• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اب تو وہ الفاظ بھی نہیں مل رہے ، جو خوفناک مہنگائی کے اثرات ، لوگوں کی مشکلات اور سماجی ہیجان کو بیان کر سکیں ۔ اس صورت حال سے نجات کا بھی کوئی راستہ دکھائی نہیں دے رہا ۔ کیا ہونے والا ہے؟ اس کے بارے میں بھی کوئی حتمی بات نہیں کہی جا سکتی ۔آئی ایم ایف کی شرائط پر عمل درآمد کے آغاز سے بھی مہنگائی کے سیلاب کا بند ٹوٹ گیا تھا اور لوگوں کے پاس ہمت اور برداشت کا جو تھوڑا بہت اثاثہ باقی بچا تھا ، وہ بھی ڈوب رہا ہے ۔ سیاسی رومانویت کا شکار ہمارے بعض دانشور یہ پیش گوئی کر رہے ہیںکہ اب عوام سڑکوں پر نکل آئیں گے کیونکہ ان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے ۔ میرے خیال میں یہ سوچ صرف سیاسی خواہش ہے۔

پاکستان کے عوام اگرباہر بھی نکلیں تو بھی حالات ان کے حق میں بہتر ہونے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ پاکستان میں عوام کی طرف سے درست سیاسی سمت کے ساتھ مزاحمت کی مثالیں بہت کم ہیں ۔ لوگ زیادہ تر رجعتی جماعتوں کی کال پر نکلتے ہیں اور اس کا فائدہ ہمیشہ عوام دشمن قوتوں کو ہوتا ہے ۔ دوسری بات یہ ہے کہ اس وقت پاکستان میں وفاق پرست ، لبرل اور ترقی پسندکوئی سیاسی جماعت ایسی نہیں ہے ، جو مہنگائی کے خلاف لوگوں کو سڑکوں پر نکال سکے یا نکالنے کی خواہش رکھتی ہو ۔ لوگ اگر اپنے طور پر بھی احتجاج کے لئےباہر نکلتے ہیں تو ان کے اس احتجاج یا تحریک کو انتہا پسند قوتیں باآسانی ہائی جیک کر لیں گی ۔ یہ پاکستان کی 75 سالہ تاریخ میں عالمی اور ملکی مقتدر حلقوں کی کامیاب پالیسیوں کا نتیجہ ہے ۔ اگر لوگ باہر نکلتے ہیں اور انتہا پسند جماعتیں ان کے ساتھ مل جاتی ہیں یا ان کی قیادت کے لئے آگے آجاتی ہیں تو یہ پاکستان مزید مشکلات اور مصائب کا شکار ہو جائے گا ۔ اس وقت پاکستان کی سیاسی صورت حال یہ ہے کہ کوئی بھی عوامی تحریک انتہا پسندوں کے ہاتھوں ہائی جیک ہونے کے پورے امکانات موجود ہیں ۔ ہو سکتا ہے کہ پاکستان کو انتہا پسندی کی طرف لے جانا ہی مقتدر حلقوں کا اگلا پروجیکٹ ہو کیونکہ تمام لبرل سیاسی جماعتوں کو عوام کی نظروں میں بے وقعت کر دیا گیا ہے اور ایسی ذہن سازی کی گئی ہے کہ اس صورت حال کی ذمہ دار صرف اور صرف وہ سیاسی جماعتیں ہیں ، جو اقتدار میں رہیں ۔ پاکستان کے عوام حالات کا وہ ادراک نہیں رکھتے ، جو 1960 اور 1970 ء کی دہائیوں میں تھا۔

ویسے تو پوری دنیا میں معاشی بحران ہے اور مہنگائی بھی کم و بیش اکثر ممالک میں بڑھی ہے لیکن پاکستان کے معاشی بحران کے اسباب کچھ اور ہیں ۔ اس معاشی بحران کی جڑیں بہت گہری ہیں ، جو حکمراں اسٹیبلشمنٹ کی غلط پالیسیوں میں پیوست ہیں ۔ ان غلط پالیسیوں کی پردہ پوشی کے لئے پاکستانی سیاست کو گندا کیا گیا اور سماج کو غیر سیاسی بنایا گیا ۔ آج اگرچہ ہر بندہ سیاست پر بات کرتا ہے اور بظاہر یوں لگتا ہے کہ لوگ سیاست میں زیادہ ملوث ہو گئے ہیں لیکن لوگوں کی اپروچ غیر سیاسی ہیں ۔ اب پاکستان میں انتہا پسندوں کے لئے راستہ مکمل طور پر ہموار ہو گیا ہے ۔ سیاست میں انتہا پسندانہ اور فسطائی رویے بہت زیادہ رواج پا چکے ہیں ۔ برداشت ، منطق ، دلیل اور گہرائی کی جگہ عدم برداشت ، زور زبردستی اور خراب معیار نے لے لی ہے ۔ کوئی بھی عوامی تحریک ابھرتی ہے تو اس کی سمت انتہا پسند قوتیں طے کریں گی۔

جو ہونا ہے ، اسے اب روکنا آسان نہیں ہے ۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اب لوگوں کی زندگی بہت مشکل ہو گئی ہے ۔ عام آدمی کو زندگی کے لالے پڑ گئے ہیں ۔ پہلے تو یہ جملہ محاورے کے طور پر استعمال ہوتا تھا کہ روٹی میسر نہیں ہے ۔ شاید تاریخ میں قحط اور جنگوں کے درمیان ایسی صورت حال پیدا ہوئی ہو گی لیکن اب یہ حقیقت ہے ۔ کہنے کو تو کوئی جنگ نہیں ہے لیکن پاکستان ہمہ وقت حالت جنگ میں ہے ۔ کہنے کو تو کوئی قحط یا خشک سالی نہیں ہے لیکن پاکستان جیسا زرعی ملک زرعی اجناس باہر سے منگوانے پر مجبور ہے ۔ روزگار کے مواقع ختم ہو چکے ہیں ۔ اگر کچھ لوگوں کے پاس روزگار ہے تو ان کی آمدنی ان کی بنیادی ضرورتیں پوری کرنے کے لئے ناکافی ہے ۔ ہر طرف مایوسی ہے ۔ اب تو سفید پوش لوگ بھی خیراتی اداروں کے دستر خوانوں پر کھانا کھانے پر مجبور ہو گئے ہیں ۔ ان حالات کو زیادہ دیر تک جوں کا توں برقرار نہیں رکھا جا سکتا ۔ حالات اپنا کوئی راستہ اختیار کریں گے اور آگے کوئی ایسی سیاسی قوتیں نہیں ہیں ، جو اعتدال پسند ہوں اور عوام کے غصے کو قابو کر سکیں یا حالات کا رُخ اس طرف موڑ سکیں ، جس طرف مزید تباہی اور انتشار کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

اب بھی وقت ہے کہ حکومت اور اپوزیشن میں شامل موجودہ سیاسی جماعتیں مل بیٹھیں اور ایسی معاشی اور سیاسی حکمت عملی طے کریں ، جس سے سیاسی اور سماجی ہیجان ختم ہو اور معاشی بحران سے نکلنے کے لئے کوئی قابل عمل پروگرام بھی وضع ہو سکے ۔ اب اس چکر سے نکلنا چاہئے کہ اسٹیبلشمنٹ نیوٹرل رہے یا ’’ ملک کے وسیع تر مفاد میں ‘‘ کسی خاص جماعت کا ساتھ دے ۔ اس سیاسی انا پرستی سے بھی چھٹکارا حاصل کیا جائے کہ سیاسی مخالفین کو ہر حال میں بچھاڑنا ہے ۔ اب زیادہ دیر تک وہ حالات نہیں رہیں گے ، جن میں سارا کھیل موجودہ سیاسی فریقین کے گرد گھومتا رہے ۔ دیگر سیاسی فریقین تیزی سے اپنی جگہ بنا رہے ہیں ۔ آج جو سیاسی جماعتیں آپس میں لڑ ری ہیں ، انہیں پتہ بھی نہیں چلے گا کہ ان کی یہ لڑائی غیر متعلق (Irrelevant ) ہو گئی ہے اور سیاست کچھ اور قوتوں کے ہاتھوں میں چلی گئی ہے ۔ سماجی یا سیاسی عمل جامع نہیں ہوتا ۔ تہہ در تہہ تضادات سے ایسے حالات پیدا ہو جاتے ہیں ، جن کے بارے میں کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا جن کے باعث عوام مشکلات کا شکارہوجاتے ہیں اور جس طرح کا سیاسی اور سماجی ہیجان پیدا کیا گیا ہے ، اس میں اسٹیبلشمنٹ (Status Quo) نہیں رہے گا۔ یہ حالات ہمارے موجودہ سیاست دانوں کے لئے انتباہ ہیں ۔ لوگ بالآخر تنگ آکر نکلیں گے ۔ یہ روایتی سیاسی جماعتیں اب انہیں سنبھال نہیں سکیں گی ۔ انتہا پسند قوتیں ایسے حالات کے لئے تیار ہیں اور شاید پاکستان کو اس نہج پر پہنچانے والی قوتیں بھی ان کی پشت پناہی کر سکتی ہیں ۔ پشاور پولیس لائنز کی مسجد کے سانحہ سے لے کر کراچی پولیس چیف کے ہیڈ کوارٹرز پر تازہ حملے تک، یہ واقعات ہماری آنکھیں کھول دینے کے لئے کافی ہیں ۔ حالات کو سیاست دان ہی سدھار سکتے ہیں ۔کسی اور کی طرف دیکھنا وقت کا ضیاع ہوگا۔

تازہ ترین