• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امجد اسلام امجد کا مقبول عام شعر ہے ’’وہ ترے نصیب کی بارشیں کسی اور چھت پہ برس گئیں.... دل بے خبرمری بات سن اسے بھول جا اسے بھول جا‘‘۔ عربی دان ، اردوشاعر، گیت نگار اورنثر کی دنیا کے نمایاں ہی نہیں بلکہ غیرمعمولی طور پرمعروف تخلیق کار امجد اسلام امجد 4 اگست 1944 کو لاہور میں پیداہوئے اور 10 فروری 2023 کی صبح انتقال کر گئے ۔عشقِ مصطفیٰ ﷺکے ذریعے درمصطفیٰ ﷺپہنچنے ،4فروری کو خانۂ کعبہ میں عمرہ کی سعادت حاصل کی اور بارگاہ مصطفیٰ ﷺمیںوہیل چیئرپر حاضری دیتے ہوئے اپنی لکھی ہوئی نعت پیش کی اورکسی قافلے کا بچھڑا ہوامسافر، اس عارضی وفانی دنیا سے ہمیشہ کیلئے رخصت ہوکر 70مائوںسے زیادہ پیار کرنے والے رب کے حضور حاضر ہو گیا۔ پائوں گرم اوردماغ ٹھنڈارکھنے والے امجداسلام امجدنے اسلامیہ کالج لاہور سے بی اے، پنجاب یونیورسٹی سے اردو میں ایم اے کیا۔ ایم اے او کالج لاہورمیں شعبہ اردو میں پڑھاتے رہے ،1970 میں امجد اسلام امجد کی نظم ’’محبت کی ایک نظم‘‘ مقبول عام ہوئی اوران کی پہچان بنی ، اسی سے امجد اسلام امجدشان دار ،جاندار، خوشبودار،باکمال و لاجواب شاعر کے طور پر ابھر کر سامنے آئے۔ 1975ء اور 1979ء کے دوران عزت کی دولت سے مالا مال،خوش مزاج ،خوش اخلاق اورقدآورامجد اسلام امجد پاکستان ٹیلی وژن نیٹ ورک کے ڈائریکٹر رہے۔ 1989ء میں اردو سائنس بورڈ کے ڈائریکٹر بنے۔چلڈرن لائبریری میں پروجیکٹ ڈائریکٹر کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے رہے۔انہوں نے تمغہ حسن کارکردگی،ہلال امتیازاور ستارۂ امتیاز کو عزت دی،رونق محافل ،مہذب ومودب سوچ اور فکر کے علمبردار،بے شمار اداروں کے سنڈیکیٹ اور بورڈ آف گورنرز کے رکن رہے۔ان کو پاکستان ٹیلی ویژن، اکادمی ادبیات، نگار ایوارڈ، گریجویٹ ایوارڈ اور مجلس فروغ اردو کے ایوارڈ سے بھی نوازا گیاجب کہ ترکیہ کی حکومت نے 21دسمبر 2019کونصیب فضیل انٹرنیشنل کلچرل اورآرٹ ایوارڈ سے نواز ا ،تقریب میں ترک صدر طیب اردوان مہمان خصوصی کے طور پر شریک ہوئے تھے،اسی لئے سرحدپار بھی ان کی موت کا سوگ منایا جارہا ہے ۔ دھیمے اور میٹھے لہجے کے مالک ،الفاظ کو موتیوں کی صورت میں پرونے والے ،کم گو ادیب ،نیک سیرت وباکردارامجد اسلام امجد نےشروع میں کرکٹ کے میدان میں خوب محنت کی ،سلیکشن بورڈ کی ناانصافی کی بنیاد پرغصہ میں آکر بلا توڑ دیا ،بعد میں کہا کرتے تھے کہ کرکٹ میں تو ریٹائرمنٹ ہوتی ہے ادب میںریٹائرمنٹ نہیں ہوگی ۔ 1972 میںپی ٹی وی کے لئے ڈرامہ ’ـ’یا نصیب کلینک‘‘لکھا،پاکستان کی سلور جوبلی کے موقع پر ڈرامہ ’’خواب جاگتے ہیں‘‘لکھا۔ امجد اسلام امجد نےمعروف ومقبول ڈرامہ’ وارث‘ لکھا جو 13 اکتوبر 1979 کو پی ٹی وی پر نشر ہوا،وارث وہ ڈرامہ تھا جس کے ذریعے بے پہچان اداکاروں کو پہچان ملی ۔جس طرح آج ہم ارطغرل غازی ڈرامہ کو ڈب کرکے پی ٹی وی پر چلا رہے ہیں ایسےہی وارث ڈرامہ کو چین کی حکومت نے ڈب کر کے اپنے سرکاری چینل پر چلایا تھا ۔ چالیس سے زائد کتابوں کے مصنف بلکہ کتاب نما انسان امجد اسلام امجد پر دس کتابیں لکھی جاچکی ہیں، 30 مقالے لکھے گئےجن پر پاکستان، انڈیا، مصر اور ترکی کی مختلف یونیورسٹیوں نے طلبا وطالبات سے کام کرایا ہے ۔امجد اسلام امجد کی شاعری کے تراجم انگریزی، اطالوی، ترک اور عربی زبان میں پاکستان کے علاوہ ترکیہ کے شہر استنبول اورمصرکے شہر قاہرہ سےشائع ہوئے ہیں،انہوں نےفلموں کی کہانیاں اور کچھ مکالمے لکھے ان میںفلم قربانی، حق مہر، نجات، چوروں کی بارات، جو ڈر گیا وہ مر گیا، سلاخیں اور امانت شامل ہیں ۔ پہلا شعری مجموعہ ’برزخ‘ شائع ہوا جس میں غزلیں اور نظمیں بھی شامل ہیں، ان کے 30 کے قریب شعری مجموعے ساتوں در،فشار، ذرا پھر سے کہنا، اتنے خواب کہاں رکھوں گا، آنکھوں میں تیرے سپنے، سحر آثار، سپنے کیسے بات کریں، ساحلوں کی ہوا، پھر یوں ہوا، رات سمندر میں، اسباب اور دیگر شامل ہیں ۔شعری کلیات میں خزاں کے آخری دن، ہم اس کے ہیں، نزدیک، شام سرائے، باتیں کرتے دن، سپنوں سے بھری آنکھیں اور میرے بھی ہیں کچھ خواب شامل ہیں۔ان کے سفر ناموں کی بات کی جائے توشہر در شہر، ریشم ریشم، سات دن اور چلو جاپان چلتے ہیں شامل ہیں ۔کالموں کو بھی کتابی صورت میں شائع کرایا جن میںچشم تماشا، کھٹے میٹھے، دیکھتے چلے گئے، نئی آنکھیں پرانے خواب، چھاؤں، تیسرے پہر کی دھوپ، کوئی دن اور، دھند کے اس پار اور چراغ رہ کے نام سے ہیں۔ میری ان کے ساتھ سینکڑوں ملاقاتیں تو نہیں رہیں ،لیکن جتنی ملاقاتیں ہوئیں، اس کے بعد میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ ہنستے مسکراتے چہرے والے ، اپنے کلچر سے ٹوٹ کر محبت کرنے والے ،بوریت، چڑچڑے پن اور تنقید پسندی سے شدیدنفرت کرنے والے ،لفظوں کو محبت کی مالا میں پرونے والے ، خوش مزاجی کی وجہ سے معاشرے میںعزت واحترام پانے والے الامین اکیڈمی سمیت تمام دکھی دلوں کا سہارا بننے والے ویلفیئر اداروں سےپیارکرتےاورجعلی معاشرے کے حقیقی انسان تھے ۔ چاروں صوبوں کےوزرائے اعلیٰ اور وزیر اعظم سے اپیل کروں گا کہ وہ ان کے نام کا ڈاک ٹکٹ جاری کریں،یونیورسٹیوں میں امجد اسلام امجد چیئر ،امجد اسلام امجد روڈ ،کسی ادبی ہال کا نام امجد اسلام امجد پررکھا جائے ،خاص طور پر وفاقی وصوبائی وزرائے اطلاعات اور بالخصو ص وزیر اطلاعات پنجاب کو چاہئے جنہوں نے پی ٹی وی پر معیاری ڈراموں کی تخلیق کا آغاز کیا تھا ان کیلئے کچھ سوچیں۔ ہمارے دوست اور بڑے بھائی عبدالرزاق ساجد چیئرمین المصطفیٰ ویلفیئر انٹرنیشنل اس وقت ترکی میںشدید سردی میں زلزلہ متاثرین کیلئے کام کر رہے ہیں، بتارہے تھے نقصان تخمینے سے زیادہ ہے لیکن یہ سارا عمل مخیر حضرات کے تعاون کے بغیر ممکن نہیں ، اس لئے مخیر حضرات سے اپیل ہے کہ وہ المصطفیٰ ویلفیئر کا ساتھ دیں۔

تازہ ترین