بات چیت …محمد ارسلان فیاض، کوئٹہ
کوئٹہ شہر سطحِ سمندر سے تقریباً1900میٹر کی بلندی پر واقع ہے۔ یہ اپنے بہترین اور معیاری پھلوں کی پیداوار کے حوالے سے دنیا بھر میں مشہور ہے۔ خشک پہاڑوں میں گِھرا کوئٹہ، پاکستان کا دسواں سب سے زیادہ آبادی والا شہر ہے، جس کی آبادی 12لاکھ سے زیادہ ہے۔ یہ ملک کے جنوب مغرب میں افغانستان کے ساتھ بین الاقوامی سرحد کے قریب واقع اور دونوں ممالک کے درمیان تجارتی اور مواصلاتی مرکز ہے۔ تاریخی شہر، بولان پاس کے راستے کے قریب واقع یہ شہر کسی زمانے میں وسطی ایشیا سے جنوبی ایشیا تک کے بڑے گیٹ ویز میں سے ایک تھا۔ موجودہ دَور میں صوبہ بلوچستان کا دارالحکومت کوئٹہ، ماضی میں کبھی’’ لٹل پیرس‘‘ کہلاتا تھا، مگر آج گوناں گوں مسائل کا شکار ہے۔
تاہم، میٹرو پولیٹن کارپوریشن، کوئٹہ کے ایڈمنسٹریٹر، جبار بلوچ اس شہر کو ماڈرن سٹی بنانے کے لیے نہ صرف پُرعزم ہیں، بلکہ خاصے متحرک و فعال بھی دکھائی دیتے ہیں، جس کا ثبوت شہر کی تعمیر و ترقی اور اسے خُوب صُورت بنانے کے حوالے سے اُن کے متعدد عملی اقدامات ہیں۔ جبار بلوچ انتہائی فرض شناس اور باصلاحیت ایڈمنسٹریٹر ہیں، اس سے قبل وہ اسسٹنٹ کمشنر پنج گور، اسسٹنٹ کمشنر اور اے ڈی سی نصیر آباد، ڈائریکٹر سول ڈیفنس اور ڈائریکٹر جنرل بلوچستان چیریٹیز رجسٹریشن اتھارٹی سمیت مختلف اعلیٰ سرکاری محکموں میں خدمات سرانجام دے چکے ہیں۔
انھوں نے مذکورہ محکموں سے وابستگی کے دوران نہ صرف مختلف اصلاحات کیں، بلکہ انھیں جدید خطوط پر استوار بھی کیا۔ جبار بلوچ سرزمینِ بلوچستان کے قابلِ فخر سپوت ہیں اور اس وقت بحیثیت ایڈمنسٹریٹر، میٹروپولیٹن کارپوریشن، کوئٹہ فرائض سرانجام دے رہے۔ گزشتہ دنوں اُن سے کوئٹہ شہر کے مسائل اور اُن کے حل کے حوالے سے تفصیلی گفتگو ہوئی، جس کا احوال نذرِ قارئین ہے۔
س:سب سے پہلے تو یہ بتائیے کہ بحیثیت ایڈمنسٹریٹر کوئٹہ، آپ کو کن کن چیلنجز کا سامنا ہے؟
ج: چیلنجز تو بے شمار ہے، جن میں سرِفہرست کارپوریشن کا ٹیکس اور ریونیو نظام ہے، جسے بہتر اور مربوط بنانے کے لیے مختلف اقدامات کررہا ہوں۔ اس کے علاوہ محکمے کے آمدن کے ذرائع میں اضافہ اور ملازمین کی بروقت تن خواہوں سمیت دیگر امور کی انجام دہی میں حائل مالی مشکلات کے حل کے لیے بھرپور کوششیں کررہا ہوں۔ دوسرا بڑا چیلنج کارپوریشن کی زمینوں کا ہے، اس حوالے سے ہم نے کارپوریشن کی زمینوں کا تمام ڈیٹا محفوظ بنانے کے لیے کام کا آغاز کردیا ہے، تاکہ آئندہ کوئی کارپوریشن کی زمینوں پر قبضہ نہ کرسکے۔
صوبائی دارالحکومت ہونے کی وجہ سے یہاں بہت سے سرکاری دفاتر قائم ہیں۔ 1979ء کی روز، افغان جنگ کے بعد ہزاروں کی تعداد میں افغان مہاجرین کی آمد نے شہر کی شکل ہی بدل کے رکھ دی۔ نیز،جرائم کی تعداد میں بھی بہت اضافہ ہوا۔ پھر آبادی میں ہوش رُبا اضافے اور اِردگرد نئی آبادیوں کے پھیلنے سے بھی متعدد مسائل نے جنم لیا، جن سے ہم بتدریج نمٹنے کی کوشش کررہے ہیں۔ اس کے علاوہ میٹروپولیٹن، کوئٹہ کے دفاتر کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے لیے شہریوں کو آن لائن خدمات کی فراہمی کے لیے بھی مختلف اقدامات کیے جارہے ہیں تاکہ شہری اپنے اہم امور آن لائن انجام دے سکیں۔ گرچہ ان تمام معاملات میں مشکلات کا تو سامنا ہے، لیکن تمام مسائل کا خندہ پیشانی سے مقابلہ کرنے کے لیے میدانِ عمل میں موجود ہیں۔
س: شہر میں صفائی ستھرائی کی صورتِ حال بہتر بنانے کے لیے کیا خصوصی اقدامات کررہے ہیں؟
ج: ہم دست یاب وسائل کے ساتھ ہی شہر کو صاف ستھرا اور سرسبز و شاداب بنانے کے لیے کوشاں ہیں۔ ہمارا عزم اور بھرپور کوشش ہے کہ زیادہ سے زیادہ درخت لگا ئیں اور پھر ہر درخت کی حفاظت کریں، کسی درخت کو لاوارث نہ چھوڑیں۔ اس سلسلے میں ہمیں عوام کا تعاون بھی درکار ہے۔ شہریوں سے ہماری التجا ہے کہ اِدھر اُدھر کچرا پھینکنے کے بجائے مخصوص مقامات ہی پر ڈالیں۔ یہ شہر ہم سب کا ہے، اس کی خُوب صُورتی کے لیے ہم تو ہر ممکن اقدامات کررہے ہیں، لیکن ساتھ ساتھ شہریوں پر بھی ذمّے داری عاید ہوتی ہے کہ وہ ہمارا ساتھ دیں۔
اس سلسلے میں ’’سپورٹ ایم سی کیو‘‘ مہم کا آغاز کردیا گیا ہے، جس میں ایم سی کیو اور عوام مل کر شہر کی خُوب صُورتی اور بہتری کے لیے اپنا اپنا کردار اداکریں گے۔ علاوہ ازیں، عوام میں شعور و آگہی کے لیے ’’کلین کوئٹہ، گرین کوئٹہ‘‘ مہم بھی شروع کی گئی ہے، جس کے اچھے نتائج سامنے آرہے ہیں۔ دراصل کوئی بھی مہم عوام کے تعاون کے بغیر پایہ تکمیل تک پہنچ ہی نہیں سکتی اور ہمیں خوشی ہے کہ عوام ان مہمّات میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لے رہے ہیں۔
س: شہر میں روزانہ کتنا کچرا پیدا ہوتا ہے، نیز اسے ٹھکانے لگانے کے لیے کارپوریشن کی استعدادی صلاحیت کتنی ہے؟
ج: کوئٹہ میں روزانہ تقریباً16سو سے17سو ٹن تک کچرا پیدا ہوتا ہے، جب کہ ہماری صلاحیت لگ بھگ7سو ٹن کچرا اُٹھانے کی ہے۔ تاہم، اب ہم نے جیو میپنگ کی ہے، ماضی میں جن علاقوں سے کئی کئی ماہ تک کچرا نہیں اٹھایا جاتا تھا، اب اُن علاقوں سے بھی مہینے میں دو مرتبہ کچرا اٹھایا جارہا ہے، جب کہ حال ہی میں ہم نے12 سال سے غیر فعال سالڈ ویسٹ کا پلانٹ بھی فعال کروایا ہے، جس کے باعث ہمیں کچرا ٹھکانے لگانے میں کافی مدد مل رہی ہے۔
س: میٹروپولیٹن کارپوریشن کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے لیے کیا اقدمات کررہے ہیں؟
ج: منصب سنبھالنے کے بعدمیری اوّلین کوشش میٹروپولیٹن کارپوریشن کو ڈیجٹلائز کرنے کی ہے۔ اس سلسلے میں مختلف اقدامات کیے ہیں۔ مثلاً میٹروپولیٹن کا پورٹل بنواکر اس کے ڈیش بورڈ میں تمام امور سے متعلق معلومات درج کردی گئی ہیں، مذکورہ سہولت کی فراہمی کے بعد کسی بھی قسم کی شکایت اب بآسانی آن لائن کی جاسکتی ہے۔
اس کے علاوہ زمینوں کے حوالے سے تمام ریکارڈز اور ٹیکسز کی تمام تفصیلات بھی پورٹل کے ڈیش بورڈ میں موجود ہیں۔ علاوہ ازیں، یہاں سے کوئٹہ شہر کی تاریخ سمیت میٹروپولیٹن کی اراضی، مشینری، ملازمین اور حدود سمیت دیگر معلومات بھی حاصل کی جاسکتی ہیں، جب کہ مختلف شکایات کے ازالے کے لیے ایک خصوصی ایپ کا اجراء بھی کیا گیا ہے۔ ہماری کوشش ہے کہ تمام ریکارڈز اور ڈیٹا، آن لائن کردیا جائے، جب کہ جلد ہی کارپوریشن میں آئی ٹی ریسرچ اینڈ انوینشن لیب بھی قائم کرنے کا ارادہ ہے۔
س: آن لائن سروس کے علاوہ میٹروپولیٹن ارپوریشن کے دفاتر سے رجوع کرنے والے سائلین کی آسانی کے لیے بھی کچھ سہولتیں فراہم کی جاتی ہیں؟
ج: جی ہاں بالکل، کارپوریشن کے مختلف دفاتر سے رجوع کرنے والے شہریوں کو ہر ممکن سہولتوں کی فراہمی ہماری اوّلین ترجیحات میں شامل ہے۔ اس ضمن میں ون ونڈو فرنٹ ڈیسک قائم کی جارہی ہے، جہاں سے سائلین باآسانی برتھ رجسٹریشن، ڈیتھ سرٹیفکیٹ اور نکاح رجسٹریشن سمیت بلدیہ سے متعلق کسی بھی نوعیت کے کام بآسانی کرواسکیں گے۔
یہاں آنے والوں کو ایک ٹوکن دے دیا جائے گا اور اس پر جو تاریخ درج ہوگی، اُسی روز وہ مطلوبہ کائونٹر پر آکر اپنا سرٹیفکیٹ یا کسی بھی کام کے غرض سے منظوری یا مزید معلومات حاصل کرسکیں گے۔
س: فائربریگیڈ کی بہتری کے لیے بھی کیاکوئی منصوبہ بندی کی ہے؟
ج: شہر میں وسائل اور عملے کی کمی کے باعث آگ بجھانے والے عملے کو اکثرمشکلات کا سامنا رہتا ہے۔ پیٹرول بردار گاڑیوں، منی پیٹرول پمپس، ایل پی جی سیلنڈرز کے پھٹنے، سوئی گیس لیکیج اور شارٹ سرکٹ کے نتیجے میں آتش زدگی کے واقعات روز کا معمول ہیں، لیکن بدقسمتی سے کوئٹہ شہر میں صرف 3فائر اسٹیشنز ہیں۔
شہری حدود میں قائم ان فائر اسٹیشنز میں فائر فائٹرز، ڈرائیورز اوردیگر عملے کی تعداد بھی بہت کم ہے، جب کہ اونچی عمارتوں تک رسائی کے لیے اسنارکل اور کیمیکل ٹینڈرز کی سہولت بھی دست یاب نہیں، ایسے میں کسی بھی ہنگامی صورت میں آگ بجھانے کا عمل انتہائی مشکل ہوجاتا ہے۔ تاہم، وسائل اور دیگر سہولتوں کی کمی کے باوجود ہمارا فائر بریگیڈ کا شعبہ انتہائی منظّم و متحرک ہے اور فائر بریگیڈ کا عملہ نہ صرف کوئٹہ، بلکہ شہر کے اطراف پشین، مستونگ، مچھ اور کچلاک تک میں آتش زدگی کی صُورت میں بروقت پہنچتا ہے۔
س: شہر میں تجاوزات اور پتھارے داروں کی بھرمار بھی ایک بڑا مسئلہ ہے، اس حوالے سے کیا اقدامات کررہے ہیں؟
ج: یہ درست ہے کہ تجاوزات اور پتھارے داروں کی وجہ سے شہریوں کو اَن گنت مسائل درپیش ہیں اور شہر کی ترقی اور عوام کی بہتری کے لیے وقتاً فوقتاً ان کے خاتمے کے لیے آپریشنز بھی کیے جاتے ہیں، تاہم اس دوران کسی سے کسی قسم کی زیادتی نہیں کی جاتی، بلکہ اس حوالے سے تمام طبقۂ فکر خصوصاً تاجر برادری کو اعتماد میں لیا جاتا ہے۔ آپریشن کے دوران ہمارا انکروچمنٹ سیل شہر میں تجاوزات کے خلاف بلاامتیاز کارروائی کرتا ہے۔
تاہم، میرے خیال میں اس ضمن میں سخت مانیٹرنگ کی ضرورت ہے، کیوں کہ ایک علاقے میں کارروائی کے بعد پتھارے دار کسی دوسرے علاقے میں دوبارہ سڑکوں، فٹ پاتھوں پر قبضہ جمالیتے ہیں، لہٰذا ہم نے ضلعی انتظامیہ کے تعاون سے مشترکہ طور پر تجاوزات کے خلاف کریک ڈائون کا فیصلہ کیا ہے، اور آپ دیکھیں گے کہ بہت جلد شہر کے بیش تر علاقے تجاوزات سے پاک ہوجائیں گے۔
س: بلڈنگ کوڈ کی خلاف ورزی کے حوالے سے آپ کیا کررہے ہیں؟
ج: کوئٹہ کے عوام اس وقت ٹریفک جام، تجاوزات، پارکنگ اورغیر قانونی عمارات کی تعمیر سے پیدا ہونے والے گمبھیر مسائل سے دوچار ہیں۔ ان تمام مسائل کے سدِّباب کے لیے ہم رات دن کوشاں ہیں، ہمارا عزم ہے کہ کوئٹہ کو ایک جدید اور بہترین شہر بنائیں۔ شہر میں بڑھتی ہوئی ٹریفک اور ہجوم کی اہم وجہ ایسی عمارات ہیں، جن کی کوئی پارکنگ ہی نہیں ہے، اس کے علاوہ شہر بھر میں تیزی سے نئی عمارات تعمیر بھی کی جارہی ہیں، تو فی الحال ایسی تمام عمارتوں، جن کی تعمیر کے اجازت نامے موصول ہوچکے ہیں، بلڈنگ کوڈ کی پاس داری، پارکنگ اور دیگر سہولتوں کا مکمل جائزہ لینے کے بعد ہی تعمیرات کی اجازت دی جائے گی۔ میٹروپولیٹن کارپوریشن قواعد و ضوابط اور بلڈنگ کوڈ کے تمام قانونی تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ہی این او سی جاری کرے گی اور بلڈنگ کوڈز کی خلاف ورزی کی مرتکب عمارتیں مسمار کرنے کے علاوہ ان پر جرمانہ بھی عائد کیا جائے گا۔
س: کوئٹہ شہر کی بہتری اور تعمیر و ترقی کے لیے کون کون سے منصوبے زیر غور ہیں؟
ج: شہر کو ماڈرن سٹی بنانے کے حوالے سے متعدد منصوبوں پر کام جاری ہے، جب کہ کئی منصوبے زیر غور بھی ہیں۔ شہر کی خُوب صُورتی بحال کرنے کے لیے عملی اقدامات شروع کردیئے گئے ہیں، اس سلسلے میں شجر کاری مہم کے تحت اب تک مختلف شاہ راہوں پر ایک ہزار سے زائد درخت لگائے جاچکے ہیں۔ اسی طرح شہر کی مرکزی شاہ راہوں کی دائیں بائیں دیواروں کو پینٹنگز کے ذریعے دیدہ زیب بنایا گیا ہے۔ اسٹریٹ لائٹس فعال کرکے اکثر علاقوں میں خراب لائٹس کی مرمت بھی کردی گئی ہے۔
ہم تو اپنے وسائل میں رہتے ہوئے ترقیاتی کام کرتے ہیں، مگر کچھ عناصر پائپ لائن بچھانے کی غرض سے بے دردی سے سڑکیں کھود دیتے ہیں، تو پھر شہر کا حلیہ بگڑ کر رہ جاتا ہے، لہٰذا اب جو بھی روڈ کٹنگ کی فیس جمع کروائے بغیر سڑک توڑے گا، اس کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔ اس کے علاوہ ٹیکس اور مقررہ فیس ادا کیے بغیر اشتہاری بورڈز اور بینرز لگانے والوں کے خلاف بھی کارروائی شروع کردی گئی ہے۔دراصل کوئٹہ شہر کی تعمیر و ترقی کے حوالے سے اب تک کوئی مربوط لائحہ عمل ترتیب ہی نہیں دیا گیا تھا۔
بے ہنگم بڑھتی ہوئی آبادی نے شہر کی شکل ہی بگاڑ کر رکھ دی ہے۔ یاد رہے، قیامِ پاکستان سے قبل انگریز دورِ حکومت میں یہاں آنے والے بدترین زلزلے کے بعد جب شہر کو دوبارہ بسانے کا فیصلہ کیا گیا، تو اُس وقت کی سرکار نے شہر کو ابتدائی طور پر پچاس ہزار نفوس کے لیے ڈیزائن کیا، لیکن آج پچاس ہزار نفوس کے لیے بنایا گیا شہر، لاکھوں لوگوں کا مسکن ہے۔
پھر قیامِ پاکستان کے بعد بھی وقتاً فوقتاً شہری منصوبہ بندی کے حوالے سے اقدامات کیے جاتے رہے، مگر انتظامی مسائل جُوں کے تُوں ہیں۔ چوں کہ شہر چاروں طرف سے پھیل رہا ہے، ہر گزرتے دن کے ساتھ آبادی کے دباؤ میں اضافہ ہورہا ہے، تو ایسے میں ضرورت اس امر کی ہے کہ شہر کا از سرِنو ماسٹرپلان تیار کیا جائے۔