’’آج ظاہر صاحب کے گھر عشائیے پر چلو گے؟‘‘ سمیع نے عاصم سے پوچھا۔’’ یار! مَیں تنگ آگیا ہوں، ان نام نہاد سیاست دانوں کے معمول کے ہتھکنڈوں سے۔ یہ عشائیے، پریس کانفرنسز، یہ جوڑ توڑ…‘‘ عاصم نے جواب دیا۔ ’’ابھی ہمارا سیکھنے کا دَور ہے پگلے، کون سا ہم نامی گرامی صحافی بن گئے ہیں کہ نخرے دکھاتے پھریں۔ ظاہر صاحب کی کرم فرمائی ہے کہ ہمیں بلا لیتے ہیں۔چار خبریں مل جاتی ہیں، تو کیا بُرا ہے، باقی سیاست تو میرے دوست گزشتہ پچھتر برسوں سے ایسے ہی ہو رہی ہے۔‘‘سمیع نے عاصم کو سمجھایا۔’’مگر اب چیزیں بدلنی چاہئیں،حد ہوگئی ہے یار…‘‘عاصم ہنوز برہم تھا۔’’ویسے تُو چاہتا کیا ہے، ہرطرف سُکھ چین،امن و آشتی ہو، دودھ کی نہریں بہیں، جھونپڑیوں میں رہنے والے محلوں کے مکین بن جائیں۔
غریب ڈھونڈنے سے بھی نہ ملیں،مخیّر افراد جنّت کے حصول کے لیے صدقہ، خیرات بانٹنے کے لیے مارے مارے پھرتے رہیں، مگر کوئی خیرات لینے والا نہ ہو، ہوائیں مشک بار ہوں، حالات سازگار ہوں اور…‘‘’’یار، معاف کر دے مجھے… تُو جب شروع ہوتا ہے، تو بند ہی نہیں ہوتا، ریکارڈ رکی طرح بجتا ہی رہتا ہے۔مَیں ظاہر صاحب کے دولت کدے پر جانے کے لیے تیار ہوں۔تُجھے تو بس مفت کے کھابوں کی عادت ہو گئی ہے۔ جو خبریں تُو نے وہاں سے اکٹھی کرنی ہیں،وہ مَیں نے پہلے ہی جیب میں لکھ کے رکھی ہوئی ہیں۔‘‘عاصم نے جل کر کہا اور تیار ہونے کے لیے غسل خانے میں گُھس گیا۔ پھر کچھ دیر بعد وہ دونوں اپنی پھٹپھٹی پر عازمِ سفر تھے۔
واپسی پر عاصم نے جیب سے کاغذ نکال کر سمیع کی جانب اچھالتے ہوئے کہا۔ ’’لے ،کاپی کر لے ،کیوں کہ تیرا قبلہ اور اُردو کبھی درست نہیں ہو سکتے۔ بڑے گئے تھے پھنّے خاں خبروں کی تلاش میں۔تیری پلیٹ میں بوٹیوں کا پہاڑ دیکھ کر تو مجھے ہی شرمندگی ہونے لگتی ہے۔‘‘عاصم نے سمیع کو رگیدا۔’’تو کیا ہوا، سب اپنا ہی مال ہے۔یہ مال و متاع، یہ دعوتیں، کھابے ہمارے حصّے کی دولت سے ہی تو آتے ہیں۔‘‘سمیع نے جواب دیا۔
عاصم اور سمیع گزشتہ چار سال سے اسلام آباد میں مقیم تھے۔دونوں کا تعلق جنوبی پنجاب کے دو مختلف قصبوں سے تھا۔صحافت میں ایم اے کرنے کے بعد دونوں نے یہاں کا رُخ کیا تھا۔ سال بَھر دھکّے کھانے کے بعد انہیں اس چھوٹے سے فلیٹ کی صُورت ایک مناسب ٹھکانا میسّر آیا تھا، جس کا کرایا دونوں مل بانٹ کر دیتے تھے۔ پہلے دو مختلف اخبارات سے وابستہ رہے، اب دو مختلف نیوز چینلز کے لیے کام کر رہے تھے۔ تن خواہ دونوں ہی کی بس گزارے لائق تھی۔ کئی بار تو ان کی لائی گئی خبریں روک ہی لی جاتیں کہ اس شدّت پسند معاشرے میں بریکنگ نیوز کے علاوہ کوئی خبر قابلِ قبول جو نہیں۔ سو، دونوں اِدھر اُدھر ہاتھ پاؤں مارتے رہتے تھے۔
پروف ریڈنگ اور ایک آدھ ہوم ٹیوشنز وغیرہ پکڑ رکھی تھیں، مگر دونوں کا خواب ایک ہی تھا، صحافت کے میدان میں جھنڈے گاڑنا۔ لیکن ایک انحطاط پذیر معاشرے میں، جہاں کرپشن سب کے گِٹّے گوڈوں میں بیٹھ چُکی ہو، صحافتِ برحق کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہی ہوتا ہے، اسی لیے سمیع کبھی کبھی بہک بھی جاتا، آسانیاں ڈھونڈنے لگتا، بھاری لفافوں سے جیبیں گرم رکھنے والے صحافیوں کی مثالیں دینے لگتا، ان کی ٹور(شان و شوکت) سے متاثر ہو جاتا، مگر عاصم اُسے واپس سیدھے راستے پر لے ہی آتا۔
کئی دن ہوگئے تھے، سمیع اپنی ماں کی بیماری کے باعث گھر گیا ہوا تھا اور عاصم فلیٹ میں اکیلا تھا۔ سردی اپنے جوبن پر تھی اور پھر اسلام آباد تو اور بھی ٹھٹھرا ہوا تھا۔ آج کا سارا دن سخت مصروف گزرا، دوپہر کو ایک چھلی کھانے کے بعد اسے کچھ اور کھانے کا وقت ہی نہیں ملا تھا، تو اب پیٹ میں چوہے دوڑ رہے تھے۔
خیر، خدا خدا کرکے وہ اپنے فلیٹ پہنچا۔ پارکنگ میں موٹر سائیکل کھڑی کرکے ،سردی سے سُن ہوئی بےجان ٹانگوں کے ساتھ بمشکل تیسری منزل پر موجود فلیٹ تک پہنچا۔جلدی جلدی چولھا جلایا اور ہاتھوں کو سینک کر حرارت جذب کرنے لگا۔پندرہ، بیس منٹ بعد جب حالت ذرا بہتر ہوئی، تو انتڑیاں پھر دُہائی دینے لگیں۔اکیلے رہ،رہ کر وہ کھانا پکانا سیکھ چکا تھا، سو جلدی سے آٹا گوندھ کر آملیٹ بنایا اور پھر روٹی بیل کر توے پر ڈال دی۔روٹی کی خوش بو سے سارا فلیٹ مہک اُٹھاتھا۔
عاصم نےایک لمبی سانس کھینچ کر یہ مہک اپنے اندر اتاری اور مُسکرا دیا۔ دو روٹیوں اور آملیٹ پر مشتمل ٹرے تپائی پر رکھ کر ٹی وی آن کرکے پہلا نوالہ کھانے ہی والا تھا کہ ٹی وی اسکرین پر دکھائے جانے والے منظر نے جیسےاس کا ہاتھ روک دیا۔ کئی گھنٹوں سے آٹے کی بوری کے حصول کے لیے جمِ غفیر میں کھڑا ایک شخص سردی سے ٹھٹھر کر مر چُکا تھا۔ یہ دیکھ کر عاصم نے نوالہ رکھ دیا۔ اُسے لگا ،روٹی کی آنکھیں اُگ آئی ہیں، اس کے نتھنے پُھولے ہوئے ہیں اور اس کا غار کے دہانے جیسا منہ بس عاصم کو نگلنے کے لیے تیار ہے۔عاصم نے خوف زدہ ہو کر تپائی پَرے کھسکا دی۔