(گزشتہ سے پیوستہ)
شاہی محلہ (ہیرا منڈی ،بازار حسن) اس علاقے کے مختلف نام رہے ہیں جس زمانے میں فلموں اور تماش بینوں کا دور تھا ، اس زمانے میں اس کا نام ہیرا منڈی اور بازار حسن تھا۔
عزیز قارئین آپ کو یہ پڑھ کر یقیناً حیرت ہو گی کہ اسسٹنٹ فوڈ کنٹرولر (محکمہ خوراک)کا آفس شاہی محلہ میں رہا ، ہم نے یہ آفس خود کئی مرتبہ دیکھا تھا ہمارے والد محمد ادریس ناگی جو کہ ڈسٹرکٹ فوڈ کنٹرولر تھے ان کے ہمراہ اس آفس کا کئی مرتبہ وزٹ کیا، دفتر کے اوپر طوائفوں کے کوٹھے تھے ہمیں آج تک یہ بات سمجھ میں نہ آ سکی محکمہ خوراک نےآخر ہیرا منڈی میں ہی کیوں ،اپنا ایک آفس ایک ایسے کوٹھے میں بنایا ہوا تھا جس کوٹھےکے آدھے حصے میں طوائفیں اور آدھے حصے میں محکمہ خوراک کے آفیسر اور دیگر عملہ بیٹھا کرتا تھا، یہ زمانہ 1966ء سے 1967ء تک کا ہے اس دور میں پورے ملک میں راشن ڈپو ہوا کرتے تھے ہم نے خود یہ دیکھا کہ محکمہ خوراک کے اس آفس میں اکثر طوائفیں اسسٹنٹ فوڈ کنٹرولر اور فوڈ انسپکٹروں اور دیگر عملے کے پاس چینی اور آٹے کی پرچیاں لینے آیا کرتی تھیں ۔اس دور میں چینی اور آٹا (بعض ڈپوئوں پر چاول) راشن ڈپوئوں پر ملا کرتا تھا راشن کارڈ بنانا بہت مشکل کام ہوتا تھا ۔لوگ راشن کارڈز میں اکثر اپنے خاندان کے افراد کی تعداد زیادہ لکھ دیا کرتے تھے کیا زمانہ تھا محکمہ خوراک کا عملہ گھروں میں جاکر بھی کبھی کبھی افراد خانہ کو چیک کر لیا کرتا تھا اس دور میں راشن ڈپوئوں سے لوگوں نے لاکھوں روپے کمائے بلکہ محکمہ خوراک کے کئی افسروں اور عملے کے لوگوں کے اپنے اور ان کے رشتہ داروں کے بھی راشن ڈپو ہوا کرتے تھے خیر اس محکمہ خوراک کے دفتر سےصبح شام کو آٹا،چینی لینے کے لئے بھی سفارش پر پرچیاں ملا کرتی تھیں ہمیں یاد ہے شاہی محلہ میں پولیس کے بعد سب سے طاقتور ڈیپارٹمنٹ محکمہ خوراک کا یہ آفس تھا ۔شاہی محلہ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ یہاں پر برصغیر کا قدیم ترین اور بعض حوالوں سے پہلا ٹاکی سینما قائم ہوا تھا جو پورے سو سال تک کام کرتا رہاٹاکی سینما وہ ہوتا تھا جس میں آواز کے ساتھ فلم دکھائی جاتی تھی اور ہمیں بھی اس قدیم ترین سینما گھر میں فلم دیکھنے کا اتفاق ہوا ہے اس سینما یعنی پاکستان ٹاکیز (عزیز تھیٹر، رائل ٹاکیز) میں برصغیر کی پہلی بولتی فلم عالم آراء کی نمائش ہوئی تھی 1911ء سے 2011ء تک پورے ایک سو برس تک اس سینما میں فلموں کی نمائش ہوتی رہی شاہی محلہ میں ترنم (گیتی تھیٹر) اور سٹی سینما بھی رہے ہیں مگر پاکستان ٹاکیز ان سب میں پرانا تھا اور اس علاقے کا سب سے مشہور سینما تھا کہتے ہیں کہ کئی فنکاروں نے یہاں پر فلمیں دیکھی ہیں۔ اداکارہ و گلوکارہ ملکہ ترنم نور جہاں بھی کسی زمانے میں یہاں رہتی تھیں ان کے مکان کے باہر یہ درج ہے ۔
ملکہ ترنم نور جہاں (اللہ وسائی)
MALKA -E- TARRUNUM NUR JAHAN (ALLAH WASAI 1926 - 2000) LIVED HERE (1938-1942)
انگریزوں کے دور میں نیلے رنگ کے لوہے کےبورڈ پر سفید رنگ کے الفاظ لکھے جاتے تھے گلیوں اور مکانوں کے نمبر بھی اس طرح لکھے جاتے تھے یہ بورڈ بہت دیرپا ہوتے تھے ملکہ ترنم نور جہاں کایہ بورڈ بھی نیلے رنگ پر سفید الفاظ پر لکھا ہوا ہے ہم نے بڑی کوشش کی ہے کہ اس مکان اور نور جہاں کے بارے مزید معلومات حاصل کرسکیں مگر یہاں ہمیں کوئی ایسا فرد نہ ملا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ عیدن بی بی اور برکت بی بی نے اپنی تین جائیدادیں سرگنگا رام اسپتال اور فاطمہ جناح میڈیکل کالج اب یونیورسٹی کے نام وقف کر دی تھیں ۔اس کی تفصیل آپ کو پھر بتائیں گے ، اس وقف جائیداد پر یہ الفاظ تحریر ہیں۔’’پراپرٹی ہذا (A-1118)گنگا رام کے نام وقف ہے اور اس کا لین دین ممنوع ہے خلاف ورزی کرنے والا خود ذمہ دار ہوگا بحکم ایم ایس سرگنگا رام اسپتال لاہور۔یہاں کئی ایسے مکانات اور جائیدادیں ہیں جن کے وارثوں نے انہیں خود لاوارث کیا ہوا ہے دوسری جانب قبضہ مافیا یہاں کے تاریخی سینما پاکستان ٹاکیز اور کئی دیگر مکانات پر مگرمچھ کی آنکھ رکھے بیٹھا ہے۔
ایک دورتھا شاہی محلہ کی پراپرٹی کا ریٹ لاہور میں سب سے کم تھا ہمیں یاد ہے بازار حکیماں کی گھاٹی اترتے ساتھ ہی پراپرٹی کا ریٹ گر جاتا ہے ٹبی گلی اور اس سے ملحقہ تمام گلیوں میں مکانات کی قیمت انتہائی کم ہوتی تھی اور کوئی شخص یہاں مکان نہیں خریدتا تھا آج آپ کو یہ سن کر حیرت ہو گی کہ آج چارمرلہ کا مکان 6سے8 کروڑ میں فروخت ہو رہا ہے ۔ لاہور کے کئی معروف خاندانوں نے اپنے ہوٹل اور دیگر کاروبار کے لئے یہاں مکانات خریدنے شروع کر دیئے ہیں۔گنگا رام کے نام اس تاریخی مکان کا دروازہ انتہائی خوبصورت ہے اور اس کا فن تعمیر بھی بہت دلکش ہے یہ عمارت اچھی خاصی مضبوط ہے حکومت کو چاہئے کہ وہ یہاںایک چھوٹا سا اسپتال /ڈسپنسری قائم کر دے ،سرگنگا رام کی اس لاہور شہر کے لئے بے شمار خدمات ہیں اس طرح سرگنگا رام کے نام پر سر گنگا رام فری ہاسپٹل وچھووالی لاہورمیں صرف غرباء کے لئے بنایا گیا تھایہاں ہندوئوں کے بے شمار مکانات ہیں جن پر ان کے تعمیر کردہ کا نام اور تاریخ تک درج ہے مثلاً ہم ایک گھر کو دیکھنے گئے جس پر تحریر تھا ۔گوبند نواس سموکہ تعمیر کردہ لالہ نرائن داس صاحب مہرہ خلف الرشید لالہ گوبند رام صاحب مہر وکیل لاہور 1934یہ غالباً سنگ مرمر ہے اور سفید پتھر پر کالے رنگ سے لکھا ہوا ہے اور ارد گرد نیلا بارڈر ہے یہ چار مرلہ کا بڑا خوبصورت مکان ہے کبھی یہاں گانا بجانا وغیرہ ہوتا تھا آج یہاں سلنڈروں میں گیس بھرنے والا بیٹھا ہے ترنم سینما جس کو کبھی گیتی تھیٹر بھی کہا جاتا تھا ہمارے د یکھتے دیکھتے اس کو گرا دیا گیا اور وہاں پلازہ بنا دیا گیا۔ (جاری ہے)