• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پرویز مشرف کی وفات کے بعد سینیٹ کے اجلاس میں مشتاق احمد خان سے دعا کروانے کا کہا گیا تو انہوں نے معذرت کرلی اور کہا کہ ترکی اور شام کے زلزلہ متاثرین کے لئے تو دست دعا بلند کریں گے مگر پرویز مشرف کے لئے ہاتھ نہیں اُٹھائیں گے۔ان کا استدلال تھا کہ انفرادی گناہ کا معاملہ الگ ہے مگر اجتماعی گناہ معاف نہیں ہوتے۔

پرویز مشرف سرٹیفائیڈ غدار ہے اس کے لئے دعا نہیں کروائی جاسکتی۔اس انکار پر نہ صرف پارلیمنٹ کے ایوان بالا میں شور مچ گیا بلکہ باہربھی ایک نئی بحث چھڑ گئی ۔سینیٹر مشتاق احمد خان کی مخالفت کرنے والوں کاانحصار ان دلائل پر ہے کہ موت کے بعد سب معاملات اللہ کے سپر د ہوگئے ۔جس طرح لال مسجد کے خطیب مولانا عبدالعزیز جن کے بھائی مولانا عبدالرشید غازی اس آپریشن میں مارے گئے تھے .

انہوں نے اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پرویز مشرف کو معاف کردیا ،اسی طرح سب کو شائستگی اور تہذیب کا اظہار کرنا چاہئے ۔کوئی انفرادی طور پر دعا کرنا چاہتا ہے تو ضرور کرے لیکن وہی دستور جسے ایک ڈکٹیٹر نے پامال کیا ،اسے بنانے والی دستور ساز پارلیمنٹ میں اس کے لئے دعائے مغفرت کا اہتمام کیا جائے ،اس سے بھونڈا مذاق اور کیا ہوسکتا ہے؟

سینیٹر مشتاق احمد خان نے نہایت مختصر الفاظ میں فرق واضح کردیا کہ انفرادی گناہوں کا معاملہ اللہ کے سپرد کیا جاسکتا ہے لیکن اجتماعی جرائم کو کسی کی موت کے بعد سپرد خاک نہیں کیا جاسکتا۔ 17ویں صدی میں برطانیہ بادشاہت سے جمہوریت کے ارتقائی سفر کی طرف گامزن تھا۔

شاہ چارلس نے پارلیمنٹ کو تحلیل کر دیا، جس پر جمہوری جدوجہد کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔ پارلیمنٹ نے ان احکامات کو ماننے سے انکار کر دیا۔ پارلیمنٹ نے شاہی دستوں کا مقابلہ کرنے کے لئے اپنی فوج تشکیل دی، جس کی قیادت اولیور کرام ویل نے سنبھالی۔

لیفٹیننٹ جنرل اولیور کرام ویل کی قیادت میں جمہوریت پسندوں کو کامیابی نصیب ہوئی اور 30جنوری 1649کو شاہ چارلس کا سر قلم کر دیا گیا۔ توقع تو یہ تھی کہ اس فقید المثال کامیابی کے بعد جمہوریت کی صبح خوش جمال کا سورج طلوع ہو گا لیکن ایک بار پھر آمریت کا گرہن لگ گیا۔

جنرل اولیور کرام ویل نے اقتدار پر قبضہ کر لیا اور پارلیمنٹ کی خود مختاری کا مذاق اڑایا۔ 3ستمبر 1658کو کرام ویل ملیریا کے باعث مر گیا تو اس کے بیٹے رچرڈ نے اقتدار سنبھالا۔ عوامی بغاوت کے نتیجے میں رچرڈ کو معزول ہونا پڑا تو جلا وطنی کی زندگی گزارنے والے شاہ چارلس دوم کو بلا کرعنانِ اقتدار اُس کے حوالے کر دی گئی۔

 پارلیمنٹ میں مطالبہ ہوا کہ اولیور کا ٹرائل کیا جائے ۔ یہ سوال کھڑا ہوا کہ مرُدے سے سوال جواب کیسے کئے جا سکتے ہیں؟ قانونی ماہرین نے رائے دی کہ کرام ویل کی ہڈیاں نکال کر ان سے سوالات کئے جائیں اور جب کوئی جواب نہ آئے تو اس کا مطلب یہ لیا جائے کہ اولیور کرام ویل نے اپنا جرم قبول کرلیا ہے۔ اس کے بعد عدالت فیصلہ سنادے۔

چنانچہ اولیور کرام ویل کی قبر کھود کر اس کے ڈھانچے کو زنجیروں میں جکڑ کو کٹہرے میں لایا گیا۔ اسے فردم جرم پڑھ کر سنائی گئی۔ ٹرائل مکمل ہونے کے بعد عدالت نے پھانسی کی سزا سنا دی تو علامتی طور پر اس کا سر قلم کر کے باقیات پھینک دی گئیں جبکہ کھوپڑی نشان عبرت کے طور پر پارلیمنٹ کے باہر ایک کھمبے سے لٹکا دی گئی۔

حضورِوالا!ہم گوروں کی طرح لاش کو شاہراہ دستور پر نہیں لٹکاسکتے، رومانیوں نے اپنے ڈکٹیٹر نکولی چائو شسکو کو مختصر ٹرائل کے بعد فائرنگ اسکواڈ کے سامنے کھڑا کر کے گولیوں سے بھون ڈالاتھا،ہم ان جتنے بے رحم نہیں ہوسکتے ،ہم ایرانیوں کی طرح پتھر دل بھی نہیں جنہوں نے رضا شاہ پہلوی کو مرنے کے بعد وطن واپس آنے کی اجازت نہ دی۔

ہم فرانسیسیوں جیسے جلاد صفت نہیں جنہوں نے شاہ لوئی ششم کو گلوٹین سے مار ڈالا۔ ہم روسیوں کی طرح سنگدل بھی نہیں جنہوں نے زار نکولس دوئم کو پھانسی دیدی۔ چاڈ کے ڈکٹیٹر حسینی ہبرے گزشتہ کئی برس سے سینیگال میں پناہ لئے ہوئے ہیں، ان کو واپس لانے کی کوششیں بار آور ثابت نہ ہوئیں تو چاڈ کی عدالت نے غیر حاضری میں ہی موت کی سزا سنا دی۔

مالی کے ڈکٹیٹر جنرل موسیٰ تروڑا کو منتخب حکومت کا تختہ الٹنے پر حراست میں لیا گیا تو عدالت نے 12ہفتے میں مقدمے کی سماعت مکمل کر کے سزائے موت سنا دی۔ یونان کے ڈکٹیٹر جارج پاپڈو پولس کو دو برس قبل سزا سنائی گئی۔ہم یہ سب نہیں کرسکتے تو کیا ہوا پارلیمنٹ میں دعائے مغفرت سے انکار تو کرسکتے ہیں ۔

ایوب ،یحیٰ اور ضیاالحق کو قومی پرچم میں لپیٹ کر سرکاری اعزاز کے ساتھ دفنایا گیا۔پرویز مشرف کو بھی گارڈ آف آنر ملا مگر اس کیلئے کسی کشادہ میدان کے بجائے ڈرائنگ روم کا انتخاب کیا گیا۔وہ پہلے سا کروفر اور طنطنہ دکھائی نہیں دیا ۔یعنی قومی شعور بیدار ہورہا ہے۔

ایک بار خواجہ آصف قومی اسمبلی میں جماعت اسلامی پر برس پڑے اور کہا،جماعت قیام پاکستان سے آج تک ہر موقع پر غلط سمت کھڑی رہی ہے۔جناب خواجہ صاحب !جماعت اسلامی تاریخ کی درست سمت میںکھڑی ہے۔سینیٹر مشتاق احمد پر پوری قوم کو فخر ہے،آپ بتائیے!آپ کی جماعت کہاں کھڑی ہے؟

تازہ ترین