• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بڑھتی منہگائی نے غریب، متوسّط، یہاں تک کہ نسبتاً خوش حال سمجھے جانے والے طبقے کی بھی زندگی اجیرن کر دی ہے، ہر دوسرا شخص خوراک سے لے کر پہننے، اوڑھنے کے کپڑوں تک پر سمجھوتے پر مجبور ہے۔سرکاری اعداد وشمار کے مطابق رواں برس کے پہلے ماہ میں منہگائی کی شرح 30فی صد سے زائد ریکارڈ کی گئی۔ خوراک کا تو کوئی متبادل ہی نہیں، لیکن اِس معاملے میں بھی غریب اور سفید پوش طبقہ حقیقی معنوں میں اپنا پیٹ کاٹتے ہوئے بچت کے راستے نکال رہا ہے، تو دوسری بنیادی ضرورت، لباس کی خریداری بھی آسان نہیں رہی۔ سفید پوش طبقہ دُہری مشکل سے دوچار ہے۔ کارخانوں میں کام کرنے والے مزدوروں، مختلف اداروں کے ملازمین، کلرکس سے لے کر درمیانی سطح تک کے افسران اِس طبقے میں شامل ہیں، جو اپنی لگی بندھی آمدنی میں زندگی گزارتے ہیں۔

اُن کی آمدنی اِتنی نہیں ہوتی کہ وہ کسی موسم کا بھرپور لُطف اُٹھا سکیں۔ گرمی میں بجلی کا بِل آمدنی کا بڑا حصّہ کھا جاتا ہے، سردی میں بجلی کا بِل کم ہوتا ہے، تو گیس کی کمی کا مسئلہ سَر اُٹھا لیتا ہے، جس کے سبب منہگے داموں گیس سلنڈر استعمال کرنے پڑتے ہیں۔ اگر لباس کی بات کریں، تو گرمیوں میں تو کسی طرح گزارہ ہو ہی جاتا ہے کہ اُس موسم میں ہلکے پُھلکے لباس بھی کافی سمجھے جاتے ہیں، لیکن سردی سے محفوظ رہنے کے لیے نہ صرف تن ڈھانپنا ضروری ہے بلکہ گرم لباس ڈھنگ کا بھی ہونا چاہیے کہ دفاتر وغیرہ میں شرمندگی کا سامنا نہ کرنا پڑے، تاہم سردی سے بچاؤ کا پہناوا اِس کمر توڑ منہگائی میں آسان نہیں۔ موجودہ حالات میں متوسّط طبقہ معروف برانڈز کے نئے سوئیٹر یا جیکٹ کا تو سوچ بھی نہیں سکتا، بلکہ اب تو اُس کے لیے غیر معروف برانڈز کے نئے گرم کپڑے خریدنا بھی جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔تو ایسے میں اُن کی پہلی اور آخری اُمید،’’ لنڈا بازار‘‘ ہیں، جو مُلک کے تقریباً تمام ہی چھوٹے بڑے شہروں میں قائم ہیں۔

بتایا جاتا ہے کہ یہ بازار انگریز دَور کی یادگار ہیں،ایک برطانوی خاتون لینڈا (Linda) نے، جو ایک انگریز افسر کی بیوی تھیں، خدمتِ خلق کے جذبے کے تحت اپنے دوستوں اور رفقا کو اِس بات پر قائل کیا کہ وہ اپنے پرانے کپڑے غرباء میں تقسیم کے لیے اُنہیں دے دیں۔ پھر اُنھوں نے اسٹال لگا کر وہ کپڑے ضرورت مندوں میں بانٹ دیئے۔ اُس اسٹال کو اُن کے نام کی مناسبت سے” لینڈا اسٹال‘‘ کا نام دیا گیا۔ بعدازاں، کئی اور لوگوں نے بھی اِس طرح کے اسٹالز لگانے شروع کردئیے اور پھر وقت گزرنے کے ساتھ استعمال شدہ کپڑوں کا یہ کام، کاروباری رنگ اختیار کرگیا، مگر نام‘‘ لینڈا مارکیٹ‘‘ ہی رہا، جو کثرتِ استعمال سے’’ لنڈا مارکیٹ‘‘ ہوگیا۔

عرفِ عام میں لنڈا کے سامان سے مُراد وہ اشیا ہیں، جو ترقّی یافتہ ممالک کے افراد کی استعمال شدہ ہوتی ہیں۔ پاکستان میں اس کی ترسیل کا ذریعہ یورپی ممالک، امریکا، جاپان اور چین سمیت کئی ممالک ہیں کہ وہاں کے عوام زیادہ خوش حال اور بلند معیارِ زندگی کے حامل ہیں۔ پھر یہ کہ ان ممالک میں فیشن تیزی سے بدلتے ہیں، جب کہ کپڑوں کی دُھلائی پر بھی زیادہ اخراجات آتے ہیں، تو کپڑے چند بار پہننے کے بعد استعمال میں نہیں رہتے۔ جب اُن کے پاس اِس طرح کے کپڑے جمع ہوجاتے ہیں، تو وہ اُنھیں کسی چرچ یا رفاہی ادارے کے حوالے کردیتے ہیں، کچھ لوگ کپڑے گھروں کے باہر مخصوص مقامات پر بھی رکھ دیتے ہیں، جہاں سے میونسپلٹی اہل کار اُنھیں اُٹھا کر ریڈ کراس تنظیم یا دیگر اداروں کو پہنچا دیتے ہیں۔

یہ ادارے اُن کپڑوں اور دیگر سامان کے بنڈلز کو ہر سال نیلامِ عام یا ٹینڈر کے ذریعے فروخت کردیتے ہیں۔ خریدار مال کی گریڈنگ کرکے قیمت کا تعیّن کرتے ہیں اور پھر اس کی فیومیگیشن کرکے مختلف بنڈلز بنا کر مختلف ممالک کو بھجوا دیتے ہیں۔ لنڈا کے سامان سے آنے والی مخصوص بُو اُسی فیومیگیشن کی ہوتی ہے۔اکثر برآمد کنندگان مال کے بنڈل بناتے وقت اِس بات کا بھی خیال رکھتے ہیں کہ اُن میں ایک ہی طرح کا سامان ہو،لیکن کئی اِس بات کا اہتمام نہیں بھی کرتے۔

چوں کہ ترقّی یافتہ ممالک کے عوام استعمال شدہ کپڑے اور دیگر اشیا دوبارہ استعمال نہیں کرتے، تو اس کاروبار سے وابستہ افراد اُنھیں خرید کر بحری راستے پاکستان لے آتے ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ لنڈے کے یہ کپڑے سفید پوش، لوئر مِڈل، مِڈل کلاس اور غریبوں کی ایک بڑی ضرورت پوری کررہے ہیں۔اِن کپڑوں میں مردانہ، زنانہ، بچکانہ لباس شامل ہوتے ہیں، جن میں جیکٹس، سوئیٹرز، گرم ٹوپیاں، دستانے، پینٹس، پاجامے، ٹراؤزرز، نیکرز، شرٹس، ٹی شرٹس، انڈر گارمنٹس اور جوتے، گویا پہننے کی تمام ہی اشیا شامل ہوتی ہیں۔جب کہ باہر سے پرانے برتن وغیرہ بھی منگوائے جاتے ہیں۔

قیامِ پاکستان کے وقت میمن اور گجراتی برادری ہی کے تاجر پرانے کپڑے درآمد کیا کرتے تھے اور کراچی کے نیپئر روڈ پر آج بھی اُن کے گودام موجود ہیں۔ خوردہ فروشی کا کام پختون برادری نے سنبھال رکھا تھا، مگر اب لنڈا کا بیش تر کام اُن ہی کے ہاتھوں میں ہے کہ وہ مال درآمد بھی کرنے لگے ہیں۔ واضح رہے، پورے ایشیا میں برآمد شدہ پرانے کپڑوں( لنڈا) کی سب سے بڑی مارکیٹ پاکستان میں ہے اور اِس کاروبار سے لاکھوں افراد وابستہ ہیں۔کراچی کے علاقے، شیرشاہ میں لنڈے کے کپڑوں کے تین ہزار سے زائد وئیر ہاؤسز ہیں اور پورے ایشیا میں اِس طرح کی مارکیٹ کہیں اور نہیں ملے گی۔

ابتدائی دَور میں استعمال شدہ کپڑوں کی درآمد، غریبوں کی ضروریات پیشِ نظر رکھ کر کی جاتی تھی، زیادہ تر مال پنجاب اور شمالی علاقوں کو روانہ کردیا جاتا تھا کہ شمالی علاقوں میں غربت زیادہ تھی اور وہاں کے لوگوں کو گرم کپڑوں کی زیادہ ضرورت بھی تھی۔ کراچی کے لنڈا بازار کا جائزہ لیں، تو یہاں کم قیمت اور مال کے معیاری ہونے کے سبب یہ کاروبار شہر کے بیش تر علاقوں تک پھیل چکا ہے۔کراچی میں ایم اے جناح روڈ پر واقع لائٹ ہاؤس سینما کی گلی میں قائم لنڈا بازار، شہر کا پہلا لنڈا بازار سمجھا جاتا ہے۔جب یہ کاروبار بڑھا اور لائٹ ہاؤس بازار میں گنجائش کم محسوس ہوئی، تو مزید مارکیٹس کی ضرورت پیش آئی۔

لہٰذا، 1966ء میں لنڈا کے تاجروں نے ناظم آباد نمبر ایک کی چاؤلہ مارکیٹ کو اِس کاروبار کے لیے منتخب کیا۔ وہاں تقریباً ایک سو دکانیں اس مقصد کے لیے مختص کی گئی تھیں۔ آبادی میں اضافے کی ساتھ غربت کی شرح میں بھی اضافہ ہو رہا ہے، تو لنڈے کی اشیا کی طلب بھی بڑھ گئی ہے۔منہگائی کے مارے، لیکن معیار اور ورائٹی کے خواہش مندوں کے لیے اب منہگے بازاروں کے درمیان بھی لنڈا بازار آباد ہوچکے ہیں اور ان بازاروں میں نئے آئٹمز کا بھی اضافہ ہوگیا ہے، جن میں لیڈیز پرس، بیگز، قالین، لحاف، گدّے، تکیے، پردے اور جوتے وغیرہ شامل ہیں۔

آدم شاہ جیکٹس بیچ رہے ہیں
آدم شاہ جیکٹس بیچ رہے ہیں 

ایک زمانہ تھا،جب لوگ چُھپ چُھپا کر اِن بازاروں کا رُخ کرتے اور اُنہیں تلاش کے بعد ایسی اشیا مل جاتیں،جو نئی تو نہیں ہوتیں، لیکن دیکھنے میں نئی ہی نظر آتی تھیں،تاہم اب صُورتِ حال بہت بدل چُکی ہے اور لوگ ان بازاروں سے کسی شرم یا جھجک کے بغیر خریداری کرنے لگے ہیں۔ان بازاروں میں ہر شے استعمال شدہ یا سیکنڈ ہینڈ نہیں ہوتی بلکہ بیرونِ ممالک سے آئے سرپلس اسٹاک یا اضافی اسٹاک میں شامل اشیا بھی فروخت ہو رہی ہوتی ہیں۔ بعض چیزیں تو نئی اشیا کے مقابلے میں منہگی بیچی جاتی ہیں، جنھیں شوقین لوگ معروف برانڈز کے نام پر خریدتے ہیں، اُن کے مطابق، ترقّی یافتہ ممالک میں استعمال ہونے کے سبب یہ اشیا بہت معیاری ہوتی ہیں۔ 

لنڈے کا مال کراچی کے تقریباً ہرہی علاقے میں فروخت ہو رہا ہے۔ پوش آبادی ڈیفینس، کلفٹن، طارق روڈ سے لے کر صدر، لائٹ ہاؤس، لیاقت آباد، ناظم آباد، نارتھ کراچی، لانڈھی، کورنگی اور گلشن اقبال وغیرہ کے اکثر کاروباری علاقوں میں بھی اس کے اسٹالز ہیں۔ چھانٹا ہوا، اعلیٰ معیاری سامان اونچے علاقے میں اور نسبتاً کم یا گھٹیا معیار کا سامان متوسّط اور نچلے طبقے کے علاقوں کے بازاروں میں فروخت کیا جارہا ہے۔ کسی دَور میں لنڈا کی دُکان پر مال کا ڈھیر لگا ہوتا اور دُکان دار چیخ چیخ کر خریدار کو چھانٹ کر مال خریدنے کا کہہ رہا ہوتا تھا، ایسے میں خریدار کو بہت اچھی چیز انتہائی سستی مل جاتی تھی، لیکن اب ایسا نہیں ہے۔ 

اب وہ مال کا بنڈل لانے کے بعد پہلے خود ایک ایک دانہ چھانٹ کر اچھے اور خراب کو الگ کرتا ہے اور پھر ہر مال کی ظاہری حالت کے مطابق الگ الگ قیمت طلب کرتا ہے۔ایک محتاط اندازے کے مطابق، صرف کراچی میں20لاکھ افراد اس کاروبار سے وابستہ ہیں۔کراچی سے مال چھانٹ کر جب دیگر شہروں میں پہنچایا جاتا ہے، تو وہاں اس کی مزید درجہ بندی کی جاتی ہے۔ عموماً ان کی تین کٹیگریز بنائی جاتی ہیں۔ اے کٹیگری میں شامل اشیا کو دیکھ کر بعض اوقات ایسا لگتا ہے کہ وہ کبھی استعمال ہی نہیں ہوئیں۔ معروف برانڈز کی اشیا بہت معیاری اور صاف ستھری ہوتی ہیں، جنھیں شاپنگ سینٹرز یا دکانوں پر سجا کر بیچا جاتا ہے، ایسے آئٹمز کافی منہگے ہوتے ہیں۔بی کٹیگری کا سامان بھی صاف ستھرا ہوتا ہے،جو دکانوں کے ساتھ مختلف ہفتہ بازاروں میں فروخت ہوتا نظر آتا ہے۔آخری کٹیگری کا سامان ریڑھیوں اور فُٹ پاتھ پر 50 سے ڈیڑھ سو روپے میں فروخت ہوتا ہے۔

لنڈا بازار عوام میں کتنے مقبول ہیں،یہ جاننے کے لیے ہم نے لائٹ ہاؤس لنڈا بازار کا رُخ کیا، جہاں ہماری بابر ملک نامی ایک شہری سے سے بات چیت ہوئی، جو اپنی اہلیہ اور بچّوں کے ہم راہ وہاں خریداری کے لیے آئے ہوئے تھے۔ اُن کا کہنا تھا کہ’’ اب تو یہاں بھی چیزیں منہگی ہوگئی ہیں۔ جو معیاری کوٹ پتلون ایک زمانے میں دو، تین سو میں مل جاتے تھے، وہ کم از کم پانچ، چھے سو میں مل رہے ہیں،لیکن پھر بھی ہم سفید پوش لوگوں کا ان بازاروں کی وجہ سے بھرم قائم ہے۔‘‘

فیضان احمد ایک مقامی کمپنی میں ملازمت کرتے ہیں اور اُنہیں برانڈڈ کپڑوں، جوتوں کا بےحد شوق ہے۔ اُنھوں نے اپنا تجربہ کچھ یوں بیان کیا،’’ اگر آپ شاپنگ میں محنت کے قائل ہیں، تو لنڈا بازار میں ایک سے ایک معیاری اور مَن پسند چیز مِل جاتی ہے، لیکن پینٹ کوٹ اور اچھے جوتوں کی قیمت پچھلے سال کے مقابلے میں دُگنی ہوچُکی ہیں۔‘‘سمیع صلاح الدّین ایک سافٹ ویئر ہاؤس میں ملازم ہیں اور وہ بھی ان ہی بازاروں سے خریداری کرتے ہیں۔ اُنھیں بھی بازار کے منہگا ہونے کا شکوہ ہے۔ آدم شاہ گزشتہ کئی سال سے صدر میں ٹھیلا لگا کر فُل اور ہاف آستین کی جیکٹس فروخت کرتے ہیں۔ 

بچوں کے کپڑے، ٹوپیاں فروخت کرنے والے، یوسف خان
بچوں کے کپڑے، ٹوپیاں فروخت کرنے والے، یوسف خان 

اُن کا ٹھیلا مختلف رنگوں اور ڈیزائنز کی جیکٹس سے بَھرا ہوا تھا۔ہمارے ایک سوال پر اُنہوں نے بتایا کہ’’ میرے پاس چھانٹی کا ایک نمبر مال ہے، یہ جیکٹس 300 سے ساڑھے تین سو روپے میں پڑی ہیں اور گاہک سے سات سو روپے طلب کرتا ہوں کہ وہ بہت بھاؤ تاؤ کرتے ہیں۔ آخر کار چار، ساڑھے چار سو روپے میں بِک ہی جاتی ہیں۔ پچھلے سال یہی جیکٹس دو سو روپے میں پڑرہی تھیں اور اگر حالات یہی رہے تو اگلے سال ہم شاید انھیں ایک ہزار روپے تک میں بیچیں۔‘‘اُن کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس معیار کی جیکٹ عام مارکیٹ میں  1000 سے 1500روپے میں فروخت ہو رہی ہے۔

وہ یومیہ سات سو روپے دہاڑی، ایک وقت کا کھانا اور چائے پر کسی دوسرے کا مال بیچتے ہیں۔ اُن سے گفتگو جاری تھی کہ اسی دَوران ایک موٹر سائیکل سوار نوجوان نے اُن کے ٹھیلے پر رُک کر 200 روپے میں جیکٹ خریدنی چاہی، مگر سودا نہیں بنا۔ رمضان لنڈا کے سامان کے ساتھ نئی جرابیں بھی بیچتے ہیں۔وہ لنڈا کی جرابیں فی جوڑا 40 سے 50 روپے، جب کہ کوریا کا نیا موزا فی جوڑا 100روپے میں بیچ رہے تھے۔ پچھلے سال تک جرابوں کی قیمت پچاس فی صد کم تھیں۔

جہانگیر خان صدر میں اسٹال لگا کر تین سے 7سال تک کی عُمر کے بچّوں کے کپڑے فروخت کرتے ہیں۔ اُنہیں حاجی کیمپ سے فی دانہ 20 روپے پڑا تھا، جسے وہ 30،40 روپے میں فروخت کررہے تھے۔ یوسف علی40 سے 50 روپے میں اونی ٹوپیاں بیچتے ہیں، اُن کی قیمتِ خرید 20 روپے تھی۔ صدر ہی میں شاہ گل ایک بڑے اسٹال پر لحاف، کمبل اور چادریں بیچتے ہیں۔ ہمارے سامنے دو نوجوانوں نے اُن سے تین، تین ہزار میں دو کمبل لیے۔ ایک نوجوان یحییٰ کا کہنا تھا کہ’’ یہ عام مارکیٹ میں مجھے چھے ہزار سے کم میں نہ ملتے۔‘‘

ویلیو ایشن ڈیوٹی سے پریشان تاجر

گزشتہ برس دسمبر میں ایک خبر نے چونکا دیا کہ’’ عوام کے لیے لنڈے کے کپڑے بھی منہگے ہوگئے، درآمدی ویلیو ایشن ایک ڈالر فی کلو ہوگئی ہے، ایف بی آر نے پرانے کپڑوں کی درآمدی ویلیو ایشن 0.36 ڈالر سے بڑھا کر ایک ڈالر فی کلو کر دی ہے۔ اِس فیصلے سے لنڈے کے کپڑوں کی درآمد ی لاگت تین سو فی صد بڑھ جائے گی۔ لنڈے کے کپڑے کی درآمد پر5 فی صد سیلز ٹیکس،3 فی صد کسٹمز ڈیوٹی،6 فی صد وِد ہولڈنگ ٹیکس اور10 فی صدریگولیٹری ڈیوٹی پہلے ہی نافذ ہے۔

امیر محمّد ، رہنما پاکستانسیکنڈ ہینڈ کلودنگ مرچنٹایسوسی ایشن
امیر محمّد ، رہنما پاکستان
سیکنڈ ہینڈ کلودنگ مرچنٹ
ایسوسی ایشن 

نئے فیصلے کے بعد عالمی مارکیٹ سے 25 روپے فی کلوگرام ملنے والے کپڑوں پر250 روپے ٹیکس دینا پڑے گا ۔‘‘ہم نے اِس معاملے کی تفصیل جاننے کے لیے امیر محمّد سے رابطہ کیا، جو پاکستان سیکنڈ ہینڈ کلودنگ مرچنٹ ایسوسی ایشن کے جوائنٹ سیکریٹری اور ترجمان ہونے کے ساتھ، شیر شاہ مارکیٹ کے صدر بھی ہیں۔ اُن کا کہنا تھاکہ’’برآمد شدہ پرانے کپڑوں( لنڈا) کی سب سے بڑی مارکیٹ پاکستان میں ہے۔کراچی کے علاقے، شیرشاہ میں اِن اشیا کے تین ہزار سے زائد وئیر ہاؤسز ہیں اور پورے ایشیا میں اِس طرح کی ایک ساتھ قائم مارکیٹ کہیں نہیں ملے گی۔

ہمارے کاروبار سے غریب کی ایک بڑی ضرورت’’ تن ڈھانپنے کا لباس‘‘ کم قیمت پر پوری ہوتی ہے۔اِس مال کے درآمد کنندگان میں میمن، بوہری اور پشتون برادری سے وابستہ افراد کی اکثریت ہے، جب کہ سامان کے خریدار اور فروخت کرنے والے پاکستان کے ہر چھوٹے بڑے شہر میں موجود ہیں۔‘‘اُنھوں نے اِس کاروبار سے متعلق مزید تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ’’ہم امریکا یا یورپ کی مختلف کمپنیز کو آرڈر دیتے ہیں، پھر شپنگ کمپنی سے بات کی جاتی ہے۔یہ سامان یورپی ممالک سے سمندری راستے کے ذریعے ایک ماہ میں کراچی پہنچتا ہے،یہاں برتھ ہوتا ہے، پھر ہم اُس جہاز کی اینٹری ڈالتے ہیں اور ٹیکس دینے کے بعد سامان ہمیں ملتا ہے۔

کمرشل امپورٹر اپنا سامان وئیر ہاؤس میں اُتارتے ہیں۔کسی کے پاس کرائے کا اور کچھ کے اپنے گودام ہیں، ہول سیلر اپنا سامان وہاں رکھتے ہیں۔پھر یہ سامان کراچی کے پرانا حاجی کیمپ جاتا ہے، جہاں سے کاروبار کرنے والے اپنی پسند کے مطابق خریداری کرتے ہیں۔ سامان مکس ہوتا ہے، اِس لیے لوگ سامان کھول کر ہر شئے الگ الگ کر دیتے ہیں، پھر مال چَھٹنے کے بعد دوسرے شہروں میں جاتا ہے۔مال پورٹ سے لانے اور چھانٹی تک صرف کراچی میں دو لاکھ سے زائد مزدور کام کرتے ہیں۔

سب سے سستا مال کراچی میں ملتا ہے، ریٹیلرز کے پاس دس آدمیوں کے بعد مال پہنچتا ہے، یعنی مال سب سے پہلے کمرشل امپورٹر کو ملتا ہے، اُس سے ہول سیلر نے لیا اور سامان چھانٹی کے لیے آگے بھیج دیا، پھر خریدنے والا کٹیگری کے مطابق مال اُٹھاتا ہے اور آگے فروخت کرتا ہے، اِس طرح ریٹیلر کے پاس مال پہنچتا ہے، جس سے عام آدمی خریداری کرتا ہے۔ پہلے مرحلے سے آخر تک سب اپنا اپنا منافع رکھتے ہیں۔ ایک بات سمجھنے کی یہ بھی ہے کہ ہم صرف امپورٹر ہیں، اب ریٹیلر مارکیٹ میں مال کتنے میں بیچ رہا ہے، اس سے ہمارا کوئی تعلق نہیں۔

اس کاروبار سے دو ملین افراد وابستہ ہیں،جو روزانہ پانچ سو سے لے کر ہزاروں روپے تک کماتے ہیں۔‘‘لنڈے کے سامان کی مقدار اور مالیت سے متعلق پوچھے گئے ایک سوال پر اُنھوں نے بتایا’’ لنڈے کے کپڑوں کے ماہانہ تقریباً ایک ہزار کنٹینرز آتے ہیں،جو سالانہ12ہزار بنتے ہیں۔ پچھلے سال دسمبر میں آخری وصولی تک ہماری کم ازکم فی کنٹینر اوسطاً چار سے پانچ ہزار ڈالر کی انوائس تھی۔ اگر ہم صرف انوائس ہی کا حساب لگائیں، تو یہ چالیس لاکھ امریکی ڈالرز بنتے ہیں، جو سالانہ بنیادوں پر تقریباً چار کروڑ اسّی لاکھ ڈالرز ہوتے ہیں۔ لنڈے کا سامان بنیادی طور پر کم آمدنی والوں کی ضروریات پوری کررہا ہے۔ ہماری ریاست تو خود غریب سے غریب تر ہوتی جا رہی ہے اور فی الوقت عوام کی ضروریات پوری کرنے سے قاصر ہے، تو اگر حکومت وہ ضرورت پوری کرنے کے لیے صرف پانچ کروڑ ڈالر سالانہ خرچ کرتی ہے، تو یہ منہگا سودا نہیں اور حکومتی خزانے پر اس سے زیادہ فرق بھی نہیں پڑتا۔‘‘

نئے ٹیکسز سے متعلق اُن کا کہنا ہے کہ’’ کسی بھی کاروبار کے لیے نئی حکومتی پالیسی بحث مباحثے کے کئی مراحل طے ہونے کے بعد نافذ ہوتی ہے، تمام اسٹیک ہولڈر سے گفت و شنید کی جاتی ہے۔کیا مال درآمد ہونا چاہیے،کیا نہیں کرنا چاہیے، یہ ترجیحات طے ہوتی ہیں۔پھر فیڈرل بورڈ آف ریونیو کا کردار شروع ہوتا ہے، اس کے بعد وفاقی ادارے ویلیوایشن ڈیپارٹمنٹ کا کردار سامنے آتا ہے۔ایف بی آر طے کرتا ہے کہ کس چیز پر کتنا ٹیکس لاگو کیا جائے، کسٹم ڈیوٹی، سیلز ٹیکس اور دیگر ٹیکسز کتنے ہوں، عموماً ایسے اقدامات سے قبل ایف بی آر ہم سے مشاورت کرتی ہے،پھر چیمبر آف کامرس کے ذریعے خطوط آتے ہیں، ہم اُن سے میٹنگ کرتے ہیں۔

مطلب یہ ہوا کہ کسی بھی ٹیکس کے نفاذ سے قبل دو سے تین ماہ تک گفتگو ہوتی ہے، ہم بھی حکومت کو ٹیکس کم یا زیادہ کرنے کے لیے سفارشات دیتے ہیں، لیکن اِس مرتبہ ہمارے ساتھ یہ ظلم ہوا کہ حکومت کی طرف سے کوئی پالیسی آئی اور نہ ہی ہمیں اعتماد میں لیا گیا، ایف بی آر کی طرف سے ٹیکس بھی نہیں بڑھایا گیا بلکہ ویلوایشن ڈیپارٹمنٹ نے ہماری کمیوڈیز کو دو سوفی صد بڑھا کر اسیسمنٹ شروع کردیا ہے۔ اس کی مثال یوں ہے، فرض کریں کہ ایف بی آر میں طے ہے کہ کسی موبائل کی قیمت پچاس ہزاروپے ہے، تو اس پر ٹیکس اُسی قیمت کے مطابق لگے گا۔

کمیوڈیز کی قیمتوں کا تعیّن ویلوایشن ڈیپارٹمنٹ کرتا ہے،وہ لنڈے کی چیزوں، جن کی اسیسٹ پہلے پچاس ہزار روپے تھی، اُسے ڈیڑھ لاکھ پر لے گیا ہے،تو اس پر ٹیکس خود بخود بڑھ گیا۔ اب ہم اس میں دیگر اخراجات شامل کرتے ہیں تو سب ملا کر وہ 300فی صد پر چلا گیا ہے،گویا جو چیز پچاس ہزار کی ہے، حکومت کہہ رہی ہے کہ اس کی قیمت ڈیڑھ لاکھ روپے ہے۔ ہم نے مسئلے کے حل کے لیے ویلیوایشن ڈیپارٹمنٹ سے رابطہ کیا اور اُنہیں بتایا کہ آپ صرف یورپ کے لنڈا مال کی فی کلو کی مثال لیں، تو وہ 36سینٹ فی کلو اسیسمنٹ ہوتا تھا، یعنی اس مال پر 36سینٹ کے مطابق ایف بی آر ٹیکس لگاتا تھا، لیکن اب ویلیوایشن ڈیپارٹمنٹ نے یورپ سے آنے والے سیکنڈ ہینڈ سامان کی اسیسمنٹ 36 سینٹ سے بڑھا کر یک دَم ایک ڈالر کر دی ہے، یعنی سامان کی 200فی صد ویلیو بڑھ گئی، اب ایف بی آر ہم پر ایک ڈالر کے مطابق ٹیکس لگائے گا اورجب ہم اس میں مزید اپنے اخراجات شامل کریں گے، تو سامان کی ویلیو 300فی صد تک چلی جائے گی، جس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی،یہ تاریخ کا سب سے بڑا نقصان ہے۔ ہم پہلے ہی ڈالر کی بڑھتی قیمت سے پریشان ہیں، اب دو طرف سے پھنس گئے ہیں۔ 

ہم 36سینٹ پر تھے، تو ڈالر کی غیریقینی قیمت کا دباؤ تھا اور پھر اب اچانک دوسو فی صد حکومت نے بڑھا دیئے۔ پھر معاملہ یہاں نہیں رُکا، ہمیں مزید نقصان ہوگا کہ مارکیٹ میں ڈالر نہیں ہیں۔پہلے ہمارا کنٹینر 36سینٹ میں اسیسٹ ہوتا تھا، کنٹینر میں 23 ہزار کلو مال ہوتا ہے، تو اس کی ویلیو چار سے چھے ہزار ڈالر تک پہنچتی تھی،پھر اُسی کے مطابق ٹیکس بنتا تھا۔ پاکستانی قانون کے مطابق آپ جتنا اسیسمنٹ کریں گے،اسی کے مطابق آپ بینکنگ چینل کے ذریعے ڈالر بھیج سکتے ہیں،تو اب ایک ڈالر اسیسمنٹ فیصلہ کرنے سے کنٹینر جس میں 23ہزار کلو سامان آتا ہے، تو اب ہم 23ہزار امریکی ڈالر بینکنگ چینل کے ذریعے باہر بھیج سکتے ہیں، اِس طرح فی کنٹینر 23 ہزار ڈالر مُلک سے باہر جایا کرے گا، جہاں ہم پہلے پانچ ہزار ڈالر بھیجتے تھے، نئے فیصلے کے بعد 23 ہزار ڈالر بھیجیں گے، مُلک میں ڈالر کی ویسے ہی کمی ہے ،تو یہ غریب کے ساتھ مُلکی خزانے کا بھی بڑا نقصان ہے۔

اِس طرح چھے سے سات سو فی صد پلس سے کوئی بھی بیرونِ مُلک انوائس بھیج سکتا ہے اورجب سال کے بعد حکومت تخمینہ لگائے گی، تو سوچیں ،ہم جو پہلے ہی ڈالر بحران کا شکار ہیں، تو اس کے بعد کیا ہوگا۔ہم سمجھتے ہیں ،اِس پالیسی کا نقصان دِنوں میں سامنے آئے گا۔ اِسی لیے ہم غیرمنصفانہ ٹیکس کےخلاف متعلقہ اداروں سے بات چیت کر رہے ہیںاور قانونی جنگ بھی لڑنے جارہے ہیں۔ ہمارا شکوہ یہ ہے کہ کوئی بھی حکومت ٹیکس میں ویلیوایشن بڑھانے کے فیصلے سے پہلے تمام اسٹیک ہولڈرز کو وقت دیتی ہے تاکہ وہ پرانے معاہدوں کو مکمل کرلیں، مستقبل کی تیاری کرلیں، لیکن یہاں فیصلہ راتوں رات ہوا ہے۔

16 دسمبر2022 ء کو نئی قیمت لاگو کی گئی، تو پورٹ پر جو ہمارے کنٹینر زلگے ہوئے تھے اور جن کی اینٹریز ڈال رکھی تھیں، وہ کنٹینرز دوماہ پہلے جرمنی یا امریکا کی بندرگارہ سے چلے اور 8 یا 10 دسمبر تک کراچی پورٹ پر لنگرانداز ہوئے، مال اُترنے کے لیے کم از کم پانچ سے چھے دن کا طریقۂ کار ہے، بعض اوقات دس دن بھی لگتے ہیں، اب 8 دسمبر کو میرا کنٹینر لگا اور 16 دسمبر کو حکومت نے نئے ویلیوایشن کے ساتھ ٹیکس کا اعلان کردیا، اچانک اِتنا ٹیکس لگنے پر سامان کون اُٹھائے گا،ہم تین سو فی صد پر جاکر مال کیسے بیچیں گے۔ نئے ٹیکس کے بعد یہ چار، پانچ سو میں ملنے والی جیکٹ دو ہزار سے کم میں نہیں ملے گی۔

حکومتی ٹیکس میں اضافے کے بعد میرے پاس دو راستے ہیں یا تو مرحلہ وار قیمت بڑھائوں یا دوسری صورت میں یہ کام ہی چھوڑ دوں۔نئے ٹیکس کے بعد جو چیز مجھے 300روپے میں ملتی تھی، اب وہ 1200روپے کی پڑے گی۔عام آدمی پر اس کے اثرات چند ماہ بعد نظر آئیں، کیوں کہ ابھی ہول سیلرز اور ریٹیلرز کے پاس پرانا مال موجود ہے۔ پہلے ہمیں 37سینٹ کے مطابق ساڑھے پانچ لاکھ روپے ٹیکس دینا ہوتا تھا، لیکن ویلیو ایشن بڑھنے کے بعد وہ 16 سے 17 لاکھ روپے ہوگیا ہے۔ اب اگر فی کنٹینر 17 لاکھ ٹیکس دیں گے، تو ماہانہ ایک ہزار کنٹینرز پر ایک ارب، ستّر کروڑ روپے بنیں گے،جو سالانہ 20ارب روپے بنتے ہیں،جب کہ ڈالر کے مطابق یہ 9 کروڑ امریکی ڈالر بنتے ہیں اور ہماری سالانہ خرید ہی کُل پانچ کروڑ ڈالر ہے۔ یعنی ہم خریدے گئے مال کی لاگت سے زیادہ حکومت کو ٹیکس دیں گے۔‘‘

 کوئی اور کام کرنے کا سوچ رہے ہیں، وئیر ہاوس مالکان

نجیب، لنڈے کے سامان کے امپورٹر ہیں اور اُن کا شیرشاہ میں وئیر ہاؤس بھی ہے، جس کا کرایہ ماہانہ ڈیڑھ لاکھ روپے ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ’’ہمارے پاس استعمال شدہ پہننے والا ہر سامان بنڈل کی صُورت میں آتا ہے۔ اگر صرف جیکٹ ہی کو لے لیں، تو ساڑھے چار سو کلو گرام کے ایک بنڈل میں ہر طرح کی 300کے قریب جیکٹس ہوتی ہیں،جو ہمیں ایک سو روپے فی کلو گرام پڑتی ہیں۔چوں کہ مقابلے کی فضا ہے، اِس لیے ہم اسے دو روپے فی کلو منافعے سے آگے فروخت کردیتے ہیں۔

تاہم، آنے والے دن ہمارے لیے اچھے ہیں اور نہ ہی خریدار کے لیے، کیوں کہ ڈالر کا فرق، پھر ویلیوایشن ڈیپارٹمنٹ کی تین گنا نئی اسیسمنٹ، یوں ہمیں مال بہت منہگا پڑے گا۔ پچھلے برسوں میں ہمارا گودام مال سے بَھرا ہوتا تھا، لیکن ابھی دیکھیں، خالی پڑا ہے۔‘‘عبدالمجید بھی شیر شاہ میں ویئر ہاؤس کے مالک ہیں اور کاروباری غیریقینی صورتِ حال کے سبب پچھلے ایک سال سے اُن کے پاس صرف ایک ملازم کام کر رہا ہے۔

اُنھوں نے بتایا’’گزشتہ سال دسمبر کے پہلے ہفتے تک ہمارے پاس استعمال شدہ کپڑوں کے مِکس بنڈل آرہے تھے،بیرونِ مُلک لیبر منہگی ہونے کے سبب مکس سامان کا بنڈل سستا پڑتا ہے۔ دو سائز کے بنڈل آتے ہیں، بڑا 300 سے ساڑھے چارسو کلو گرام کا اور چھوٹا 45 سے 60کلو گرام تک کا ہوتا ہے۔اگر صرف گرم کپڑوں میں سوئٹر زکی بات کریں، تو ہمیں آخری مال 90روپے فی کلو پڑ رہا تھا، جسے ہم دس سے بیس روپے فی کلو منافع رکھ کر آگے بیچ رہے تھے۔

نئے ٹیکس کے بعد مال بہت زیادہ منہگا ہوجائے گا، تو اس کے بعد ہم یہ مال کم از کم ساڑھے تین سو روپے فی کلو بیچیں گے۔ اِتنا منہگا مال ہر آدمی برداشت نہیں کرسکے گا۔ امپورٹ بند ہونے کی وجہ سے وئیر ہاؤسز خالی ہو رہے ہیں، تو اِس کاروبار سے وابستہ لوگ جلد یا بدیر دوسرے کاموں کی طرف یا بیرونِ مُلک منتقل ہوجائیں گے۔‘‘