سیاست پھولوں کی سیج تو کبھی نہیں رہی، کامیابی قدم چومے تب امتحانات کا سامنا، ناکامی منہ چڑائے پھر چیلنجز، اور یہ اپنے بھی خفا مجھ سے بے گانے بھی ناخوش والا معاملہ شبانہ روز رفاقت رکھتا ہے۔ ایسے ہی حالات سے نبرد آزما ہونا سیاست ہے، اگر سیاست خدمت کا دوسرا نام ہے تو اس میں تین بنیادی چیزوں کے بغیر بیل منڈھے نہیں چڑھتی.1عاجزی ہے تو کیا کہنے بصورتِ دیگر اسےہر حال میں بروئے کار لانا پڑے گا۔ 2۔ محنت سے دامن گیر رہے بغیر سیاست ممکن نہیں۔ 3۔ فہم و فراست کے بغیر دو گام نہیں چلا جاسکتا !
جب باپ نے سیاست کا آغاز کیا تھا تو دادا کا دستِ شفقت عمل انگیز بنا ، اور مقابلہ ایک بہادر اور بین الااقوامی شہرت رکھنے والی آئرن لیڈی بی بی سے ہوا۔ آج پھر ویسا ہی چیلنج کہ ایک بیٹی کا سامنا عہد حاضر کے مقبول ترین سیاسی شخص سے ہے۔ سیاسی تقاضا کہتا ہے کہ روٹھوں کو منانا ، حلیفوں کو ساتھ لے کر چلنا ہوگا اور حریفوں کی سیاسی و غیر سیاسی چالوں پر نظر رکھنا ہوگی۔ بحیثیت عورت بے شمار رکاوٹیں ہوں گی مگر بےنظیر بھٹو کی طرح چل دئیے سو چل دئیے ورنہ منزل تک پہنچنا ممکن نہ ہوگا، اہم بات یہ کہ سیاسی سفر اگر عزم اور نظم سے ہو تو یہ ازخود ایک منزل ہے! بہرحال دوران سفر ملتان سے سابق ممبر قومی اسمبلی وصوبائی اسمبلی اور سابق وزیر حافظ اقبال خاکوانی جیسے مخلصین کو از سرِ نو قریب کرنا ہوگا۔ سندھ سے نظر انداز ہونے والوں سیاستدانوں کے پاس ہی نہیں جانا ہوگا بلاول بھٹو زرداری کے ساتھ سندھ میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ کا در وا کرنا ہوگا اور جنوبی پنجاب میں بلاول بھٹو کو اسپیس دینا ہوگی۔ بلوچستان نون لیگ اضطرابی کیفیات سے گزر کر ٹوٹ پھوٹ کی حدود تک جا پہنچی وہاں تک کا رخت سفر باندھنا ہوگا۔ پورے پنجاب سے جس طرح کی روایتی مزاحمت کا سامنا ضلع گجرات سے، اس پر تحقیق کی ضرورت ہے، وقت آ پہنچا ہے کہ چوہدری شجاعت کی بزرگی اور تجربہ سے بھی استفادہ کیا جائے۔ مخلص ساتھیوں میں چوہدری جعفراقبال سمیت دیگر لوگوں کو گجرات میں مزید مضبوط اور ڈیسنٹ انداز میں متحرک کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ شاہد خاقان عباسی ایسی باکردار اور کھری قیادت کسی بھی سیاسی پارٹی کا انمول اثاثہ ہوتی ہے اور حنیف عباسی جیسے بھی کہاں ملتے ہیں، ایسے لوگ جتنے نم رہیں گے اتنی زرخیزی اور شادابی ملے گی۔ آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان انتخابات کی پذیرائی کا بھی یاد ہوگا سو جہاں وہ ربط چھوڑا تھا وہاں سے شروع کرنا ہوگا۔ کے پی میں مرتضیٰ جاوید عباسی جیسے اخلاص کے پیکر اور امیر مقام جیسے بااثر احباب کامرانی کی چابی ہیں ، سردار مہتاب اور صابر شاہ جیسے گھرانوں کو پھر سے متحرک کرنا بھی ضروری ہے۔ عرصہ دراز سے مسلم لیگ (نواز) کو کراچی بھی پکار رہا ہے مگر تاحال نظرِ عنایت سے قاصر ہے۔
اس وقت پی ڈی ایم حکومت سے عوام بہت مایوس ہیں، وہ لوگ جو عالمی مہنگائی کی نزاکتوں سے آشنا ہیں وہ بھی پی ڈی ایم سے مایوس ہو چکے، گو عمران خان کا پورا اقتدار ایک بھی بناؤ نہ دے سکا ہر سو بگاڑ ہی بگاڑ پھیلا گیا مگر عوام یا آپ کے اپنے لوگ جو شہبازشریف قیادت سے امیدیں باندھ بیٹھے تھے وہ بھی مایوس ہوگئے ، دوسری طرف عمرانی سیاست کی گرتی ہوئی دیواریں پھر سے مستحکم ہوتی نظر آرہی ہیں۔ پنجاب کی حد تک حمزہ شہباز کی قیادت نے بھی بہت مایوس کیا، پرویزالٰہی کے مقابلہ میں مخالف کیمپ سے ایک ممبر صوبائی اسمبلی تک ہم دم اور ہم نوا نہ بنا پائے حالانکہ اوپر مرکز کی زمام اقتدار بھی ابا کے ہاتھ میں تھی جسے سیاسی اعتبار سے فراموش کرنا ممکن نہیں۔
سیاست ایک بہت بڑی حقیقت اور بہت بڑے افسانے کا بھی نام ہے، تاہم ان سب باتوں کے باوجود مسلم لیگ (نواز) کو اس امتحانی دور میں نواز شریف کی پاکستان میں اشد میں ضرورت ہے۔ مریم نواز اور شہباز شریف جتنے بھی بڑے سیاسی فانوس یا برقی قمقمے ہوں لائٹ پوری کرنے والے ٹرانسفارمر کا نام میاں نواز شریف ہی ہے۔ اور بات یہ بھی نہیں بھولنی چاہئے کہ پرویز رشید کی جتنی بھی جمہوری فراست مریم نواز کے ساتھ ہو اور باپ کا جتنا بھی طنطنہ اور طمطراقی مریم کےسنگ ہو کچھ فیصلے لمحوں میں آن دی اسپاٹ بھی کرنا پڑتے ہیں سو سیاسی بالغ نظری کی ایسی فراوانی فراہم ہو گی تو سیاسی بہار ہوگی بصورتِ دیگر خزاں کے سائے بھی آسیب کے سایوں سے کم نہیں ہوتے!
سیاست کی دنیا میں گیس لائٹنگ اور پوسٹ ٹرُتھ کے عناصر اس قدر بڑھ چکے ہیں کہ سب ملمع کاریاں لوگوں کو سیاسی بائیو ٹیکنالوجی لگنے لگی ہیں، یہاں تک عالم ہے کہ 27 منٹ کی گرفتاری کے بعد فواد چوہدری جیسے غیر سنجیدہ سیاستدانوں نے اپنے آپ کو 27 سالہ جدوجہد والے نیلسن منڈیلا سے جا ملایا۔ مریم کی اپنی قید بھی غور طلب ہے والد کے پانامہ سے بدل کر اقامہ بن جانے والے مقدمہ کی کیس ہسٹری بھی کوئی کم پولیٹکل سائنس نہیں لیکن راجہ پرویز اشرف اور یوسف رضا گیلانی جیسی قیادت پر بھی تھیسس کرنا ہوگا، اور یاد یہ بھی رکھنا ہوگا کہ گاہے گاہے اس لیجنڈ سے بھی اوکھے سوکھے ٹیوشن لی جائے جس نے 4380 دن قید میں مسلسل 3285 دن سلاخوں کے پیچھے گزارے اور جمہوریت سے محبت کا نباہ کرکے دکھایا یہی نہیں زرداری مفاہمت کی پی ایچ ڈی سے طلوع ہونے والے ریسرچ پیپرز اور امپیکٹ فیکٹرز کو بھی دیکھنا ہوگا۔
جمہوریت کی اس الجھی ہوئی تانی اور سیاست کی اس بکھری ہوئی بساط میںنہ صرف آصف علی زرداری سے جید سیاست دان اور مقبول ترین رہنما میاں نواز شریف اور عمران خان سر پکڑے بیٹھے ہیں، نیندیں حرام مقتدر کی بھی ہیں۔ اس کشمکش میں معیشت کا پیڑ سوکھنے کے درپے ہے اور موسمی تغیرات نے سب ایکو سسٹم بگاڑ دیے ہیں، زرداری، نواز اور عمران تجربات کے سنگ مریم و بلاول پود کی پیوندکاری اور دیانتداری بھی درکار ہے کہ گلشن کا کاروبار چلے!