• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

2000 ء کی دہائی کی ابتدا میں اس سفر کا آغاز ہوا جب اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے بینکوں کو ملک میں دستیاب دو میں سے کسی ایک اے ٹی ایم رابطے کو اپنانے کا اختیار دیا۔ ون لنک نے اہم کردار ادا کیا ، لیکن دو دہائیوں کے بعد بھی آج ملک میں اے ٹی ایم مشینوں کی تعداد 17000 ہے جن سے ماہانہ صرف دس لاکھ ٹرانزیکشنز ہوتی ہیں اور ان کا تعلق بھی بڑی حد تک نقد رقوم نکالنے سے ہے ۔ الیکٹرانک آرڈیننس کا نفاذ 2000ء میں عمل میں آیا جس نے ڈیجیٹل سگنیچر کو قانونی شناخت فراہم کرتے ہوئے بزنس میں الیکٹرانک طریقۂ کار کے استعمال سے وابستہ خطرات کم کردیے ۔ کمرشل بینکوں کو انٹر نیٹ مرچنٹ اکائونٹس کھولنے اور چلانے کی اجازت مل گئی۔ اسٹیٹ بینک نے بینکوں کیلئے SWIFT کنکشن کا حصول لازمی قرار دیا تھا، جو سرحد پار رقوم کی ترسیل کیلئے ضرورت ہے۔ اسٹیٹ بینک کی جانب سے کیے گئے دیگر اہم اقدامات میں تیس ملین ڈالر کی لاگت سے بینکاری کو مکمل طور پر کمپیوٹرائزبنانے کا اہم منصوبہ بھی شامل تھا۔ اس منصوبے کے تحت ڈیٹا ویرہائوس اور اس کے بینکوں کے ساتھ الیکٹرانک لنکس قائم کئے گئے ۔ اس دوران فنڈز کی ہول سیل ٹرانسفر کیلئےPRISM قائم کیا گیا ۔ 2002 ء تک کم و بیش چالیس فیصد بینک برانچیںخودکار نظام اپنا چکی تھیں ۔ تین برسوں میں آن لائن برانچوں کی تعداد 1356 تک پہنچ گئی، یہ اضافہ 376فیصد تھا۔

گزشتہ پانچ برسوں کے دوران ای بینکنگ میں متاثر کن پیش رفت دیکھنے میں آئی ہے۔ چھوٹی ادائیگیوں کی کل مالیت میں اس کا حصہ24سے بڑھ کر 42فیصد ہو گیا ہے۔ لیکن کاغذ پر مبنی لین دین اب بھی 190ٹریلین روپے کا حجم رکھتا ہے۔ ڈیجیٹل بینکوں کو پوری کوشش کرتے ہوئے اگلے پانچ برسوںمیں ای بینکنگ کا حصہ کم از کم 80 سے 90 فیصد تک بڑھانا ہے۔ گزشتہ دس برسوں میں زیر گردش کرنسی دگنی ہو گئی ۔ اس سے غیر رسمی معیشت فروغ پا رہی ہے۔ انٹرنیٹ بینکنگ کے صارفین کی تعداد 8ملین اور موبائل بینکنگ کے صارفین کی تعداد 12 ملین ہے۔ یہاں تک کہ اگر ہم ان کو شامل کریں تو بھی یہ تعداد موبائل فون مالکان کا 20فیصد ہے۔ اس طرح ڈیجیٹل بینکوں کی مارکیٹ کا آغاز تو بہتر ہے بشرطیکہ انکے پاس اسے برقرار رکھنے کیلئے صحیح حکمت عملی، مصنوعات اور خدمات ہوں۔ڈیجیٹل بینکاری کیلئے ضروری ہے کہ مالی شمولیت کے اس مقصد کو آگے بڑھانے کیلئے ان پالیسیوں کا خاکہ پیش کیا جائے۔ سب سے پہلے اُنھیں دکھانا ہوگا کہ ان کے لین دین کی لاگت موجودہ روایتی بینکاری سے کم ہے۔ ان کے صارفین بہت زیادہ سہولت سے لطف اندوز ہوتے ہیں ۔ اس میں وقت اور جسمانی حرکات کی بچت ہوتی ہے، فیس اور سروس چارجز کم ہیں جب کہ لین دین کی رفتار تیزاور درست اور ادائیگیاں محفوظ ہیں۔ نیزسائبرسیکورٹی کو یقینی بنایا گیا ہے۔ دوسرے لفظوں میں، اب بینکوں کو کم قیمت پر اعلیٰ کارکردگی دکھانی چاہئے۔

ڈیجیٹل بینکوں کو ان دونوں شعبوں میں سرمایہ کاری کیلئے ایک پورٹ فولیو تیار کرنا ہوتا ہے جیسے کہ ایس ایم ای ، چھوٹے اور درمیانے درجے کی کاشت کاری، کم لاگت کے مکانات بلکہ غیر روایتی معاشی اور سماجی سرگرمیوں جیسے کہ انسانی ترقی یا طلباکو قرضے یا قرض حسنہ فراہم کر نا۔ غریب خاندانوں کی معاونت کرنا جو باصلاحیت ہیں لیکن تعلیم حاصل کرنےکیلئے مالی وسائل نہیں رکھتے۔ تجارتی بینکوں کوڈیجیٹل بینکوںکے پروگرام کے قرضے اور ایس ایم ای اور زرعی کاروبار کیلئے رقم کی فراہمی آسان ہو جائے گی۔ ڈیجیٹل بینکوںکو بڑے شہروں سے باہر کے علاقوں میں تعلیم، صحت کی سہولتیںاور زرعی سرگرمیوں اور کاروبارکیلئے مالی اعانت فراہم کرنی چاہئے جہاں بڑھتے ہوئے متوسط طبقے کو معیاری خدمات کی ضرورت ہے۔ چین کی صنعتی کامیابی ٹاؤن اور ولیج انٹرپرائزز کی زیادہ مرہون منت ہے۔

Fintechs کے ساتھ تعاون کو ایپلیکیشن پروگرامنگ انٹرفیس کے ساتھ ملا کر استعمال میں مدد کیلئے ترغیب دی جانی چاہئے تاکہ ڈیجیٹل بینک کاروباری صلاحیتوں کو بڑھا سکیں، اختراع کو تیز کر سکیں، تخصیص کے بغیر مختلف نظاموں کو مربوط کر سکیں اور کسٹمر کے تجربے کو بہتر بنا سکیں۔ وہ وقت اور پیسے کی بچت کرتے ہوئے اپنی مصنوعات کی فعالیت کو بڑھا سکتے ہیں ۔اس طرح وہ مارکیٹ میں بہتر پیشرفت کرتے دکھائی دیںگے۔ Fintechs سپلائی چین، انوائس پر مبنی ادائیگیوں، موقع پر ادائیگیوں کی ڈیجیٹلائزیشن میں مدد کر سکتے ہیں۔ اس سے ڈیجیٹل بینک کے پاس اپنے صارفین کے مالیاتی امورکا حتمی حل موجود ہوگا۔

ڈیجیٹل بینکوںکو مالی سکت اور غیر متوقع نقصانات اور تناؤ کو برداشت کرنے کی صلاحیت کو برقرار رکھنا ہوگا۔ تجارتی بینکوں کی طرح کاغذی کارروائی کی بجائے صارفین کے مسائل حل کرنےکیلئے انسانی وسائل کی شمولیت اور ان کی تربیت ضروری ہے۔ ٹیکنالوجی اور بزنس کا رجحان رکھنے والے پیشہ ور افراد کے درمیان توازن برقرار رکھنا ہو گا کیونکہ کسی بھی انتہا کی طرف جھکاؤ بینک کیلئے نقصان دہ ہو سکتا ہے۔ ڈیجیٹل بینکوں کے ذریعے ایک نئی ثقافت کو پروان چڑھانا ہے جو واضح طور پر مختلف ہے اور بینکاری کے تجربے کو خوشگوار بناتی ہے۔ٹیکنالوجی کے میدان میں تیز پیش رفت کے ساتھ بینکوں کو نئی اختراعات اور طریقوں کو حاصل کرنے کی مسلسل کوشش کرنا ہوگی۔ غیر ملکی ٹیکنالوجی سروس فراہم کنندگان کے ساتھ شراکت داری مسلسل اپ گریڈیشن، اضافہ، سسٹمز اور سافٹ ویئر ایپلی کیشنز کو بہتر بنانے کے قابل بنائے گی تاکہ وہ مسابقتی برتری اور صارفین کے اطمینان کو برقرار رکھ سکیں۔موضوع تمام کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ احتیاط کا دامن تھامنے کی بات بھی کرتا چلوں۔ ٹیکنالوجی کو کاروباری سرگرمیوں میں اپنانے سے پیدا ہونے والے خطرات، جیسا کہ کریڈٹ رسک، مارکیٹ رسک اور مالیاتی ثالثی سے وابستہ خطرات ہیں۔ سائبر سیکورٹی کو یقینی بنانا، دھوکہ دہی کو روکنا، شناخت کی چوری سے بچنا، ڈیٹا بیس کی ہیکنگ، ناقص کسٹمر انٹرفیس یا بیک آفس سسٹم کا بار بار ٹوٹ جانا گاہک کو طویل عرصے تک انتظار کراتا ہے، اس کے تدارک کیلئے چوکسی اور مہارت کی ضرورت ہے۔ڈیٹا کنٹرول ، اے پی آئی پروٹیکشن، محفوظ رابطہ اور مکمل لائف سائیکل مینجمنٹ ان خطرات سے نمٹنے میں مدد کرے گی۔ ان کاموں کو معمول کے مطابق ماتحتوں پر نہیں چھوڑا جا سکتا کیونکہ تمام ڈیجٹیل بینکوں کے شعبے کی ساکھ متاثر ہوسکتی ہے۔ اب جبکہ ڈیجیٹل بینکنگ کیلئے لائسنس مل چکے ہیں، 2002 میں دیا گیا پیغام 22 سال بعد دہرانا ہوگا۔ اس کی کوئی وجہ نہیں ہے کہ موجودہ کمرشل بینک جنہیں ان کے موجودہ لائسنسوں کے تحت اجاز ت دی گئی ہے وہ اس لائن آف بزنس کو شروع نہیں کر سکتے بلکہ وہ ڈیجٹیل بینکوں کے سخت حریف ثابت ہوسکتے ہیں۔

تازہ ترین