصغیر میں جابجا د اعیان اسلام کے مراکز و خانقاہیں چھوٹے چھوٹے جزیروں کی طرح قائم ہوچکی تھیں، جیسے ’’بیاباں کی شبِ تاریک میں قندیل رہبانی‘‘، لیکن حقیقتاً ہندوستان کی فتح کا سہرا سکندرِ اسلام سلطان محمود غزنوی کے سر اور مستحکم و مستقل اسلامی سلطنت کے قیام کی سعادت سلطان شہاب الدین محمد غوری کے حصے میں آئی تھی اور آخری طور پر اس کی روحانی تسخیر اور اخلاقی و ایمانی فتح حضرت خواجہ ٔبزرگ شیخ الاسلام معین الدین چشتی کے لئے مقدر ہو چکی تھی‘‘ ۔(تاریخ دعوت و عزیمت جلد سوم ص 21-22)

حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری ؒاور آپ کے خلفاء کے حالات ، تعلیمات اور اقوال و ارشادات پر مبنی مستند کتب کا مطالعہ کیا جائے تو ہمیں مادیت زدہ دور کے مادیت پرست افراد کے لئے بیش قیمت ،انمول اور قابلِ عمل ہدایات و تعلیمات ملتی ہیں۔ حضرت خواجہ معین الدین چشتی ؒ کی تعلیمات کا احاطہ کیا جائے تو چار نکات واضح ہوکر ابھرتے ہیں۔ ان چاروں نکات کو حضرت خواجہ ٔاجمیر کی شخصیت اور تعلیمات کا نچوڑ کہا جا سکتا ہے اور یہ ہدایات اربعہ آج کے مسلمانوں اہل تصوف اور خصوصاً حضرات ِچشت اور معتقدین خواجۂ اجمیر کے لئے ان کی زندگیوں کا دستور حیات اور راہِ عمل ہیں۔

اولاً :حضرت خواجہ معین چشتی ؒ کی شخصیت کا ایک اہم ترین پہلو آپ ؒ کی جرأت و ہمت ہے جس میں آپ کے معتقدین ، محبین اور مسلمانوں کے لئے ایک اہم سبق موجود ہے۔ بعض تنگ نظر، صوفیائے کرام اور دین دار حضرات کو جرأت و بیبا کی سے خالی سمجھتے ہیں، لیکن خواجہ معین الدین چشتی ؒکی ہندوستان آمد اور اجمیر میں قیام کا فیصلہ یہ بتاتا ہے خواجہ صاحب کی شخصیت جرأت و ہمت، شجاعت و بہادری اور الوالعزمی پہاڑ کی مانند مضبوط اور طاقتور تھی۔ 

خواجہ صاحب جس وقت اجمیر میں قیام فرماہوئے ، اس وقت طاقتوراور ظالم راجہ کی حکومت تھی اور یہ ہندومت کا مضبوط گڑھ اور طاقت کا سرچشمہ تھا۔ ایسے مخالف مذہبی ماحول میں کسی غیر ملکی کا اجنبی ملک میں قیام کس ’’دل گردے‘‘ اور عزم و حوصلہ کا فیصلہ تھا، اس کا اندازہ ہر وہ صاحب ِعلم لگا سکتا ہے جس کی نظر تاریخ پر ہو۔ حضرت خواجہ معین الدین چشتی ؒ نے یہ نازک اور خطر ناک فیصلہ کیا اور پرتھوی راج کی حکومت اور ریاستی گڑھ میں اپنی روحانی حکومت کی داغ بیل ڈالی۔ خواجہ صاحب کے اس جرأت مندانہ اقدام کی راجہ اور اس کے حکومتی کارندوں کی طرف سے مخالفت اور مزاحمت بھی ہوئی، لیکن خواجہ صاحب استقامت اور اولوالعزمی کے ساتھ اپنے ارادے اور عزم پر قائم رہے۔

خواجہ صاحب کے اس جرأت مندانہ اقدام کا اگر تجزیہ کیا جائے تو آپ کا یہ اقدام دراصل غلبۂ دین، حق کی جدجہد کی جانب پہلا قدم اور نظام دین کے قیام کی پہلی اینٹ تھا۔ حضرت خواجہ غریب نوازؒ کے اس جرأت مندانہ اقدام کے نتائج بہت جلد ’’پاسباں مل گئے کعبہ کو صنم خانے سے ‘‘ کی شکل میں ظاہر ہونا شروع ہو گئے، لیکن خواجہ صاحب کی دین کے پھیلاؤ اور اشاعت اسلام کی یہ پہلی جرأت مندانہ کوشش اور درس آج کہیں دور دور تک نظر نہیں آتا۔

ثانیاً:خواجہ معین الدین چشتی ؒ کی شخصیت و کردارکادوسرا درس اور نمونۂ عمل اللہ کی رضا کو پانے کی کوشش کرنا ہے۔ رضائے الہٰی کا حصول ہر مومن کا مقصد زندگی اور سلوک کا اہم ترین و ظیفہ ہے۔ اس سلسلے میں حضرت خواجہ معین الدین چشتی لوگوں کی تعلیم و تربیت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’تصوف ناعلم ہے نارسم، بلکہ مشائخ کا ایک خاص اخلاق ہے، جوہر لحاظ سے مکمل ہونا چاہئے۔ صوری (ظاہری) لحاظ سے اس اخلاق کی تکمیل یہ ہے کہ سالک اپنے ہر کردار میں شریعت کا پابند ہو۔ جب اس سے کوئی عمل خلاف شریعت نہیں ہوگا تو وہ دوسرے مقام پر فائز ہوگا جس کا نام طریقت ہے اور طریقت پر ثابت قدم رہے گا تو اسے معرفت کا درجہ حاصل ہوگا اور جب معرفت میں پورا ترے گا تو حقیقت کا رتبہ پائے گا جس کے بعد وہ اللہ سے جو کچھ مانگے گا، اسے ملے گا ۔(دلیل العارفین ص47)

رضائے الہٰی کو پانے کی کوشش خواجہ صاحب کی شخصیت و کردار اور تعلیمات کا نچوڑ ہے اور سب سے اہم ترغیب و تعلیم بھی ۔ اسی لئے خواجہ صاحب نماز، روزہ ، حج اور تلاوت قرآن کو ہر چیز پر مقدم رکھنے کی تعلیم دیتے ہوئے فرماتے ہیں ’’نماز رکنِ دین ہے اور رکن وستون مترادف یا ایک ہی ہیں، اگر ستون قائم رہے گا، گھر کھڑا رہے گا اور جب ستون ہی گر جائے گا تو گھر بھی گر پڑے گا، جس نے نماز کو ترک کیا، اس نے اپنے ایمان اور دین و اسلام کو خراب کیا۔ (دلیل العارفین) مزید فرماتے ہیں کہ جب تو نماز پڑھے تو اس طرح کہ گویا انوارِ تجلیٔ ذاتِ الہٰی کا مشاہدہ کر رہا ہے ‘‘۔ (دلیل العارفین) خواجہ صاحب کا یہ فرمان دراصل صحیح مسلم کی ایک طویل روایت یا حدیث جبریل کے ایک ٹکڑے کی تشریح ہے کہ ’’یا رسول ﷺ بتائیے ’’احسان‘‘ کیا ہے۔ 

ارشاد ہوا کہ احسان یہ ہے کہ جب تم اللہ کی عبادت کرو تو اس طرح کرو کہ گویا تم اللہ کو دیکھ رہے ہو اور اگر تمہیں یہ مقام عبادت حاصل نہ ہو سکے تو اس کا تو یقین رکھو کہ وہ تو تمہیں دیکھ ہی رہا ہے‘‘ ۔ اس روایت کے بارے میں مفسرین و محدثین کا کہنا ہے کہ یہاں احسان سے مراد وہ فکر و فلسفہ اور تحریک و عمل ہے جو ہمارے دینی لٹریچر میں گذشتہ بارہ سو سال سے ’’تصوف کے نام سے موسوم او ر رائج چلا آ رہا ہے۔ غرضیکہ خواجہ صاحب شریعت کی مکمل اتباع اور کامل پیروی کے ذریعہ رضائے الہٰی کے حصول کا طریقہ تعلیم فرماتے ہیں اور اتباع شریعت ذرا سی بھی غفلت اور سُستی کو ناقابلِ قبول اور دین کابد ترین نقصان قرار دیتے ہیں۔

ثالثاً: انسانی ہمدردی شریعت محمدی کا مزاج بھی ہے اور صوفیائے کرام کی بنیادی تعلیم و عمل بھی۔ یہی وہ چیز ہے جس نے اللہ کے بندوں صوفیائے کرام کو تنگ حال و تنگ دست ہونے کے باوجود بڑے بڑے امراء و سلاطین سے زیادہ عوامی مقبولیت و محبوبیت عطا کی ۔ ہندوستان میں مشائخ چشت کے امام اور رہبر و رہنما ہونے کی حیثیت سے خواجہ غریب نواز نے بھی انسان دوستی ، ہمدردی ، رحم دلی اور بے لوث خدمتِ خلق کے ذریعے ایک جہان کو اپنا مرید و متبع اور گرویدہ بنا لیا۔ 

خواجہ صاحب نے انسانیت کی خدمت کا درس دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ ’’بھوکے کو کھانا کھلانا، غریبوں کی فریاد سننا اور حاجت پوری کرنا، اور بھٹکے ہوئے کی مدد کرنا ، دوزخ کی آگ سے بچنے کابہترین طریقہ ہے۔ ‘‘ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے کہ مغفرت لازم کر دینے والی چیزوں میں سے بھوکے مسلمان کو کھانا کھلانا ہے۔ (مستدرک ) خواجہ صاحب ؒکا فرمانا تھا کہ ’’اگر فقیر کے پاس کوئی ضرورت مند اپنی حاجت لے کر آئے اور وہ اپنی کسی عبادت یا ورد و وظیفہ میں مشغول ہو تو اس کے لئے واجب ہے کہ وہ اپنا ورد و وظیفہ چھوڑ کر پہلے اس ضرورت مند کی حاجت پوری کرے۔‘‘ حقیقت بھی یہی ہے کہ تصوف کا بڑا مقصد انسانیت اور خلقِ خدا کی خدمت ہی ہے۔

خواجہ معین الدین کے محبین و معقدین پوری دنیا میں جہاں جہاں ہیں ان پر لازم ہے کہ وہ بغیر کسی دنیاوی غرض اور مادی فائدے کے خدمتِ خلق کا فریضہ انجام دیں۔ خواجہ صاحب کی اس اہم ترین تعلیم کو اختیار کرنے کی دنیاکو جتنی آج ضرورت ہے شاید اتنی ضرورت اُن کی زندگی میں بھی نہیں تھی۔ خواجہ صاحب کے ماننے والے سوشل ورک کے اس نظام کے ذریعے نہ صرف یہ کہ اسلام و مسلمانوں اور تصوف و صوفیائے کرام کے بارے میں پھیلائی جانے والی غلط فہمیوں اور پروپیگنڈے کا ازالہ کر سکیں گے، بلکہ خواجہ صاحب کی طرح اشاعت اسلام اور غلبۂ دین کا فریضہ بھی بڑی آسانی سے انجام دے سکیں گے۔

رابعاً: خواجہ معین الدین چشتی ؒ کی شخصیت و کردار اور خدمات وتعلیمات کا بھولا ہوا سبق اور تعلیم آپ کا پیغام دعوتِ دین ہے، خواجہ صاحب کی خدمتِ خلق نام و نمود، ذاتی مقصد یا منفعت کی وجہ سے نہیں تھی بلکہ اس سب سے ان کا مقصد توحید کا پر چار اور اشاعت اسلام تھا۔ آپ کا مقصد زندگی قرآن و سنت کی تعلیمات اور پیغام کو ہندوستان کے طول و عرض میں عام کرنا اور انسانوں تک پہنچانا تھا۔ 

قرآنی تعلیم اور اسوۂ رسول اللہ ﷺ کے مطابق آپؒ اس کام میں جبر و اکراہ یا زور زبردستی سے مکمل گریز کرتے تھے ،بلکہ اپنے ہر عمل سے اسلام کی دعوت دیتے رہتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ اَن گنت لوگوں نے آپؒ کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا۔ صرف ایک سفر میں جب آپ دہلی سے اجمیر جا رہے تھے، راستے میں سات سو غیر مسلموں نے اسلام قبول کیا ۔ (بزم صوفیہ ص 68)

ان سات سو مسلمان ہونے والے غیر مسلموں میں سے یقیناً بہت سے لوگ حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ کی سیرت و کردار ، اخلاق و اوصاف اور زہد و تقویٰ کو دیکھ کر متاثر ہوئے ہوں گے اور کچھ آپ کی زبانی تلقین و ترغیب سے متاثر ہو کر مشرف بہ اسلام ہوئے ہوں گے۔