• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اس وقت جب اسٹیٹ بنک کے پاس زرمبادلہ کے ذخائر گر کر تین ارب 9 کروڑ ڈالر کی سطح پر آگئے ہیں جو بمشکل اگر دنوں کے نہیں تو چند ہفتوں کے رہ گئے ہیں۔اگرچہ آئی ایم ایف سے ایک ارب ڈالر قرضے کی قسط انھیں بمشکل سنبھالا دے پائے گی، اقتصادی ماہرین کے مطابق دوسرے چینلوں سے ممکنہ قرضوں اور امداد کی وصولی کے راستے کھلنے کی راہ ہموار ہوگی۔ آئی ایم ایف کی ٹیم اور حکومت کے درمیان پہلے مرحلے کے چار روز سے جاری تکنیکی مذاکرات جو جمعہ کے روز مکمل ہوگئے ، اس کا بجلی اور گیس کا ٹیرف بڑھانے ، پیٹرولیم پر 18فیصد جی ایس ٹی لگانے کا مطالبہ توانائی کی قیمتوں میں مزید اضافے اور غریب اور متوسط آمدنی والے طبقے کی مشکلات بڑھانے کا باعث بنے گا۔ مذاکرات میں آئی ایم ایف کی ٹیم نے نامینل گروتھ کی بنیاد پر مہنگائی 30 فیصد سے بڑھنے کا امکان ظاہر کیا ہے اور اس کے ساتھ ہی ایف بی آر سے ٹیکس جمع کرنے میں اضافے کی بھی شرائط رکھی ہیں جن میں ٹیکس اور نان ٹیکس محاذ پر سخت ترین فیصلے شامل ہیں۔ سب سے مشکل مطالبہ بجلی کے لائف لائن یعنی 300 یونٹ سے کم خرچ کرنے والے صارفین کا استثنیٰ ختم کرنا ہے اس ضمن میں آئی ایم ایف یونٹوں کی حد 200پر لانے کو بھی تیار نہیں۔ اس کا مؤقف ہے کہ اس اقدام سے گردشی قرضہ جو 29کھرب روپے تک پہنچ چکا ہے ، اسمیں مزید اضافہ باعث تشویش ہوگا۔ اس تصویر کا دوسرا رخ کرپشن، سرخ فیتے کے خاتمے ، کاروبار اور ٹیکس کلچر کا فروغ ہے جس کی معاشی تجزیہ کاروں اور عوامی حلقوں کی طرف سے شدت کے ساتھ ضرورت محسوس کی جاتی رہی ہے اور اعلیٰ عہدوں پر متمکن طبقے اور ریٹائرڈ افسران کو مفت ہزاروں لیٹر پیٹرول اور بجلی کے یونٹ فراہم کرنے کی مراعات واپس لینے کا مطالبہ زور پکڑتا جارہا ہے ۔ حکومت کو آئی ایم ایف کے دباؤ کی شکل میں ایک اخلاقی جواز مل گیا ہے جس پر عملدرآمد معاشی مشکلات کم کرنے میں مدد دے سکے گا۔

تازہ ترین