• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

اُن کی صورت نظر آئے تو غزل کہتے ہیں ...

تحریر: نرجس ملک

ماڈل: عبادت چوہدری

ملبوسات: شاہ پوش

آرائش: دیوابیوٹی سیلون

عکّاسی: عرفان نجمی

لے آؤٹ: نوید رشید

قتیل شفائی کی ایک بہت خُوب صُورت غزل، جسے1966ء میں فلم ’’پائل کی جھنکار‘‘ کے لیے رشید عطرے کی موسیقی میں سلیم رضا نے گا کے امَر کردیا اور جسے بعد میں کئی اور گلوکاروں نے بھی گایا، جب کہ بھارت میں تو پھر یہ گیت ری میک بھی کیا گیا، آج بھی کسی دل آرا، قاتل ادا کے حُسنِ مجسّم کے بیان کے لیے نہایت موزوں ہے۔غزل یوں ہے ؎ حُسن کو چاند، جوانی کو کنول کہتے ہیں… اُن کی صُورت نظر آئے، تو غزل کہتے ہیں…اُف وہ مَرمَر سے تراشا ہوا شفّاف بدن… دیکھنے والے اُسے تاج محل کہتے ہیں… وہ تِرے حُسن کی قیمت سے نہیں ہیں واقف…پنکھڑی کو جو تِرے لب کا بدل کہتے ہیں… پڑگئی پائوں میں تقدیر کی زنجیر تو کیا… ہم تو اُس کو بھی تِری زلف کا بَل کہتے ہیں۔ 

گرچہ معشوق کے حُسنِ دل رُبا کو معروف بھارتی شاعر جاوید اختر نے بھی ؎ ’’حُسنِ جاناں کی تعریف ممکن نہیں… آفریں آفریں، آفریں آفریں … تُو بھی دیکھے اگر تو کہے ہم نشیں… آفریں آفریں، آفریں آفریں‘‘ کی صُورت لکھ کے اور نصرت فتح علی نے گاکے لازوال کیا، تو احمد فراز کی اُس غزل ؎ ’’سُنا ہے لوگ اُسے آنکھ بَھر کے دیکھتے ہیں… سو، اُس کے شہر میں کچھ دن ٹھہر کے دیکھتےہیں‘‘ میں استعمال ہونے والی تمثیلات، تشبیہات و استعارات کا بھی کوئی مول، دام نہیں۔ 

جب کہ ایک نسبتاً نوجوان شاعر شہزاد قیس کی غزل ؎ ’’ردیف، قافیہ، بندش، خیال، لفظ گری… وہ حُور زینہ اُترتے ہوئے سکھانے لگی‘‘ کا اندازِ سخن بھی کچھ ایسا ہی ہے کہ پڑھ کے جس حور شمائل، پَری چہرہ کا تصوّر ذہن میں آتا ہے، حقیقتاً ایسی کوئی کافر ادا ساحرہ خال ہی دکھائی دیتی ہے۔ پھر یوں بھی دورِ حاضر کے تو بیش تر حُسن والوں کے حُسن میں مشاطائوں کی مشاطگی، کاری گری کا زیادہ عمل دخل نظر آتا ہے۔ وہ ماورائی، افسانوی حُسن و دل کشی تو گویا قصّۂ پارینہ ہوئی۔ لیکن پھر یہ بھی ہے کہ ’’حُسن تو دیکھنے والی نگاہ میں ہوتا ہے۔‘‘ اور ’’دِل کا کیا ہے، وہ تو کسی پر بھی آسکتا ہے۔‘‘ اب وہ خواہ مِس یونی ورس، مِس ورلڈ ہو یا…

ویسے اگر معقول صورت کے ساتھ آرائش و زیبائش بھی کسی قدر حسین و دل نشین موسم، موقع محل کی مناسبت سے ہو، تو بس پھر تو حُسنِ ذوق رکھنے والوں کا کام تمام ہی سمجھیں۔ ایسے ہی تو نہیں بشیر بدر نے کہا تھا ؎ سر سے پا تک وہ گلابوں کا شجر لگتا ہے…باوضو ہو کے بھی چُھوتے ہوئے ڈر لگتا ہے…مَیں تِرے ساتھ ستاروں سے گزر سکتا ہوں… کتنا آسان محبّت کا سفر لگتا ہے۔جب کہ ’’اُن کی صورت نظر آئے تو غزل کہتے ہیں‘‘ تو گویا خُودبخود ہی لبوں پہ آجاتا ہے۔

ہماری آج کے بزم میں دیکھیے۔ تِھری پیس، کھدّر سُوٹس کے ساتھ فلورل پرنٹ میچنگ سیپرٹس کے بھی کچھ انداز ہیں۔ روایتی فراکس، انگرکھوں کا انداز بناوٹ لیے پانچ خُوب صُورت اسٹائلز ہیں، جن میں سندھی شیشہ ورک کی جھلک ہے، تو رلی ورک (ایپلک) اور بلوچی پشواز لُک بھی۔ جب کہ رنگ سارے کے سارے عین موسمِ سرما سے ہم آہنگ خاصے گہرے اور اُجلے، کِھلے کِھلے سے ہیں۔ تو… اب اُن کی صُورت دیکھ کر جو بھی غزل ہوجائے، وہ آپ ہم سے بھی شیئر کرسکتے ہیں۔