• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جوش کی شاعری اور اُن کے ادبی مقام و مرتبے کے بارے میں حتمی طور پر ہم خواہ کسی بھی رائے کا اظہار کریں لیکن اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ جوش ایک منفرد شاعر ہیں، یہ انفرادیت محض کسی ایک آدھ وجہ سے اُن کے حصے میں نہیں آئی بلکہ اس کی متعدد وجوہ ہیں، مثلاً یہ کہ اُنھوں نے اپنے شعری تناظر میں جن موضوعات پر توجہ کی ہے ان میں کچھ صرف انھی سے مخصوص نظر آتے ہیں، پھر یہ بھی کہ بعض موضوعات جو اِس سے قبل ہمارے بڑے شعرا کی توجہ کا مرکز رہے اُن کی طرف جوش کا رویہ اپنے متقدمین سے اِس حد تک بھی مختلف رہا کہ جوش کی شاعری میں وہ موضوعات اپنی نئی جہات کے ساتھ معرضِ اظہار میں آئے ہیں۔

اس کے علاوہ جوش کا رنگِ سخن، آہنگِ بیان اور اسلوبِ اظہار اپنے جو پیرایے تراشتا رہا ہے، اگر اُسے دیکھا جائے تو ماہیت ہی میں نہیں بلکہ کیفیت و کم میں بھی یہاں انفرادی شان اپنی آب و تاب دکھاتی ہے۔ ان سب فکری و فنی پہلوئوں کے ساتھ ہی ساتھ اسالیبِ فن پر جوش کی گرفت توجہ حاصل کرتی ہے۔ غرض یہ کہ ایک نہیں کئی ایک عوامل کی بنیاد پر جوش کا جہانِ شعر و سخن لائقِ مطالعہ ٹھہرتا اور اپنے اہم نشانات کا اثبات چاہتا ہے۔

جوش کےتنقیدی مطالعے کئی زاویوں سے اب تک سامنے آچکے ہیں، تاہم اس امر کے اعتراف میں بھی ہمیں تامل نہیں کرنا چاہیے کہ آج جوش کے ایک نئے مطالعے کی ضرورت اگر محسوس کی جا رہی ہے تو اِس کا مطلب یہ ہے کہ جوش کے فکر و فن کے بعض پہلو ابھی تشنۂ کلام ہیں۔ خیر، ہر اہم تخلیق کار کے فکر و فن کے بعض پہلو بدلتے ہوئے زمانی دائروں میں نئے حوالوں یا سوالوں کے ساتھ گفتگو طلب ہوا ہی کرتے ہیں، بشرطے کہ زمانے کے بدلتے تناظر میں اپنی تہذیب اور ادب سے اُس فن کار کا زندہ رشتہ قائم رہے اور نئے عہد کے مباحث و مسائل سے مخاطبے (discourse) کی اس میں سکت پائی جائے۔

جوش ہماری نظمیہ شاعری کا ایک بڑا سنگِ میل ہیں۔ جس زمانے میں جوش نے اپنا فنی سفر طے کیا، اس میں جوش کی اہمیت پر اس پہلو سے بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ کوئی آسان دور نہیں تھا۔ اقبال کے عہد میں اس کے اثر سے نکل کر پنپنا اُن کی تخلیقی نمو پذیری اور فکری قوت کا بین ثبوت ہے۔ یہاں ہمیں صرف اتنی بات سمجھ لینی چاہیے کہ جوش کے یہاں نظموں کے سانچے میں غزل کی ہیئت یا فارم بہرحال پائی جاتی ہے۔ اس کا سیدھا سادا مطلب یہ ہے کہ جوش کا ردِّ عمل غزل کی ہیئت کے خلاف نہیں بلکہ اس کے موضوع و مواد کے سلسلے میں تھا۔ ہاں اقبال اور جوش کا معاملہ اتنا سادہ نہیں ہے۔ یہاں اختلاف کی شکل مختلف ہے اور بنیاد گہری۔ 

اِکّا دُکّا مثالوں سے صرفِ نظر کرتے ہوئے تقاضائے بشریت کو فراموش نہ کیا جائے تو یہ ماننے میں تامل نہ ہوگا کہ جوش نے اقبال کا نہ صرف سنجیدگی سے مطالعہ کیا، بلکہ اُس کا اثر بھی لیا۔ جوش کے جہانِ فن کی تعمیر و تشکیل میں یہ اثر بروئے کار بھی آیا ہے۔ جوش کے موضوعات اور ان کی طرف جوش کے رویے کے تعین میں اس اثر کی مثالیں آسانی سے دیکھی جاسکتی ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اگر اوائل ہی میں جوش کے یہاں یہ مسابقت پیدا نہ ہوتی تو عین ممکن تھا کہ جوش نرے روایتی اور رومانی شاعر کی حیثیت سے اوپر ہی نہ اٹھ پاتے۔

جوش کے فکر و نظر کی تگ و تاز کو اقبال نے مہمیز دی ہے۔ صرف خدا ہی کے موضوع کو دیکھ لیجیے۔ اقبال اس سمت گئے تو خدا کے اثبات اور خودی کی منزل تک پہنچے اور جوش نے خدا کی نفی اور زمانوں، جہانوں اور انسانوں کے اثبات کے دشت و دمن کو کھنگالا۔ تشکیک اقبال کی کشتِ ذہن میں بھی بیج ڈالتی ہے لیکن یہاں نمو پذیری نہیں ہوتی۔ یہ مسئلہ اقبال کے یہاں کسی بڑی دوادوش کے بغیر حل ہوجاتا ہے۔ تشکیک کے بیج کو نمو ملتی ہے جوش کے یہاں، جہاں وہ الحاد کے برگ و بار لاتا ہے۔ اور پھر ہم دیکھتے ہیں کہ جوش کو اپنی آواز میسر آتی ہے— خالص انسانی آواز۔ ازل گیر و ابد تاب۔ اقبال نے جن مباحث کو اس باب میں اضطراب کی سطح پر محسوس کیا، جوش نے انھیں اذیت و الم کے تجربے سے جاننے کی کوشش کی۔ 

اقبال نے جن گرہوں کو اپنی روح کے اندر کھول کر اطمینان کی منزل پا لی تھی، جوش نے ان سب عقدوں کو وجودی سطح پر سمجھنے کی جستجو کی اور اپنے لیے اطمینان کی جگہ کرب کا انتخاب کیا۔ اقبال سوالوں سے نکلے تو آرام سے سیدھے خدا تک جا پہنچے۔ جوش سوالوں میں پڑے تو یوں کہ خدا تک پہنچنا آسان نہ رہا۔ راہ دشوار ہوئی، پُرخار ہوئی— لیکن (اور یہ لیکن غور طلب ہے) منزل جوش کی بھی کھوٹی نہیں ہوئی۔ کیوں کھوٹی نہ ہوئی اس پر آگے چل کر بات کریں گے۔ 

خدا کے موضوع پر اقبال اور جوش کے ان حوالوں کو یوں بین الطرفین بیان کرنے کا صرف یہ مقصد ہے کہ یار لوگ چاہے کچھ کہتے رہیں، جوش،اقبال کا رد یا نفی نہیں ہیں۔ یہاں اگر تطبیق کا رشتہ نہیں ہے تو تنسیخ کا بھی نہیں ہے۔ یہ تو جستجو کا سفر ہے۔ پیاسے کے چشمۂ آبِ بقا تک پہنچنے کے بھی اپنے معانی و معارف ہیں لیکن ہر پیاسے کی تقدیر یہی کیوں ہو کہ وہ چشمۂ آبِ بقا تک پہنچے، کوئی چاہِ بابل یا چاہِ نخشب کی خبر کیوں نہ لائے، یعنی کوئی جوش کیوں نہ بنے۔ آخر اس کھونٹ کی سیر بھی تو کسی نہ کسی کو کرنی ہی چاہیے۔ جوں جوں ہم جوش کے یہاں وجودِ باری تعالیٰ کی بابت تشکیک کے مسئلے پر غور کرتے ہیں تو ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ یہی وہ مسئلہ ہے جوجوش کے جہانِ سخن میں داخلے کی کلید ہے۔ 

یہ جوش کی شاعری کا بنیادی یا مرکزی مسئلہ ہے۔ اُن کی شاعری میں اور جو بھی مسائل آئے ہیں، وہ سب اسی مسئلے کے تحت آئے ہیں۔ جوش کا خدا سے جو رشتہ ہے وہ اگر ایک طرف انسانی زندگی کے آزار کی بابت سوال اٹھاتا ہے، اس کے مصائب و آلام پر صبر و شکر کے بجائے آہ و بکا کو انسان کا فطری مقتضا جانتا ہے، خیر و شر کے مسئلے پر الجھتا ہے کہ آخر ان میں سے کیا فطرتِ انسانی کا اصل داعیہ ہے؟ جبر و قدر کے بارے میں سوچتا ہے اور جاننا چاہتا ہے کہ تقدیر اٹل کیوں ہے اور اگر اٹل ہے تو پھر انسانی اختیار کیا اور اس کی جواب دہی چہ معنی؟ تو دوسری طرف خدا سے انسان کے اسی رشتے کی روشنی میں جوش کے یہاں انسان کے کائنات سے رشتے اور انسان کے انسان سے رشتے کی صورتیں وضع ہوتی ہیں۔ 

اِس کائناتِ رنگ و بو کی ماہیت، اس کا آغاز و انجام، اس میں بسنے والوں کے مسائل، آلام اور حالات و حقائق، ان کی زندگی میں خدا ،اور پھر ان کے آپس کے تعلقات، مختار و مجبور کی الگ الگ دنیائیں، متغیر حقیقتیں، سچائی کی منقلب شکلیں، اُن کے دلوں کا میل اور جسموں کی لذتیں، خیال کی لطافت اور عمل کی کثافت کے بارے میں سوالوں کا سلسلہ اور سوچ بچار کی دھونکنی سی جو ہمیں جوش کے یہاں مسلسل چلتی ہوئی محسوس ہو تی ہے تو اس کے پس منظر میں بھی وہی جوش کے خدا سے رشتے کا مسئلہ کار فرما ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ جوش کی شاعری اصل میں سوالوں کا ایک مسلسل جاری و ساری عمل ہے۔ 

جستجو، تڑپ، حزن و ملال اور رنج و اشتعال سے آمیز، پیہم ایک سلسلہ۔ لیکن سوالوں کا یہ سلسلہ کسی سالک یا سائل کے کسی داخلی چشمۂ تجسس سے جاری نہیں ہوا ہے جوش کے یہاں۔ سوال در سوال اور شاخ در شاخ پھیلتی اس تڑپ کو جاننے کی کوشش کی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس کی آبیاری تو تخلیقی وجدان کی آگہی و بصیرت کے سوتوں سے ہو رہی ہے۔بات یہ ہے کہ یوں تو ساری آوازوں کا مخرج بے شک گلا ہی ہوتا ہے لیکن کچھ آوازوں کا منبع اندر کہیں دل و جگر میں ہوا کرتا ہے۔ وہ کہیں گہرائی سے آیا کرتی ہیں۔ انھیں محض آواز کہہ دینا یا سمجھ لینا کافی نہیں ہوتا۔ اس لیے کہ یہ کہیں علامت ہوتی ہیں، کہیں اشارہ اور کہیں کنایہ ،کہیں اظہار ہوتی ہیں، کہیں استفسار اور کہیں احتجاج۔

فکر کو مہمیز دینے اور احساس کی کیفیت کو متغیر کرنے والے دوسرے شاعروں کی طرح جوش کی شاعرانہ آواز میں بھی وہ کھنک، کھرج اور کھردرا پن ہے جو صرف اُن کے شعری لحن کو دوسروں سے ممتاز ہی نہیں کرتا بلکہ اس کے ساتھ اُن کے کلام کی ترسیلِ معنیٰ میں بھی ایک کردار ادا کرتا ہے۔ جوش کو ان کے طنطنے کی داد تو ہماری تنقید نے بہت دی ہے لیکن سمجھنے کی کوشش نہیں کی گئی کہ یہ طنطنہ صرف شاعر کی دھاک اور شعر کی گونج بڑھانے کے لیے نہیں ہے بلکہ یہ اُس شاعری کی نحوی ضرورت اور معنوی ترکیب کے سراسر داخلی مطالبے سے مرکب ہے۔ 

یہ آواز جوش کی شاعری کے ابلاغ میں ایک کردار ادا کرتی ہے۔ اگر آواز کا روپ بدل جائے تو اس شاعری کی تاثیر میں فرق پڑے گا۔ مثال کے طور پر جوش کے کلام کو مجازؔ، جاں نثارؔ اختر، اور اخترؔ شیرانی کو تو چھوڑیے کہ انھیں تو صرف ’’رومانیے‘‘ کہہ کر الگ کیا جاسکتا ہے، اگر فراقؔ و فیضؔ کی آواز میں پڑھ کر دیکھا جائے تو بھی کچھ یوں معلوم ہوگا کہ پڑھنے والے کی آواز دھوکا دے رہی ہے— اور پہچاننے والوں کو ذرا دقّت نہ ہوگی پہچاننے میں کہ کلام زبانِ غیر سے ادا ہو رہا ہے، اس لیے معنی میں کمی واقع ہوگئی ہے۔ یہ ہے جوش کے طنطنے اور لہجے کی گرج کا مقصد جو اسے معنی عطا کرتا ہے۔

جوش کی شاعری میں جو آواز ہم سنتے ہیں اُس میں اظہار، استفسار اور احتجاج کے تینوں روپ ابھرتے ہیں۔ کبھی ایک لَے اونچی ہوتی ہے اور کبھی دوسری۔ کبھی جذبے کی شدت کے زیر اثر اظہار کی لَے اونچی ہوتی ہے تو کبھی عقل کے تحت استفسار کی تان بلند ہوتی چلی جاتی ہے اور کبھی انسانی انا اور وجودی اضطراب مل کر احتجاج کے سُر میں ڈھل جاتے ہیں۔ لیکن جوش کی شاعری کا بلند ترین مقام وہ ہے جہاں اُن کا فن کارانہ وجدان، انجذاب کی کیفیت سے آشنا ہوتا ہے۔ اس مقام پر آکر تفکر و تعقل کی گتھیاں جیسے خود ہی سلجھتی چلی جاتی ہیں۔ عقل یا دماغ کا زور ٹوٹتا ہے اور شاعر پر وجود سے ماورا اسرار و حقائق منکشف ہوتے ہیں۔ جوش کے مطالعے میں ہم دیکھتے ہیں کہ ان وجدانی لمحوں میں اُن کا سارا تعقل، سارے سوالات اور تمام تر کفر و الحاد سب کچھ تحلیل ہوجاتا ہے۔۔۔ اور تب ہم ایک شاعر کو کہتے ہوئے سنتے ہیں:

کر روح میں بابِ کفر و ایماں مسدود

وہ فہم کی وحشت ہے یہ دانش کا جمود

انکار بہ ایں دماغِ کم زور و علیل

اقرار بہ ایں عقلِ ضعیف و محدود

———

علّت کا نہ معلول و فضا کا منکر

حاشا نہ خبر نہ مبتدا کا منکر

یاروں نے تشخص کا تراشا ہے جو بُت

الحاد ہے صرف اُس خدا کا منکر

شعورِ حق کی اِس منزل پر پہنچنے کے بعد شاعر کے دل میں اعترافِ حقیقت کی جرأت خود بہ خود پیدا ہوجاتی ہے۔ اس کی نگاہوں پر اپنے کفر و الحاد کا پردہ خود چاک ہوجاتا ہے۔ تب وہ اپنے وجدان کے سائے میں آ کر خود سے مخاطب ہوتا ہے اور اپنی عقل سے پوچھتا ہے:

وابستۂ آسماں نہ پابندِ زمیں

انکار نہ اقرار نہ دنیا ہے نہ دیں

اے عقلِ غریب، یہ سیاحت کب تک

تیرا بھی کوئی وطن بنے گا کہ نہیں؟

یہ احساس و اضطراب شاعر کے دل میں کس خواہش کو بیدار کرتا ہے اور کس طلب کو جگاتا ہے، ذرا یہ بھی ملاحظہ کیجیے:

ہے کوئی، جو اس دُھویں کو گلشن کردے؟

ٹکڑے اس تیرگی کا دامن کردے

دل پر ہے، گھٹا ٹوپ اَندھیرے کا دَبائو

للہ، کوئی چراغ رَوشن کردے!

سو یہ خواہش، یہ طلب اور یہ آرزو رائگاں نہیں جاتی اور اُس پر انکشافِ حقیقت کا در کھل جاتا ہے۔ اب اُس کے سامنے ایک دوسری ہی دنیا ہے— اور اسے جب یہ سب جاننے کا لمحہ میسر آتا ہے تو پھر اس کے یہ ماننے میں اب کوئی شے حائل نہیں رہتی کہ:

نہ جا ان کفر کی باتوں پہ میری

یہ حق کے گیت ہیں جو گا رہا ہوں

بہ شکلِ رہزنی ہر قافلے کو

حقیقی راستے بتلا رہا ہوں

جوش جانتے تھے کہ یہ مرحلہ اُسی وقت آتا ہے جب شاعر کے قالب میں عارف کی روح بیدار ہوتی ہے۔ انھیں اس امر کا بہ خوبی شعور ہے کہ ذات کو پہچاننے اور ماننے کی منزل تو صرف عارف ہی کے حصے میں آتی ہے:

عامی نے حجابات سے تعبیر کیا

عالم نے نشانات سے تعبیر کیا

اس ارض و سما کے ذرّے ذرّے کو مگر

عارف نے فقط ذات سے تعبیر کیا

دیکھیے یہ تدبر کا محل ہے کہ عارف کس منزل کا ہے— وہ جسے ارض و سما کے ذرّے ذرّے میں ذات کی جھلک نظر آتی ہے۔ شہود کے مقامات سے وجود کی اِس منزل تک کیا کوئی الحادی، کوئی دہریہ پہنچ سکتا ہے؟ نہیں۔ جوش کوئی صوفی نہیں تھے، ہو بھی نہیں سکتے تھے۔ 

عقل کی میزان پر زندگی اور اس کی حقیقتوں کو پرکھنا اور وجودی تجربے کی کسوٹی پر ان کا اثبات کرنا جوش کا سب سے بڑا مسئلہ تھا۔ لیکن اپنے سارے تفکرات و تعقلات اور تضادات و اضطرابات کو انھوں نے تخلیقی وجدان کی ارفع ترین ساعت میں بہرطور حل کرلیا تھا،چنانچہ اس مرحلۂ فکر پر آکر ہم یہ دیکھتے ہیں کہ خدا کے تصور اور تلاش کی جس راہ پر وہ نکلے تھے، اس میں مسافت تو بلاشبہ انھیں بہت طے کرنا پڑی لیکن یہ ضرور ہے کہ اُن کی منزل کھوٹی نہیں ہوئی۔

معزز قارئین! آپ سے کچھ کہنا ہے

ہماری بھرپور کوشش ہے کہ میگزین کا ہر صفحہ تازہ ترین موضوعات پر مبنی ہو، ساتھ اُن میں آپ کی دل چسپی کے وہ تمام موضوعات اور جو کچھ آپ پڑھنا چاہتے ہیں، شامل اشاعت ہوں، خواہ وہ عالمی منظر نامہ ہو یا سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، رپورٹ ہو یا فیچر، قرطاس ادب ہو یا ماحولیات، فن و فن کار ہو یا بچوں کا جنگ، نصف سے زیادہ ہو یا جرم و سزا۔ لیکن ان صفحات کو اپنا سمجھتے ہوئے آپ بھی کچھ لکہیں اور اپنے مشوروں سے نوازیں بھی۔ خوب سے خوب تر کی طرف ہمارا سفر جاری ہے۔

ہمیں خوشی ہے کہ آج جب پڑھنے کا رجحان کم ہوگیا ہے، آپ ہمارے صفحات پڑھتے ہیں اور وقتاً فوقتاً اپنی رائے کا اظہار بھی کرتے رہتے ہیں۔ لیکن اب ان صفحات کو مزید بہتر بنانے کے لیے اپنی رائے بھی دیں اور تجاویز بھی، تاکہ ان صفحات کو ہم آپ کی سوچ کے مطابق مرتب کرسکیں۔ ہمارے لیے آپ کی تعریف اور تنقید دونوں انعام کا درجہ رکھتے ہیں۔ تنقید کیجیے، تجاویز دیجیے۔ اور لکھیں بھی۔ نصف سے زیادہ، بچوں کا جنگ، ماحولیات وغیرہ یہ سب آپ ہی کے صفحات ہیں۔ ہم آپ کی تحریروں اور مشوروں کے منتظر رہیں گے۔ ہمارا پتا ہے:

رضیہ فرید۔ میگزین ایڈیٹر

روزنامہ جنگ، اخبار منزل، آئی آئی چندیگر روڈ، کراچی