• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عالمی بینک نے کہاہے کہ پاکستان کی معیشت شدید مشکلات کا شکار ہے اور ملک میں 24.5فیصد مہنگائی کی شرح 1970ء کی دہائی کے بعد بلندترین سطح پر ہے۔سیلاب کے باعث موجودہ مالی سال پاکستان کی معاشی نمو 2فیصد رہنے کا امکان ہے۔ پاکستان کو بیرونی قرض کی ادائیگیوں کے شدید خطرات کا سامنا ہے۔ پاکستان میں سیلاب کے باعث جی ڈی پی کو 4.8فیصد کے مساوی نقصان پہنچا۔ جون سے دسمبر تک ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر 14فیصد گر چکی ہے۔گوبل اکنامک پر وسپیکٹ رپورٹ میں تخمینہ لگایا گیاہے کہ 2023ء میں عالمی شرح نمو 1.7فیصد رہنے کا امکان ہے۔پھر ملک کی داخلہ پالیسیوں ،معاشی ماہرین کی ناقص منصوبہ بندی ،غیر حقیقت پسندانہ تجزیے اور غلط فیصلوں نے قوم کو بد ترین حالات سے دوچار کر دیا ہے لیکن سب سے زیادہ پریشان کن بات یہ ہے کہ ہمارےارباب ِ حل وعقد اس صورت حال کا ادراک و احساس کرنے کے بجائے ملک کے اند رسیاست سیاست کھیل رہے ہیں۔یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے سیاسی قائدین کو ملکی معیشت کی کوئی پروا ہی نہیں، ان کو اپنے مفادات ہی مقدم اور عزیز ہیں۔ مہنگائی نے عوام کی کم توڑ کر رکھ دی ہے۔بجلی ،گیس،پانی سے لے کے اشیائے خورونوش تک کوئی بھی چیز ایسی نہیں جس کے دام کئی سو گنا تک نہ بڑھے ہوں۔ عام آدمی کیلئے زندہ رہنا مشکل ہو چکاہے تو یہ ملکی معیشت کا دیوالیہ نکلنے کے ہی مصداق ہے۔اتحادی اسی دعوے کے ساتھ برسراقتدار آئے تھے کہ ملکی معیشت کی گاڑی کو نہ صرف پٹری پر چڑھا دیں گے ، بلکہ آئے روز بڑھتی مہنگائی میں کمی بھی لائیں گے، تا ہم اقتدار کے آٹھ ما ہ گزرنے کے بعد بھی سابق حکومت کو ناتجربہ کاری اور نا اہلی کا طعنہ دینے والی سابق حزب اختلاف اور موجودہ حکومت معاشی بہتری کیلئے ایک قدم بھی نہیں اٹھاسکی ۔ایک طرف وزیر اعظم کی جانب سے آئی ایم ایف کی زنجیروں میں جکڑے جانے کا واویلا سنائی دیتاہے تو دوسری جانب عوام پر مزید قرضوں کا بوجھ بھی ڈالا جارہاہے۔ اس ملک کے حکمرانوں نے خود اپنی آزادی کو عالمی اداروں کی غلامی میں دیا ہے،اس ملک کی افسر شاہی اور سیاست دانوں کی بد عنوانی نے سرمایہ داروں کی دولت میں کئی گنا اضافہ کیا اور عوام کی زندگی تنگ کردی ۔ یہ طبقہ ملک میں اتنا طاقتور ہو چکا ہے کہ کوئی بھی ان کی بد عنوانیوں کا احتساب نہیں کر سکتا ہے۔لمبی زبانوں والے حکمراں ایک دوسرے کو موردالزام تو ٹھہراسکتے ہیں ،مگر یہ نہیں بتا سکتے کہ انہوں نے اتنی بڑی رقوم کہاں خرچ کی ہیں۔ یہ ایک دوسرے کو چور،نالائق،نااہل،ملک دشمن ،غدار کہنے والے کبھی اپنا حساب دیتے ہیں نہ ہی اپنا احتساب ہونے دیتے ہیں۔ پاکستانی عوام کے بھی کیا کہنے ہیں،وہ انکی اصلیت دیکھ کر بھی اپنے اپنے ہیرو کے سحر میں مبتلا رہتے ہیں۔حکمران قرض پر قرض لے کر عیش و اقتدار کے نشے میں بد مست ہیں اور اس سارے قرض کا طوق عوام کے گلے میں ڈالا جا رہا ہے۔حکمران قیادت قرض لینے کی فکر میں مبتلا ضرور رہی ہے مگر انہیں قرض اتارنے کی کوئی فکر نہیں ۔اگر قرض لے کر ترقیاتی منصوبے شروع کئے جاتے تو ملک آگے بڑھ سکتا تھا ،لیکن اس ملک میں نوے فیصد قرض غیر ترقیاتی کاموں میں لگایا جارہا ہے ،اس کے باعث قرضوں کی واپسی تو درکنا ر ہم سودادا کرنے کے بھی قابل نہیں رہے ،سرکاری ملازمین کی تنخواہ ادا کرنے کیلئے بھی قرض لینا پڑ رہا ہےکہ آئی ایم ایف کے دبائو پر مشکل اور غیر عوامی فیصلے کرنا پڑ رہے ہیں،اگر پاکستان کے قرضے اسی طرح بڑھتے رہے تو ایٹمی پروگرام کی سالمیت بھی خدانخواستہ خطرے میں پڑ سکتی ہے۔اس بری حالت میں بھی پانچ پانچ کروڑ روپے کی 165لگژری گاڑیاں خریدی جا رہی ہیں۔ملک ڈیفالٹ ہونے پر بیان بازی تو جاری ہے مگرحکمران اور اپوزیشن کی جانب سے ان مسائل کا کوئی حل سامنے آرہاہے نہ کسی معاملے پر کوئی سنجیدگی کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے لیکن کیا کیا جائے اس ملک کے حکمرانوں کا کہ جنہوں نے قدرت کے عطا کردہ خزانوں سے استفادہ کرنے کی بجائے ملک کو ہمیشہ قرضوں کے سہارے چلاکرملک و قوم کو عالمی مالیاتی اداروں کے سامنے غلام بناکر رکھ دیا ہے۔ اقتدار کی کرسی پر بیٹھنے والا ہر حکمران یہ بلند بانگ دعوے ضرور کرتا ہے کہ ہم جلد ہی عالمی مالیاتی اداروں کے چنگل سے باہر نکل آئیں گے لیکن عملاً انہوں نے ہمیشہ ملک کو مزید قرضوں کی دلدل میں دھنسایا ہے ۔قوم موجودہ حکمرانوں سےیہ توقع رکھتی تھی کہ وہ اپنے وعدوں کا پاس کرتے ہوئے مانگے تانگے کی دولت سے ملک کو چلانے سے گریز کرینگے لیکن افسوس صد افسوس کہ انکے وعدے ایفا نہ ہو سکے۔اسی صورتحال میں 2022ء کی طرح 2023ء میں بھی ملک میں معاشی اور سیاسی بحران مزید تقویت پکڑلے گا۔ہمارے سیاستدان ویسے تو ہر دم جمہوریت کے نعرے لگاتے ہیں لیکن عملاً ان کا ہر قدم اور ہر سوچ آمرانہ ذہنیت کی عکاسی کرتی ہے۔ 2022ء کے دوران جہاں ملک کی معیشت تباہ ہوئی وہاں معیشت کے اہم شعبے بشمول زراعت ، صنعت ،تجارت سرمایہ کاری بری طرح متاثر ہوئی ،ملک کی مجموعی قومی پیداوار میں کمی ہوئی۔زرمبادلہ کے ذخائر میں ریکارڈ کمی سے ملک کی معیشت پر چھائے سیاہ بادل مزید گہرے ہوتے جارہے ہیں۔ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمارے ماہرین اقتصادیات اور پالیسی ساز ادارے سر جوڑ کر بیٹھیں اور ملک کو اس بد ترین معاشی صورتحال سے نکالنے کیلئے قابل عمل حل تجویز کریں۔ پاکستان کے عوام جس مہنگائی اور گرانی کے باعث زندہ درگور ہوچکےہیں، ان پر مزید بوجھ ڈالنا ’’مرے پہ سو درے‘‘کے مترادف ہوگا۔ چنانچہ جس خوفناک مہنگائی کی آئندہ برسوں کیلئے پیشگوئی کی گئی ہے اس سے بچنے کیلئے ایسی عوام دوست پالیسیاں بنانے کی ضرورت ہے۔ جن پر عمل کے نتیجے میں عام آدمی پر کوئی مزید مالی بوجھ نہ پڑےبلکہ یہ بوجھ وسائل رکھنے والے طبقات کی طرف منتقل کیا جائے۔

تازہ ترین