• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اس وقت پاکستان کا کوئی ادارہ ایسا نہیں ، جو تنقید کی زد میں نہ ہو ۔ سیاست دانوں کو تو 1947 ء سے گندا کیا جا رہا ہے لیکن اب تو فوج اور عدلیہ کےبارے میں بھی سرعام بہت کچھ کہا جا رہا ہے اور بہت کچھ سامنے آ رہا ہے ۔ اس صورت حال میں ملک کا کیا ہو گا ، جب ہر طرح کا بحران موجود ہے ۔

کچھ مثالیت پسندوں کا یہ بیانیہ طویل عرصے تک رائج رہا کہ ملک میں ایک واحد ادارہ فوج ہے ، جس کا لوگوں میں اعتبار ہے ۔ کچھ اور لوگوں کا یہی بیانیہ عدلیہ کے بارے میں تھا ۔ سیاست دانوں خصوصاً پارلیمنٹ کے دفاع کا بیانیہ تو رائج ہی نہیں ہو سکا ۔ اب تو رائج بیانئے بھی غیر موثر ہو چکے ہیں ۔ تاریخ میں مفروضوں کے ذریعہ بھی طویل عرصے تک حالات کو جوں کا توں برقرار رکھا گیا ہے ۔ ’’ Myths ‘‘ کا ٹوٹنا یا ختم ہونا بھی بہت تشویش ناک ہوتا ہے ۔ یہ جو کچھ ہو رہا ہے ، یہ تو ہونا ہی تھا ۔ یہ سیاست اور سیاسی اداروں کو منصوبہ بندی کے تحت کمزور اور بدنام کرنے کا منطقی نتیجہ ہے ۔ یہ پارلیمنٹ کی اہمیت کم کرنے کا انجام ہے ۔ یہ اداروں کے آئینی کردار سے انحراف کی سزا ہے۔ سیاسی ، سماجی ، داخلی ، معاشی اور آئینی بحرانوں سمیت ہم اب بھی تمام بحرانوں سے نبردآزما ہو سکتے ہیں ۔ اگرچہ ادارے اپنا اعتبار کھو چکے ہیں لیکن پاکستان کا آئین تو موجود ہے ۔ واپس آئین کی طرف لوٹنا پڑے گا ۔ آئین ہی پاکستان کی بقاء کا ضامن ہے اور آئین میں ہی سارے مسائل کا حل موجودہے ۔ آئین پر عمل درآمد کرکے ہی ادارے اپنی ساکھ اور اپنا اعتبار بحال کر سکتے ہیں ۔ یعنی عمل معکوس کی طرف جانا ہو گا اور یہ کام عدلیہ کے احتساب سے ہی شروع ہو گا ۔ اگر ایسا نہ ہوا تو ہم عمل معکوس کی طرف جا ہی نہیں سکیں گے ۔

2023 پاکستان کے آئین دوستوں کی گولڈن جوبلی کا سال ہے ۔ 1973ء کے آئین کو بنے ہوئے 50سال ہو گئے ہیں ۔ بعض حلقے یہ تاثر دے رہے ہیں کہ دستور ناکام ہو گیا ہے ۔ اس لئے یہ سارے بحران پیدا ہوئے ہیں ۔ دیگر کچھ حلقے اس بات کو آگے بڑھاتے ہوئے یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ پاکستان میں ایک نئے سماجی معاہدے یا دستور کی ضرورت ہے ۔ کچھ حلقے تو ایسے بھی ہیں ، جو دستور میں عدلیہ اور فوج کے سیاسی کردار کے تعین کی بھی باتیں کر رہے ہیں ۔ وہ اس حوالے سے دنیا کے چند ممالک کی مثالیں دیتے ہیں ، جہاں فوج اور عدلیہ کو آئین کے تحت حکومتی امور میں شامل کیا جاتا ہے ۔ میں سمجھتا ہوں کہ ایسا تاثر دینے والے یا ایسی باتیں کرنے والے پاکستان کی تاریخ اور پاکستان کے معروضی حالات سے ناواقف ہیں ۔

پاکستان کا دستور ناکام نہیں ہوا ہے اور اس میں اس قدر بھی سقم نہیں ہے کہ اس کی من مانی تشریح کی جائے ۔ 1973 ء کا دستور پاکستان کے دولخت ہونے کے بعد بنا ہے ۔ اس دستورکا حقیقی منشاء باقی ماندہ پاکستان کی بقاء ہے ۔ 1970ء کی دستور ساز اسمبلی میں جو لوگ منتخب ہو کر آئے تھے ، انہیں پاکستان کی داخلی سلامتی کا گہرا ادراک تھا کیونکہ وہ بڑے تجربات سے گزرے تھے اور حقیقی قومی اور عوامی تحریکوں کا حصہ رہے تھے ۔ وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ پاکستان ایک وفاق کی حیثیت سے قائم رہ سکتا ہے ، جہاں وفاقی پارلیمانی جمہوری نظام ہو اور جہاں وفاقی اکائیاں مضبوط ہوں ۔ اگر 1973 ء کے دستورکے اس بنیادی منشاء کے خلاف کوئی دستور بنا تو یہ پاکستان کی سلامتی کیلئےبہت خطرناک ہو گا ۔ سقوط ڈھاکا کے بعد 1973ء کا آئین ہی پاکستان کی بقاء کا ضامن ہے ۔ 1973ء کا آئین ناکام نہیں ہوا بلکہ اس سے پہلے والے آئین پاکستان کے معروضی تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں تھے ، اس لئے وہ ناکام ہوئے ۔ جو لوگ نئے عمرانی معاہدے یا نئے دستور کی بات کر رہے ہیں ، وہ بنیادی طور پر پاکستان میں وفاقی پارلیمانی جمہوری نظام حکومت کا خاتمہ چاہتے ہیں اور پاکستان کو فاق کی بجائے ایک وحدت بنانا چاہتے ہیں ۔ وہ وفاقی اکائیوں کو کمزور یا تقسیم کرنا چاہتے ہیں ۔ وہ دراصل پارلیمنٹ میں عوام کے منتخب نمائندوں کی بجائے فوج اور عدلیہ کا غالب کردار چاہتے ہیں ۔ وہ چاہتے ہیں کہ جو عدلیہ اور فوج اب تک جو کچھ آئینی اختیار کے بغیر کرتی رہی ہے ، وہ اب آئینی اختیار کے تحت کریں، ان خواہشات کو پورا کرنےکیلئے 1947ء سے کوششیں ہو رہی ہیں ۔پاکستان میں ون یونٹ بھی بنایا گیا ۔ صدارتی نظام بھی نافذ کرنے کی کوشش کی گئی ۔ 1956اور 1962ء کے آئین میں بھی پارلیمنٹ اور وزیر اعظم کے اختیارات کو کم کرنے ، پارلیمنٹ کو تحلیل کرنے اور منتخب وزیر اعظم کو برطرف کرنے کیلئےکئی حربے استعمال کئے گئے ۔ مارشل لا نافذ کرکے اور آئین معطل کرکے مکمل صدارتی نظام کے تجربات کئے گئے ۔ یہ سارے تجربات ناکام ہوئے اور سقوط ڈھاکا کے سانحہ پر منتج ہوئے ۔ 1973ء کے دستور میں جب ماضی کے حربوں کو روکا گیا اور پارلیمنٹ اور منتخب جمہوری حکومتوں کو برطرف کرنے کے امکانات کو ختم کیا گیا تو 1973 ء کے دستور پر زیادہ حملے ہوئے ۔ یہ حملے دو مارشل لا حکومتوں اور آئین کی معطلی کی صورت میں ہوئے ۔ یہ حملے کٹھ پتلی سیاست دانوں کو ہیرو بنا کر پارلیمنٹ میں لانے اور آئین کا حلیہ بگاڑنے کی شکل میں ہوئے ۔ یہ حملے ’’ جوڈیشل کو ‘‘ کے ذریعہ ہوئے ۔ پھر بھی 1973 ء کے دستور میں اپنی بقاء کی صلاحیت موجود ہے ۔ 18ویں آئینی ترمیم کے ذریعہ اس نے نہ صرف اپنے آپ کو بحال کیا بلکہ غیر آئینی اقدامات کو روکنے کیلئے مزید طاقت حاصل کی ۔ اس وقت بھی ساری کوششیں یہ ہو رہی ہیں کہ پارلیمنٹ کے فیصلے عدالتوں میں ہوں اور ایسا ماحول پیدا کیا جائے کہ آئندہ پارلیمنٹ میں ان لوگوں کو لایا جائے ، جو 1973ء کے دستورکا منشاء اور روح کو مسخ کردیں ۔

بہت ہو گیا ہے ۔ اب بس ہونی چاہئے ۔ 1947 سے اب تک جو تجربات کے گئے ہیں ، وہ کافی ہیں ۔ ان سے سبق سیکھنا چاہئے ۔ لوٹ آئیں 1973ء کے آئین کی طرف ۔ اس آئین کے منشااور روح کا ادراک کیا جائے اور آئین سے انحراف پر احتساب سے عمل معکوس کا آغاز کیا جائے تاکہ اداروں کی ساکھ اور اعتبار بحال ہو اور ہر ادارہ آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے ملک کو بحرانوں سے نکالنے میں اپنا کردار ادا کر سکے ۔ سب ادارے اسی طرح تنقید کی زد میں رہے تو انجام گلستان کیا ہو گا ۔؟

تازہ ترین