• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ضیا جالندھری کا شمار اردو کے صف اوؔل کے جدید شعراء میں ہوتا ہے - 2 فروری 1923 کو جالندھر میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد لاہور منتقل ہو گئے جہاں گورنمنٹ کالج سے انگریزی ادب میں ایم اے کیا۔ 1945سے1939انکے ادبی سفر میں بہت اہم تھے۔ 1942 سے انکی نظمیں اس وقت کے اہم ادبی رسالوں ’’ہمایوں‘‘، ’’ادبی دنیا‘‘، ادب، لطیف، ’’سویرا‘‘، ’’نقوش‘‘ وغیرہ میں چھپنے لگیں۔ ان کی تقریبا” تمام نظموں کا ترجمہ انگریزی اور کئی دوسری زبانوں میں شائع ہو چکا ہے۔ 1945میں ایک مختصر عرصے کے لیے اسلامیہ کالج لاہور میں انگریزی ادب پڑھایا۔ 

دسمبر 1945سے اگست 1947 تک آل انڈیا ریڈیو دہلی سے منسلک رہے اور آزادی کے بعد ریڈیو پاکستان لاہور سے منسلک ہو گئے پھر زیڈ اے بخاری کے زیرنگرانی ریڈیوپاکستان کراچی کی بنیاد رکھی-1949 میں اعلی ملازمت کا امتحان دیا اور مختلف سرکاری محکموں میں اپنے فرائض انجام دیے -1985میں بحیثیت مینجنگ ڈائریکٹر پاکستان ٹیلی ویژن ریٹائر ہوئے۔ اس عہدے پر وہ سات سال فائز رہے۔ ان کا دور ٹیلیویژن کا سنہری دور ثابت ہوا۔

اسی دور میں پی ٹی وی کی ڈاکیومینٹری فلموں کو بین الاقوامی فیسٹیول میں متواتر تین سال تک پہلا انعام ملا۔ اور پی ٹی وی میں بھی ایوارڈ کا سلسلہ شروع کیا گیا- 1989سے 2009 تک ایک معیاری ادبی ماہنامے “علامت” کے مدیر رہے۔ دیگر انعامات کے علاوہ حکومت, پاکستان نے انکی خدمات کے اعتراف میں انہیں “تمغہ حسن,کارکردگی” سے نوازا۔ اس کے علاوہ انکی شاعری کی کتاب کے لئے انہیں “علامہ اقبال قومی ایوارڈ برائے بہترین کتاب 2002” بھی دیا گیا۔ ان کے پانچ شعری مجموعے شائع ہوئے جنکے نام : 1- سرِشام 2- نارسا

3- خواب سراب4-پسِ حرف اور 5- دم صبح ہیں۔

حمید نسیم نے انہیں پانچ جدید شاعروں میں شمار کیاعلی محمد فرشی نے’’ضیا جالندھری - فن اور شخصیت‘‘ قلمبندکیا ،جبکہ پروین شاکر انہیں اپنا استاد اور ’’اپنے عہد کا غالب‘‘ مانتی تھیں۔2 فروری 2023 کو ضیا جالندھری کی سو ویں سال گرہ ہے، اس موقعے پر ان کے حوالے سے خصوصی مضمون نذر قارئین ہے۔

……٭٭……٭٭……٭٭……

ضیا جالندھری مرحوم سے تعارف تو اُن کی شاعری اور حلقۂ اربابِ ذوق کے حوالے سے پہلے بھی تھا، لیکن ملاقات کی صورت پیدا ہوئی حمید نسیم کے توسط سے۔ یہ ۱۹۹۸ء کی بات ہے۔ہمارا لاہور اور اسلام آباد جانے کا پروگرام بنا۔ اُن دنوں حمید نسیم ریٹائرمنٹ کے بعد ریڈیو پاکستان کراچی میں ایڈوائزر کی حیثیت سے منسلک تھے۔ اس زمانے میں ریڈیو پاکستان کراچی ،سوک سینٹر میں منتقل نہیں ہوا تھا، بلکہ ایم اے جناح روڈ پر اپنی تاریخی عمارت میں قائم تھا۔ برابر ہی میں اردو بازار میں ہمارا دفتر تھا۔ معمول تھا کہ حمید نسیم ریڈیو سے فرصت پا کر ہماری طرف آتے اور ڈیڑھ دو گھنٹے وہیں گزارتے۔ خیر، انھیں بتایا کہ ہم لاہور اور اسلام آباد جانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ 

انھوں نے کہا، دونوں شہروں میں کچھ لوگوں سے ضرور مل کرآئیے۔ یہ بات یوں تومشورۃً کہی گئی تھی، لیکن لہجہ حمید نسیم کے مزاج کے عین مطابق بالکل ہدایت کا سا تھا۔ ہم نے عرض کیا، ضرور ملیں گے۔ وہ بولے، اگر وقت کی تنگی یاکسی اور مسئلے کی وجہ سے زیادہ لوگوں سے ملاقات ممکن نہ ہو تو بھی لاہور میں اعجاز حسین بٹالوی اور اسلام آباد میں ضیا جالندھری سے ضرور مل کر آئیے گا۔ میں فون پر اُن سے آپ کا ذکربھی کروں گا۔

یہ پروگرام کسی وجہ سے دو چار ماہ کے لیے ملتوی ہوگیا۔ اس دوران میں حمید نسیم ایک روز اچانک حرکتِ قلب بند ہونےسے اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ بہرحال جب ہم نے سفر کیا تو اُن کی ہدایات کے مطابق ان دونوں حضرات سے ملاقات ہوئی۔ حمید نسیم نے ان حضرات سے ہمارا ذکربہت شفقت سے کیا تھا، بلکہ شاید کچھ بڑھا چڑھا کر، قدرے مبالغے کے ساتھ۔، اس کا اندازہ خاص طور سے ضیا جالندھری سے ملاقات میں ہوا، جب انھوں نے کہا، ’’یار مرزا صاحب، آپ تو جوان آدمی ہیں، میں تو سمجھا تھا کہ کوئی پختہ عمر کے صاحب ہوں گے۔

حمید نسیم نے آپ کا ذکر ہی کچھ ایسے کیا تھا۔‘‘ اُس وقت ہی نہیں بعد میں بھی جب کبھی غور کیا تو خیال ہوا کہ واقعی محبت اور مبالغہ لازم وملزوم ہیں۔ اس کے بعد ضیا جالندھری سے جو تعلق بنا وہ اُن کے انتقال تک رہا۔ ضیا جالندھری نے عمرِ عزیز اعلیٰ سطح کی بیوروکریسی میں گزاری تھی، کچھ نہ کچھ اس کا بھی اثر رہا ہوگا اور یوں بھی وہ حمید نسیم کی طرح طبعاً شدت پسند تو نہیں تھے، لیکن تعلق کی گرم جوشی ان کے یہاں بھی پائی جاتی تھی،کبھی خط و کتابت اور کبھی فون پر اُن سے رابطہ رہتا۔ 

کسی اخبار یا رسالے میں ہماری کوئی چھوٹی موٹی تحریر بھی دیکھتے تو ضرور فون کرکے حوصلہ افزائی کرتے۔ دل بڑھانے کی باتیں وہ بھی حمید نسیم ہی کی طرح کیا کرتے تھے، شاید یہ اس زمانے کے لوگوں کی خاص وضع تھی کہ اپنے چھوٹوں کی بہت دل جوئی کرتے اور ہمت بندھاتے تھے۔ اپنے پائوں پر کھڑا ہونے اور ادب کے مرکزی دھارے میں اپنی جگہ بنانے میں معاون ہوتے۔ اب تو نہ وہ لوگ رہے اور نہ وہ باتیں رہیں۔

اس عرصے میں دوبار ضیا جالندھری کراچی آئے تو بالالتزام ہمارے دفتر بھی آئے، اور دیر تک بیٹھ کر باتیں کرتے رہے۔ عمر رسیدگی آدمی پر اپنے ہی انداز سے اثر انداز ہوتی ہے،ضیا جالندھری پر بھی ہوئی۔ آخر چند برسوں میں پیرانہ سالی کا احساس ان پر شدت سے غالب آگیا تھا، ۔ بڑھاپے نے ان کے اندر اضمحلال بھی پیدا کیا تھا اور کسی قدر دنیا بیزاری بھی طبیعت میں در آئی تھی، اس کے علاوہ کچھ مسائل نسیان نے بھی پیدا ہو گیے تھے، لیکن پرانی باتیں اور اگلے وقتوں کے لوگ اور قصے آخر تک ان کے حافظے میں روشن رہے۔

جب کبھی بات ہوتی، حمید نسیم کو ضرور یاد کرتے اور ازراہِ نوازش ایک فقرہ محبت سے کہتے، ’’بھئی حمید نسیم نے جاتے جاتے بھی کیا احسان کیا ہے مجھ پر، دیکھیے آپ سے ملوا دیا۔‘‘ ان کی دل جوئی سے خوشی ہوتی لیکن اپنی کم مایگی کے احساس سے خجالت بھی، اس کا اظہار جب بھی ہم کرتے تو کہتے، ’’جن لوگوں کو آگے چل کر بڑا بننا ہو، اوپر والا ان کے اندر انکسار بھی پیدا کر دیتا ہے۔ یہ بھی اس کی دی ہوئی دولت ہے۔‘‘

مشاعروں میں تو ہم نے ضیا جالندھری کو کبھی سرگرم نہیں دیکھا، ممکن ہے، اس کا سبب ان کی پیشہ ورانہ زندگی اور اس کا پروٹوکول بھی رہا ہو،حالاں کہ ان کے یہاں غزل تو ایسی ملتی ہے جو مشاعرے میں بھی چل سکتی تھی، اور اس زمانے میں بیوروکریسی سے وابستہ کچھ شاعر بھی مشاعرے میں شریک ہواکرتے تھے۔ خیر، یہ ہمیں معلوم ہے کہ انھوں نے ایک متحرک ادبی زندگی گزاری۔ حلقہ اربابِ ذوق سے ان کی وابستگی رہی اور وہ ایک زمانے میں پابندی سے اس کے اجلاسوں میں شریک بھی ہوا کرتے تھے، اسی طرح تخلیقی سطح پر بھی ان کا سفر جاری رہا۔ 

غزل اور نظم  دونوں ہی ان کے اظہار کے میدان تھے اور دونوں ہی اصناف میں ان کا کام ایسا ہے کہ اسے توجہ سے دیکھا جائے، تاہم اس امر کا اعتراف بھی سچائی سے کیا جانا چاہیے کہ اُن کے عہد سے لے کر عصرِ حاضر تک ہماری تنقید نے ضیا جالندھری کے کام سے کسی خاص التفات کا اظہار نہیں کیا۔ التفات کا تو سوال ہی کیا، انھیں وہ توجہ بھی ہمارے ناقدین کی طرح میسر نہیں آئی جس کے وہ بجا طور پر مستحق تھے، لیکن ایک ضیا جالندھری ہی کیا، اردو تنقید پر اگر ناخن کے قرض کا حساب ہی آپ لے کر بیٹھ جائیں تو افسوس، کوفت اور ندامت کے کتنے ہی مراحل کا سامنا ہوگا۔ 

آدمی کچھ کہے تو کیا اور چپ رہے تو کیوں کر۔ دوسری طرف اُن کے کام کی پذیرائی کا یہ انداز بھی ہے کہ ضمیر نیازی نے پاکستان کے ایٹمی دھماکوں کے بعد ایٹمی تباہ کاری کے اثرات کے حوالے سے ایک کتاب ’’زمین کا نوحہ‘‘ مرتب کی، جس میں افسانے، نظمیں اور مضامین شامل تھے،اس کتاب کی پشت پرضیا جالندھری کی نظم نمایاں طور پر شائع کی گئی۔

ضیا جالندھری کے چار شعری مجموعے اور پھر کلیات بھی ان کی زندگی میں منظرِعام پر آئے۔ ان کا شمار جدید اردو شاعری کے اہم نمائندوں میں کیا جاتا ہے، لیکن ان کی شاعری کے تنقیدی مطالعات کم کم ہی سامنے آئے،اکا دُکا مضامین کو چھوڑ کر ان پر جو تحریریں سامنے آئیں اُن میں بیشتر کی نوعیت صحافیانہ اور تبصرہ قسم کی ہیں۔ ان کی شاعری پر سب سے جامع مضمون حمید نسیم کاہے جو اُن کی کتاب ’’پانچ جدید شاعر‘‘ میں شامل ہے۔ اس میں حمید نسیم نے ضیا جالندھری کو جدید عہد کے چاراہم ترین شاعروں فیض، راشد، میرا جی اور عزیز حامدمدنی کے ساتھ رکھا ہے۔ 

اس ناقدانہ فیصلے کے لیے انھوں نے دلائل و براہین اور ضیا جالندھری کی شاعری کے تحلیل و تجزیہ سے بھی کام لیا ہے،گویا یہ ان کی ذمہ دارانہ اورمستحکم رائے ہے۔ تاہم جدید اردو شاعری کے جامع تناظر کوپیشِ نظر رکھا جائے تو حمیدنسیم کی رائے سے اتفاق مشکل معلوم ہوتا ہے۔ ضیا جالندھری سے پہلے اس فہرست میں مجید امجد اور اختر الایمان ایسے کچھ اور نام توجہ طلب ہیں، البتہ اس امر سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ضیا جالندھری جدید اردو شاعری کے حوالوں میں ایک اہم تخلیق کارکی حیثیت سے ہرگز فراموش نہیں کیے جاسکتے۔

ان کی شاعری کا مجموعی تأثر بلاشبہ جدید شعری حسیت کا حامل نظر آتاہے۔ اس تاثرکی تشکیل میں سب سے بڑا دخل ان کی نظم کا ہے۔ ان کے یہاں نظم کے موضوعات کا دائرہ ایک توخاصا وسیع اور وقیع ہے،دوسرے یہ کہ انھوں نے اپنے عہد کے موضوعات پر بطورِ خاص توجہ دی ہے۔ بیگانگی، لایعنیت، تنہائی، بیزاری، خوف، یاسیت اور بغاوت جیسے احساسات تو ساری ہی جدید شاعری کا مشترک حوالہ ہیں۔ تاہم ان موضوعات کو اپنے سیاسی، سماجی اور تہذیبی سیاق سے ہم آہنگ کر دیکھنے اور ان کی پیدا کردہ کیفیات اور احساسات کوگہرے شعور کے ساتھ بیان کرنے کی کامیاب اور بامعنی کوششیں جن شاعروں نے کی ہیں، ان میں ضیا جالندھری بھی شامل ہیں۔ 

ان کے یہاں مابعد الطبیعیاتی فکر بھی اظہار کی ایک سطح پر اپنے ہونے کا احساس دلاتی ہے۔ یہ امر بھی ضیا جالندھری کی شاعری کے مطالعے میں توجہ طلب ہے کہ ان کے یہاں فنی اظہار محض اپنے عصری سوالوں تک محدود نہیں رہتا، بلکہ وہ اس کو ادب و شعر کے بڑے حوالوں اور آفاقی سوالوں سے بھی جوڑتے ہیں۔ مثال کے طور پر جبر و قدر کا مسئلہ یا زمان ومکاں کا سوال بھی ان کے یہاں انسانی احساس کی تشکیل اور فردکے دائرئہ عمل کے حوالے سے غور طلب رہتا ہے۔ ان کی نظم کا ایک ٹکڑا دیکھیے:

ہم ایسے مہرےجنھیں ارادے دیے گئے ہیں

پہ جن کی توفیق پر حدیں ہیں

جنھیں تمنا کے رنگ دکھلا دیے گئے ہیں

مگر وسیلوں پہ قدغنیں ہیں

جنھیں محبت کے ڈھنگ سکھلا دیے گئے ہیں

یہ دست و پا میں سلاسلِ نوبہ نو

تو گردن میں طوق پہنا دیے گئے ہیں

یہ نظم عناصر اور علت کی اس دنیا میں آدمی کی صورتِ حال سے بحث کرتی ہے جہاں اس کے اختیار کی حدود اسے آزردہ رکھتی ہیں، لیکن اس کے باوجود احساس کی کیفیتیں اور حال کا تجربہ اس کے اندر زندگی کے شعور اور معنویت کو ماند نہیں پڑنے دیتا، بلکہ وہ اس سے حقیقتِ حیات کا ادراک پاتاہے۔ 

ضیا جالندھری کے فن میں اثباتِ حیات کا یہ رویہ ایک مستقل کیفیت کا حامل نظر آتا ہے، یہی وہ شے ہے جو اُن کی شاعری کو ہی نہیں بلکہ ان کے تصورِ حیات کو بھی لایعنیت سے بچالے جاتی ہے، اس لیے کہ وہ اسے محض اپنا مسئلہ نہیں گردانتے بلکہ پوری نوعِ انسانی کے تناظر میں دیکھتے ہیں۔ یوں زندگی جوہے، جیسی ہے اور جہاں ہے، ان کے لیے قابلِ التفات ہو جاتی ہے۔ ایک اور نظم موج ریگ ملاحظہ کیجیے:

مری ذات میں گم زمان ومکاں

میں قطرہ نہیں بحر ہوں

دھڑکتا ہے سینے میں دو عالم کادل

میں تنہا نہیں، کوئی تنہا نہیں

یہ تنہائی کی آگہی ہے غموں سے رہائی کی پہلی نوید

ہر اک طوق، ہر ایک زنجیر، ہر اک تعلق سے آزاد رہ

ترے دل کی گہرائیوں میں نہاں ہیں، کہیں وہ تواناجڑیں

جو اٹھتی گھٹائوں، بدلتی رُتوں، آتی جاتی ہوائوں سے دُور

گلوں کی مہک، کونپلوں کی دمک، ڈالیوں کی لچک سے پرے

سرِ خاک سے زندگی کی نمی کے لیے محوِ پیکار ہیں

نگاہیں اٹھا، مسکرا، اپنے نزدیک آ اورسب بھول جا

ضیا جالندھری کی شاعری کا اس کی کلیت میں مطالعہ کرتے ہوئے یہ دل چسپ پہلو بھی سامنے آتاہے کہ اُن کی شاعری میں جدید عہد کے انسان کی صورتِ حال، تجربات اور سوالات نے بالخصوص ان کی نظم میں راہ پائی ہے۔ اس اعتبار سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ ان کی نظم بطورِ خاص اور بدرجہ اتم جدیدیت کی حامل ہے۔ البتہ ان کی غزل کا مزاج قدرے مختلف ہے۔ غزل میں ان کے یہاں جدید طرزِ احساس کا بیان بھی بے شک ہوا ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ غزل کے مخصوص موضوعات بھی نمایاں طور سے ملتے ہیں۔ 

اس کا ایک سبب تو غزل کا اپنا مزاج بھی ہوگا، لیکن اس کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ کوئی تخلیق کار یا شاعر دراصل انھی موضوعات اور کیفیات کی طرف متوجہ ہوتا ہے جو خود اس کے احساس کے تاروں سے برآمد ہوں۔ تاہم ضیا جالندھری کی غزل کی اہم بات یہ ہے کہ ان کے یہاں غزل کے کلاسیکی آہنگ والے مضامین کے پہلو بہ پہلو ہمیں وہ اشعار بھی ملتے ہیں جو اس عہد کے انسان کی زندگی اور اس کے احساس کی متنوع صورتیں ہمارے سامنے آتی ہیں۔ اس کے علاوہ اُن کے یہاں فکری سطح پر مابعدالطبیعیات کا جواثبات نظر آتا ہے، وہ ان کے غزل کے اشعار میں معنویت اور فہم کی ایک سے زیادہ سطحیں پیدا کرتا ہے۔ چند اشعارملاحظہ کریں۔

ہر بات میں شامل ہیں تصور کے کئی رنگ

ہر رنگِ تصور میں جو ہے بات وہ تم ہو

دکھ حد سے جو گزرا تو کھلا دل پہ کہ یوں بھی

در پردہ ہے جو محوِ مدارت وہ تم ہو

.................................................

اسی طرح ضیا جالندھری نے اپنے عہد کے انسانی رویوں، سماجی رجحانات اور تاریخی و تہذیبی حقیقتوں کو بھی پوری شعری لطافت کے ساتھ سخن کے قالب میں ڈھالا ہے۔ ان کی ایک بے حد معروف غزل کے چند اشعار دیکھیے:

رنگ باتیں کریں اور باتوں سے خوش بو آئے

درد پھولوں کی طرح مہکے اگر تو آئے

مصلحت کوشیِ احباب سے دم گھٹتا ہے

کسی جانب سے کوئی نعرئہ یاہو آئے

ضیا جالندھری عہدِ جدید کے اچھے شاعروں میں تو بلاشبہ تھے ہی، علاوہ ازیں وہ مختلف علوم اور اپنے زمانے کے افکار و تصورات کے مطالعے سے بھی ایک خاص دل چسپی رکھتے تھے۔ ادبی اور نجی محفلوں میں جن لوگوں نے انھیں گفتگو کرتے ہوئے سنا ہے، وہ اس امرکی گواہی دیتے ہیں کہ وہ گہرے شعور کے مالک تھے۔ ٹھیک ایک صدی پہلے اس دنیا میں آنے اور یہاں ۸۹ سال کی بھرپور اور بامعنی زندگی گزار کر رخصت ہونے والے ضیا جالندھری ہماری ادبی تاریخ کے ان حوالوں میں ہیں جو اس نئے زمانے کے لیے بھی فکر و نظر کاسامان رکھتے ہیں، اور ان کا سرمایۂ سخن ہم سے غائر مطالعے کا تقاضا بجاطور پر کرتا ہے۔