مجلس ِترقیٔ ادب سے جب مجھے سابق وزیر اعلیٰ پرویز الٰہی نے فارغ کیااور میری جگہ کسی اورکو لگایا تو ملک بھر کے شاعروں اور ادیبوں نے احتجاج کیا۔ شاید اس کی وجہ میں نہیں ، میرا کام تھا ۔ میں نے مجلس کی نئی عمارت بنوائی ، چائے خانہ کی عمارت بنوائی۔ پاکستان کا پہلا ادبی میوزیم بنوایا ۔ایک سال میں ساٹھ سے زیادہ کتابیں شائع کیں۔اردوزبان کے پہلے ای ریڈر ’’قندیل ‘‘ کا پروجیکٹ مکمل کرایا ۔یہ اردو زبان میں پہلا ’’کینڈل ‘‘ہوگا۔سات ہزار سے زائد صفحات پر مشتمل غیر ملکی ادب کا اردو میں ترجمہ کرایا۔ ہفتے میں تین ادبی پروگرام شروع کرائے ۔ بڑے بڑے مشاعروں کا انعقاد کیا اور بھی بہت کچھ کیا۔
خیر میں اپنے فارغ ہونے کے آرڈرز لے کر اپنے شہر کے ایم پی اے اورصوبائی اسمبلی کے اسپیکر سبطین خان کے پاس گیا اورکہا کہ پرویز الٰہی کوسمجھائیں کہ یہ ادیبوںشاعروں کا ادارہ ہے ۔ یہاں مجھ سے پہلے ستر برسوں میں امتیاز علی تاج ، احمد ندیم قاسمی، شہزاد احمد اور تحسین فراقی جیسے لوگ رہے ہیں ۔احمد ندیم قاسمی 32سال اس ادارے کے سربراہ رہے ، تحسین فراقی تقریباً نو سال یہاں رہے ہیں ۔کسی ایسے آدمی کو یہاں نہیں لگایا جا سکتا جو ادیب اورشاعر کے طور پر مسلمہ حیثیت نہ رکھتا ہو۔انہوں نے کہا، ’’مجھے معلوم ہے ۔یہ ادیبوں اورشاعروں کاادارہ ہے۔ کوئی غیر شاعرادیب اس کا سربراہ نہیں ہوسکتا‘‘۔وہ فوراً پنجاب اسمبلی سے اٹھے، وزیر اعلیٰ کے دفتر پہنچ گئے۔وہ جب پرویز الٰہی سے مل کر واپس آئے تو انہوں نے بتایا کہ وزیر اعلیٰ نے پہلے توکہا کہ ’’ غلط آرڈرزاگر ہو گئے ہیں تو میں منسوخ کرا دیتا ہوں‘‘ مگرجب میں باہر نکلا توکیمرہ مین چوہدری اور وزیر اعلیٰ کے سیکرٹری محمد خان بھٹی کھڑے تھے، انہوں نے مجھے کہا کہ یہ جو کام آپ کہہ کر جا رہے ہیں ،یہ نہیں ہونا۔ میں ان کے ساتھ واپس پرویز الٰہی کے کمرے میں چلا گیا ۔ پرویز الٰہی فوراً سمجھ گئے اور کہنے لگے۔ سوری یہ کام نہیں ہوسکتا ۔مجھے بتایا گیا کہ ایک تو وہ گجرات کے ہیں ۔دوسرا چوہدری شجاعت حسین نےجو کتاب لکھی ہے تو وہ انہوں نے ہی لکھی ہے۔
میں نےایک اور بڑی سماجی شخصیت کوبتایا کہ مجھے وزیر اعلیٰ نے ہٹا دیا ہے ۔انہوں نے اسی وقت پرویز الٰہی کوفون ملا یااور فون اسپیکر پر لگا لیااور کہا آپ اصغر عبداللہ کو ان کی اہلیت کے مطابق کہیں اور لگا دیں۔ منصور آفاق کومجلس ترقی ادب کا چارج واپس دے دیں تو چوہدری صاحب غصے میں آ گئے اور کہنے لگے، وہ ہمارے گھر میں کام کرتا ہے ۔ میں مجلس ترقی ادب کے ساتھ بزم اقبال کا چارج بھی منصور آفاق سے لے کراسی کو دے رہا ہوں تو اس شخصیت نے آگے سے ہنس کر کہا، ’’تو پھر منصور آفاق کو کہاں لگانا ہے؟‘‘ چوہدری صاحب بولے، ’’میں نے اسے دیوار سے لگا دینا ہے ‘‘۔ یہ تو اللہ کے کام ہیں کہ وہ کسے دیوار سے لگاتا ہے اور کسے سورج کی زرتار شعاعوں کے ساتھ آسمان کی بسیط چھاتی پر تحریر کر دیتا ہے ۔ خیر یہ بات اپنے کانوں سےسن لینے کے بعد میرے پاس گنجائش نہیں تھی کہ کسی اور سےکہتا ۔شبلی فراز کا فون آیا توانہوں نے کہا، ’’میں لاہور آیا ہوا ہوں اورمجلس ترقی ادب کے حوالے سے پرویز الٰہی سے بات کرنا چاہتا ہوں ‘‘۔ میں نے انہیں منع کیا کہ انہیں کہنے کا کوئی فائدہ نہیں ۔آپ اپنا وقت ضائع کریں گے۔ میری اطلاع کے مطابق حسن نثارنے بھی پرویز الٰہی سے کہا کہ چوہدری صاحب اٹھارہ بیس کا فرق ہو تو چل جاتا ہے ایک اور بیس کا فرق نہیں چلتا ۔
میں جب مجلس ترقی ادب کا سربراہ تھا تومیرے پاس بزم اقبال کا ایڈیشنل چارج بھی تھا ۔یہ بھی ایک روایت رہی ہے ، امتیاز علی تاج ، احمد ندیم قاسمی اور شہزاد احمدکے پاس بھی بزم اقبال کا ایڈیشنل چارج ہوا کرتا تھا۔ مجھے چوں کہ مجلس ترقی ادب سے فارغ کردیا گیا تھا اس لئے ممکن نہیں تھا کہ بزم اقبال کا چارج رکھ سکوں ۔سو سیکریٹری انفارمیشن اینڈ کلچر نے ادب دوستی کا ثبوت دیتے ہوئے ، ساتھ ہی دوسال کے لئے ڈائریکٹر بزم اقبال کے طور پر میرے آرڈرز کر دئیے ۔جیسے ہی نگران حکومت آئی اور اس نے پرویز الٰہی کے لگائے ہوئےلوگوںکو ہٹایا تو سرفہرست اس کا نام آیا جسے چوہدری پرویز الٰہی دیوار سےلگا دینا چاہتے تھے ۔ میں کیسے بتاتا کہ میرا شمار پرویز الٰہی کےمعتوبین میں ہوتا ہے ۔ پرویزالٰہی کومجھ سے تکلیف یہ تھی کہ میں نے اٹھائیس فروری دوہزار اکیس کے روز اپنے کالم میں یہ سچ لکھاتھا کہ’’ولید اقبال کا یہ کہنا کہ پنجاب میں بلامقابلہ سینیٹرز منتخب ہونے کا کریڈٹ پرویز الٰہی کو جاتا ہے، قطعاً درست نہیں ۔یہ کریڈٹ وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کا ہے۔ قاف لیگ خودسینٹ کی ایک سیٹ ملنے پر ان کی ممنون ہے۔ جوں جوں سینٹ انتخابات قریب آئے وزیر اعلیٰ پنجاب نے اپنی سیاسی سرگرمیاں مزید تیز کردیں۔ انہوں نے تحریک انصاف اور اتحادی جماعت ق لیگ کے سینٹ کے امیدواروں کا اجلاس بھی طلب کیا اور وزراء اور اراکین اسمبلی کے گروپس تشکیل دیئے۔ ان گروپس کی ذمہ داری لگائی کہ وہ اپنے متعلقہ امیدوار سے رابطے میں رہیں، خود بھی وہ تمام گروپس سے کوآرڈنیشن کرتے رہے۔ حامد میر نے بھی یہ تسلیم کیا ہے کہ چوہدری پرویز الٰہی، صرف کامل علی آغا کو سینیٹر بنوانا چاہتے تھے۔ نون لیگ کے ارکان وزیراعلیٰ عثمان بزدار کے ساتھ رابطے میں تھے۔کامیابی کے بعد کامل علی آغا اورنو منتخب سینیٹرز نے وزیر اعلیٰ سے ملاقات کی اور شکریہ ادا کیا‘‘۔
پرویز الٰہی کوعثمان بزدار سے شاید بہت زیادہ تکلیف تھی۔ پرویز الٰہی جب وزیر اعلیٰ تھے تو انہوں نے ایک انٹرویو میں کہا تھا، ’’عثمان بزدار کی وجہ سے ہمارے چار سال ضائع ہو گئے۔‘‘ خدا شاہد ہے کہ پنجاب میں عثمان بزدار کا دورِ حکومت پرویز الٰہی کے دورِ حکومت سے سوگنا بہتر تھا اور اب تو عمران خان کوبھی معلوم چکا ہے۔ بقول غالب ’’ہوئے تم دوست جس کے ، دشمن اس کا آسماں کیوں ہو‘‘۔