بھارت نے گوا میں رواں برس مئی میں منعقد ہونے والی شنگھائی تعاون تنظیم کی کانفرنس میں شمولیت کیلئے پاکستان کے وزیر خارجہ بلاول بھٹو اور چیف جسٹس عمر عطا بندیال کو دعوت دی ہے ۔ اگر ایسا ہوا تو یہ پچھلے بارہ برسوں میں کسی بھی پاکستانی وزیر خارجہ کا پہلا دورۂ بھارت ہوگا۔ یہ بھارت کی طرف سے ایک خوش آئند قدم ہے اور یہ دعوت پاکستان اور بھارت کے تعلقات کو معمول پر لانے میں فیصلہ کن پیش رفت ثابت ہوگی۔ اس سے پہلے وزیر اعظم شہباز شریف بھی متحدہ عرب امارات سے درخواست کر چکے ہیں کہ وہ بھارت اور پاکستان کے تعلقات معمول پر لانے میں کردار ادا کرے لیکن شہباز شریف کے اس بیان کے آتے ہی تحریک انصاف کےرہنمائوں نے اپنی سیاست چمکانےکیلئے بیانات داغ دیے اور کہا کہ شہباز شریف کو کشمیر فروخت کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی ،جس سے یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ ایسے بیانات سے بھارت کے ساتھ دور رَس معاہدوں کا ہونا ناممکن ہے ۔ کوئی بھی جماعت چاہے وہ پاکستان میں ہو یا بھارت میں، ان جذباتی نعروں سے اپنا ووٹ بینک بڑھانا چاہتی ہے، چاہے اس سے ان کا ملک گھپ اندھیروں میں ہی کیوں نہ چلا جائے۔یاد رہے کہ 1947ء سے آج تک ہم بھارت کے ساتھ تین بڑی جنگیں لڑ چکے ہیں لیکن ان تمام لڑائیوں سے دونوں ملکوں کی اقتصادیات اور تعلقات پر منفی اثرات ہی مرتب ہوئے ہیں حالانکہ پرویز مشرف کے دور میں مذاکرات مسئلہ کشمیر کے حل کے قریب پہنچ چکے تھے لیکن پھر وہی بے ڈھنگی چال، اعتماد کا فقدان اور اپنی تاریخ سے سبق نہ حاصل کرنا!
تاریخ گواہ ہے کہ یورپی قوموں نے بھی آپس میں طویل جنگیں لڑیں جو کہ ہولناک تباہیوں کی داستان بیان کرتی ہیں لیکن آج انہوں نے امن و آشتی کی ایسی فضا پیدا کر دی ہےکہ جس میں ان جنگوں کی وجہ یعنی ملکوں کے درمیاں سرحدیں ہی ختم کردی ہیں یوں یورپی ریاستیں دنیا بھر کیلئے جدید فلاحی ریاستوں کا ایک انمول نمونہ بن گئی ہیں۔
آج پاکستان کی اقتصادی حالت دگر گوں ہے ۔ ایک طرف ڈیفالٹ کا خطرہ بڑھ رہا ہے ، ڈالر کی قیمت آسمان کو چھو رہی ہے اور دوسری طرف سیاست میں غیر آئینی رجحانات کا خطرہ بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے ۔ ایک طرف عوام آٹے کی تلاش میں دربدر ہو چکے ہیں اور دوسری طرف اقتصادی میدان میں فی کس جی ڈی پی میں نمایاں کمی آ رہی ہے ۔ آج سے25 سال پہلے ہندوستان کی فی کس جی ڈی پی پاکستان سے 46فیصد کم تھی لیکن آج وہ ہم سے 20فیصد سے بھی آگے ہے۔ آج پاکستان فی کس دفاعی اخراجات میں دنیا کے دس سرفہرست ممالک میں شامل ہے۔ ٹیکس ٹو جی ڈی پی شرح9 فیصد سے بھی کم ہے اور ہم اپنے اخراجات بیرونی قرضوں سے پورے کر رہے ہیں۔اقوام متحدہ کی ڈویلپمنٹ رپورٹ کے مطابق آج پاکستان کے بیس فیصد سے زائد غریب عوام کو دو وقت کی روٹی بھی میسر نہیں جب کہ پاکستان کا ہیومن ڈیویلپمنٹ انڈیکس گر کر 0.419ہو گیا ہے جو کہ ایتھوپیا سے بھی کم ہے ۔آج ہماری بقا کا انحصار تارکین وطن مزدوروں کی آمدنی پر ہے جو 2021ء کے اعدادو شمار کے مطابق پاکستان کی جی ڈی پی میں 12.6فیصد کا حصہ ڈالتے تھے حالانکہ بنگلہ دیش کے تارکین وطن کا حصہ 6.5اور انڈیا کا 3فیصد کے لگ بھگ ہے۔آج پاکستان پر چار ہزار ارب روپے کے گردشی قرضے ہیں جب کہ ہمارے بیرونی قرضے 130ارب ڈالر تک پہنچ چکے ہیں جو کہ جی ڈی پی کا چالیس فیصد ہیں۔بڑے پیمانے پر صنعتیں لگانے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے ۔سرکاری صنعتوں کو اونے پونے داموں فروخت کیا جا رہا ہے ۔ ان حالات میں علاقائی تعلقات کے ثمرات حاصل کرنے کے علاوہ ہمارے پاس کوئی چارہ کار نہیں ہے اور شہباز شریف کا بھارت سے تعلقات بہتر کرنے کا منصوبہ قابل ستائش ہے۔آج سارک کے رکن ممالک کی آبادی ڈیڑھ ارب نفوس سے بڑھ چکی ہے اور یہ خطہ اب تک اپنے غریب عوام کو اقتصادی ثمرات فراہم کرنے میں بری طرح ناکام رہا ہے۔ایک اندازے کے مطابق پاکستان 35سے 40فیصد راہداری کی قیمت بچا سکتا ہے، وہ اگریہی مال انڈیا کو زمینی راستے سے مہیا کرے جس میں سب سے زیادہ فائدہ پاکستان کی ٹیکسٹائل کی صنعت کو ہو سکتا ہے جو اس وقت55 فیصد برآمدات کی حامل ہے جب کہ پاکستان اور ہندوستان اس وقت دنیا کے بالترتیب چوتھے اور تیسرے بڑے کپاس پیدا کرنے والے ملک ہیں۔اگر صرف اسی انڈسٹری میں ہی دونوں ممالک آپس میں تعاون کر لیں تو اس خطے کی حالت بدل سکتی ہے۔کشمیر کا مسئلہ یقیناً دونوں ملکوں کے درمیان تنازع کی ایک بنیاد ی وجہ ہے کیوں کہ ایک طرف نریندر مودی نے اس مسئلے کو پیچیدہ کیا ہے تودوسری طر ف اسی وجہ سے پاکستان کے ریاستی ڈھانچے نے سیکورٹی ریاست کا روپ دھار لیا ہے ۔آج تحریک انصاف کے لیڈروں کو چاہئے کہ وہ شہباز شریف کی بھارت سے مذاکرات کی راہ میں رکاوٹ نہ بنیں ، ورنہ پاکستان کبھی ایک سیکورٹی ریاست سے فلاحی ریاست کی طرف گامزن نہیں ہو سکے گا۔یاد رہے کہ تحریک انصاف کے منشور کی کلیدی شق کے مطابق پاکستان کو ایک فلاحی ریاست بنانا ہے۔اسی وجہ سے آج دانشوریہ امید کرتے ہیں کہ شہباز شریف کے بھارت سے تعلقات بہتر کرنے سے دونوں ممالک کے سکیورٹی کے ادارے مل کر دفاعی اخراجات میں نمایاں کمی کریں گے کیوں کہ کسی بھی ملک کی قومی سلامتی کا انحصار اس کے عوام کی صحت، تعلیم ، مجموعی خوشحالی اور سیاسی شعور سے وابستہ ہو تا ہے نہ کہ اسلحہ کے انبار لگانے سے۔علاقائی تعاون کے ثمرات حاصل کئے بغیر ہم اس خطے میں امن، آشتی اور خوشحالی کے دور کونہ تو واپس لا سکتے ہیں اور نہ ہی ہمیں نفرت، جنگ اور دہشت گردی سے چھٹکارا مل سکتا ہے۔اس کے بعد ہی سویلین بالادستی اور آئین کی پاسداری یقینی بنا ئی جاسکتی ہے۔