• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)

قیام پاکستان سے پہلے اور بعد میں بھی لاہور میں ٹینٹ میں منڈوے لگائے جاتے تھے، بیدیاں کے پاس باقاعدہ ایک گائوں کا نام تھیٹر پنڈ/گائوں ہے جہاں بیدیاں میں پہلا سینما /تھیٹر لگایا گیا تھا ،ہم نے وہ سینما اور گائوں دیکھا ہے،کبھی لاہور کے گردونواح میں لگنے والے منڈوے اور تھیٹروں کے بارے میں دلچسپ حقائق بیان کریں گے۔ہم نے بھی ایک زمانے میں ٹھنڈی زمین پر بیٹھ کر یہ منڈوے دیکھے ہیں، چلتے ہیں اپنے پچھلے ہفتے کے کالم کی طرف لاہور کا پہلا اور برصغیر کا قدیم ترین تھیٹر جس کو اس زمانے میں عزیز تھیٹر کہا جاتا تھا،پھر اس کا نام رائل ٹاکیز ہوا اور قیام پاکستان کے بعد پاکستان ٹاکیز ہو گیا۔یہ عزیز تھیٹر 1908ء میں قائم ہوا تھا 1931ء میں برصغیر کی پہلی بولتی فلم ’’عالم آراء‘‘ کی نمائش ہوئی تھی ، اس دور میں اس فلم کے ٹکٹ بلیک میں فروخت ہوئے تھے۔

پاکستان ٹاکیز (جسے کبھی عزیز تھیٹر اور رائل ٹاکیز بھی کہا جاتا تھا)برصغیر اور پاکستان کی فلمی تاریخ کا ایک اہم باب تھا جس نے ایک سو برس سے زیادہ عرصہ تک لاہوریوں کو فلمی تفریح مہیا کی۔آج کل اس اربوں روپے کی جائیداد پر کئی لوگ نظریں گاڑے ہوئے ہیں، اس کے مالک کی وفات کے بعد سے یہ سینما بند پڑا ہے ۔حکومت کو چاہئے کہ اس تاریخی اور قدیم سینما کو محفوظ کرےاور اس کو دوبارہ شروع کرے ویسے بھی اب ہیرا منڈی فوڈ ا سٹریٹ بن چکی ہے اور ایلیٹ کلاس اور دوسرے شہروں کےلوگ فوڈ اسٹریٹ کا لازماً رُخ کرتے ہیں۔یہ سینما فلموں کے شائقین کیلئے ایک بہترین تفریح گاہ ثابت ہو گامگر پاکستان ٹاکیز کے مالک کے مرنے کے بعد پتہ نہیں کون اس پر قبضہ کرے گا؟خیر ہم پچھلے ہفتے پانچویں بار اس تاریخی اور قدیم سینما کو دیکھنے چلے گئے، کچھ تصاویر باہر سے اور کچھ لوہے کے جنگلے میں سے اپنا کیمرہ اندر کرکے بنائیں۔ ارد گرد کے لوگوں نے بتایا کہ آپ پیچھے کی طرف سے اس تاریخی سینما میں داخل ہو سکتے ہیں ،سو جب ہم پچھلی طرف سے داخل ہونے لگے تو وہاں لوہے کا دروازہ بند تھا اور دو پُراسراردکھائی دے رہے لوگ وہاں موجود تھے، پاکستان ٹاکیز کے بارے میں کوئی معلومات اور بات کرنے کو تیار نہیں تھا۔خیر ہمیں تو اس سے کوئی غرض نہیں تھی، ہم تو اس تاریخی سینما کو اندر سے دیکھنا چاہتے تھے ارد گرد کے لوگوں سے پتہ چلا کہ اصل مالک کے مرنے کے بعد اب اس کے کئی مالک پیدا ہو چکے ہیں ۔ ظاہر ہےاربوں روپے کی جائیداد ہے دلچسپ بات یہ ہے کہ اس تاریخی بازار میں تین یادگار عمارتیں ہیں، اس بازار کا نام شیخوپوریاں ہے کہا جاتا ہے کہ اکبر کے بیٹے جہانگیر جس کو اکبر پیار سے شیخو کہا کرتا تھا اس کے نام کی نسبت سے اس بازار کا نام بازار/محلہ شیخو پوریاں رکھا گیا۔ خیر پہلے تو ہم پاکستان ٹاکیز کا بڑی دیر تک جائزہ لیتے رہے، یہ سینما دو بھائیوں کا تھا، کہا جاتا ہے کہ دونوں نے شادی نہیں کی تھی ،دونوں بھائی وفات پا چکے ہیں اور سینما بے یارومددگار پڑاہے یقیناً حسب روایت اس قیمتی جگہ پر قبضہ کرنے کے لیے کہیں نہ کہیں منصوبہ بندی ہو رہی ہو گی۔ہم والڈ سٹی /محکمہ آثار قدیمہ یا پھر متروکہ قف املاک بورڈ کے چیئرمین حبیب گیلانی سے کہیں گے کہ اس تاریخی جگہ کو محکمے کی تحویل میں لے کر اس سینما کو چلائیں اور اس کی آمدنی پاکستان میں غریب اقلیت کی فلاح وبہبود پر خرچ کریں۔پاکستان ٹاکیز کے نزدیک ہی سینما کے سامنے والی سائیڈپر ملکہ ترنم نور جہاں کا بڑا خوبصورت مکان ہے جو انہوں نے بڑے شوق سے بنوایا تھا، مکان کی خوبصورتی آج بھی دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ ہم بہت دیر تک وہاں رہے اور اس کو دیکھنے کی خواہش لئے ہوئے واپس آ گئے کیونکہ باہر تالا لگا ہوا تھا اور ارد گرد جوتوں کی دکانوں کے مالکان کو اس سے کوئی دلچسپی نہیں تھی کہ یہ مکان کس کا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ مکان بند پڑا ہے مگر اس کا کوئی والی وارث ہمیں نہ ملا ۔نیلے رنگ کے اس مکان کی خوبصورتی یقیناً کبھی ہر کسی کو اپنی طرف ضرور کھینچتی ہو گی ۔پاکستان ٹاکیز والی سائیڈ پر ہمیں دو مکان ایسے نظر آئے جن میں سے ایک مکان میں فادر آف لاہور سرگنگا رام کچھ عرصہ رہائش پذیر رہے تھے، جب کہ باقی مکانات دو گانے والیوں برکت بائی اور عیدن بائی نے سرگنگا رام اسپتال کے مریضوں اور فاطمہ جناح میڈیکل کالج کی زیر تعلیم طالبات کے لئے وقف کردیئےتھے۔یہ علیحدہ بات ہے کہ نہ تو اس وقف جائیداد سے سرگنگا رام اسپتال کے مریضوں کو کچھ ملا اور نہ فاطمہ جناح میڈیکل کالج (اب یونیورسٹی ) کی اسٹوڈنٹس کو کچھ ملا۔شاید اب ایف جے ایم یو کے موجودہ وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر خالد مسعود گوندل اور ایم ایس ڈاکٹر اطہر یوسف اسٹوڈنٹس اور طالبات کی ویلفیئر کے لئے ان وقف شدہ عمارتوں کی آمدنی سے کچھ کرسکیں۔

اس بازار کے ایک مکان پر یہ بورڈ نصب ہے،

سرگنگارام (1851-1927) سول انجینئر یہاں پر رہتے تھے۔ ویسے تو سرگنگا رام جین مندر کے پاس اپنی وسیع وعریض کوٹھی میں بھی رہتے رہے ہیں جو انہوں نے کامرس کی تعلیم کے لئے ہیلے کالج آف کامرس بنا کر عطیہ کر دی تھی۔شاہی محلے کے ارد گرد کا سارا علاقہ، گلیاں اور بازار بہت تاریخی ہیں یہاں کبھی کٹڑی امیر چند بھی تھی جہاں پر بابائے صحافت مولانا ظفر علی خان نے لاہور میں زمیندار کا پہلا دفتر قائم کیا تھا۔

ہیرا منڈی میں ترنم سینما ایک طویل مدت تک رہا، یہ سینما شاہی محلہ کے چوک میں ہوتا تھا اور چوک ہی میں عام تانگے اور شوقین لوگوں کے لئے خوبصورت رنگ برنگے تانگے بھی کھڑے رہتے تھے۔ تانگوں کے اس اڈے پر تکون کی شکل میں لوہے کے گارڈر لگے ہوتے تھے ۔ (جاری ہے)

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین