• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تفہیم المسائل

سوال: میں کافی عرصہ سے بیمار ہوں ، شدید سردی اور گیس نہ ہونے کی وجہ سے رات میں پانی گرم نہیں ہوسکتا، تو تیمم کرکے نماز، قرآن کریم او ر ذکر و اذکار کرسکتا ہوں ؟(محمد ظفر بیگ، کراچی)

جواب: اولاً تو وضو ہی کرنا چاہیے، اگر ٹھنڈے پانی سے نقصان کا اندیشہ ہے،تو گرم پانی استعمال کرے، اگر گرم پانی کی کوئی صورت نہ ہو،مگر ایسا کپڑا یا لحاف موجود ہے کہ ٹھنڈے پانی سے وضو و غسل کے بعد گرم کپڑے پہن یا اوڑھ کر یا آگ تاپ کر اپنے آپ کو نقصان سے بچایا جا سکتا ہے،تب بھی تیمم کی اجازت نہیں۔

وضو کی فضیلت کی بابت رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے : ترجمہ:رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کیا میں تمہیں وہ چیز نہ بتاؤں، جس سے اللہ تعالیٰ گناہوں کو مٹاتا ہے اور درجات بلند کرتا ہے؟، انہوں نے کہا:جی ہاں! یا رسول اللہﷺ، آپ ﷺنے فرمایا: ناگواری کے باوجود کامل طریقے سے وضو کرنا، مساجد کی جانب قدم بڑھانا اور ایک نماز کے بعد دوسری نماز کا انتظار کرنا ہے،(ان اعمال کی جزا) سرحدپر حفاظت کے لیے ہمیشہ تیار رہنے والے کی مانند ہے ،(سُنن ترمذی:51)‘‘۔ لیکن اگر واقعۃً وضو سے بیماری کے بڑھنے کا یقین ہو یا اہلِ تجربہ کا غالب گمان ہو تو ایسی صورت میں تیمم کیا جا سکتا ہے ، علامہ نظام الدین رحمہ اللہ تعالیٰ لکھتے ہیں: ترجمہ:’’ جب بے وضو شخص کو سردی میں وضو کرنے سے ہلاکت یا بیماری کا اندیشہ ہو ،تو وہ تیمم کرلے ،’’کافی‘‘ میں اسی طرح ہے، ’’اَسرار‘‘ نے بھی اسی کو اختیار کیا ہے ،لیکن بالاجماع صحیح ترین قول یہ ہے کہ اسے تیمم کرنا جائز نہیں ، جیساکہ ’’النّھرالفائق ‘‘ میں ہے اور صحیح یہ ہے کہ اسے تیمم کرنا جائز نہیں ،جیسا کہ ’’ خلاصہ‘‘ اور ’’فتاویٰ قاضی خان‘‘میں ہے اوراگر (مریض کو) پانی دستیاب ہے ، لیکن خوف ہے کہ (پانی کے استعمال سے) مرض بڑھ جائے گا یا صحت یابی دیر سے ہوگی، تو تیمم کرلے ،(فتاویٰ عالمگیری ، جلد1،ص:28)‘‘۔

جُنبی اور بے وضو شخص کے لیے سردی کے سبب تیمم کی بابت امام اہلسنّت امام احمد رضا قادری ؒ لکھتے ہیں: ’’سردی شدید ہے اور حمام نہیں یا اُجرت دینے کو نہیں، نہ پانی گرم کرسکتا ہے، نہ ایسے کپڑے ہیں کہ نہا کر اُن سے گرمی حاصل کرسکے، نہ تاپنے کو الاؤمل سکتا ہے اور اس سردی میں نہانے سے مرض کا صحیح خوف ہے، تو تیمم کرسکتا ہے، اگرچہ شہر میں ہو، سردی کے باعث وضو نہیں چھوڑ سکتا: ترجمہ: یہی صحیح ہے، جیسا کہ خانیہ اور خلاصہ میں ہے،بلکہ یہ بالاجماع ہے۔ ہاں! اگر اُس سردی میں وضو سے بھی صحیح خوفِ حدوثِ مرض ہو، جب بھی تیمم کرے،خالی وہم کا اعتبار نہانے میں بھی نہیں، وضو تو وضو،(فتاویٰ رضویہ ،جلد3،ص:415)‘‘۔غرض اگر ظنّ غالب ہو کہ شدید سردی میں ٹھنڈے پانی سے وضو کرنے سے مرض بڑھ جائے گا یا زخم کے مندمل ہونے میں زیادہ عرصہ لگے یا ہلاکت کا اندیشہ ہوتو تیمم کرسکتاہے ،لیکن محض وہم کی بناءپر اس کی اجازت ہے اورنہ راحت پسندی یا محض ٹھنڈک سے بچنے کے لیے اس کی اجازت ہے ۔ذکر واذکار کے لیے وضو ہونا شرط نہیں ،بے وضو بھی کیاجاسکتا ہے ، افضل ہے کہ باوضو ہو۔