اسپتال میں داخل ہونا کوئی اچھا امر نہیں ہے۔ جب سینہ اتنا جکڑا ہوا ہوکہ سانس بھی نہ آئے تو اسپتال ڈرپس، انجکشن، بھاپ، طرح طرح کے سیرپ اور پھر صرف اور صرف سوپ یا پھر یخنی، یہ سائیکل ایک ہفتے تک چلا مگر اس دوران جس چیز کی خوشی ملی وہ یہ کہ ہر وارڈ اور ہر سیکشن میں نوجوان مرد اور خواتین ڈاکٹر جو گلگت سے لے کر ملک کے تمام دور دراز علاقوں سے آئے تھے۔ ان سب کی یہاں تک پہنچنے اور تعلیم حاصل کرنے کی وہی کہانی تھی جو آج سے60برس پہلے میری عمر کے لوگوں کی کہانی تھی۔ کسی کے باپ یا کسی کی ماں نے فیصلہ کیا کہ ہر قیمت اور ہر مخالفت کے باوجود بچوں کو پڑھائیں گے۔ غربت، سڑکوں کا نہ ہونا، اسکول، کالج کا بہت دور ہونا، رشتہ داروں کا منہ موڑ لینا، طعنہ زنی کرنا، بدنام کرنے کی کوشش کے باوجود یوسف زئی قبیلے کی سارا کے والد اس کے ساتھ رہے، اس طرح توصیف نے گلگت سے ڈاکٹری پاس کرنے کے لئے ہر طرح کے پاپڑ بیلے، آخر کو سی ڈی اے اسپتال میں اس لئے چار سال کی تربیت کے لئے بطور ڈاکٹر قبول کئے گئے کہ اس ادارے کا سربراہ ڈاکٹر فضل مولا خود بھی چارسدہ کا رہنے والا تھا۔ اس نے اپنے علاقے کے علاوہ دنیا بھر کی ڈگریاں لے کر عزم کیا کہ غریب لوگوں کو مفت علاج مہیا کرنے کا بندوبست کروں گا اور غریب ترین علاقوں کے بچوں کو اسپتال میں لائوں گا۔
ڈاکٹروں کا رتبہ تو بہت اونچا ہے۔ میں نے آیائوں کے لباس میں بے شمار خواتین کام کرتی دیکھیں، کسی کے شوہر کی تنخواہ کم تھی۔ وہ ہاتھ بٹانے کو آگے بڑھی۔ کسی کی بہنوں کی غربت کے باعث شادی نہیں ہورہی تھی۔ اس لئے نرسنگ کا چار سالہ تربیتی کورس کرنے کا فیصلہ کیا۔ بظاہر تھوڑا سا وظیفہ مل رہا تھا۔ بہت سوں کیلئےرات کی ڈیوٹی بھی کرنی لازمی تھی مگر کسی کے منہ پر شکوہ نہیں تھا۔ ایک طرف صبح نرس مجھے انجکشن لگانے آئی۔ میں نے آہستہ سے پوچھا ’’رات کیسی گزری۔‘‘ وہ انجکشن لگاتے ہوئے آہستہ سے بولی، رات دو ایکسپائر ہوئے۔ میرے منہ سے آہ نکلی، پھر پوچھا، کسی کے رونے کی آواز تو سنائی نہیں دی۔ بولی، وہ لوگ دو روز سے اس انجام کے منتظر تھے۔ پلٹ کر دوائیوں کے ڈبوں کو دیکھا اور پڑھا کہ کہیں یہ بھی تو ایکسپائرڈ نہیں۔ خیر سے دوائیں تو ٹھیک تھیں مگر میرے سرہانے رکھی ہوئی ساری کتابیں، فرسودہ مضامین کی حامل تھیں۔ وہی عشق و سرمستی جو وجود اور معاشرے میں نہیں، بس الفاظ کو اکٹھا کرکے کسی پر نام غزل کا تو پھر کسی کو نظم، افسانہ یا انشائیہ کہہ دیا گیا۔ اصل میں ہم لوگوں کو تو اپنے زمانے میں اچھے استاد ملے تھے۔ وہ ہمیں نئی سے نئی کتابیں پڑھنےپر اکساتے اور پھر سب کے درمیان بیٹھ کر ان پر تبصرہ سنتے تھے۔ آج کے استاد، کتاب کا خلاصہ بتاکر فارغ، شام کو بھی تو کسی کالج میں پڑھانا ہوتا ہے۔ بہت ہوا تو جو خلاصے اردو بازار میں ملتے ہیں، وہ رہنمائی کیلئے دے دیے جاتے ہیں۔ صرف اردو یا انگریزی ہی میں نہیں، ہر سائنسی مضمون میں بھی یہی خلاصے کام آرہے ہیں۔اسپتال سے نکل کر ڈاکٹروں نے روزانہ دو انجکشن دس دن تک لگوانے کا حکم دیا تو کیمسٹ کی دکان پر جاکر منہ پھٹا کا پھٹا رہ گیا۔ ہر انجکشن پانچ ہزار روپے کا تھا۔ اب ہم ریٹائرڈ لوگ، نہ ہمارے پاس صحت کارڈ، نہ سرمایہ، نہ تہمینہ درانی سے دوستی، صبر کرکے ڈاکٹر کے حکم کے مطابق کام شروع کردیا، ابھی آواز واپس نہیں آئی مگر قلم تو آواز سے زیادہ طاقتور ہوتا ہے۔ اس کا ہاتھ پکڑا۔ اصغر ندیم سید اور رضی احمد نے یاد دلایا۔ ’’آپ کی بیماری دو اہم کانفرنسوں کو کھا گئی۔ میں نے ان کو تسلی دیتے ہوئے کہا۔ جاوید اختر نے ہم جیسوں کی غیر موجودگی کا فائدہ اٹھایا اور پاکستان پہ طعن کی۔ میں نے جب ان سے پوچھا کہ مذہبی جنونیت کے خلاف نظمیں سنائو تو وہ ٹال گئے۔ انہیں تو بات بے بات معصوم نوجوان تالی بجاتے اچھے لگ رہے تھے۔ خیر جو کہا، اس کا جواب بھی انہیں مل گیا۔ انہیں کم از کم فیض کے لہجے کی عزت تو رکھنی چاہئے تھی۔ اردو کا اکیلا نام لیوا خود کو بہت کچھ سمجھنے لگا تھا۔ پاکستانیوں نے بھی ادھار نہیں رکھا۔
آج کل بڑے غضب کی کتابیں سامنے آرہی ہیں۔ سب سے اہم تو الطاف حسن قریشی کے کالم اور مضامین جو بنگلہ دیش کے قیام سے پہلے لکھے گئے تھے۔ ان سب کو ان کے پوتے نے یکجا ایسے کیا ہے کہ اول تو کتاب اتنی ضخیم ہے کہ دونوں ہاتھوں سے بھی اٹھائی نہیں جاسکتی ہے۔ البتہ اس کو پڑھ کر بھی ہماری فوج یہ کہنے پر مصر ہے کہ غلطی فوج کی نہیں تھی اور آج کے حالات کو دیکھنے کے باوجود، یہ اعلان کرے کہ ہم نے دہشت گردی پر قابو پالیا ہے۔ اس وقت ملک بھر میں عدالت، سیاست، معاشرت اور معیشت سب ہاون دستے میں پڑے ہیں۔ کچلنے والے کچلے جارہے ہیں۔ نصاب کی طرف اور اسکولوں کی عمارتوں کی طرف کسی کی توجہ نہیں۔ یہ وقت کہ جب افراد شماری ہورہی ہے۔ خواتین کے نام واضح طور پر لکھے جائیں، بنیادی انتخابات میں مساوی سطح پر سیٹیںدی جائیںاوروراثت کےمساوی حقوق کولازمی بنایاجائے۔یہ موضوع 75برس سے زیر بحث ہے۔ ہمارےہاں ایک اور ذہنی پراگندگی جاری ہے۔ وہ ٹرانس جینڈر اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں کا ٹی وی اور جلسوں میں آکر بات کرنا، ہو کیا رہا ہے کہ ان لوگوں کو چن چن کر نشانہ بناکر مار ڈالا جارہا ہے۔ کتنی محنت اور اذیت سے نکل کر وہ آگے آتے ہیں یہی حال طوائفوں کے اڈوں سے بھاگ جانے والی اور خود کو بطور فرد، قدم بڑھانے والی بچیوںکا ہے کہ اول توانہیں دوبارہ گرفتار کیا جاتا ہے، پھر ان کو فروخت کیا جاتا ہے۔ بیرون ملک روانہ کرنے میں بچے بھی شامل ہیں۔ کہنے کو شرفا، یہ سب کرتے ہیں مگر کوئی نام نہیں لیتا۔ یہی تو ہمارے نمائندے بنتے اور اسمبلی میں آتے ہیں۔